(پہلی قسط)
یہ خیال مہمل ہے کہ
(الف) اردو میں بچوں کا ادب کم لکھا گیا ہے۔
(ب)ادب اطفال کو تحقیق و تنقید کا موضوع کم بنایا گیا ہے۔
(ت) اردو میں بچوں کے کم رسائل شائع ہوئے ہیں۔
(الف)
مقدار کے لحاظ سے دیکھا جائے تو اردو میں بچوں کے ادب کا وافر ذخیرہ موجود ہے بلکہ بچوں کی ضرورت سے کہیں زیادہ ہے۔ جیسا کہ مناظر عاشق ہرگانوی کی کتاب ’’بچوں کا ادب کی اینتھالوجی‘‘ 22 جلدوں پر مشتمل گوپی چند نارنگ اور مظفر حنفی کی مرتب کردہ ’’وضاحتی کتابیات‘‘ اور اردو کے اہم اشاعتی اداروں(مکتبہ پیام تعلیم، مکتبہ کھلونا، نیشنل بک ٹرسٹ، نئی دہلی، قومی اردو کونسل، نئی دہلی،رحمانی پبلی کیشن، مالیگاؤں، ادارہ الحسنات رام پور، نسیم بک ڈپو، لکھنؤ)کی فہرست کتب سے اندازہ ہوتا ہے۔ ویسے بھی بچوں کے ادب کی تاریخ پر نگاہ ڈالی جائے تو اردو ادب کے بہت سارے اہم نام ادبِ اطفال کے ضمن میں سامنے آتے ہیں۔ امیر خسرو، نظیر اکبر آبادی، مرزا غالب، ڈپٹی نذیر احمد، محمد حسین آزاد،انشاء اللہ خاں انشائ، الطاف حسین حالی، پریم چند، اقبال، اسماعیل میرٹھی، برج نارائن چکبست، تلوک چند محروم، نظم طبا طبائی، سرور جہاں آبادی، حفیظ جالندھری، صوفی غلام مصطفیٰ تبسم، رضیہ سجاد ظہیر، کرشن چندر، قرۃ العین حیدر، عصمت چغتائی، فیض احمد فیض، عظیم بیگ چغتائی، امتیاز علی تاج یہ وہ نام ہیں جنہوں نے بچوں کے ادب میں گراں قدر اضافے کئے ہیں۔
کمیت کے اعتبار سے ادب اطفال کی کمی نہیں ہے۔ کیفیت کے لحاظ سے یقینا کم ہے اسی لئے ادب اطفال کے معیار پر سوالات اٹھتے رہے ہیں۔ پروفسیر مظفر حنفی نے ادب اطفال کے نثری حصہ کو کسی حد تک ادبیت کا حامل قرار دیا ہے مگر شاعری کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ:
’’شاعری کی حالت خستہ ہے۔ 95فیصد لکھنے والے اسکولوں کے اساتذہ ہیں جو پند و موعظت سے مملو ایسی سپاٹ قسم کی تک بندیاں پیش کرتے ہیں جنہیں پڑھ کر ابکائی آتی ہے۔‘‘
کچھ ایسی ہی رائے اسد اریب کی بھی ہے:
’’جو شاعری بچوں کے لئے اس وقت تخلیق کی جار ہی ہے وہ اخلاقی، مذہبی اور ملی پروپیگنڈے کی شاعری ہے۔ اس میں بچوں کی بھولی بھالی معصوم فطرت کی خواہشوں کی کوئی لہر وہر نہیں ملتی۔ نہ پرندے ہیں نہ طوطے ، کوے، بلبلیں نہ چوہے ، بلیاں، چوزے اور بطخیں، نہ شرارتیں، شوخیاں اور تحیر ہے، نہ چہلیں۔‘‘
معیار کے اعتبار سے بچوں کے ادب کی اب بھی ضرورت ہے۔ خاص طور پر سائنس ، ٹیکنالوجی اور ماحولیات کے حوالے سے کہ اس ضمن میں بچوں کا ادب کم تخلیق کیا گیا ہے جب کہ انسانیت کا مستقبل سائنس سے وابستہ ہے اور اس پہلو پر بچوں کے ادیبوں کو زیادہ سے زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
(ب)
اردو میں ادب اطفال کے حوالے سے بہت سے تحقیقی و تنقیدی مطالعات بھی سامنے آئے ہیں۔ جن میں خوشحال زیدی کی ’’اردو میں بچوں کاادب‘‘(ادارہ بزم خضر راہ کانپور، 1989) ، ’’اردو ادب اطفال میں خواتین کا حصہ‘‘(بزم خضر راہ نئی دہلی، 2009) ’’اردو ادب اطفال کے معمار‘‘(نہرو چلڈرن اکیڈمی، نئی دہلی،1993)بچوں کا ادب اکیسویں صدی کی دہلیز پر (ادارہ بزم خضر راہ، نئی دہلی،2007)
سیدہ مشہدی کی ’’اردو میں بچوں کا ادب‘‘، (ایمن پبلی کیشنز ،رانچی، 1996) مشیر فاطمہ کی ’’بچوں کے ادب کی خصوصیات‘‘ ۔ (انجمن ترقی اردو، علی گڑھ، 1962) ڈاکٹر اسد اریب کی ’’اردو میں بچوں کا ادب نئے رجحانات‘‘( کاروان ادب ملتان،1983) مرزا ادیب کی ’’اردو میں بچوں کا ادب‘‘ پروفیسر اکبر رحمانی کی ’’اردو میں ادب اطفال ایک جائزہ‘‘ (ایجوکیشنل اکادمی اسلام پورہ، جلگاؤں، 1991) ضیاء الرحمن غوثی کی ’’بہار میں بچوں کا ادب‘‘(نئی دہلی، 2005) بانو سرتاج کی ’’ادب اطفال ایک مطالعہ‘‘، حافظ کرناٹکی کی ’’بچوں کا ادب اور ہماری ذمہ داریاں‘‘(ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی، 2015) سیداسرارالحق سبیلی کی ’’بچوں کے ادب کی تاریخ‘‘ (ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی، 2016) زیب النساء بیگم کی ’’اقبال اور بچوں کا ادب‘‘ امیر حمزہ کی مرتب کردہ ادب اطفال (عذرا بک ٹریڈرس، دہلی۔2018)نہایت اہم ہیں۔
ان کے علاوہ مختلف عصری جامعات میں ادب اطفال کے حوالے سے تحقیقی مقالے لکھے گئے ہیں۔ جن میں فوزیہ چودھری کا تحقیقی مقالہ، اردو میں بچوں کا ادب، شیخ محمد صابر محمد محمود کا پی ایچ ڈی مقالہ، مہاراشٹر میں اردوادب اطفال کا تنقیدی مطالعہ(شعبۂ اردو مہاراشٹر ادے گیر کالج، اود گیر، ضلع لاتور، مہاراشٹر)آفاق عالم کا تحقیقی مطالعہ، کرناٹک میں اردو ادب اطفال، (کوئمپو یونیورسٹی، شیموگا، کرناٹک)، مسز عابدہ خانم سونور کا تحقیقی مقالہ: بیسویں صدی میں بچوں کا اردو ادب(دھارواڑ یونیورسٹی، کرناٹک) ، مہہ جبیں بانو کا آزادی کے بعد ہندوستان میں بچوں کے ادب کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ (شعبۂ اردو مسلم یونیورسٹی علی گڑھ) قابل ذکر ہیں۔
بہت سے رسائل نے بھی ادب اطفال پر خصوصی شمارے شائع کئے جن میں نیا دور (لکھنؤ) کا اطفال نمبر(نومبر، دسمبر1979) ، آجکل نئی دہلی کا ادب بچوں کا نمبر(جنوری1979ئ) شاعر ممبئی کا بچوں کا ادب نمبر (جون 2013)مژگاںکولکاتہ کا ادب اطفال نمبر اہم ہیں۔ ان کے علاوہ ادب اطفال کے حوالے سے مقالات اور مضامین کی اشاعت رسائل میں ہوتی رہی ہے۔ جن میں مظفر حنفی کا مضمون ’’اردو میں ادب اطفال‘‘ نہایت وقیع ہے جو ان کی کتاب ’جہات و جستجو‘ (1982)میں بھی شامل ہے۔ نیرنگ خیال میں شائع کسری مہناس کا مضمون ’’بچوں کا ادب اور اسماعیل میرٹھی‘‘ بھی اس ضمن میں قابل ذکر ہیں۔
(ت)
یہ کہنا بھی بے معنی ہے کہ اردو میں بچوں کے رسالے کم شائع ہوئے ہیں۔ ضیاء اللہ کھوکھر کی کتاب ’’بچوں کی صحافت کے سوسال‘‘ (عبدالمجید کھوکھر یادگار لائبریری گوجرانوالہ) سے یہ اندازہ لگانا دشوار نہیں ہے کہ تقریباً دو سو سے زائد بچوں کے رسالے ماضی تا حال شائع ہوتے رہے ہیں۔ ہاں یہ بات صحیح ہے کہ بچوں کے رسائل کے مدیروں سے ہماری واقفیت بہت کم ہے جب کہ بڑوں کے رسائل کے بیشتر مدیران سے ایک بڑا طبقہ واقفیت رکھتا ہے ۔بچوں کے بہت سے رسائل کے نام ہمارے ذہنوں پر نقش نہیں ہیں۔صرف چند ہی نام ہیں جو ہمارے ذہن میں آتے ہیں ان میں ماہنامہ ’پھول‘ ’نونہال‘ ’کھلونا‘ ’غنچہ‘ ’پیام تعلیم‘ ’امنگ‘ ’ٹافی‘ ’کلیاں‘ قابل ذکر ہیںمگر ان رسالوں کے مدیران سے بھی ایک بڑا طبقہ ناآشنا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بچوں کے رسائل کے مدیران کا نہ تو مکمل سوانحی خاکہ ملتا ہے او رنہ ہی ان کے کارناموں کی تفصیلات ۔ بچوں کے رسائل بھی ان مدیران کا تعارف نہیں کراتے جس کی وجہ سے مستقبل کے یہ معمار دشت گمنامی میں کھو جاتے ہیں۔ اس لئے ضرورت ہے کہ بچوں کے مدیران پر سیمیناروں کا انعقاد کیا جائے اور ان کی خدمات پر مشتمل دستاویز مرتب کی جائے کیوں کہ بچوں کے رسائل کے یہی مدیران ہیں جنہوں نے بڑے بڑے قلم کاروں کو جنم دیا ہے۔ آج کے بہت سے مشہور ادباء و شعراء انہیں بچوں کے رسائل کی دین ہیں ۔ ماضی میں ماہنامہ ’پھول‘ (لاہور ) نے بہت سے تخلیقی اور ادبی ذہنوں کی تربیت کی اور آج ان کے نام ادبی منظرنامہ پر روشن ہیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان لوگوں کا بنیادی ارتکاز بچوں میں مضمون نگاری کا ذوق پیدا کرنا اور صحیح انداز میں ان کی تعلیم و تربیت کرنا تھا۔ ان کے سامنے ایک مشن اور مقصد تھا اسی لئے وہ اپنے مقصد میں کامیاب رہے۔
دراصل رسائل سے ہی بچوں کی تحریری اور ذہنی تربیت ہوتی ہے اور یہی رسائل ہوتے ہیں جو بچوں کے ذہن اور ذوق کو جلا بخشتے ہیں۔ ان رسالوں میں بچوں کے لئے بہت ہی دلچسپ اور معلوماتی مواد ہوتا تھا۔ معروف ادیبوں کی دلچسپ کہانیو ںاور نظموں کے علاوہ ایسے کالم ہوتے تھے جو بچوں کو مہمیز کرتے تھے۔ دراصل ایک رسالہ کا مقصد بچوں کو Curious, Creative, Caring اور confident بنانا ہوتا ہے۔ اور ماضی میں زیادہ تر رسالوں نے یہ کام بخوبی انجام دیا۔ صحیح خطوط پر بچوں کی تعلیم و تربیت کا انتظام کیا۔ خاص طور پر بچوں کے رسائل کی ضرورت کا احساس ان افراد کو زیادہ تھا جو قومی عروج کی جڑ بچوں کی تعلیم کو سمجھتے تھے۔ اسی لئے ان لوگوں نے بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئے رسائل شائع کئے۔ تفریح کے ساتھ تعلیم و تربیت بھی ان کا مقصد تھا۔
صحافتی تاریخ کے مطابق بچوں کا اولین ماہانہ رسالہ پیسہ اخبار کے مدیر مولوی محبوب عالم نے مئی 1902ء میں شائع کیا تھا ۔جس کا نام تھا ’’بچوں کا اخبار‘‘یہ کثیر الاشاعت ماہنامہ تھا۔ اس میں ترغیب و تشویق کے لئے بچوں کی غیر معیاری تحریریں بھی شائع کی جاتی تھیں۔ دس سال کی مدت اشاعت پوری کرنے کے بعد یہ رسالہ بند ہوگیا۔ اس رسالے کی قیمت اس وقت سالانہ معہ محصول ڈاک دو روپے چھ آنے تھی ۔اس کے بعد جو رسالے نکلے ان میں تہذیب نسواں کے ایڈیٹر مولوی ممتاز علی (فاضل دیوبند) کا ’’پھول‘‘ بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اس کی اشاعت کا آغاز اکتوبر؍1909ء میں لاہور سے ہوا۔ یہ بچوں کا پہلا ہفت روزہ رسالہ تھا۔ جس کا بچوں کو بہت ہی شدت سے انتظار رہتا تھا۔ اس میں بچوں کی نگارشات ترجیحی طور پر شائع کی جاتی تھیں۔ مولوی ممتاز علی نے اس رسالہ میں آسان اور سلیس زبان کا التزام رکھا تھا۔ اس بابت انہوں نے ایک جگہ یہ لکھا ہے کہ :
’’پھول میں وہ مضامین نہیں چھاپے جاتے جن میں مشکل الفاظ یا مشکل خیالات ہوں یا بے جا مبالغہ ہو۔‘‘
اس رسالے کو معروف ادیبوں کا تعاون حاصل تھا۔ ایک خوبصورت دیدہ زیب رسالہ جس سے حفیظ جالندھری، عبدالمجید سالک، امتیاز علی تاج، احمد ندیم قاسمی وغیرہ کی وابستگی تھی۔ محترمہ بنت نذرالباقر، محمدی بیگم اور حجاب امتیاز علی بھی اس کی ادارت سے وابستہ رہی ہیں۔ اس رسالہ کے قلم کاروں میں پطرس بخاری، محمد دین تاثیر، شوکت تھانوی اور اختر شیرانی جیسی قدآور شخصیتیں تھیں۔تقریباً 48 سال تک بچوں کے لئے دلچسپ اور خوشنما یہ رسالہ شائع ہوتا رہا اور 1958ء میں یہ رسالہ بھی بند ہوگیا۔ اس کے بعد بہت سے رسالے شائع ہوئے جن میں سعید لخت کا تعلیم و تربیت(لاہور) کلیم چغتائی کا ساتھی (کراچی)مقبول احمد کا بچوں کاباغ (لاہور) علامہ تاجور نجیب آبادی کا ’’پریم‘‘ (لاہور) نونہال(کراچی) انوکھی کہانیاں (کراچی) جنگل منگل(کراچی) وغیرہ اہم ہیں۔ ان میں ’’ہمدرد نونہال‘‘ کو بے پناہ شہرت و مقبولیت ملی اور یہ شاید واحد ایسا رسالہ تھا جو مواد اور موضوعاتی تنوع کے اعتبار سے بچوں کے ذہنی تقاضوں کی تکمیل کرتا تھا۔ یہ ایسا رسالہ تھا جس کے بارے میں کہا جا سکتا تھا کہ بچوں کے لئے اس میں کمپلیٹ پیکج ہے۔ حکیم محمد سعید نے جس مقصد اور مشن کے تحت اس رسالہ کا اجراء کیا تھا اسے مسعود احمد برکاتی اور سعدیہ راشد نے پایۂ تکمیل تک پہنچانے کی کوشش کی۔ یہ بے نظیر مجلہ ہے جس کی تقلید کی جاتی تو شاید ہندوستان سے شائع ہونے والے بچوں کے رسالوں کو بھی اتنی ہی شہرت اور مقبولیت ملتی۔ مگر ہندوستان میں چند رسالوں کوچھوڑ کر بیشتر رسالے بچوں کا رابطہ رسائل سے جوڑنے میں ناکام رہے۔ اس لئے بچوں نے اسکرین سے اپنا رشتہ جوڑ لیا۔ جس کی وجہ سے اب بچوں کے تجسس اور تخیل کی قوت بھی ختم ہو جارہی ہے۔ اب یہ شکوہ عام ہے کہ اردو میں بچوں کے رسائل کم شائع ہوتے ہیں اور یہ حقیقت ہے کہ بچوں کے کچھ رسائل بازار میں تو ضرور ہیں مگر ان کے خریدار نہیں ہیں اور یہ بھی المیہ ہے کہ یہ رسائل قاری تو پیدا کر رہے ہیں مگر قلم کار نہیں۔ جب کہ ماضی میں بچوں کے رسائل نے قاری کے ساتھ ساتھ قلم کار بھی پیدا کئے ہیں۔
اردو میں بچوں کے رسائل کے ساتھ بڑے مسائل ہیں۔ ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ بچوں کے معتبر اور مستند ادباء بچوں کے لئے لکھنا کسر شان یا کارزیاں سمجھتے ہیں اور بقول شعیب مرزا ’’بچوں کے لئے معیاری ادب تخلیق کرنے کے بجائے بڑوں کے لئے بچکانہ ادب لکھنے میں مصروف رہتے ہیں۔‘‘ اور یہ بھی ٹریجڈی ہے کہ جن کے پاس وسائل ہیں وژن نہیں ہے اور جن کے پاس وژن ہے وہ وسائل سے محروم ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ اپنے رسالوں کو خوب سے خوب تر بنانے کی کوشش نہیں کر پاتے۔ اور ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اردو کے زیادہ تر مدیران انگریزی یا دیگر ہم رشتہ زبانوں میں نکلنے والے بچوں کے رسائل پر نگاہ بھی نہیں رکھتے اس لئے عالمی منظرنامہ سے ان رسائل کی مطابقت نہیں ہوپاتی اور وہ اپنے رسائل میں وہ مواد فراہم نہیں کرپاتے جن کی ضرورت بچوں کو ہے۔ ان رسائل میں سائنسی اور تکنیکی ایجادات پر مضامین کم ہوتے ہیں اور ان رسائل کا دائرۂ موضوعات بھی بہت محدود ہوتا ہے۔ بچوں کی ذہنی عمر کا بھی خیال کم رکھا جاتا ہے۔ جب کہ انگریزی اور دیگر رسائل میں تعلیم اور نفسیات کے ماہرین کی ایک ٹیم بچوں کے لئے مواد کا انتخاب کرتی ہے اور ان کے ذوق و ذہن کے مطابق انہیں رسالے میں شائع کیا جاتا ہے۔ اور اس میں خاص طور پر ایسے موضوعات کو شامل کیا جاتا ہے جو بچوں کے شعور و ادراک اور ایموشنل انٹلی جینس کو ترقی دے سکے۔ ان کے بیشتر موضوعات بچوں کے ذہنی ارتقاء پر مرکوز ہوتے ہیں اور یہ بچے کی تخلیقی اور ادراکی صلاحیتوں کو نکھارنے میں معاون ہوتے ہیں۔ان لوگوں کی میگزین کا کینوس بھی وسیع ہوتا ہے اور وہ ایسے مواد بچوں کو فراہم کرتے ہیں جس سے بچے اپنی زبان، تاریخ، جغرافیہ، ریاضی اور دیگر معلومات عامہ سے واقف ہو سکیں۔ اس کے علاوہ بچوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو ابھارنے کے لئے بچوں کی نگارشات بھی شائع کرتے ہیں۔’بنک روم‘ ایسا ہی ایک رسالہ ہے جس میں آٹھ سے اٹھارہ سال کے بچوں کی تحریریں شائع ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ مشہور کارٹونسٹ کے شنکر پلائی کی میگزین ’’چلڈرینس ورلڈ‘‘ میں نہ صرف بچوں کی تخلیقی صلاحیتوں کی حوصلہ افزائی کے لئے ان کی تحریریں شامل کی جاتی ہیں بلکہ یوم اطفال کے موقع پر پورا شمارہ ہی بچوں کی نگارشات سے مزین ہوتا ہے۔ ان رسالوں میں بچوں کے بنیادی حقوق کے تعلق سے بھی گفتگو ہوتی ہے۔ جب کہ ہمارے یہاںاردو میں بچوں کے ایسے رسالوں کی کمی ہے جو بچوں کو ماحولیات، منشیات، ان کے حقوق ، ذمہ داریوں اور مسائل سے آگاہ کر سکیں۔ صرف پاکستان سے ایک رسالہ ’’ساحل ‘‘نکلتا ہے جو بچوں کے تحفظ اور شعور و آگہی کے لئے مختص ہے۔ منیزے بانو کی ادارت میں نکلنے والا اس رسالہ کا ایک وژن اور مشن ہے اور اس کا مقصد بچوں کے حقوق کا تحفظ، فلاح و بہبود اور بچوں پر ہونے والے تشدد، استحصال، غذائی قلت اور دیگر مسائل سے معاشرے اور بچوں کو آگاہ کرنا ہے۔ اردو میں بہت کم رسالے ایسے ہیں جن میں بچوں کی صحت اور حقوق کے حوالے سے مضامین ہوں یا ڈیجیٹل میڈیا کے خطرات سے آگاہ کرنے والی تحریریں ہوں۔جب کہ دوسری زبانوں میں بچوں کے لئے ایک مخصوص تھیم پر مبنی رسالے شائع ہوتے ہیں۔ لبنان کے آزاد اشاعتی ادارہ ’دارانیوز‘ نے بچوں کے لئے ایک رسالہ جاری کیا ہے جس کے ہر شمارے کا ایک تھیم ہوتا ہے۔ سائنس، کھیل، کامکس، آرکی ٹیکچر، آرکیا لوجی، کیلی گرافی، سنیماٹو گرافی، آرٹ، تاریخ، انفوگرافکس اس طرح یہ رسالہ بچوں کو ایک خاص موضوع سے آگاہ کرتا ہے۔ اس طرح کے رسالوں سے بچوں کا ذہنی افق بھی وسیع ہوتا ہے اور انہیں مسائل کی تفہیم میں بھی مدد ملتی ہے۔ عربی میں بچوں کے لئے بعض رسالے ایسے ہیں جو صحت پر مرکوز ہیں۔ مگر اردو میں اس طرح کے مجلات کی بڑی کمی ہے ،دلچسپ معلوماتی مواد نہ ہونے کی وجہ سے بچے اردو کے رسائل سے جڑ نہیں پاتے اور بالآخر یہ رسالے دم توڑ دیتے ہیں۔ شاید اسی وجہ سے گگن کے بالغ نظر مدیر شمس کنول نے بچوں کے رسالہ ماہنامہ امنگ دہلی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ رسالہ بچوں کے لئے شائع ہوتا ہے مگر اس میں بچوں کے لئے کچھ نہیں ہوتا۔‘‘ اور اسی طرح کا شکوہ آموزگار کے مدیر پروفیسر اکبر رحمانی کو بھی ہے کہ:
’’اردو میں شائع ہونے والے بچوں کے رسائل کی اہمیت اور افادیت سے انکار نہیں لیکن یہ رسائل جدید تقاضوں، بچوں کی ضروریات اور دلچسپیوں کو پورا کرنے سے قاصر ہیں۔ رنگین تصویروں کی کمی، کارٹونوں، خاکوں اور موضوعات میں یک رنگی بار بار کھٹکتی ہے۔ ان رسائل کا کوئی علاحدہ اور بڑا ادارتی عملہ نہیں ہے۔ ان رسائل کے مدیران نے مختلف عمروں کے بچوں کی ضرورتوں دلچسپیوں اور رجحانات کو جاننے کے لئے مطالعاتی کیمپ یا سروے کیا ہو ایسا واقعہ اب تک میری نظروں سے نہیں گزرا ہے۔ ‘‘
یہ ایک تلخ حقیقت ہے جسے تسلیم کرنے میں کوئی حرج نہیں کہ آج اردو میں بچوں کے رسائل میں بچوں کی کشش کا زیادہ سامان نہیں ہوتا اور یہ رسالے بچوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں ناکام ہیں۔ اسی لئے بہت سے بچے صرف اپنے نصاب سے میکانکی رشتہ قائم کرنے پر مجبور رہتے ہیںجس سے ان کے تجسس کی صلاحیت مر جاتی ہے۔ یا انٹرنیٹ کی دنیا میں کھو جاتے ہیں۔ انہیں انٹرنیٹ سے باہر نکال کر کتابوں سے رشتہ قائم کرنا آج کے وقت کی بڑی اہم ضرورت ہے اور اس کے لئے انہیں ان رسائل پر توجہ مرکوز کرنی ہوگی جو ہندوستان کی دوسری زبانو ںمیں نکلتے ہیں۔ خاص طور پر تیلگو، ملیالم میں جو بچوں کے رسالے شائع ہوتے ہیں وہ بچوں کے ذوق اور ذہن کی پوری تکمیل کرتے ہیں اور ان رسالوں کی تعداد اشاعت کی اچھی خاصی ہوتی ہے جب کہ وہاں رسائل بھی زیادہ ہیں۔ یہ رسائل بچوں کی ذہنی بالیدگی اور جذباتی آسودگی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
آخر کوئی تو وجہ ہوگی کہ تیلگو کا چندا ماما ہندی، مراٹھی،گجراتی، ملیالم، اڑیہ ، سندھی، بنگالی، پنجابی، آسامی، سنسکرت، سنہالی اور دیگر زبانوں میں شائع ہوتا ہے اور ان کے پڑھنے والوں کی تعداد اچھی خاصی ہے۔ اردو میں چمپک، ننھے سمراٹ، بال بھاسکر، نندن جیسے رسالے کتنے ہیں۔ دراصل اردو رسائل کے پاس نہ ماہرین کی ٹیم ہے اور نہ ہی مصور اور آرٹسٹ اور نہ ہی تولیکا جیسے اشاعتی ادارے ہیں جہاں بچوں کے تقریباً 150 مصنفین،125 السٹریٹر اور 100 کے قریب ترجمہ نگار ہیں۔ اسی وجہ سے اردو کے رسالے بچوں کے ذہنی تقاضے کی تکمیل نہیں کر پاتے۔ ہمیں اب یہ سوچنا ہوگا کہ ہمارا مقابلہ ’’ہیری پوٹر سیریز‘‘ سے ہے۔ جس نے ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔ جے کے رولنگ (J.K Rowling)کی یہ کتاب 500 ملین سے زائد فروخت ہوچکی ہے اور تقریباً 80 زبانوں میں اس کا ترجمہ ہو چکا ہے اور یہ کردار ہمارے بچوں کے ذہن پر نقش ہو چکا ہے۔ اردو کے رسائل ایسا مضبوط کردار آج تک بچوں کو نہیں دے پائے ہیں اسی لئے اب ہمیں نئے تناظر میں سوچنا ہوگا اور ہمیں اپنے پڑھنے والوں کی تعداد بڑھانے کے لئے نئے تکنیکی ذرائع استعمال کرنے پڑیں گے ۔بچوں کی پسند اور ترجیحات کو بھی سامنے رکھنا ہوگا تبھی بچوں کے اچھے رسائل شائع ہو پائیں گے اور بچوں کا اچھا ادب تخلیق ہو پائے گا۔ ہمیں ان موضوعات اور مسائل کی تکرار سے بھی بچنا ہوگا جو ماہنامہ کھلونا، غنچہ، ٹافی اور پیام تعلیم جیسے پرانے رسالے پیش کر چکے ہیں۔ بچوں کی بدلتی ترجیحات کے تناظر میں ہمیں رسائل کو نئی شکل و صورت عطا کرنی پڑے گی اور رسائل کو نئے سرے سے ڈیزائن کرنا پڑے گا۔ غیر روایتی طرز کی تخلیقات کے علاوہ وہ مواد پیش کرنا ہوگا جس سے بچہ اپنے مستقبل کا ذہنی نقشہ ترتیب دے سکے۔ اس وقت بچوں کے ذہنی ارتقاء پر مرکوز رسائل کی ضرورت ہے کہ بچوں کے Optimal growth کے لئے رسائل لازمی ہیں۔ پھر بھی مادیت اور صارفیت کے اس عہد میں جب کتاب کلچر سے ہمارے معاشرے کا رشتہ ٹوٹ چکا ہے تو ایسے میں اگر بچوں کے کچھ رسائل نکل رہے ہیں تو ہمیں ان کی حوصلہ افزائی کے ساتھ مکمل مدد کرنی بھی چاہئے۔ یہ الگ بات ہے کہ ماضی میں بچوں کے صحافتی ادب کا منظر نامہ زیادہ تابناک رہا ہے اور اب یہ منظرنامہ دھندلا سا گیا ہے۔ پھر بھی جو رسائل نکل رہے ہیں انہیں مزید مستحکم کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور ان رسالوں کو سرکاری اشتہارات بھی ملنے چاہئیں بلکہ اس وقت ضرورت ہے کہ ہندوستان کی تمام اردو اکیڈمیاں بچوں کے رسالوں کی اشاعت پر توجہ دیں کیوں کہ جب تک ہماری جڑ مضبوط نہیں ہوگی زبان ترقی نہیں کرے گی۔ ہماری زبان کا مستقبل انہی بچوں سے وابستہ ہے۔ یہی بچے مستقبل کے معمار ہیں اور ان بچوں کی کردار سازی ہمارے لئے بہت ضروری ہے۔ کہ بقول معروف شاعر قیس رام پوری:
کریں نہ ٹھیک سے بچے کی ذہن سازی ہم
تو بڑھ کر یہ کئی فتنے جگا بھی سکتا ہے
یہی چراغ جسے خون دل پلائیں ہم
نظر نہ رکھیں تو گھر کو جلا بھی سکتا ہے
یہ خوش آئند بات ہے کہ ماضی میں بچوں کے اچھے رسائل شائع ہوتے رہے ہیں اور ان رسائل نے بچوں کی تربیت و تعلیم کے ساتھ زبان و ادب کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ریاستی اعتبار سے بچوں کے رسائل کی اشاعت کا جائزہ لیا جائے تو یہ اندازہ ہوتا ہے کہ آج کے مقابلے میں پہلے بچوں کے زیادہ رسائل شائع ہوا کرتے تھے۔