Home نقدوتبصرہ اردو میں بچوں کے رسائل- حقانی القاسمی

اردو میں بچوں کے رسائل- حقانی القاسمی

by قندیل

 

(دوسری قسط)
ہندوستان کے دارالحکومت دہلی میں بچوں کا ادب تخلیق کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد ہے۔لیلیٰ خواجہ بانو، اشرف صبوحی، صالحہ عابد حسین، غلام ربانی تاباں،مظفر حنفی، سراج انور، حسین حسان، قدسیہ زیدی، مسعودہ حیات ، اظہار اثر، شمیم حنفی، مظفر حنفی، پرکاش پنڈت، خوشحال زیدی، یوسف پاپا، انور کمال حسینی، خسرو متین، پریم پال اشک، عبدالغفار مدھولی، آصفہ مجیب ان کے علاوہ موجودہ دور میں غلام حیدر، محمد خلیل، ڈاکٹر اسلم پرویز، شمس الاسلام فاروقی، ابرار کرت پوری، اسد رضا، نصرت ظہیر، فیروز بخت احمد، ابوالفیض عزم سہریاوی، سراج عظیم، عادل اسیر، عادل حیات، کرن شبنم وغیرہ بچوں کا ادب تخلیق کر رہے ہیں اور اسی دہلی سے ’نونہال‘ ’کھلونا‘’پیام تعلیم‘ ’امنگ‘ ’بچوں کی دنیا‘ ’پھلواری‘، ’نرالی دنیا‘ ، ’سائنس کی دنیا‘ ، ماہنامہ ’پھول‘ جیسے رسائل بھی شائع ہوتے رہے ہیں۔
کھلونا، نئی دہلی
پیارے بچوں کا پیارا ماہنامہ رہا ہے۔ اس کی اشاعت کا آغاز اپریل،1948ء میں ہوا۔ اس کو جو شہرت اور مقبولیت ملی وہ کسی اور رسالے کو نہیں نصیب ہوئی۔ اس کے بانی ادارہ شمع کے مالک یوسف دہلوی تھے۔ ان کے بعد یونس، ادریس اور الیاس دہلوی نے اس کی ادارت کی۔ اس رسالے کو جن مشاہیر قلم کاروں کا قلمی تعاون حاصل تھاان میں کرشن چندر، بلونت سنگھ، عادل رشید، سلام مچھلی شہری، مرزا ادیب ، عصمت چغتائی، رام لعل، خواجہ احمد عباس، واجدہ تبسم، اے آر خاتون، رضیہ سجاد ظہیر، جیلانی بانو، خدیجہ مستور اور شفیع الدین نیر جیسی شخصیات تھیں۔کھلونا آٹھ سے 80 سال کے بچوں کے لئے شائع ہوتا تھا۔اسی رسالہ میں سراج انور کا خوفناک جزیرہ ، کالی دنیا، نیلی دنیا، ظفر پیامی کا ستاروں کے قیدی اور کرشن چندر کی چڑیوں کی الف لیلیٰ جیسی شاہکار تخلیقات شائع ہوئیں۔ کھلونا کا سالنامہ بچوں میں بہت مقبول تھا۔ جو معتبر ادیبوں کی نگارشات پر مشتمل ہوتا تھا۔ یہ شاید واحد رسالہ تھا جس میں بچوں کی پسند اور ناپسند کے بارے میں پوچھا جاتاتھا۔ اپنے جاذب نظرگیٹ اپ، السٹریشن اور دیدہ زیب طباعت کی وجہ سے اس رسالے نے بہت جلد مقبولیت اور شہرت کی بلندیاں طے کر لیں۔ شمع گروپ کی سرپرستی کی وجہ سے یہ بچوں کا ہردلعزیز رسالہ بن گیا۔ بچوں کے رسائل کے ضمن میں یہ ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ ایک مثالی مجلہ جس کی کمی آج کے دور میں بھی محسوس کی جار ہی ہے۔ یہ رسالہ 1987ء میں بند ہوگیا۔
پیام تعلیم،نئی دہلی
اس کاشمار بھی بچوں کے اہم رسائل میں ہوتا ہے۔ اس رسالے کے روح رواں ڈاکٹر ذاکر حسین تھے۔ ڈاکٹر عابد حسین پی ایچ ڈی برلن جیسے دانشور کی سرپرستی کی وجہ سے اس رسالہ کو بہت مقبولیت ملی۔ اپریل؍1926ء میں یہ پندرہ روزہ تعلیمی رسالہ کی شکل میںجاری ہوا، پھر ماہنامہ بن گیا۔ 1956ء میں اس کی اشاعت بند ہوگئی تھی پھر اس کی اشاعت ثانی جولائی 1964ء میں عمل میں آئی اور محمد حسین حسان ندوی جامعی اس کے مدیر بنائے گئے۔ جو خود بچوں کے معروف کہانی کار اور ادیب تھے۔ ’’دنیا کے بچے‘‘ ان کی مشہور کتاب ہے۔ وہ برسوں تک اس رسالے کی ادارت کرتے رہے اور نوک و پلک سنوارکر خوب سے خوب تر بناتے رہے۔ انہوں نے چھوٹاچمو، ننھا پپی کے علاوہ ’’پیام تعلیم کی کہانی‘‘ کے عنوان سے بھی ایک کہانی لکھی جس میں رسالہ پیام تعلیم کے آغاز و ارتقاء کی پوری داستان ہے۔ اس رسالہ کو بھی مشاہیر قلم کاروں کا تعاون حاصل تھا۔ اس کے سرورق پر ایک بہت ہی معنی خیز عبارت ہوا کرتی تھی کہ ’’جاگو اور جگاؤ‘‘ اور یہ شاید واحد رسالہ تھا جو یوپی ، سی پی، برار، میسور، حیدر آباد، کشمیر وغیرہ کے محکمۂ تعلیم کی طرف سے منظور شدہ تھا۔ اس رسالے نے بہت سے اہم تجربے کئے۔ اس کی فہرست سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس رسالہ نے ہر عمر کے بچوں کے ذوق اور ذہن کا خیال رکھا تھا۔ اس کے ایک گوشے میں بچوں کے لئے مضامین ہوتے تھے اور دوسرے گوشے میں بڑے لڑکوں کے لئے اور تیسرے گوشے میں لڑکیوں کے لئے۔ پیام تعلیم میں موضوعات کی سطح پر بھی تنوع کا خیال رکھا جاتاتھا۔ معلوماتی اور مفید فیچرس کی وجہ سے اس کی بہت زیادہ مقبولیت تھی۔ کشیدہ کاری، باغبانی، فوٹو گرافی اور دیگر دلچسپ موضوعات پر مضامین کی اشاعت ہوتی تھی اور اداریے میں بطور خاص بچوں سے تخاطب ہوتا تھا۔ ان کے مسائل اور مشکلات پر گفتگو ہوتی تھی۔ اس لئے اس رسالے میں بچوں کی بہت دلچسپی تھی۔ پیام تعلیم کا سب سے پہلا شمارہ اپریل 1926ء میں نکلا تھا جو پندرہ روزہ کی شکل میں تھا۔ تو اس وقت امیر جامعہ حکیم اجمل خان تھے۔ انہوں نے بچوں کے نام ایک اہم پیغام بھیجا تھا جس کی اہمیت آج بھی مسلم ہے۔ انہوں نے بچوں کو نصیحت کی تھی:
’’تم اکیلے ہو ‘‘یا اوروں کے ساتھ اپنے کمرے میں ہو یا مدرسے میں یا کھیل کے میدان میں ہر جگہ اور ہمیشہ وہ کرو جو سچ مچ تمہارا من چاہتا ہے۔ اپنی اصلی دلی خواہشوں کو دباؤ مت دوسروں سے ڈر کر یا دوسروں کو خوش کرنے کی خاطر، دوسروں کی خواہ مخواہ نقالی نہ کرو خود اپنی اپج سے کام کرو۔ ایسا کروگے تو تمہارا ذہن، تمہاری سیرت، تمہارا جسم سب کے سب اچھی سے اچھی شکل اختیار کریں گے جن کے حاصل کرنے کی صلاحیت و قدرت ان میں رکھی ہے۔ ‘‘
محمد حسین حسان کے دور ادارت میں پیام تعلیم کے کئی خصوصی شمارے شائع ہوئے جن میں 1938ء کا سالگرہ نمبر اور نومبر دسمبر 1946ء کا جوبلی نمبر قابل ذکر ہیں۔’’پیام تعلیم‘‘ نے ادب اطفال میں ان کی ادارتی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے نومبر 1974ء کا شمارہ حسین حسان نمبر کی صورت میں شائع کیا۔1974میں حسین حسان کے انتقال کے بعد ولی شاہجہاں پوری نے پیام تعلیم کی ادارت سنبھالی۔ ان کے بعد مکتبہ جامعہ کے منیجر شاہد علی خان اس کے مدیر مقرر ہوئے۔ شاہد علی خان کے ریٹائر منٹ کے بعد مکتبہ جامعہ کے ڈائرکٹر اس کے ایڈیٹر بنائے جاتے رہے جس میں نائب مدیر کی حیثیت سے محفوظ عالم اپنی خدمات مستقل طور پر انجام دے رہے ہیں۔
’’پیام تعلیم‘‘ ہی وہ رسالہ ہے جس میں ڈاکٹر ذاکر حسین سابق صدر جمہوریہ ہند کی کہانی ’’ابو کی بکری‘‘ سب سے پہلے شائع ہوئی۔ اسی رسالے میں رقیہ ریحانہ کے نام سے ان کی بہت سی کہانیاں اشاعت پذیر ہوئیں۔ ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کے مضامین شائع کرنے کا شرف بھی پیام تعلیم کو حاصل ہے۔ محترمہ صالحہ عابد حسین (مصداق فاطمہ) کی بیشتر تخلیقات اسی رسالہ میں شائع ہوتی رہیں۔ ان کے علاوہ پیام تعلیم میں جوش ملیح آبادی، جگر مرآبادی، شفیع الدین نیر، (جن پر پیام تعلیم کا خاص نمبر بھی شائع ہوا) یوسف ناظم، علقمہ شبلی، سلمیٰ جاوید، مسعودہ حیات، افسر میرٹھی، پروفیسر محمد مجیب، پروفیسر رشید احمد صدیقی، قدسیہ زیدی ،محمد یوسف پاپا وغیرہ کی نگارشات بھی شائع ہوتی رہی ہیں۔ اس کا ایک مقبول سلسلہ سفرنامۂ ابن بطوطہ بھی تھا جس کے مصنف مولانا مقبول احمد سیوہاروی تھے۔ پیام تعلیم میں زیادہ تر گاندھیائی افکار و نظریات کی تبلیغ ہوتی تھی اس لئے بعض قارئین کو یہ رسالہ کمیونسٹ خیال کا لگتا تھا۔ ’’پیام تعلیم‘‘ کے ایک قاری نے لکھا کہ یہ پرچہ کمیونسٹ خیال کا ہے۔ اس میں گاندھی اور لینن کی باتیں ہمیشہ رہا کرتی ہیں۔ یہ پرچہ مسلمانوں کا دماغ بدل کر رکھ دے گا۔ جواب میں مدیر نے لکھا کہ یہ بچوں کا تعلیمی پرچہ ہے اس میں ہر طرح کی معلومات فراہم کی جاتی ہیں۔ یہ رسالہ اب بھی جاری ہے اور بچوں میں بہت مقبول ہے۔
نونہال، نئی دہلی
حکومت ہند کے پبلی کیشن ڈویژن کا رسالہ تھا جس کی اشاعت کا آغاز 15؍اگست 1948 سے ہوا۔ 1949ء میں یہ رسالہ بند کر دیا گیا اور اسے بچوں کا آج کل کے نام سے ماہنامہ آج کل میں ضم کر دیا گیا۔ 1965ء تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ اس رسالہ کی ادارت سے جوش ملیح آبادی جیسی شخصیت وابستہ تھی۔
اُمنگ،نئی دہلی
اس کاشمار بھی بچوں کے عمدہ رسائل میں ہوتا ہے اس کا اجراء دسمبر؍1987ء میں ہوا۔ دہلی اردو اکیڈمی سے شائع ہونے والے اس رسالہ سے سید شریف الحسن نقوی، اشتیاق عابدی، مخمور سعیدی، زبیر رضوی، سید صادق علی، منصور عثمانی، منور امروہوی، مرغوب حیدر عابدی، انیس اعظمی اور دیگر معتبر شخصیات کی وابستگی رہی ہے اور اس رسالہ کو رشید حسن خان، مظفر حنفی، سلام بن رزاق، اظہار اثر، راج نرائن راز، مظہر امام، سراج انور، رفعت سروش، مسعودہ حیات کا قلمی تعاون حاصل رہا ہے۔ اس میں معلوماتی مضامین کے علاوہ پہیلیاں، قلمی دوستی، کومکس، انعامی کوپن جیسے فیچرس تھے جس کی وجہ سے یہ رسالہ بچوں میں بہت مقبول ہوا۔ بچوں کی رنگین تصویریں بھی اس میں شائع ہوتی رہیں۔ بعد کے شماروں میں معلومات کی کسوٹی کے عنوان سے معلومات عامہ کا ایک کالم شروع کیا گیا اور امنگی بچوں کے پسندیدہ اشعار بھی اس میں شامل کئے گئے۔ اس کا کامکس کا کالم بہت مقبول تھا۔ اس کے علاوہ کوئز کے عنوان سے ڈاکٹر شمیم احمد صدیقی کا سلسلہ وار ادبی دماغی ورزش بھی بہت اہم ہے۔ اہم شخصیات پر اس میں مضامین بھی شائع ہوتے رہے ہیں۔
’’امنگ‘‘ کے کئی خصوصی شمارے بہت مقبول ہوئے جن میں چاچا نہرو نمبر(نومبر؍1989) مستقبل کے قلم کارنمبر(فروری؍1989) قابل ذکر ہیں۔ ’’امنگ‘‘ میں بہت عمدہ کہانیاں شائع ہوتی تھیں۔ چھ جلدوں میں امنگ کی منتخب کہانیاں شائع ہو چکی ہے جس کے مرتبین ثنا فرقان ثنا خانم اور زین الدین ہیں۔

بچوں کی دنیا، نئی دہلی
قومی اردو کونسل، نئی دہلی سے شائع ہونے والا یہ بچوں کا مقبول ترین رسالہ ہے۔ اس کی اشاعت کا آغاز جون 2013 سے ہوا۔ پہلے شمارے پر مدیر اعلیٰ کی حیثیت سے ڈاکٹر خواجہ محمد اکرام الدین، نائب مدیر اور اعزازی مدیر کے طور پر باالترتیب ڈاکٹر عبدالحی اور نصرت ظہیر کے نام درج تھے۔ڈائرکٹر شپ کی تبدیلی کے ساتھ ہی مدیر اعلیٰ کا نام بدل جاتا ہے اسی لئے رسالے کے تمام مشمولات کے انتخاب اور ترتیب کی ذمہ داری نائب مدیر کے ذمہ ہوتی ہے اور رسالہ کا معیار اسی کے حسن ذوق کا غماز ہوتا ہے۔ اس رسالہ کے پہلے اداریہ میں لکھا گیا تھا کہ:
’’ماہنامہ بچوں کی دنیا آپ کے بچپن کی دنیا کو اور بھی حسین بنانے کی ایک چھوٹی سی کوشش ہے۔ جو امید ہے آپ کو ضرور پسند آئے گی۔ ہم آپ کو آپ ہی کا بچپن پیش کر رہے ہیں۔ اس میں مزے دار قصے کہانیاں ہیں، کارٹون ہیں، کامکس ہیں، دلچسپ معلوماتی مضامین ہیں، حیرت انگیز چیزوں کا بیان ہے، دنیا بھر میں بے حد شوق سے پڑھے گئے ایک ناول کی قسط وار شروعات ہے، پیاری پیاری نظمیں ہیںاردو فیس بک کے عنوان سے آپ کا اپنا کالم ہے۔ نانی کے صندوق سے نکالی گئی وہ پرانی نظمیں، کہانیاں اور چٹکلے ہیں جنہیں ہر دور کے بچوں نے بہت پسند کیا ہے۔‘‘
اس رسالہ کے مستقل سلسلوں میں اردو ایس ایم ایس، دماغی ورزش، مہینے کی باتیں، آپ کے سوال اہم تھے۔ کارنامے کے تحت بچے اور بچیوں کے غیر معمولی کارناموں سے روشناس کرانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ حالیہ دنوں میں اس میں کچھ تبدیلیاں بھی آئی ہیں۔ جن میں کئی نئے سلسلے شروع کئے گئے ہیں۔ اس کے پہلے شمارے پر پہلا شمارہ پہلا قدم کی عبارت درج تھی ۔خوبصورت اور دل چسپ معلوماتی مواد دیدہ زیب سرورق کی وجہ سے یہ رسالہ بہت جلد مقبولیت حاصل کرتا گیا۔ اس کی تعداد اشاعت بھی دوسرے رسالوں کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ایک زمانہ میں اس کی اشاعت ایک لاکھ سے بھی تجاوز کر گئی تھی۔
بچوں کی نرالی دنیا، نئی دہلی
تنویر احمد کی ادارت میں شائع ہوتا تھا۔ اس رسالہ کو بھی شکیل الرحمن، مظفر حنفی، احمد وصی، عبدالرحیم نشتر، خوشحال زیدی، اطہر مسعود خان، قمر سنبھلی، مہدی پرتاپ گڑھی جیسی شخصیات کا قلمی تعاون حاصل تھا۔ بچوں کی نرالی دنیا میں کچھ خاص فیچر تھے جو بچوں میں بہت مقبول تھے۔ جیسے انوکھی خبریں، اسپورٹس نیوز، دینی مقابلہ، پہیلی مقابلہ، ذہنی ورزش، آئیے ڈکشنری دیکھیں، بچوں کے مشہور ادیب وکیل نجیب کے مشہور ناول کمپوٹان کی قسطیں بھی اسی میں شائع ہوئی تھیں۔
پھلواری ، نئی دہلی
بچوں کا ایک اہم رسالہ تھا ۔کامل اختر اور سعید اختر کی ادارت میں 1945ء سے اس کی اشاعت کا آغاز ہوا۔ یکتا امروہوی، عشرت صدیقی، سلام مچھلی شہری، مظفر حنفی وغیرہ اس کے قلم کاروں میں تھے۔ اس رسالے کا ایک سالنامہ شائع ہوتا تھا جو بہت مقبول تھا۔ اے آر سید اور تابش شکیل نے بعد میں اس کی ادارت کی ذمہ داری سنبھالی۔ بعد میں فریدہ ناز اس کی مدیرہ مقرر ہوئیں۔ ان کی ادارت میں 1957ء کا سالنامہ بہت مقبول ہوا۔ 1979ء میں بین الاقوامی سال اطفال کے موقع پر ایک یادگار نمبر بھی شائع ہوا۔ اس وقت پھلواری کے مدیر سید اقبال قادری اور معاون اقبال فرید تھے۔ بعد میں یہ رسالہ ماہنامہ بیسویں صدی میں ’’تیر و نشتر‘‘ لکھنے والے ناز انصاری کی ملکیت میں آگیا۔ اس تعلق سے مشہور صحافی مودود علی صدیقی لکھتے ہیں:
’’جب 1956 میں انہو ںنے سعید اختر اور کامل اختر سے بچوں کا رسالہ ’’پھلواری‘‘ کی ملکیت خریدی تو ایک دن انہوں نے یہ خواہش ظاہر کی کہ میں رات کو کچھ وقت ان کی ’’پھلواری‘‘ کے لئے دے دیا کروں۔‘‘
(بحوالہ صریر گم گشتہ، ناز انصاری، مرتب ظفر انور)

سائنس کی دنیا،نئی دہلی
بچوں میں سائنسی ذوق پیدا کرنے کے لئے 1945ء میں اس رسالہ کی اشاعت کا آغاز ہوا۔ پروفیسر اے رحمن اس کے بانی مدیر تھے۔ اس میں زیادہ تر سائنسی مضامین، سوالات و جوابات ہوتے ہیں۔ مشہور سائنٹسٹ محمد خلیل برسوں تک اس کی ادارت سے وابستہ رہے ہیں۔
ماہنامہ پھول، نئی دہلی
بچوں اور بچیوں کا یہ دل پسند ماہنامہ حضرت مولانا مفتی محمد ضیاء الحق دہلوی کی سرپرستی میں شائع ہوتا تھا۔ یہ رسالہ بر صغیر کے علاوہ افریقہ اور عرب میں بھی مقبول تھا۔ مٹیا محل، دہلی۔6 سے نکلنے والا یہ رسالہ 60 صفحات پر مشتمل تھا اور قیمت فی پرچہ 5آنے تھی۔ زر سالانہ تین روپے آٹھ آنے تھا۔ اس کے علاوہ خاص نمبر اور سال نامہ مفت دیئے جاتے تھے۔ ہر مہینہ پابندی سے شائع ہوتا تھا۔ اب یہ رسالہ بند ہو چکا ہے۔
qqq
ا ترپردیش ریاست کا بچوں کے ادب کے فروغ میں نمایاں حصہ رہا ہے۔ مولوی اسماعیل میرٹھی، حامد اللہ افسر میرٹھی، شفیع الدین نیر جیسے ادب اطفال کے معمار کا تعلق اسی سرزمین سے رہا ہے۔ رام لعل، متین طارق باغپتی، شوکت پردیسی، نورالحسن ہاشمی، مسعود حسین خاں، ضمیر درویش، محمد قاسم صدیقی، مسرور جہاں، قمر قدیر ارم، قدیر جاوید پریمی، بدیع الزماں اعظمی، وامق جون پوری، سلام مچھلی شہری، شمیم انہونوی، عزیز مرادآبادی،الیاس سیتا پوری، تسکین زیدی، شکیل انوار صمدانی، شکیل جاوید، مرتضیٰ ساحل تسلیمی،محسن خان، اطہر پرویز، سعید اختر اعظمی، شفیق اعظمی، انصار احمد معروفی، مہدی پرتاپ گڑھی،انیس الحسن صدیقی، انجمن آرا انجم،زینب نقوی، ارشد اقبال، عطیہ پروین، عطیہ بی، رضاء الرحمن عاکف وغیرہ بچوں کا ادب تخلیق کرنے والوں میں اہم ہیں۔ یہاں سے جو رسائل شائع ہوئے ان میں ’غنچہ ‘ (بجنور) ’ٹافی‘(لکھنؤ) ’کلیاں‘ (لکھنؤ) ’نور‘ (رامپور) ’اچھا ساتھی‘ (بجنور) ’چندا نگری‘ (مراد آباد) ’ہم پنچھی ایک ڈال کے‘ (مراد آباد)’چمن ‘ (مراد آباد) ’ہم جولی‘ (امروہہ) ’بچوں کا تحفہ( اعظم گڑھ) ’چمن‘ (کانپور) ’سعید‘ (کانپور) ’جنت کا پھول‘ (کانپور) بچپن (بریلی) ، انور (میرٹھ) ، درخشاں (مرادآباد)، راہی (علی گڑھ) عزیز (گورکھپور)، ماہنامہ چاند (سہارنپور) باغیچہ (لکھنؤ) کے نام اہم ہیں۔
غنچہ ،بجنور
یہ ہفت وار رسالہ تھا جو مدینہ منزل محلہ مردھیگاں،بجنورسے شائع ہوتا تھا۔ اس کے بانی مدیر مدینہ اخبار کے مالک و ناشر مولوی محمد مجید حسن تھے۔ 1922ء میں اس کا اجراء ہوا۔ اس رسالہ کا ایک خاص مقصد اور مشن تھا۔ اس کے سرنامہ پر ایک معنیٰ خیز عبارت درج تھی کہ بچوں کی تعلیم قومیت کی تعمیر ہے اور قومیت کی تعمیر کے جذبہ سے ہی غنچہ کی اشاعت عمل میں آئی تھی۔ اس میں مقتدر ادیبوں کے علاوہ اسکولی طلباء کی تحریریں بھی بطور خاص شامل کی جاتی تھیں۔ غنچہ کے پہلے مدیر محمد وارث کامل بی اے تھے۔ اس کے بعد مدینہ اخبار کے مالک و مدیر مولوی مجید حسن کے داماد اور خوش فکر شاعر حمید حسن فکر بجنوری اس کے سب ایڈیٹر بنائے گئے اورنصراللہ خاں عزیز بی۔اے اس کے مدیر مقرر ہوئے۔ شبیر بیگ بریلوی، ماہر القادری بھی اس کی ادارت سے وابستہ رہے۔ 16 صفحات پر محیط قوم اور ملک کے بچوں اور بچیوں کے لئے تعلیمی، تاریخی،اخلاقی،حرفتی ہفتہ وار رسالہ غنچہ کا سر ورق تین رنگوں میں شائع ہوتا تھا اور اس کی تعداد اشاعت اس وقت تقریباً ایک ہزار تھی۔ اس رسالہ کی فہرست کے صفحہ پر ایک شعر درج ہوتا تھا۔
تفریح کا ساماں ہے تعلیم کا ساماں ہے
بچوںکے لئے غنچہ ایک علمی گلستاں ہے
اس کے مخصوص کالم میں معلوماتی مضامین کے علاوہ کشیدہ کاری، بوجھو تو جانیں، مسکراہٹ، دنیا میں کیا ہو رہا ہے شامل ہیں۔ غنچہ کے کئی سالنامے بھی شائع ہوئے جس میں بچوں کی طبع زاد تخلیقات پر پانچ روپے کے انعامات کا اعلان بھی کیا گیا۔ اس رسالہ کے اہم قلم کاروں میں سری رام سیٹھی، امجدحیدرآبادی، ابوعبیدہ لکھ مینوی، نزاکت جہاں فاروقی، شفیع الدین نیر، محمد ارمغان ساحل سہسرامی، غلام قادر، (پشاور) شامل تھے۔ اسی رسالے میں بدروفا شیدائی اور جلیس سہسوانی کے قسط وار ناول شائع ہوئے۔ غنچہ کی فائلوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کا دائرہ اثراس وقت پشاور اور ملتان تک تھا اور ہندوستان کے بیشتر علاقوں تک اس غنچہ کی رسائی تھی۔ پٹنہ، مظفر پور اور بھاگل پور کے قلم کاروں کی بھی تحریریں اس میں شائع ہوتی تھیں۔آج کے معروف ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ یافتہ فکشن نگار ڈاکٹر عبدالصمد کی پہلی کہانی ’’جھوٹ کی سزا‘ ‘ اسی غنچہ بجنور کے اپریل1961ء میں شائع ہوئی تھی۔ ان کی ادبی تخلیقی زندگی کا آغاز بچوں کے اسی رسالہ سے ہوا۔ شاہد جمیل کا جاسوسی ناول ’آدم خور انسان‘ بھی غنچہ ہی میں قسط وار شائع ہوا تھا۔ غنچہ کا سالنامہ بڑا مفید اور معنی خیز ہوتا تھا۔ 8؍ جنوری 1951ء کے سالنامہ پر حامد حسن قادری نے بڑا خوبصورت قطعہ لکھا تھا۔
اس غنچہ کی دھوم ملک میں ہر سو ہو
اس گل کا نیا رنگ نرالی بو ہو
اس غنچہ کا ہر ورق سخن سنجوں کو
آئینۂ حسن اور شاہد اردو ہو
اس رسالہ کا مقصد جہالت کا خاتمہ اور علم کی ترقی تھا اور اس مقصد میں یہ رسالہ کامیاب رہا۔یہ رسالہ 1978ء میں بند ہوگیا مگر آج بھی غنچہ کو بچوں کے رسائل میں ایک مثال اور نظیر کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔
ٹافی، لکھنؤ
یہ بھی اپنے عہد میں بچوں کا مقبول ترین رسالہ تھا۔ اس کی اشاعت کا آغاز 1960ء سے ہوا۔ یہ رسالہ 10۔ہاتھی خانہ لکھنؤ سے نکلتا تھا۔ فیض علی فیض اور فیض علی نوشہ اس کی ادارت سے وابستہ تھے۔سعادت علی صدیقی سندیلوی، حامد اللہ افسر، احمد جمال پاشا، عادل رشید، شمیم انہونوی، شجاعت حسین سندیلوی جیسی اہم شخصیات کا تعاون اس رسالہ کو حاصل تھا۔ یہ رسالہ تقریباً دس برس تک جاری رہا اور پھر مالی مشکلات کی وجہ سے بند ہو گیا۔ اس کی مجلس ادارت میں اوصاف احمد اور معظم جعفری تھے۔ محمد مسلم شمیم اور جاوید حسن بھی اس رسالہ سے وابستہ رہے ہیں۔ احمد مشکور سیوانی کی بھی بحیثیت مدیر اس رسالہ سے وابستگی رہی ہے جو گورکھپور میں ریلوے کی ملازمت سے وابستہ تھے اور کئی اہم کتابوں کے مصنف بھی۔ ’نئی شمع اور نئے پروانے‘، ’سونے کی لاش‘، ’ سوئے حرم‘، ’امریکن مسلم‘، ان کی اہم کتابیں ہیں۔ انہوں نے افسانے بھی تحریر کئے ہیں۔’آئینۂ حیات‘ ان کی ایک اہم تصنیف ہے جس میں مختلف شخصیات کے حوالے سے بھی اہم مضامین ہیں۔ ڈاکٹر ارشاد احمد نے اپنی کتاب ’نگاہ نقد‘ (2019ئ) میں ان کے حوالے سے لکھا ہے کہ ان کے والد بزرگوار مولوی محمد ذکی صدیقی عربی، فارسی، اردو کے عالم اور ’تاریخ الہری ہانس ‘کے مصنف تھے۔ انہوں نے یہ لکھا ہے کہ لکھنؤ سے شائع ہونے والا بچوں کا مقبول رسالہ ٹافی کی ادارت تقریباً 6برسوں تک کی۔ آپ کی ادارت میں ٹافی نے غیر معمولی مقبولیت حاصل کی۔
کلیاں،لکھنؤ
شمیم انہونوی کی ادارت میں شائع ہوتا تھا جو خود بھی بچوں کے اچھے ادیب تھے۔ انوکھا پل، جادو کا ہنس، پریوں کی کرامت، شہزادی زر نگار وغیرہ ان کی مشہور کہانیاں ہیں۔ اس کے اہم لکھنے والو ںمیں شاد عارفی، سطوت رسول، محشر بدایونی، شفیع احمد تاج ،عطیہ پروین، عفت موہانی، اے آر خاتون قابل ذکر ہیں۔ سیدہ اعجاز کا ناول ’مونگے کے جزیرے‘کلیاں میں ہی شائع ہوا تھا۔
نور، رامپور
اس کا شمار بھی بچوں کے اہم اور مقبول رسالوں میں ہوتا ہے۔ ابو سلیم عبدالحئی اس کے بانی مدیر تھے۔ ستمبر 1953ء میں پندرہ روزہ کی شکل میں اشاعت کا آغاز ہوا۔ دسمبر 1968ء میں یہ ماہنامہ میں تبدیل ہوگیا۔ اس رسالہ کو اہم ادیبوں کا تعاون حاصل تھا۔ جن میں شکیل انور صدیقی، سلامت علی مہدی، اور مہر النساء کے نام بھی ہیں۔ اس رسالہ کا ایک خاص فیچر ریڈیو نورستان تھا۔ اس کے علاوہ بچوں کی آپ بیتی، تلاش کیجئے انعام لیجئے معلوماتی مشغلہ بھی اس کے اہم کالم تھے۔ یہ مکتبہ الحسنات کا رسالہ تھا جہاں سے بچوں کے لئے ہلال بھی جاری ہوا۔ جس میں بچوں کی لغت جیسا مفید کالم بھی ہے۔ ماہنامہ ’نور‘ سے مائل خیرآبادی اور مرتضیٰ ساحل تسلیمی جیسی اردو کی معتبرشخصیات کی وابستگی رہی ۔نور کے کئی خصوصی شمارے بہت مقبول ہوئے ہیں جن میں شکاریات نمبر قابل ذکر ہے۔
چندا نگری
مرادآباد سے شکیل انوار کی ادارت میں شائع ہوتا تھا۔ جون 1970ء سے اس کا آغاز ہوا۔ 34 صفحات پر مشتمل اس رسالہ کی قیمت فی پرچہ 40 پیسے تھی۔ اس میں نثری اور شعری تخلیقات شائع ہوتی تھیں۔ اس رسالہ کی عمر بھی بہت مختصر رہی۔ یہ بچوں میں زیادہ مقبول نہیں ہو پایا۔
ہم جولی
سید مجاہد حسین کی ادارت میں اگست 1919 سے شائع ہونا شروع ہوا۔ امروہہ سے شائع ہونے والے بچوں کے اس رسالہ کے سرورق پر ماہرین فن تعلیم کے تجربات کا ذخیرہ لکھا ہوتا تھا۔ بقول انور حسن اسرائیلی :
’’بچوں کی فطری تعلیم میں مدد دینے والا اور دور جدید کے موافق تربیت طبعی بہم پہنچانے والا ماہوار رسالہ تھا۔ بچوں کی صحافت کے ضمن میں ایک اہم رسالہ ہے۔‘‘
اس کے اہم لکھنے والوں میں پروفیسر عاصی اور ایڈیٹر ذوالقرنین تھے۔
سعید ،کانپور
یہ بھی بچوں کا ایک اہم رسالہ ہے جو اردو کے معتبر ناقد و محقق اور داستان تاریخ اردو کے مصنف مولانا حامد حسن قادری کی ادارت میں شائع ہوتا تھا۔ یہ رسالہ 1918ء سے 1922 تک شائع ہوتا رہا۔ اس میں بچوں کے لئے بہت ہی عمدہ مواد ہوتا تھا۔ خواجہ احمد فاروقی جیسی شخصیت نے لکھا ہے کہ’’ اس میں ادب اطفال سے متعلق بہترین مواد شائع ہوتا تھا جو کسی بھی طرح غنچہ کے معیار سے کم نہ تھا۔ ‘‘
عزیز
1930ء سے نکلنا شروع ہوا۔ اس کے مدیر بدیع الزماں تھے۔ 64 صفحات پر محیط اس رسالہ کا سالانہ چندہ ایک روپیہ آٹھ آنا تھا۔
چاند ،سہارنپور
یہ رسالہ اغفار احمد ناز انصاری کی ادارت میں شائع ہوتا تھا۔ جو اردو کے ممتاز صحافی تھے۔ انصاری، الجمعیۃ ، ہفت وار پیام مشرق، روز نامہ مشرقی آواز اور انتباہ جدید کی ادارت سے وابستہ رہے ہیں۔ وہ بچوں کے ادیب بھی تھے۔ انہوں نے بچوں کے لئے جو کتابیں لکھی ہیں۔ ان میں پری زاد پرندہ،جادو کی بندوق، میاں جی بکری، چٹانوں کی چیخ بہت مقبول ہے۔ ماہنامہ چاند کے حوالے سے عبدالقادر بندھولوی نے لکھا ہے کہ 1935ء سے 1940ء کے درمیان وہ باضابطہ بچوں کا ماہنامہ چاند سہارنپور سے نکالتے تھے۔ جس میں ہندوستان کے نامور ادیبوں کی تخلیقات شائع ہوتی تھیں۔ (بحوالہ صریر گم گشتہ ناز انصاری، مرتبہ ظفر انور)
بچپن،بریلی
یہ رسالہ 193؍گلی نواباںبریلی سے شائع ہوتا تھا۔ اس کے مدیر قدیر جاوید پریمی بچوں کے معروف ادیب تھے جن کی بہت سی کہانیاں ماہنامہ کھلونا میں شائع ہوتی تھیں۔ ان میں اپنا خون، خوشی دینے والے، ہمارے بھی ہیں مہربان کیسے کیسے، سوچو تو ذرا قابل ذکر ہیں۔
اچھا ساتھی،بجنور
سراج الدین ندوی کی ادارت میں سرکرہ ضلع بجنور سے شائع ہوتا ہے۔ اس کی اشاعت کا آغاز نومبر 1993ء سے ہوا۔ اس کے معاون مدیروں میں فخرالدین فخر، محمد یٰسین ذکی ہیں۔ یہ بھی بچوں کا ایک اہم رسالہ ہے جو تقریباً بیس بائیس برسوں سے جاری ہے۔ اس میں دینیات اور اخلاقیات پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے اور بچوں کی دلچسپیوں کا بھی پورا خیال رکھا جاتا ہے۔ ماہنامہ مقابلہ، مشغلہ، دلچسپ خبریں ،بچوں کی تحریریں، کارٹون، انعامی کوپن اس کے خصوصی فیچر ہیں۔ اس کا ایک خصوصی شمارہ قرآنی اسباق نمبر بے حد مقبول ہوا تھا۔
بچوں کا تحفہ، اعظم گڑھ
شاد اعظمی ندوی کی ادارت میں شائع ہوتا ہے۔ اس میں مضامین کے علاوہ معلومات کی جانچ، بیت بازی، لطیفے وغیرہ شائع کئے جاتے ہیں جو بچوں میں بے حد مقبول ہے۔ یہ رسالہ 36 صفحات پر مشتمل ہے۔
باغیچہ ،لکھنؤ
اترپردیش اردو اکیڈمی لکھنؤ سے شائع ہونے والا بچوں کا ماہنامہ ہے جس کی سرپرست پروفیسر آصفہ زمانی اور ایڈیٹر ایس رضوان ہیں۔ اعزازی مدیر کی حیثیت سے ڈاکٹر شمیم احمد صدیقی اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اس کے مشمولات باغیچہ کی کیاریاں اور پھلواریاں کے نام سے پیش کئے جاتے ہیں۔ اس میں کہانیاں، سائنس، طب، ماحولیات، منظومات، لذیذ پکوان، رنگ برنگ، بعض الفاظ کے معنی، دماغی ورزش اور معلومات عامہ، انعامی شعری پہیلیاں، پھلجھڑیاں جیسے عنوانات ہیں۔

You may also like

Leave a Comment