Home تجزیہ اردو میں اندھیرا ، ہندی میں اُجالا!-پروفیسر مشتاق احمد

اردو میں اندھیرا ، ہندی میں اُجالا!-پروفیسر مشتاق احمد

by قندیل

پرنسپل، سی۔ایم کالج، دربھنگہ (بہار)

اردو زبان کی ترقی یا پھر اردو تعلیم کے حوالے سے اکثر یہ باتیں ذرائع ابلاغ میں آتی رہتی ہیں کہ حکومت اردو زبان کے ساتھ نا انصافیاں کرتی ہے اور اس کی ترویج واشاعت کے مسائل پر بے توجہی برتتی ہے ۔کسی حد تک یہ تلخ حقیقت اپنی جگہ مسلّم ہے کہ ہندوستان کی تہذیبی وتمدنی شناخت اردو کے تئیں حالیہ برسوں میں ذہنی تحفظات وتعصبات میں اضافہ ہوا ہے ۔حال ہی میں بہار اور اتر پردیش میں یہ واقعہ رونما ہوا کہ اسکول کا نام اردو زبان میں لکھنے پر تنازعہ کھڑا ہوا اور وہاں کے استاد کو معطل بھی کیا گیا لیکن خوش آئند بات یہ ہے کہ کچھ ہی دنوں پہلے ملک کی ایک بڑی عدالت ، عدالتِ عظمیٰ نے اردو کے حقوق اور تحفظ کو یقینی بناتے ہوئے اپنے تاریخی فیصلے میں یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ اردو ایک ہندوستانی زبان ہے اور اس کے تئیں کسی طرح کا تعصبانہ رویہ غیر قانونی ہے ۔ ظاہر ہے کہ آزادی کے بعد سے ہی ایسی فکر ونظر پروان چڑھنے لگی تھی کہ اردو کو ایک خاص طبقے تک محدود کرنے کی سازش ہوئی اور پھر اسے ایک غیر ملکی زبان قرار دینے کی جد وجہد شروع ہوئی جس کا اثر اب دکھائی دے رہا ہے۔لیکن دنیا کے تمام ماہرین لسانیات کی متفقہ رائے ہے کہ دنیا کی کوئی بھی زبان محض سرکاری رحم وکرم پر زندہ نہیں رہتی بلکہ زبان اس کے بولنے والے اور اس کے پڑھنے لکھنے والے افراد کی کوششوں سے پھلتی پھولتی ہے اور اپنا دائرہ وسیع کرتی ہے۔لیکن افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ اپنے وطن عزیز میں اردو زبان سے تعلق رکھنے والے افراد اس غلط فہمی کے شکار ہیں کہ اردو کا فروغ اسی وقت ممکن ہے جب سرکاری مراعات حاصل ہو۔جب کہ تلخ سچائی یہ ہے کہ اگر سرکاری مراعات سے کوئی زبان فروغ پاتی تو اپنے ہی ملک کی ایک کلاسیکی زبان سنسکرت پر موجودہ مرکزی حکومت نے 2015 سے2025تک یعنی ایک دہائی میں تقریباً 2532.59کروڑ روپے خرچ کئے ہیں لیکن نتیجہ سامنے ہے ۔ اس لیے ہم اردو والوں کو اس غلط فہمی کے دائرے سے باہر نکلنے کی ضرورت ہے اور اگر ہم اردو کی ترویج واشاعت کے تئیں سنجیدہ ہیں اور اپنی زبان سے محبت رکھتے ہیں تو اردو کے لیے انفرادی طورپر فعال رہنے کی ضرورت ہے۔یہ مضمون میں صرف اس لئے لکھ رہا ہوں کہ حال ہی میں مجھے بہار کی دو یونیورسٹیوں میں اور جھارکھنڈ کی ایک یونیورسٹی میں دفتری امور کو انجام دینے کے لیے جانا پڑا۔ میں یہاں قصداً یونیورسٹی کا نام نہیں لکھنا چاہتا تاکہ ہمارے اردو والے کی دل شکنی نہ ہو ۔لیکن اس تلخ سچائی کو عام کرنا بھی ضروری ہے تاکہ ویسے دیگر افراد جو پیشہ وارانہ طورپر اردو زبان سے وابستہ ہیں وہ اپنی تساہلی کو دور کریں اور اردو کے لیے اگر کوئی جوکھم بھی اٹھانا ہے تو قانونی دائرے میں رہ کر ایسی حکمت عملی اپنائیں جس سے اردو کا بھلا بھی ہو اور اردو والے کی اپنی شناخت بھی مستحکم ہو۔ایک یونیورسٹی کے شعبۂ اردو میں دن کے دس بجے بھی تالے لٹک رہے تھے اور میری واپسی کے تین بجے تک اساتذہ ندارد تھے۔شعبے کے باہر دو تین بچوں سے گفتگو سے اندازہ ہوا کہ یہاں اسی طرح کا ماحول ہے۔ واضح ہو کہ میں شعبۂ اردو سے متعلق کسی کام سے وہاں نہیں گیا تھا بلکہ دیگر شعبے میں اپنے دفتری فرائض کو انجام دینے گیا تھا لیکن اردو کے طالب علم ہونے کے ناطے شعبۂ اردو کی طرف چلا گیا تھا۔میرے ساتھ اس یونیورسٹی کے اردو کے ایک استاد بھی تھے ، انہوں نے بھی افسوس ظاہر کیا اور وہ کچھ نادم بھی تھے کہ ہم توبیرونی تھے ۔ایک دوسری یونیورسٹی میں شعبۂ اردو میں ہی دفتری امور کو انجام دینا تھا ، میں اپنے وقت پر وہاں پہنچ گیا تھا لیکن اس وقت مایوسی ہاتھ آئی کہ یونیورسٹی کے شعبے کے صدر اور دیگر اساتذہ جنہیں اس کام میں شامل ہونا تھا وہ تو موجود تھے لیکن جن طلبا کو اس میں شامل ہونا تھا انہیں اطلاع ہی نہیں دی گئی تھی ۔ صدر موصوف نے فرمایا کہ یہ کام تو یونیورسٹی کا ہے کہ وہ طلبا کو خبر کرے یا پھر طلبا جن کو اس انٹرویو میں شامل ہونا تھا وہ وقت پر آئیں۔ان کی اس بات سے میں متفق تھا کہ طلبا کو بھی بیدار رہنا چاہیے لیکن کیا ہماری اخلاقی ذمہ داری یہ نہیں تھی کہ ہم اپنے طلبا کو ذاتی طورپر بھی مطلع کریں کہ وہ وقت پر وہاں حاضر رہیں کیوں کہ اردو شعبے کا مستقبل ان طلبا کے داخلے پر ہی منحصر ہوگا۔بہر کیف !ایک استاد نے اس ریسرچ اسکالر کو فون سے مطلع کیا تو وہ دوڑتے بھاگتے دو گھنٹے میں حاضر ہوا اور پھر دیگر طلبا کو بھی اس شخص واحد نے اپنی کوشش سے جمع کیا ۔مجھے اپنا کام تین چار گھنٹے کے بعد انجام دینا پڑا۔اب ہم سمجھ سکتے ہیں کہ اردو اگر کہیں نظر انداز ہو رہی ہے یا اردو کے تئیں طلبا متوجہ نہیں ہو رہے ہیں تو اس کی وجہ کیا ہے۔

بہر کیف! اب جھارکھنڈ ریاست کی ایک یونیورسٹی کے شعبۂ اردو کا حال بھی سن لیجیے ۔وہاں شعبۂ اردو میں ایک بھی مستقل استاد نہیں ہیں ۔ ایک مہمان استاد ہیں وہ بھی کسی دوسرے کالج میں ہیں ، انہیں یونیورسٹی کے شعبے میں مامور کیا گیاہے اور وہ بھی ہفتے میں تین دن کے لیے کیا گیاہے۔شعبے کی دیگر سرگرمیوں کی انجام دہی کے لیے شعبۂ ہندی کے صدر کو نگراں بنایا گیاہے ۔راقم الحروف جب شعبۂ اردو میں داخل ہوا تو وہاں وہ مہمان استاد موجود تھے اور دیگر غیر تدریسی ملازمین بھی موجود تھے ۔جس ریسرچ اسکالر کی پی ایچ ڈی کا زبانی امتحان ہونا تھا وہ اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ حاضر تھے۔ میں چوں کہ تقریباً75کلو میٹرکے سڑک راستے سے وہاں پہنچا تھا لہذا میں نے ان سے بیت الخلاء جانے کی خواہش ظاہر کی ۔ جواب میں ایک اسٹاف نے کہا کہ ’’سر!اردو میں اندھیرا بہت ہے، ہندی میں اجالا ہے‘‘ ۔اسٹاف کے اس جملے نے مجھے چونکایا ، میں نے کہاکہ آپ نے کیا کہا سمجھا نہیں ۔ اس وقت تک میں بیت الخلاء تک پہنچ چکا تھا ۔اس کا جواب تھاکہ مہینوں سے اس میں بلب نہیں ہے اس لیے گھُپ اندھیرا ہے !آپ کو شعبہ ہندی میں لیے چلتے ہیں وہاں روشنی ہے۔واقعی شعبۂ ہندی کا بیت الخلاء نہ صرف صاف ستھرا تھا بلکہ روشن بھی تھا اور شعبے میں صدر شعبہ کے علاوہ پانچ اساتذہ موجود تھے اور ان لوگوں نے جس خندہ پیشانی سے میرا خیر مقدم کیا وہ میرے لیے عزت افزا تھا۔میں گھنٹوں سوچتا رہا کہ شعبۂ اردونہ صرف ایک بلب کے نہ ہونے سے تاریک ہے بلکہ ہماری فکر ونظر اور عمل نے بھی اسے تاریک بنا رکھا ہے۔یہ لمحۂ فکریہ ہے اور ہم اردو والوں کو اپنے اس رویے پر بھی کبھی غوروفکر کرنی چاہیے کہ اردو کے لیے ہمارے دل میں کتنی جگہ ہے اور بالخصوص جن کی روزی روٹی اردو سے چلتی ہے ان کے لیے اردوکے لیے سنجیدہ ہونا اور عملی طورپر فعال رہنا فرض میں شامل ہے۔

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

You may also like