Home نقدوتبصرہ اُردو کی نئی بستیوں میں احساس واظہار کے منفردرنگ- حقانی القاسمی

اُردو کی نئی بستیوں میں احساس واظہار کے منفردرنگ- حقانی القاسمی

by قندیل

یکسانیت، فکری، فنی یا اظہاری سطح پر ہو۔بوریت، اکتاہٹ اورجھنجھلاہٹ کا باعث ہوتی ہے۔ ایک ہی موسم، ماحول،فضا، رنگ،آہنگ ہوتو بے کیفی سی محسوس ہوتی ہے۔ ایسی صورت حال اس کرشمہ یا کشش سے محروم ہوتی ہے جو دامن دل کو کھینچتے ہیں۔ نئی فضا، نئے افق، نئے جزیرے کی جستجو اس لیے ہوتی ہے کہ انسان تحیرواستعجاب کی کیفیت سے ہمکنار رہے اور اس کے اندر کا اضطراب اور تجسس زندہ رہے ورنہ یا تو وہ مرجائے گا یا پھر منجمد ہوجائے گا۔
یکسانیت اورMonotonyسے نجات حاصل کرنے کے لیے ہی انسان نے نئے علاقوں اور منقطوں کو دریافت کیا، نئی وادیوں کی جستجو کی۔ ادب جو انسانی فطرت کا آئینہ دار ہے وہاں بھی یہی ’ذوق جستجو‘ بلکہ سودائے جستجو اس کے پرکیف اور حسن تازہ کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔ ادب کے جمال کی دوشیزگی میں یہی عمل تجسس کارفرما ہے۔ اگر یہ عمل ٹھہرجائے تو پھر ادب بھی منجمد کائی زدہ گھاس یا پانی کی طرح کثافت زدہ ہوجائے گا۔ ہر دور میں ادب کو ایک نئی آکسیجن کی ضرورت محسوس ہوتی رہی ہے۔ ہرلحظہ نیا طور نئی برق تجلی ہی ادب کی زندگی کا ضامن ہے۔ ستاروں سے آگے کے جہاں کی جستجو ہی ادب کا مقصد ہے۔ اگر یہ مقصد فوت ہوجائے تو پھرادب ایک ’تن مردہ‘ میں تبدیل ہوجائے گا۔
ادب نئی کائناتوںکی جستجو سے عبارت ہے۔ احساس واظہار کے باب میں بھی معاملہ کچھ ایسا ہی ہے کہ جب تک کوئی نیا تخیل، تصور، اسلوب،آہنگ، سمفنی، میلوڈی نہ ہو تو احساس و اظہار کی معنویت منکشف نہیں ہوتی اور نہ ہی قاری ایسے احساس واظہار کا اسیر ہوسکتا ہے۔ قاری کے لطف وانبساط یااسیری کے لیے احساس کا انفراد اوراظہار کا تفرد ناگزیر ہے۔
یکسانیت باطن میں ہو یا خارج میں، انسان اسے زیادہ دیر تک برداشت نہیں کرسکتا۔ ایک متحرک اور حساس ذہن ایک مقام ایک منزل میں منجمد نہیں رہ سکتا۔ انجماد اس کے لیے موت ہے یا سب سے بڑی سزا اور ایسے انسان کو ہمہ وقت کسی نئے نکتہ کی تلاش رہتی ہے اورجب تک اسے کوئی ایسا نقطہ تحیر نہ مل جائے، تب تک وہ ملتہب رہتا ہے۔ ایسے انسان زیادہ تر تخلیقی عمل سے جڑے ہوتے ہیں اور شاید تخلیق بھی اسی اضطراب والتہاب کا نام ہے۔
معتبر، جینوئن تخلیق ہمیشہ نئے پانیوںمیں قدم رکھتی ہے اورتازہ سیال پانی کے لمس سے اپنے معنوی وجود کو توانا اور تابندہ کرتی ہے اور تازہ خوشبوؤں سے مشام جاں کو معطر کرتی ہے اس طرح اپنی روشنی اورخوشبو دور دور تک پھیلاتی ہے اور ایسی ہی تخلیق ماورائے زماں ومکاں ہوتی ہے۔
یہ سچ ہے کہ ہمارے عصری تخلیقی ادب کا ایک بڑا حصہ ذہنوں کو نئے نکتوں سے آشنا کرنے یاقاری کو ’دیدہ حیراں‘ عطا کرنے میں ناکام رہاہے۔ اس صورت حال کے تناظر میں دیکھا جائے تو مغرب میں آباد تارکین وطن اردو ادیبوں، تخلیق کاروں کی ایک خاصی تعداد ایسی ہے جو ہمارے ذہنوں کو نئی روشنی،نئے زاویے اور نئے نکتوں سے آشنا کرتی ہے۔ ان کی تخلیق میں تازہ ہواؤں کی خوشبو، نئے موسموں کی بشارت اور دلوں کی نئی دھڑکنیں ملتی ہیں۔ مغرب کے اجنبی ماحول اورنئے موسم نے ان کی تخلیق کا آہنگ اور ایڈیم بدلا۔ان کے تخلیقی ذہن کے لیے یہ نیا موسم نہایت زرخیز ثابت ہوا اورانھوں نے اپنی تخلیق کی ایک ’نئی رہ گزر‘ تلاش کرلی جو اپنے وطن، اپنی مٹی میں شاید بڑی مشقت کے بعد بھی نصیب نہ ہوتی۔ ایسے تخلیق کاروں کا ایک امتیازی نقطہ یہ بھی ہے کہ ان کے احساس واظہار کی کونپلیں شگفتہ وشاداب اس لیے ہیں کہ انھیں نئی ہوائیں میسر ہیں۔ ایسابھی نہیں ہے کہ مغرب میں آباد اردو کے تخلیق کاروں نے اپنی مٹی، موسم یا ماحول سے منہ موڑ لیا، ہاں یہ ضرور ہوا کہ اپنی مٹی،موسم میں مغرب کی خوشبو اورمہک بھی شامل کرلی۔ ان تخلیق کاروں کی ایک بڑی خوبی یہ بھی ہے کہ ’مشرقیت‘ کے صحت مند لمس نے ان کے اظہار واحساس میں حرارت، شدت اورحدت کے ساتھ تاثیر و تسخیر کی کیفیت بھی پیدا کردی ہے۔ اپنی تہذیبی،لسانی جڑوں سے جڑے ہونے کے باوجود ان کے طرزاحساس واظہار میں وہ صحت مند فعال، متحرک عناصر بھی شامل ہیں جو خالصتاً مغربی کلچر اور ایتھوس پر مبنی ہیں۔ اس ’فیوژن‘ نے ان کی تخلیق کو آفاقیت اور ثقافتی عالمگیریت کے تصور کو نئی تعبیر عطا کی ہے۔ متضاد اورمتخالف کلچر میں سانس لینے والے بھی ایسی تخلیق کو ’نگاہِ اعتبار‘ سے دیکھتے ہیں۔ ان تخلیق کاروں کے ہاں ’تضادات کی تطبیق‘ کا عمل سب سے زیادہ روشن ہے۔ مشرق و مغرب کے تہذیبی ،لسانی افتراق کو وصال اورتصادم کوتفاہم اور ترابط میں تبدیل کرنے کی یہی کوشش انھیں عالمی سطح پر معتبربناتی ہے۔ ان تخلیق کاروں نے مغربی لسان وتہذیب کی داخلی لہروں کے انتشار کوسمجھا ہے اور اس کے ارتباط سے بھی آگاہ ہیں۔ ان کی تخلیق میں دومتضاد تہذیبی لہروں کا Interplayصاف طور پر نظرآتاہے۔ کس طرح دولہریں ایک دوسرے میں مدغم ہوکر ایک سمت میں رواں ہوتی ہیں،اس کا پتہ بھی نہیں چل پاتا۔ ان کی تخلیق میں Harmonyکاایک مثبت اور توانا عنصر ہے۔گلوبلائزیشن اورcybernetic communicationکے اس عہد میں ایسی ہی فکری، اظہاری وسعت کی ضرورت ہے جس کی تمنا غالب ؔنے کبھی یوں کی تھی:
کچھ اور چاہیے وسعت میرے بیاں کے لیے
مغرب میں آباد اردو کے تخلیق کاروں کو یہی ’وسعت بیان‘ میسر ہے جس کی وجہ سے ان کا تخلیقی ادب زرخیز اور ثروت مند ہے اور اردو کی عمومی Ghetto mentalityسے الگ ۔افسانیات کا باب ہو یا شعریات کا، ان کے ہاں محیط الارضی آفاقی حسیت نمایاں ہے۔ شاید اردو کی نئی بستیوں میں مقیم تخلیق کاروں کے اسی تخلیقی تلاطم نے تنقید نگاروں کی توجہ مبذول کرائی ہے اور انھیں ان ’تخلیقی لہروں‘ کے اسرار کے اکتشاف پرمجبور کیاہے۔ یہ ’تخلیقی لہریں‘ گم بھی ہوسکتی تھیں مگرمخزن برطانیہ نے ان ’لہروں‘ کو گمشدگی کے غار سے بچالیا اورجب یہی لہریں ہمارے دل کی زمیں سے ٹکرائیں توہمیں ان لہروں کی قوت تازگی اور توانائی کا احساس ہوا۔
مخزن برطانیہ (مدیر:مقصودالٰہی شیخ) نے ان لہروں کونہ صرف نئی سمت عطا کی بلکہ انھیں اوربھی تحرک بخشا۔ اس طرح مخزن کے وسیلے سے مغربی ممالک میں آباد اردو کے ادیبوں کی تخلیقی حرکیات اور نفسی کیفیات سے ہمیں آگہی ہوئی۔ مخزنؔ نے ہی ان تخلیقی جواہرات کے امتیازات اور تفردات کو روشن کیا۔ مخزن کی وجہ سے ہی ان تخلیقی لہروں کوشناخت کی منزل ملی اوران کی تفہیم وتعبیر کے ساتھ تعیین قدر کا معاملہ بھی سامنے آیا۔ مخزن کا مقصد شاید اصرف شناخت عطا کرنا ہی نہیں بلکہ اپنی تہذیبی ولسانی جڑوں کی طرف مراجعت کے جذبہ کو بیدار کرنا بھی ہے۔ ڈاکٹر منیرالدین احمد (جرمنی) نے اپنے مکتوب میں بہت لطیف اشارہ کیاہے کہ :
’’وہ (مقصودالٰہی شیخ) چاہتے ہیں کہ مغربی دنیا میں رہنے والے اردو دانوں کو جن کی اگلی نسل اردو کی طرف پیٹھ پھیرتی نظرآتی ہے ان کی ماں بولی کی طرف متوجہ کیاجائے۔اگر ماںباپ اپنے وطن کی زبان سے بے اعتنائی برتیں توپھربچے کیسے اس زبان کو اہمیت دیں گے۔ میرے سامنے جرمن آباد کاروں کی مثال ہے جو سات صدیاں قبل روس میں جاکر آباد ہوگئے تھے۔ ان کے یہاں آج بھی جرمن زبان بولی جاتی ہے۔ میں نے اس کی دوسری مثال جنوبی امریکہ کے ملک چلی میں دیکھی جہاں پرجرمن آبادکار سترھویں اوراٹھارھویں صدی میں جانے لگے تھے جب میں وہاں گیاتو یہ دیکھ کر حیران ہوا کہ ہسپانوی کے پہلو بہ پہلو جرمن بولی جاتی ہے اور اس بات پر وہ لوگ بے حد فخر مند ہیں۔‘‘
مخزن نے اسی روایت کا احیا کیا ہے اور اس جذبہ وجنوں کو زندہ رکھا ہے جو کسی بھی فرد کا اپنی مادری زبان کے ساتھ جڑا ہوتاہے۔ مخزن کے شماروںمیں جو تخلیقات شائع ہوئی ہیں، وہ اس جذبہ وجنوں کی زندہ تعبیریں ہیں۔ اور ان تخلیقات میںمہجوری کا جو کرب پنہاںہے اس سے اندازہ ہوتاہے کہ اپنے ثقافتی اور لسانی اقدار کے تئیں ان کا شغف کتنا گہرا ہے۔ وہ اپنی زمیں اور زبان سے دوری کے باوجود مربوط ہیں اورچاہتے ہیں کہ یہ ربط اور رشتہ نہ صرف بحال رہے بلکہ ان کی آنے والی نسلیں بھی اس سے جڑی رہیں۔
مخزن میں شائع ہونے والے مہاجر یا تارکین وطن تخلیق کاروں میں درباب افسانہ نعیمہ ضیاء الدین (جرمنی)، ڈاکٹر عمران مشتاق (یوکے)، قیصرتمکین(یوکے)، صفیہ صدیقی(یوکے)، رضاء الجبار(کنیڈا)، جتیندریلو(لندن)، بانوارشد(لندن)، آغامحمدسعید(لندن)، جمشیدمرزا، پروین لاشاری،افتخار نسیم، سائیں سچا، آصفہ نشاط، محسنہ جیلانی، نجمہ عثمان وغیرہ شامل ہیں اور شاعری کے ذیل میں احمدفقیہ،حسن شکیل مظہری، خالدیوسف ، سوہن راہی، طلعت اشارت، طلعت سلیم، حسن عباس رضا، باصرکاظمی، اکبر حیدرآبادی، ترغیب بلند، منور احمد کنڈے وغیرہ کے نام شامل ہیں۔ان میں بیشتر وہ ہیں جو برصغیر کے مقتدر مجلات و رسائل میں تواتر وتسلسل کے ساتھ شائع ہوتے ہیں اور اپنے منفرد اورمختلف تخلیقی آہنگ و اسلوب سے قاری کو چونکاتے ہیں اور انھیں خاطرخواہ پذیرائی بھی ملتی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ان کی پذیرائی صرف اس لیے ہوتی ہے کہ یہ دیارِغیر میں اردو زبان وتہذیب کاچراغ روشن کیے ہوئے ہیں بلکہ اس لیے ہے کہ ان کی تخلیق خودان کے انفراد کی گواہی دیتی ہے۔ تخلیق کی تعیین قدر کا خواہ کوئی بھی پیمانہ مقرر کیاجائے،ان کی تخلیق کو جینوئن ادب سے خارج نہیں کیاجاسکتاکہ ان کی تخلیق میں نئے احساس کا فسوں ہے اورنئے اظہار کا طلسم بھی۔ ان کے مشاہدات کی دنیا بھی وسیع ہے اورتجربوں کی کائنات بھی بسیط۔ ان کے پاس اسالیب کے نئے پیرہن بھی ہیں اور نادیدہ خیال کی خوشبو بھی۔ ان کی تخلیق میں تہذیبی جڑوں کے تحفظ اوراپنے تہذیبی وثقافتی شعور کی توسیع کا عمل بھی روشن ہے۔ اس طرح ان کا تخلیقی تجربہ بھی مختلف ہے اور تصوربھی۔ انھوںنے ان دیواروں کوبھی منہدم کیاہے جوتہذیب ولسان کے نام پر کھڑی کی گئی ہیں۔ان کی تخلیق ایک نئی سمفنی اورنئی میلوڈی سے عبارت ہے۔ اس تخلیق میں مشرق کا نقش بھی ہے اور مغرب کا عکس بھی۔ یہی وجہ ہے کہ تہذیبی تصادم کی تفہیم کے لیے یہی تخلیقات سب سے موثر ترین وسیلہ ہیں کہ ان میں تعصب کی وہ عینک نہیںہے جو مغرب سے دور اورنابلد ہوکر بھی ہماری آنکھوں پر لگی ہوئی ہے۔ وہاں کے تخلیق کاروں نے براہِ راست مغربی کلچر کا مشاہدہ کیا ہے اور اس سے مکالمہ بھی اس لیے ہمارے لیے ایسی تخلیقات زیادہ معتبر حوالہ بن سکتی ہیں۔اوراسے معتبر حوالہ بنانے کی سعی مشکور مخزن نے کی ہے۔میں نے یہاں اپنے مطالعہ کو ان ہی تخلیقات پرمرکوز رکھا ہے جو مخزن برطانیہ میں شائع ہوئیں اور جن سے یہ احساس ہوا کہ ان تخلیق کاروں کا اپناوژن ہے اور ملٹی کلچرل تناظر بھی۔ ان کے وژن میں مشاہداتی ادراک اور مطالعاتی منہج کا بھی عمل دخل ہے۔ان کے زاویہ نظر کی اپنی ایک داخلی منطق، ترتیب وتسلسل بھی ہے۔
مغرب میں آباد ایسے تخلیق کاروںمیں نجمہ عثمان بھی ہیں جنھوںنے شیکسپیئر، برناڈشا، ایملی ژولا، ورجینیا وولف اور اگاتھا کرسٹی کے مطالعہ سے اپنے ذہنی وتخلیقی افق کو وسعت عطا کی اور اظہاری دائرے کوندرتوں سے ہمکنار کیا۔نجمہ عثمان شاعرہ بھی ہیں اور کہانی کاربھی۔ان کا پہلا شعری مجموعہ ’شاخِ حنا‘ ہے اور دوسرا مجموعہ ’کڑے موسموں کی زد پر‘ مختلف اصناف سے ان کا تخلیقی رشتہ ہے اوراسی ہمہ جہتی نے ان کی فکر اورفن کو اعتبار عطا کیا ہے۔ ان کی طرزِفکر اورطرزِاحساس سے آگہی کے لیے جہاں ان کی بہت سی کہانیاں معاون ہو سکتی ہیں وہیں ان کے زاویہ فکر اور اندازِنظر کی تفہیم کا ایک مستحکم حوالہ ان کی کہانی ’سنگ گراں‘ ہے جو مخزن برطانیہ-۴میں شائع ہوئی ہے۔
کہانی،ان کے ذہن وضمیر کی شفافیت کے ساتھ ساتھ اقدار کی غیرمشروطیت کوبھی نمایاں کرتی ہے۔ مغربی ومشرقی قدروں کے مابین تصادم سے عبارت اس کہانی میںمعروضیت (objectivity)کی لہرموجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کہانی کے باطن میں موجزن ایک ’نئی ذہنی رو‘ نظرآتی ہے جو شاید زیادہ مبنی برحقیقت ہے اورجس کا مسلمات یامفروضات سے کوئی رشتہ نہیں ہے بلکہ آنکھوں دیکھی حقیقت پرمبنی ہے اوریہ یوں بھی ضروری ہے کہ سماج میں بہت سے موہوم اورمبنی برغلط تصورات جگہ پاگئے ہیں اورکسی بھی چیز کے بارے میں معروضیت کے بجائے جذباتیت اورادعائیت والا رویہ حاوی ہے۔ اس کہانی سے ’ثناخوان تقدیس مشرق‘ کوکئی سطح پر ذہنی اور جذباتی جھٹکے لگ سکتے ہیںکیونکہ یہاں معاملہ جو ہے وہ نہیں ہے اورجو نہیں ہے وہ ہے والا معاملہ ہے۔ بات یہ ہے کہ ہرچیز کو ایک طے شدہ تعصب سے دیکھنے کی روش عام ہے اوربغیر کسی تفتیش اور تحقیق کے اپنے ذہن میں مفروضوں کا گھروندا تیار کرنے کا طریقہ بھی عام ہے۔ اسی ذہنیت کی وجہ سے حقیقتیں مفروضوں میں بدل جاتی ہیں اور مفروضات حقائق میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ کسی بھی تہذیب یا معاشرہ کے بارے میں پہلے سے یہ طے کرلینا کہ وہ اچھا ہے یا برا ہے۔ اساسی طورپر ایک غلط ذہنی رویہ ہے۔ نجمہ عثمان کی یہ کہانی ’’سنگ گراں‘‘ اسی ’ذہنی روش‘ پرکاری ضرب لگاتی ہوئی سماج کے اس چہرہ کو دکھاتی ہے، جو آنکھوں سے اوجھل ہے۔ ایک سماج ظاہری طورپر خواہ کتنا ہی بہترنظرآئے،اگر اس کا ’باطن‘ برا ہے تو پھر وہ سماج قابل لعنت وملامت ہے۔
اس کہانی کی کردار ’سیما‘ ایک حقیقت پسندانہ ذہن رکھتی ہے جبکہ زبیدہ کریم ’مذہبی رومانیت‘ میں کھوئی رہتی ہیں اور ’مشرقیت‘ ہی ان کے لیے نجات دیدہ ودل ہے۔ مگر آخر میں ان کی مذہبی رومانیت اور مشرقیت کی شکست ہوتی ہے اور احساس ہوتاہے کہ مذہبی دعائیں بھی اپنا اثرکھوبیٹھتی ہیں۔ اب محض یہ ایسے الفاظ ہیں جو اپنے معانی کھوچکے ہیں۔ اورلفظ جب اپنی ’روح‘ کھودیتے ہیں توپھر وہ منجمد پتھر بن جاتے ہیں۔ یہاں بھی معاملہ دعاؤں کی بے اثری کا ہے۔ وہ دعائیں جو مشرقی اقدار سے مزین ایک مذہبی عورت اٹھتے بیٹھتے مانگتی رہتی ہے۔ کہانی سے سوال اٹھتا ہے کہ کیا یہ درس اوردعائیں، حقیقت سے راہ فرار اختیار کرنے کی ترکیبیں ہیں۔ یا جو ذہن حقائق کا سامنا نہیں کرناچاہتے، ان کے لیے مذہبی دعائیں ’پناہ گاہ‘ بن جاتی ہیں۔
اس کہانی میں ایک رجعت پسندانہ اورایک حقیقت پسندانہ تصور کے مابین ٹکراؤ کی کیفیت کہانی کی کئی باطنی سطحوںکو منکشف کرتی ہے۔ ماں جوکردار ہے وہ رجعت پسند ہے اور بیٹی جو کردار ہے وہ حقیقت پسند ہے۔ ان دونوں کرداروں کی ذہنی ساخت اور رویے کوسمجھنے کے لیے یہ ڈائیلاگ معاون ہوسکتے ہیں:
(الف) ان لوگوں سے دور رہو۔ یہ مغربی معاشرے کی آزاد تتلیاں ہیں تم مسلمان لڑکی ہو، ہماری تہذیب ان سے مختلف ہے۔
(ب) ہر معاشرے میں اچھی اور بری باتیں ہوتی ہیں۔ ان سے اچھی باتیں بھی توسیکھی جاسکتی ہیں۔ اورہمارا کلچر کون سا عیب سے پاک ہے۔
(الف) پروردگار اس کڑی آزمائش سے گزرنے کا حوصلہ دے۔
(ب) عامر اندر سے کتنا گہرا ہے آپ سوچ بھی نہیں سکتیں۔ مذہب کی آڑ لے کر اسلام کو بدنام کرنے والے ایسے لوگ دنیا کے ہرحصے میں موجود ہیں اورہماری سوسائٹی کوکھوکھلا کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ میں ہیلن کوجانتی ہوں عامرنے اس سے رومانس لڑایا اور جب وہ حاملہ ہوگئی تویہ کہہ کر جان چھڑانا چاہی کہ نہ جانے کس کا بچہ ہے۔آپ انگریز قوم کوجتنا بھی برا بھلا کہیں ان میں ایک خوبی ہے کہ جھوٹ اوردوغلے پن سے دور رہتے ہیں۔خاص طور پر جہاں بچوں اورفیملی کی بات آجائے۔
(الف) کیاسوچا تھا اورکیا ہوگیا؟
(ب) آپ معاشرے سے ڈرتی ہیں۔ عامر میں سچ کہنے کی ہمت نہیں۔ اپناٹیسٹ کرانے کا وہ سوچ بھی نہیں سکتا۔ ماں کے کہنے پر شادی کرلی۔ یہ سوچ کر کہ بہت سی لڑکیوں کے بچے نہیں ہوتے۔ بات خوبصورتی سے ڈھکی رہے گی۔ سارا الزام لڑکی پر آئے گا۔ مسٹرکریم جیسے شرفا سب کچھ سہہ جاتے ہیںاورمیں۔۔۔ سیماکریم آپ کی اس دوغلی سوسائٹی کی زد پر آگئی۔ میرا کیاقصور تھا امی؟ برطانیہ کے ترقی یافتہ ماحول میں پلی بڑھی لڑکی اپنے حقوق کے لیے نہیں لڑسکتی صرف اس لیے کہ شرافت اور نیک نامی کے لباس پر چھینٹے آجائیں گے۔ مسٹرکریم پرلوگوں کوانگلیاں اٹھانے کا موقع مل جائے گا۔ زبیدہ کریم کے درسی حلقے میں ان کی عزت گھٹ جائے گی۔
(الف) پروردگار اس دیارغیر میں ہمارے بچوں کوسیدھے راستے پر چلا۔ بچوں کو نیک برعطافرما۔ ہرآزمائش سے گزرنے کا حوصلے دے۔ میرے مولا۔ صبردے،توہم سب کو صبردے۔۔۔ تو مجھے صبردے!
(ب) میری وہ سہیلیاںجن کی صحبت سے آپ مجھے بچاتی تھیں وہ کم ازکم سچ سہنے اوربولنے کا حوصلہ تورکھتی ہیں اورحقائق کا سامنا کرتی ہیں۔اوریہ بات میں نے ان سے ہی سیکھی ہے—— شادی شدہ ہوتے ہوئے بھی ان میریڈ مدر کی طرح زندگی گزاروں گی۔
’’الف ‘‘کی سوچ میں رجعت پسندی اور مفعولیت ہے جبکہ ’’ب ‘‘کی سوچ میںحقیقت پسندی اور فاعلیت ہے۔ کہانی میں دونوں کے فکری تضادات کی تصویریں نمایاں ہیں اور اس فکری تناؤ کی وجہ سے کہانی بہت بامعنی، معنویت سے معمور اور پراثر ہوگئی ہے۔کہانی کار نے کہیں بھی اپنی فکرکے زاویے کو نہیں پیش کیاہے بلکہ دونوں کرداروں کے تناؤ سے وہ سارے تناظرات روشن کردیے ہیں جو مشرق اورمغرب سے متعلق ہیں اور اس کہانی میں مغربی تناظر زیادہ پاورفل، بامعنی نظرآتاہے جبکہ مشرقی تناظر پرمنفیت حاوی ہے۔ مشرق نمائشی مذہب پسندی کی علامت کے طورپر سامنے ہے جبکہ مغرب ایک حقیقت پسندمعاشرہ کی صورت میں ہے۔ سیماؔ کا حجاب میں رہتے ہوئے اپنے حقوق کے لیے لڑنے کی بات کرنا دراصل مغربی معاشرہ سے لمس کا مرہون منت ہے۔ جہاں لوگ فراریت پسندی کے بجائے چیلنج کا سامناکرنے کی قوت رکھتے ہیں۔ موضوعی اعتبار سے یہ کہانی مشرقی اور مغربی معاشرہ کے تضادات کوپیش کرتی ہے اوراس طورپر مغربی معاشرہ کی ایک مثبت تصویرتعبیر اور تفہیم سامنے آتی ہے جبکہ مشرقی معاشرہ کی ایک منفی تصویر ابھرتی ہے۔ یہ کہانی اپنے مقصد کے اعتبار سے بھی کامیاب ہے کہ بہت سے تصورات صرف سماج کے زائیدہ ہوتے ہیں۔ ا ن کی کوئی حقیقی بنیادنہیں ہوتی۔ کہانی ایک غیرمشروط ذہن کے ساتھ لکھی گئی ہے اس لیے کامیاب ہے۔ جہاں تک زبان وبیان کا تعلق ہے تویہ کہانی روایتی سانچے میں نہیں لکھی گئی ہے۔ کسی بھی سطح پر کہانی میں نہ ژولیدہ بیانی ہے اورنہ ہی ابہام۔ کہانی کا ایک ایک لفظ بین السطور میں مخفی مفاہیم اور مقاصد کوروشن کرنا نظرآتاہے۔
مشرقی ذہن اور ضمیر کو جھنجھوڑ دینے والی اس کہانی میں مشرق کے لیے ایک بہت بڑا پیغام بھی ہے کہ جھوٹے وقار اور شان وعزت کی خاطر چپ رہنا اورظلم سہنا بھی گویا ظلم کو جواز عطا کرنا ہے اور مشرق اسی مرض میں صدیوں سے مبتلا ہے۔
اسی طرز فکرکی ترسیل عطیہ خاں کی کہانی ’’یہ رشتے‘’ (مطبوعہ مخزن برطانیہ-۶) میںنظرآتی ہے۔ اس کہانی میں مشرقی اورمغربی قدروں کے مابین کشمکش اورتناؤ کا بیان ہے جس سے مشرق کی مجہولیت، مفعولیت روشن ہوتی ہے۔ جہاں’اقدار‘ کے نام پر ’آزادی‘ سلب کرنے کی روش کو تہذیب وشرافت کانام دیا جاتا ہے۔ جہاں اپنی آزادی اورخودمختاری کا کوئی مفہوم ہی نہیں ہے۔ جہاں انسانی جذبات واحساسات کا کوئی احترام نہیں، خاص طورپر لڑکیوں کی ’آزادی‘ کا توکوئی خانہ ہی نہیں ہے۔ اس کہانی کا کردار نزہت نامی ایک لڑکی ہے جو بہت سیدھی،خوش مزاج اور فرماں بردار ہے۔ کہانی کارنے اس کردار کو جس طرح پیش کیاہے اس سے محسوس ہوتاہے کہ وہ مغربی تہذیب کے جراثیم سے محفوظ رہنے کے لیے بہت سارے جتن کرتی ہے۔ کہانی کار کے بقول:
(الف) ’’نزہت کو یونیورسٹی میں لڑکیوں کی لڑکوں کے ساتھ حد سے زیادہ بڑھی ہوئی بے تکلفی سخت ناپسند تھی کہ کسی بھی لڑکے کے ساتھ پب گئیں اور پھررات اسی لڑکے کے ساتھ گزاردی۔ لڑکوں کی پیش قدمی سے بچنے کے لیے اس نے مذہب کا سہارا لیاتھا۔ یوں تواپنے والدین کی طرح نماز روزے کی پابندوہ پہلے سے تھی۔ حجاب پہن کر اس نے مغربی تہذیب کی جنسی آزادیوں سے خودکو محفوظ کرلیاتھا۔‘‘
(ب) ’’اس کے نزدیک خاندان کی بڑی اہمیت تھی۔ مغربی معاشرہ میں جولڑکیاں آزادی کے غلط تصور سے مدہوش ہوکر خاندانی زندگی کو ٹھکراکر نکل پڑتی ہیں۔ کم سن مائیں بن جاتی ہیں اور یہ غیرشادی شدہ کمسن مائیں کونسل کے فلیٹوں میں تنہا رہ کر اپنے بچوں کومناسب تعلیم وتربیت بھی نہیں دے پاتیں۔ نزہت کومغربی تہذیب کی اس طرح کی آزادی سخت ناپسندتھی۔‘‘
مشرقی تہذیب کے سانچے میں ڈھلی ہوئی اورمغربی کلچر سے متنفر نزہت آخرکیوں بدل جاتی ہے۔ اورعین نکاح کے وقت شادی سے انکار کربیٹھتی ہے۔ اوریہ محسوس کرتی ہے کہ وہ مغربی ماحول کی پروردہ ایک آزاد وخودمختار انسان ہے اوروہ زنجیر جواسے زبردستی پہنائی جارہی تھی اسے توڑکر وہ آزاد ہوگئی ہے۔
تقلیب ماہیئت کایہ کرشمہ کیسے ہوا؟ یہ سوال ذہن میں اٹھتا ہے اور کہانی میں ہی اس پرشن کا اُتّر بھی ہے۔ نزہت یقینی طور پر مشرقی تہذیب میں پلی بڑھی اور اس کے لاشعورمیں یہ بات بٹھادی گئی کہ مغربی تہذیب میں صرف برائیاں ہوتی ہیں اور مشرقی تہذیب میں اچھائیاں، مگر جب اس کا مطالعہ ومشاہدہ بڑھا اوربرطانیہ کی فضا سے غیرشعوری طورپر متاثرہوئی تواس کے سامنے مشرق اورمغرب دونوں کی آزادی کا مفہوم روشن ہوگیا۔ وہ گوکہ مغرب کی آزادی سے متنفر تھی مگر انسان کی آزادی اورخودمختاری سے متنفرنہیں تھی۔ اسے احساس ہوا کہ مشرقی روایت اورتہذیب میں انسانی آزادی یاخودمختاری کا کوئی معنی نہیں ہے۔اس طرح مشرق ومغرب دونوں کے تصورات کونزہت نے پرکھا اور محسوس کیا کہ مشرقی روایت ایک طرح سے انسان کی آزادی کو سلب کرلیتی ہے۔اسے اتنا بھی حق نہیں دیتی کہ وہ اپنی زندگی کا خودفیصلہ کرسکے جبکہ مغرب نے اتنی آزادی دے دی ہے کہ اس کی نہ حد ہے اور نہ کوئی سمت ۔اسی لیے نزہت عین ایجاب وقبول کے وقت شادی سے انکار کردیتی ہے کہ روایت کی پاس داری کا یہ مطلب قطعی نہیں ہے کہ انسان کی آزادی اور خودمختاری چھین لی جائے۔
مشرق کی روایت پسندی اورمغرب کی آزادی دونوں ہی صحت مند معاشرہ کے لیے نقصان دہ ہیں۔ کہانی سے ایسا ہی احساس ہوتاہے۔ کہانی کے بین السطور سے واضح ہے کہ مغرب ہو یا مشرق دونوں کو اپنے معاشرتی رویے میں تبدیلی لانی چاہیے۔ روایت، تہذیب،حیا اورحجاب کے نام پر عورتوں کوان کے حقوق سے محروم نہیں رکھا جاسکتا۔
عطیہ خاں نے ایک نہایت ہی اہم مسئلہ پر کہانی لکھی ہے اور مشرقی ومغربی احساس کے مابین تصادم کی اچھی تصویر کشی کی ہے۔ یہاں بھی دونوں تناظرات اپنی حقیقی شکل میں موجود ہیں۔ کہانی کارنے کسی بھی تناظر کو مسخ کرنے کی کوشش نہیںکی ہے اور نہ ہی کسی طرح کی بے جا وکالت کی ہے۔ عطیہ خاں نے دونوں تناظرات کی تفہیم کے بعدہی کوئی منطقی نتیجہ اخذ کیاہے اور یہی منطقیت کہانی کو موثربناتی ہے۔
عطیہ خاں کی اس کہانی میں بھی ایک حقیقت پسندانہ تناظر ہے۔ عطیہ ایک مشہورافسانہ نگار ہیں جن کا افسانوی مجموعہ ’’تجربات وحوادث‘‘ کے عنوان سے شائع ہوچکا ہے۔ عطیہ خاں مغرب میں آباد پرانی اورنئی نسل کی نفسیات اوران کی ذہنی پیچیدگیوں سے بھی آگاہ ہیں۔ ان کی کہانیوں میں مشرقی ومغربی طرز احساس کی لہریں موجزن ہیں۔ وہ نہ مغرب کے مزاحم کردار اور نہ ہی مشرق کے دفاع کارکی حیثیت سے سامنے آتی ہیں بلکہ تجربات وحوادث کی بنیادپر کہانی کے تانے بانے بنتی ہیں۔
مغرب ومشرق کے تہذیبی، ثقافتی، فکری تناظرات کی تفہیم میں صفیہ صدیقی کی کہانیاں بھی رہنمائی کرتی ہیں۔ صفیہ اپنی تہذیبی جڑوں سے جدا نہیں ہیں۔ انھیں اپنی مٹی سے محبت ہے اور مغرب میں آباد ایشیائی تارکین وطن کے درد وکرب سے آگاہ ہیں اورانھیں یہ بھی احساس ہے کہ مشرقی عورت دو دنیاؤں میں گرفتار ہے۔ ان کی ایک الگ طور وطرز کی کہانی ہے، ایک طوفانی شام (مطبوعہ مخزن برطانیہ-۴) جس میں انھوںنے مغرب میں آزاد جنسی تعلقات اورغیرازدواجی رفاقت کے گمبھیر مسئلہ کونہایت فنکاری کے ساتھ پیش کیا ہے۔ اورمغرب کی اس آزادروی سے متاثرمشرقیوں کے سماجی شعور کی تبدیلی کے المیہ کو اجاگرکیا ہے۔ اس کہانی میں اپنی تہذیبی اور نسلی شناخت کی گمشدگی کا کرب بھی نمایاں ہے اور مغرب کی مادیت پرست صارفی ذہنیت پر طنز بھی ہے۔
جنید اور سالم کھان اس کہانی کے دوکردار ہیں جو اپنی متوازی سوچ کے ساتھ کہانی میں موجود ہیں۔ جنید مشرقی تہذیب وروایت کا پاسدار ہے جبکہ سالیم کھان مشرقی ہوتے ہوئے اپنی تہذیبی شناخت اورسماجی اقدار سے واقف نہیں ہے۔ وہ مغربی رنگ میں مکمل طورپر ڈوبا ہوا ہے۔ اس لیے وہ گرل فرینڈ کے ساتھ بغیر شادی کیے ہوئے زندگی گزارتا ہے، کہانی کے متن میں دونوں کرداروں کی سوچ کی متوازی لہریں یوںنمایاں ہوتی ہیں:
(الف) نہیں میں اپنی گرل فرینڈ کے ساتھ چارسال سے رہ رہا ہوں مگرہم نے شادی کی ضرورت نہیں محسوس کی۔ ایک کاغذ کے ٹکڑے میں کیا رکھا ہے؟
(ب) ہم جب دوپاؤنڈ کی کوئی چیز خریدتے ہیں تواس کی گارنٹی مانتے ہیں اورجب اتنا بڑا ایموشنل انوسٹمنٹ ہوتو کوئی گارنٹی نہیں۔ گارنٹی توکسی رلیشن شپ کی نہیں ہوتی مگراتنی لاتعلقی کہ کاغذ کا ٹکڑا کہہ کر شادی کے اگریمنٹ کورد کردینا۔ پھر یہ کہ میں اس رلیشن شپ کوبہت اہم سمجھتاہوں کیونکہ اس میں بچے بھی شریک ہوتے ہیں اور پارٹنر چینج کرتے رہنے میں بچے بہت خوار ہوتے ہیں اور اس سولائزدنیا میں بچوں کی جوبربادی ہوتی ہے وہ کسی غریب اورجاہل ملک میں نہیں ہوتی پوری نسل کی نسل تباہ ہوجاتی ہے۔
(الف) میری دوسال کی بیٹی ہے مگریہ پوائنٹ مجھے معلوم نہیں تھا۔ سیلی تومجھ سے کہتی تھی۔ میں ہی تیارنہیں ہوا۔ ڈیڈی بھی کہتے تھے کہ شادی کرلوگے تو ہرچیز میں سے آدھالے لے گی۔ شادی کی جھنجھٹ ہی میں نہ پڑو۔
(ب) جناب اب قانون بن گیا ہے کہ اگرآپ دونوں ساتھ رہتے ہیں توگھرمیں اس کا بھی حصہ ہے کیونکہ گھر تو عورت سے ہی بنتا ہے خواہ شادی شدہ ہوں یا نہ ہوں۔
الف کی سوچ پرمغربیت حاوی ہے جبکہ ب کی سوچ مکمل طورپر مشرقی ہے۔ کہانی کارنے مشرقی فکر کومتوازن اورمنطقی ثابت کرتے ہوئے الف کی سوچ کی تبدیلی کو بھی بیان کیا ہے۔
’’سیلی کہتی ہے کہ ہم لوگ کیوں نہ کنورٹ ہوجائیں، پھر مسلم میرج کریں۔‘‘ کہانی اپنے پیغام کی ترسیل میں کامیاب ہے۔ مشرق کو فتح اورمغرب کوشکست ملتی ہے اور معاملہ کچھ یوں ہوتا ہے کہ سیلی کی ماں جو اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ رہتی ہے، وہ بھی شادی کرنے پر رضامند ہوجاتی ہے۔مگر آگے کیا ہوتاہے۔ وہ کہانی کے کلائمکس میں ہے کہ ’’سیلی کی ماں کویہ یادہی نہیں کہ اس کاباپ کون تھا۔‘‘
اس ایک جملہ میں مغرب کی جنسی آزاد روی پر کتنا گہرا طنز ہے اور اس بات پر ملال بھی کہ مغرب کی کوئی تہذیبی شناخت ہے اورنہ ہی نسلی شناخت، اسی لیے مغرب میں خاندانی نظام بکھراؤ یا انتشار کا شکار ہے، کم ازکم مشرق کے پاس اپنا نسلی شناخت نامہ تو ہے۔اس کہانی میں مغرب کے آزادی نسواں کے تصور پربھی کاری ضرب ہے کہ مغرب نے عورتوں سے جنسی معروض کے علاوہ ان سے تمام شناخت چھین لی ہے اور عورت کے جذباتی اور اقتصادی استحصال کے لیے شادی کے متبادل تلاش کرلیے ہیں۔ کیا یہ عورت کی آزادی کا احترام ہے یا آزادی کے نام پر اقتصادی استحصال—— کہانی کارنے یہ پیغام بھی دیا ہے کہ عورت ایک باوقار وجود کا نام ہے، صرف جنسی معروض نہیں۔ اور تہذیبی جڑوں سے کٹ کر کوئی بھی عورت اپنی مکمل شناخت کے ساتھ زندہ نہیں رہ سکتی۔
صفیہ صدیقی نے کہانی بہت ہی پراثرانداز میں لکھی ہے۔ اور یہ کہانی کئی سطحوں پراحساس کو مرتعش کرتی ہے۔ صفیہ کے اسلوب میں بڑی توانائی اورطاقت ہے اور انھیں اپنی بات کہنے کا صرف ہنرنہیںآتابلکہ کنونس کرنے کا طریقہ بھی معلوم ہے۔
صفیہ صدیقی کے وژن میں وسعت اور اظہار میں تازگی اور جدت ہے اور اس کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہے کہ انھوں نے اپنے مطالعاتی دائرہ کوصرف اردو تک محدود نہیں رکھا ہے بلکہ انھوں نے جین آسٹن، ہارڈی، چارلس ڈکنز، وکٹوریا ہالٹ، اسٹائن بک، گبرائیل گارسیا مارکیز جیسے عالمی تخلیق کاروں کو پڑھا ہے اوراپنے باطن میں جذب بھی کیاہے۔ ان کے تین افسانوی مجموعے شائع ہوچکے ہیں اور ایک ناول بھی ’دشت غربت میں‘ کے عنوان سے شائع ہوچکا ہے۔ وہ فکشن کی معاصر لہروں سے آگاہ ہیں اور ادب کی آتی جاتی لہروں پربھی ان کی نگاہ ہے۔
آصفہ نشاط بھی ان تخلیق کاروں میں سے ہیں جنھوںنے تارکین وطن کے مسائل اور مشکلات کو اچھی طرح سمجھا ہے اور مشرق و مغرب دونوں کے تہذیبی، معاشرتی تناظرات سے بھی آگاہ ہیں۔ان کے مشاہدات و تجربات کی دنیا بھی وسیع ہے۔ فکشن اورشاعری دونوں سے ربط ہے۔
’بھابھی کی لیبارٹری‘ان کی ایک ایسی کہانی ہے جس میں اپنے تہذیبی تشخص اورنسلی شناخت کی گمشدگی کا کرب نمایاں ہے۔ اس کہانی کا کردار جب امریکہ پہنچتا ہے تو وہ محض ایک ’عدد‘ یا ایک مشین میں تبدیل ہوجاتاہے۔ مادیت اور دولت کی اندھی ہوس انسان سے اس کا سارا تشخص ہی چھین لیتی ہے۔ انسان صرف اپنی ذات میں محدود یا ملازمت میں مقید ہوکر رہ جاتاہے۔ آصفہ نشاط کی یہ کہانی اس کرب کا خوب صورت اظہاریہ ہے۔ کہانی کے کردار کو بھی اس بات کا احساس ہے کہ وہ اپنی تہذیبی جڑوں سے کٹ گیا ہے اوراپنے شجر سے بچھڑ گیاہے۔ اب اس کی کوئی تہذیبی، یا نسلی شناخت نہیں ہے،اس کی پہچان صرف ایئرکنڈیشنڈ گھر،انٹرکام سسٹم، موبائل فون اور موبل ہوم ہے۔ کہانی کا کردار افسردہ ہے اسے احساس ہے کہ:
’’موبل ہوم میں وہ خوشی کہاں تھی جوآنگن میں کھیلتے بچوں کی کلکاریوں سے ملتی۔ میرے اندر کوئی چیخ رہا تھا کہ میں کیکٹس ہوں، بے پتے، بے شاخ کا پھل، لاولد ہوں، میں نے اپنی رگیں کیوں کاٹ دیں کیوں ختم کی میں نے اپنی نسل۔اگر میں نے اپنی تہذیب کا خاتمہ کرہی دیاتھا تو میں نے اپنے آپ کو بانجھ کیوں کرلیا۔ کیا کھویاکیاپایا۔‘‘
یہ مغرب میں آباد تارکین وطن کا مجموعی المیہ ہے جو دولت کی چکاچوندھ میں ہر چیز فراموش کردیتے ہیں اور اس طرح ان کا پورا وجود بانجھ ہوجاتاہے۔
کہانی میں ایک پیغام مخفی ہے اوراس پیغام کی ترسیل میں آصفہ نشاط کا اظہار اسلوب کامیاب ہے۔ تہذیبی تشخص کے تئیں بیداری اوراپنی تہذیبی جڑوں کا تحفظ ہی اس کہانی کا بنیادی مقصد ہے۔ کہانی میں مغرب پرطنز نہیں ہے بلکہ مغرب میں آباد ان افراد پر طنز ہے جو اپنی تاریخ،تہذیب اور تشخص کوبھلابیٹھے ہیں۔
آصفہ نشاط نے اس نوع کی اوربھی کہانیاں لکھی ہیں جن سے مشرق ومغرب کے تہذیبی تناظرات کی تفہیم نو میں مدد مل سکتی ہے۔
مغرب میں آبادافتخارنسیم ایک متحرک،منحرف توانا تخلیقی ذہن کا نام ہے جس کی تخلیق میں Neo-humanismکی عبارتیں روشن ہیں اور جس کی تخلیقی رگوں میں وہ درد لہریںہیں جو انسانی ذہن وضمیر کومرتعش کردیتی ہیں۔ وہ معاشرتی رسوم وقیود، مسلمات و مفروضات سے آزاد اپنے طورپر کائناتی حقائق کی تعبیر و تفسیر تلاش کرنے والے تخلیق کارہیں۔ انھیںکہنگی اور فرسودگی سے سخت بیرہے۔ وہ ہر ایک لمحہ ایک نئی کائنات اورایک نئے جہاں کی جستجو میں مصروف رہتے ہیں۔ ان کی اپنی ذہنی ترجیحات ہیں اور ان کے اپنے مخصوص نفسیاتی ادراکات بھی ہیں۔ ان کے لیے کائنات ایک معمہ ہے اوراس معمہ کو حل کرنے کے لیے اپنے ذہن کی توانائی صرف کرتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ممنوعہ علاقے کیا ہیں اور ان ممنوعات کی منطق کیا ہے وہ تمام تر ممنوعات، محظورات کو مسترد کرتے ہوئے اپنی منطق کا استعمال کرتے ہیں اور اس طرح کائنات کو بالکل تازہ تناظر میں دیکھتے ہیں۔
افتخار نسیم کا اپنا ایک مخصوص وژن ہے اوراسی کی روشنی میں وہ حیات وکائنات کے مسائل اور مدوجزر کو دیکھتے اور پرکھتے ہیں۔ ان کی ہر کہانی ایک نئے زاویے اور نئی جہت کا کشاف ہوتی ہے۔ انھوں نے اپنی ذات کے باطن میں مستغرق ہوکر کائنات کوتمام تر زاویوں سے دیکھا ہے اور اس طرح کہ ان کی داخلی کائنات، خارجی کائنات سے الگ وجود نہیں رکھتی۔ وہ پوری کائنات کوہی اپنی ذات میں شامل سمجھتے ہیں۔ اس لیے ان کی ذات سے کرب اور درد کے وہ تمام سلسلے جڑگئے ہیں جن سے انسانیت ہرلمحہ، ہرپل گزرتی رہتی ہے۔ ان کی شخصیت میں جتنی شفافیت ہے، اتنی ہی ان کی تخلیق اورنظریے میں۔انھوں نے خارج کے آئینے میں اپنا چہرہ نہیں دیکھا بلکہ اپنے باطن کے آئینے میں اپنا چہرہ دیکھا ہے اس لیے دیگر لوگوں کی طرح انھیں اپنا ’چہرہ‘ چھپانے یا نقاب لگانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی وہ معاشرہ میں معتوب و مردود قرار دیے جاسکتے ہیں مگر منافق یا محجوب نہیں،ان کا ہر نظریہ عمل روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ ان کے قول وعمل میں بھی اس طرح کا تضاد نہیں ہے جو بعض مذہب پرستوں کی روش خاص ہے۔ ان کے لیے جرأت، بے باکی اوراپنے نظریے کا بے باکانہ اظہار ہی سب سے بڑا سرمایہ ہے۔
ان کی کہانی ’’اپنی اپنی زندگی‘‘ ایک مختلف زاویہ نظر سے اسلوب اظہار ، منطقی استدلال اوراساطیری ،استعاراتی حسن کی وجہ سے مقبول ہے۔ یہ کہانی گوکہ Gay Movementسے متعلق ہے مگر اس میں انسانی دردمندی کی وہ آگ روشن ہے جوپتھردل انسان کوبھی موم کرسکتی ہے۔کہانی اپنی منطقی ترتیب، تاریخی تسلسل کے ساتھ آگے بڑھتی ہے اورآگہی کے ایسے دیے روشن کردیتی ہے کہ حیرت ہوتی ہے۔
ان کی یہ کہانی دردمندی سے عبارت ہے اوراحتجاج بھی ہے ایسے سنگ دلوں کے خلاف جومذہبی ہوتے ہوئے بھی انسانیت کا درد نہیں سمجھتے۔ جواخوت وانسانیت کا درس تو دیتے ہیں مگرخود اس پر عمل نہیں کرتے۔ افتخار نسیم نے اسی معاشرتی منافقت کے خلاف احتجاج کیا ہے:
’’پردیس میں اپنوں کی بے حسی نے اس کے دماغ پر بہت برااثرڈالا اس کے بھائی کے پاس دنیابھر کی دولت تھی لیکن اب وہ مڈل ایج میں داخل ہوچکا تھا اور امریکہ میں رہنے والے دوسرے مسلمانوں کی طرح جو۱۹۷۰ء کے شروع میں یہاںآئے سب کچھ کیا۔ وطن واپس جاکر شادی کرکے بیوی کولے آئے اوراب Born again Muslimہوگئے۔ ایسا کیوں ہوتاہے کہ جو مذہبی ہوجاتے ہیں ان کے دل بجائے نرم ہونے کے اورسخت ہوجاتے ہیں۔ طبیعت میں ایک کرختگی سی آجاتی ہے۔ وہ ایک قسم کے God Complexکا شکار ہوجاتے ہیں۔ راحت کے بھائی کو جب علم ہوا کہ راحت Gayہے تو اس نے اس کے ساتھ تعلقات ختم کرلیے۔‘‘
ان جملوںمیں جونشتریت ہے وہ دراصل اس لیے ہے کہ انسان، اپنے انسانی رشتوں کوبھول چکاہے اور اس نے اچھے اور برے کے درمیان اتنا فرق یافاصلہ پیداکردیا ہے کہ ’برا‘ لاکھ اچھا ہونا چاہے، اپنی کوشش میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔ ایسے لوگوں نے اپنے انسانی منصب اورفرائض کوبھی فراموش کردیاہے۔ ان کی ذات خدا سے بھی برتر ہوگئی ہے جو گنہ گار بندوں کے لیے رحیم و کریم ہے، جس کے دامن عفو دراز میں ہرخاطی وعاصی کوجگہ مل جاتی ہے مگران خداترس برگزیدہ بندوں کا معاملہ کچھ یوں ہے:
’’کیا میدان حشر میں ہوں؟خون کو خون نہیں پہچان رہا۔ یہ وہی لوگ ہیں جو مسجدوں کوچندہ دیتے ہیں لیکن ایک بیمار کی مدد نہیں کرسکتے۔ اگرراحت Gayنہ ہوتاHetro sexualہوتا تو کیا اس کا بھائی اس کی مدد کرتا؟ کیا ہمارا معاشرہ صرفMajorityکا ساتھ دیتا ہے؟ Minorityکا کوئی خدا نہیں؟‘‘
ایک بڑا سوال انسانی اور خاص طور پر مذہبی معاشرے کے سامنے ہے۔ کیا اقلیت اور اکثریت کی یہ تفریق مناسب ہے۔ کیا انسانیت کو ایسے خانوںمیںبانٹا جاسکتا ہے۔سوال بہت اہم ہے مگرجواب کسی کے پاس نہیں کہ سماج کے اپنے نارمس ہیں، اپنے اصول وضوابط ہیں، اپنے قاعدے قانون ہیں،جو ان نارمس سے انحراف کرے گا،اذیت اس کا مقدر ہوگی۔
افتخار نسیم نے اس طرز احساس کے خلاف زبردست احتجاج کیاہے۔ وہ انسانی وجود کواس کے اعمال وافعال کی بنیاد پر نہیں بلکہ ایک انسان کی حیثیت سے اس کے دکھ، درد میں شریک ہیں۔ اعمال و افعال کی بنیادپر سزا تو یوم الحساب میں ملے گی مگر یہ انسانی کائنات میدان حشر تونہیں ہے۔ یہاں تو خدانے بندوں کو صرف درد دل کے واسطے بھیجا تھا مگر آج کے عہد کا انسان طاعت کے پیمانے پرانسانی وجود کو ناپ رہاہے۔
افتخار نسیم کی دردمندی کا احساس ان کی کہانیوں میں نمایاں ہے۔ وہ بنی نوع آدم کو اعضائے یک دیگر ندجان کر ان کے دردوکرب کواظہار کے پیکرمیں ڈھالتے رہتے ہیں۔ ان کی خوبی یہ بھی ہے کہ سفید چاک سے سیاہ تختے پرمعاشرہ کا اعمال نامہ لکھ رہے ہیں تاکہ میدان حشر میں معاشرے کوگنہ گاروں کی صف میں کھڑا کیاجاسکے۔ افتخار نسیم کا بس یہی ایک گناہ ہے مگر وہ معاشرے سے خوف زدہ نہیں بلکہ خودمعاشرہ ہی افتخار نسیم سے خوف زدہ ہے۔
افتخار نسیم نے بہت سی بولڈ کہانیاں لکھی ہیں اور اپنی جرأت مندی کا ثبوت دیاہے۔ اگروہ مغرب کے بجائے مشرقی معاشرہ میں ہوتے تو شایدسنگ ہوجاتے یا ان کے لیے ایسی کہانیاں لکھناممکن نہ ہوتا ’اپنی اپنی زندگی‘ جیسی کہانی لکھنے کے لیے انھیں تحریک مغرب سے ملی ہوگی اورتحرک بھی۔
مغرب میں مقیم اردو کے مہاجر تخلیق کار، فنی، فکری، ہیئتی اور اظہاری سطح پر نئے نئے تجربے کررہے ہیں اور اردو کے تخلیقی ادب کو مالامال کررہے ہیں۔ان کی تخلیقات میں مغربی آہنگ واحساس بھی ہے اورمشرق کی میلوڈی بھی۔اس طرح اردو کے قاری احساس و اظہار کی دو متضاد لہروں سے بیک وقت روبرو ہوتے ہیں۔اسی لیے میں ان تخلیق کاروں کو سلام کرتاہوں کہ ان کی وجہ سے مغرب و مشرق کے تہذیبی تصادم کی نئی تفسیر اور تعبیر سامنے آتی ہے اور دونوں کے مابین جومکالمہ ہے، وہ عرفان وآگہی کے منظرنامہ کومنورکرتاہے۔
مغرب میں ایسے تخلیق کاروں کی ایک بڑی تعداد ہے جو مشرق ومغرب کے مابین خلیج کوپاٹنے میںاہم کردار ادا کررہی ہے اوریوں بھی جب مشرق و مغرب کی منزل ایک ہوتو پھر سمتوں کے اختلاف کو اور وسیع کرنے کی ضرورت ہی کیاہے۔ یہ تخلیق کاراس لیے بھی قابل احترام ہیں کہ یہ لسانی وفکری اجنبیت کو ’مانوسیت‘میں تبدیل کرنے کے عمل میں مصروف ہیں مغرب میں آبادتارکین وطن کے اس تخلیقی زاویے اوراس فکری جہت سے آشنائی کاسہرا مخزن برطانیہ کے سر ہے جو مغرب و مشرق کے مابین ایک تہذیبی وثقافتی رابطے کی راہ مسلسل ہموار کررہاہے۔

You may also like

Leave a Comment