Home خاص کالم اردو کی مشکوک شہریت؟-حقانی القاسمی

اردو کی مشکوک شہریت؟-حقانی القاسمی

by قندیل

(تیسری اور آخری قسط)

اردو کے حوالے سے ان تمام اعتراضات کا تعلق دراصل لسانی بالادستی تفوق اور تسلط سے ہے۔ یہ زبان ’نان انڈین‘ نہیں ہے بلکہ یہ مکمل طور پر ہندوستانی زبان ہے۔ کیوں کہ اس زبان کا جنم ہندوستان کی دھرتی پر ہوا اور یہی وہ زبان تھی جو پہلے ہندی یا ہندوی کہلاتی تھی۔ غالب اور سرسید نے بھی اسے ہندی ہی کہا ہے۔ ہندوی کے سب سے پہلے شاعر کی حیثیت سے مسعود سعد سلمان کا نام ملتا ہے۔ اس عہدکے بیشتر شعراء کی زبان کو ہندی کہا جاتا تھا۔ مصحفی جس نے پہلی بار اردو کا لفظ استعمال کیا اس نے خود اپنے تذکرے کا نام ’تذکرہ ہندی گویان‘ رکھا اور اس زبان کو ہندوی کہا۔ انہیں کا ایک شعر ہے:
مصحفی فارسی کو طاق میں رکھ
اب ہے اشعارِ ہندوی کا رواج
سودا، شاہ حاتم نے بھی اردو کے لئے ہندی ہندوی کا لفظ استعمال کیا ہے۔ آتش کے یہاں بھی ہندی کا لفظ اردو کے لئے ملتا ہے۔ اور انشا نے اردو کے لئے ہندی شبد کا استعمال کیا ہے۔باقر آغا مدراسی کے دیوان کا نام ’دیوانِ ہندی‘ ہے۔ جرأت نے بھی ہندی اور ہندوی کا لفظ استعمال کیا ہے۔ فضل علی فضلی نے کربل کتھاکو نثر ہندی کا نام دیا ہے۔ تو محمد حسین خاں عطا تحسین نے ’نو طرزِ مرصع‘ کو عبارت رنگین زبان ہندی کہا ہے۔ میرا یعقوب نے اپنی کتاب ’شمائل الاتقیاء‘ کو بھی ہندی اور قاضی بدرالدولہ نے فوائد بدریہ کو ہندی کہا ہے اور باقر آگاہ کا یہ شعر تو بہت مشہور ہے جو انہوں رسالہ فرقہ ہائے اسلام میں لکھا:
ولے بعض یاروں کا ایماں ہوا
سو ہندی زباں یہ رسالہ ہوا
حتیٰ کہ اردو میں شاہ عبدالقادر نے جو قرآن کا ترجمہ کیا ہے اسے بھی ترجمۂ ہندی کہا گیا ہے۔اردو کا پہلے نام ہندی اور ہندوی ہی تھا۔ سب سے پہلے ولی دکنی نے اس کے لئے ریختہ کا لفظ استعمال کیا۔ بعد میں اسے اردو کا نام دیا گیا۔ شمس العلماء سید علی محمد شاد نے یہ لکھا ہے کہ:
’’کچھ لوگ ہیںجو یہ کہتے ہیں کہ اس زبان کا نام اردو اس لیے پڑا کہ یہ مسلمانوں کے فاتح لشکروں میں پیدا ہوئی کیا یہ لوگ مجھے کوئی تاریخ کی کتاب ، کوئی روز نامچہ یا تذکرہ چھٹی صدی سے لے کر تیرہویں صدی تک دکھا دیں گے جس میں یہ زبان اردو کے نام سے لکھی گئی ہو۔ جہاں کہیں اس کا نام لیا گیا ہے اس کو ہندی یا ہندستانی کہا گیا ہے۔‘‘
یہاں اس حقیقت کا اظہار بھی ضروری ہے کہ یہ ہندی لفظ بھی مسلمانوں ہی کی دین ہے۔ جیسا کہ ڈاکٹراُدے نارائن نے لکھا ہے اور ہندوستان اور ہندو بھی مسلمانوں کا عطا کیا ہوا لفظ ہے جس کا معنی مذہب اور قوم نہیں بلکہ یہ ایک جغرافیائی حد بندی ہے جس کے حدود میں رہنے والے تمام لوگوں کو ہندو کہا جاتا ہے۔ ہندو کے بہت سے منفی معنی اور مفہوم لکھے گئے ہیں تاہم یہ بات طے ہے کہ ہندی ، ہندوستان اور ہندو نہ ہندی کا لفظ ہے اور نہ ہی سنسکرت نژاد ہے۔
جہاں تک اردو کا تعلق ہے تو اس کے بہت سارے نام ہیں اور اس کے مقام پیدائش کے حوالے سے بھی الگ الگ رائیں ہیں دہلی، نواحِ دہلی، پنجاب ، سندھ ، مشرقی مہارشٹر ، دکن اور ہریانہ کواس کا جنم بھومی بتایا جاتا ہے۔ اردو کو کیا نام دیا جائے اس کے تعلق سے بھی بہت سی باتیں کہی جاتی رہی ہیں۔ سید سلیمان ندوی نے اپنے ایک صدارتی خطبہ میں کہا تھا:
’’لفظ اردو ہماری زبان کے نام کی حیثیت سے محض ایک غلط فہمی ہے جس کو نکال دینا چاہیے۔ ہماری زبان کو آئندہ سے ہندوستانی کہنا چاہیے اسی اصول کی بنا پر جیسے انگلستان کی زبان انگریزی، فرانس کی فرانسیسی ، اٹلی کے اٹالین وغیرہ کہلاتی ہیں۔‘‘

 

 

سیدسلیمان ندوی نے اسے ہندوستانی کہے جانے کی وکالت کی تھی مگر اس کا نام اردو پڑ گیا۔ جو ایک ترکی لفظ ہے۔اور لشکر گاہ کے معنی میں استعمال ہوتا تھا۔ کنول ڈیبائیو ی نے اپنی کتاب ’اردو زبان اس کا نام‘ میں تفصیل سے اس پر گفتگو کی ہے۔ اُن کے مطابق تاریخِ جہاں کشا اور رشید الدین فضل اللہ کی جامع التواریخ سے پتہ چلتا ہے کہ پہلے مستقر حکومت کو اردو کہا جاتا تھا اور اس زمانے میں جو چنگیز خان کی لشکر گاہیں تھیں وہ اردو مطلا کہلاتی تھیں۔ طبقات ناصری، فیروز شاہی اور بابرنامے میں بھی یہ لشکر گاہ کے معنی میں تھا۔ شاہی لشکر کو اردوئے معلی اور بازار لشکر کو اردو بازار کہا جاتاتھا۔
کچھ لوگ اسے سنسکرت کا لفظ ’اورداؤ‘ بتاتے ہیںجس کا معنیٰ دو دلوں کو ملانے والا ہے اور اس کا رشتہ ویدک عہد سے جوڑتے ہیں۔ ڈاکٹر اجے مالوی نے اپنی کتاب میں اس پر تفصیلی بحث کی ہے۔ اردو کو بہت بعد میں زبان سے مختص کیا گیا۔ انگریزوں کے زمانے میں اسے ہندوستانی ہی کہا جاتا رہا۔ ڈنکن فاربس نے بھی اس کا نام اردو اور ہندوستانی ہی رکھا ہے اور گستاولی بان جو ایک فرانسیسی محقق ہے اس نے یہ لکھا ہے کہ :’’ ہندوستان میں آریہ طبقے کی تقریباً سولہ زبانیں ہیں ان میں سے ہندوستانی یعنی اردو زبان بھی ہے۔‘‘
اس کے علاوہ دوسرے لوگوں نے بھی اردو اور ہندوستانی کو ایک زبان کہا ہے۔ اردو اور ہندی کا افتراق بہت بعد میں ہوا۔ پہلے دونوں زبانیں ایک ہی کہلاتی تھیں کیونکہ دونوں کی گرامر، صرفیات اور نحویات اور صوتیات میں یکسانیت ہے اور دونوں ہی ہندآریائی زبانیں ہیں۔ مگرگجراتی برہمن للو جی لال کے زمانے میں یہ زبان الگ ہوگئی۔ منشی للو لال جی کے ’پریم ساگر‘ سے اردو کے خلاف نفرت کا آغاز ہوا۔ للو لال جی نے فورٹ ولیم کالج کی ایک کتاب سے عربی اور فارسی کے سارے الفاظ نکال کر اس میں سنسکرت کے الفاظ ڈال دیئے تبھی سے یہ تنا زعہ بڑھتا گیا اور اردو مخالف بیانیے کی بنیاد سی پڑ گئی اور اردو زبان کے تعلق سے بہت ساری بے بنیاد باتیں کہی جانے لگیں۔ اسے غیر سیکولر، شدید مذہبی رجحان کی حامل زبان کہا گیا۔اسے مسلمانی اور ملیچھ تک کہا گیا۔ سنیتی کمار چٹر جی نے بھی یہ لکھا کہ اردو صاف طور پر مسلمانی زبان ہے اور اپنے رجحان اور رویے کے اعتبار سے بھی غیرہندوستانی ہے۔پریم چند کے بیٹے امرت رائے نے بھی ایک غیر سیکولر زبان قرار دیا۔ آچاریہ رام چندر شکل نے ’ہندی اور مسلمان‘ کے عنوان سے ایک مضمون میں اردو کو غیر فطری زبان لکھا اور اس کی ہندوستانیت سے انکار کیا۔حتّیٰ کہ ہندوستان کے آئین کے آٹھویں شیڈول میں اردو کو جگہ دینے پر بھی اعتراض کیا گیا۔ اس طرح کے اور بھی اردو مخالف بیانات دیئے جاتے رہے ہیں۔ جبکہ اردو کی پوری نثری اور شعری روایت پر نظر رکھی جائے تو اردو جمہوری اورسیکولر زبان قرار پائے گی۔پروفیسر گوپی چند نارنگ نے بہت صحیح بات لکھی ہے۔
’’اردو کا ایک نام سیکولرزم یعنی غیر فرقہ واریت اور بقائے باہم بھی ہے۔‘‘
جوں جوں اردو زبان پر اعتراضات بڑھتے گئے تو اردو زبان کے تعلق سے تحقیقات کا سلسلہ بھی دراز سے دراز تر ہوتا گیا۔ اردو زبان کے تعلق سے بہت سی کتابیں لکھی گئیں حافظ محمود شیرانی، سید محی الدین قادری زور، مسعود حسین خاں، عبد القادر سروری، شوکت سبزواری اور گیان چند جین، مرزا خلیل بیگ، سہیل بخاری اور دیگر نے اردو زبان کے آغاز وارتقا کے حوالے سے کتابیں تحریر کیں اور مختلف رسائل میں اردو اور ہندی تنازعہ کے حوالے سے بہت سے مضامین شائع ہوئے جن میں رسالہ زمانہ خاص طور پر قابل ذکر ہے۔ اس رسالہ میں جعفر علی خاں لکھنوی، حامداللہ افسر میرٹھی، بیتاب بریلوی، شیام موہن لال جگر بریلوی، عظیم بیگ چغتائی، ح۔ی۔ع۔حق پرست، موہن سنگھ دیوانہ، رادھا رمن، منوہر لال زتشی، سلیم جعفر، منوہر لال طالب چکوانی، عبدالماجد دریاآبادی، عشرت لکھنوی، کلیم اعظم گڑھی، محمود علی خاںوغیرہ کے مضامین ’اردو، ہندی، ہندوستانی‘ کے مباحثے کے تحت شائع ہوئے۔ یہ تمام مضامین بہت قیمتی ہیں۔ جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ اردو ہندی کا یہ قضیہ بہت پرانا ہے اور ہنوز اس قضیے کا کوئی حل نہیں نکل پایا ہے۔ اسی تنازعہ کی وجہ سے اردو تنازعہ کے تعلق سے پروفیسر معین الدین دردائی کی کتاب ’ہندوستان کی قومی زبان اور رسم الخط‘ فرمان فتح پوری کی ’ہندی اردو تنازعہ‘ اور پروفیسر اویس احمد ادیب کی’اردو زبان کی نئی تحقیق‘ جیسی کتابیں شائع ہوئیں۔ اویس احمد ادیب نے اپنی کتاب میں یہ لکھا: ’’کہ سنسکرت ہندوستان کی اولین اردو ہے کیوں کہ جب وسط ایشیاء سے جب آریہ بھارت آئے تھے تو ان کی کوئی ایک زبان نہیں تھی اور یہ مخلوط زبان بولتے تھے۔‘‘
سنسکرت لشکر کی زبان تھی جسے آریوں نے دیویہ بانی کا نام دیا۔ انہو ںنے یہ بھی لکھا ہے کہ’ اردو آریوں کے ساتھ ہندوستان میں آئی ۔ اس وقت ایک نوعمر بچی کی مانند تھی۔ اس نے غیر اقوام سے سبق حاصل کیا۔ ان کی صحبت میں رہی اور انہیں سے بہت سی باتیں مستعار لی۔ حتیٰ کہ ان کے الفاظ فقرے تک لے لئے۔ غرض ابتداء سے آج تک اردو ہندوستانی زبان بن کر رہی اور صحیح معنوں میں ہندوستان کی ہندوستانی یہی ہے اور ہندی دراصل اردو سے ہی پیدا ہوئی۔‘
انھوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ:
’’للولال جی سے پہلے ہندی کا وجود نہیں تھا اور ہندو مسلمان دونوں ہی اردو ہی بولتے تھے۔‘‘ اور یہ حقیقت ہے کہ قدامت کے لحاظ سے ہندی کا وجود اردو کے بعد ہوا۔ اردو کی عمر تقریباً سات سو برس ہے جب کہ ہندی کی عمر زیادہ سے زیادہ دو سو سال ہے۔ اردو کو ہندی پر جو زمانی تقدم حاصل ہے اس کے کئی شواہد بھی ہیں۔ اردو زبان دراصل آریائی اور سامی زبانوں کا امتزاج ہے۔ اس میں یونانی، افغانی،فارسی، عربی، ترکی، سنسکرت، انگریزی سبھی زبانوں کے الفاظ شامل ہیں۔ پنڈت سندر لال کا کہنا ہے کہ :
’’اردو نہ مسلمانوں کی اور نہ کسی اور کی مذہبی زبان ہے اور نہ کبھی تھی۔ وہ محض اس ملک کے لاکھوں رہنے والوں کی زبان تھی جن میں ہندو مسلمان، عیسائی اور جین سب شامل ہیں۔یہ قدرتی اور مادری زبان ہے۔‘‘
سرتیج بہادر سپرو نے بھی کہا کہ ’مجھے اردو زبان سے محبت ہے۔ میں اس کو اپنی زبان سمجھتا ہوں اور اپنے ہندوستان کی زبان۔ مجھے یہ کہتے ہوئے ذرا بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہوتی کہ اردو میری مادری اور قومی زبان ہے۔
لسانیات کے ماہرین بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ اردو خالص ہندوستانی زبان ہے۔ یہ انڈک زبان ہے۔ مگر ہندوستان کی قدامت پسند دائیں بازوں کی تنظمیں اس زبان کو مسلمانوں سے منسوب کرکے اسے ملک بدر کرنے کی سازشیں کرتی رہیں ہیں اور ہندی ہندو اور ہندوستان کا نعرہ دے کر اس زبان کا رشتہ اس ملک سے توڑناچاہتی ہیں۔ جب کہ یہ وہ زبان ہے جو مکمل طور پر ہندوستان میں جنمی، پلی اور بڑھی۔ اوربقول گارساں دتاسی:
’’ ہندوستان کی عام بولیوں میں ہندوستانی (اردو) سب سے زیادہ وسیع البیان اور لچکدار زبان ہے ‘‘ جے بیمزنے بھی لکھا ہے کہ ’’ آج کل عام طور پر زبان اردو کے خلاف پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے جو عدالتوں اور دفتروں میں رائج ہے ۔ کہاں جاتا ہے کہ اردو جن عناصر سے مرکب ہے وہ اجنبی ہیں اور آپس میں میل نہیں کھاتے۔ میں اپنے سات سال کے تجربے کی بنا پر کہہ سکتا ہوں کہ اردو ہی سب سے زیادہ ترقی پسند اور سب سے زیادہ مہذب زبان ہے۔ زبان کی یہ واحد شاخ ہے جو یہاں کے باشندوں کی ضروریات کو پورا کرسکتی ہے۔ اردو سے عربی اور فارسی کے الفاظ کا خارج کرنا ایسا ہے جیسے انگریزی زبان سے لاطینی الفاظ نکالنے کی کوشش کی جائے یہ چاہا جائے اس میں صرف اصل سیکسن کے الفاظ باقی رہیں۔‘‘

 

 

حیرت کی بات یہ ہے کہ وسط ایشیا سے آئے ہوئے آریوں کی زبان سنسکرت تو ہندوستانی کہلاتی ہے اور جس زبان نے یہیں جنم لیا اسے غیر ملکی کہا جاتا ہے۔ اور تعجب کی بات یہ بھی ہے کہ اردوجو دائیں طرف سے لکھی جاتی ہے دائیں بازو کی جماعتوں کو اُسی سے نفرت ہے۔ اور افسوس کی بات یہ بھی ہے کہ پنجابی، بنگلہ، مراٹھی، گجراتی، تمل، کنڑ، ملیالم دوسرے رسم الخط میں لکھی جاتی ہے پھر بھی وہ ہندوستانی زبان ہے۔ پنجابی جوشاہ مکھی اردو رسم الخط میں لکھی جاتی اسے تو کبھی کسی نے غیر ملکی زبان نہیں کہا۔ایک غیر ملکی انگریزی زبان کے لئے سرکاری دفتروں اور دیواروں پر جگہ تو ہے مگر یہیں جنم لینے والی زبان کے لئے اس بھارت ورش میں کوئی گنجائش نہیں۔ یہ کیسی نفرت و عداوت اور معاندت اور مخاصمت ہے۔ شدید افسوس کی بات یہ بھی ہے کہ اردو مخالف تحریک میں بیشتر وہ افراد بھی تھے جن کا اردو زبان سے ایک گہرا رشتہ بھی رہا ہے۔ بھارتیندو ہریش چند جو پہلے رسا کے تخلص کے ساتھ اردو میں شعر و شاعری کرتے تھے اور بقول شیونندن سہائے عربی فارسی کے پرم انوراگی تھے۔انہیں کی غزل کے یہ اشعار ہیں:
دل آتش ہجراں سے جلانا نہیں اچھا
اے شعلہ رخو آگ لگانا نہیں اچھا
رسا حاجت نہیں کچھ روشنی کی کنج مرقد میں
بجائے شمع یاں داغ جگر ہر وقت جلتے ہیں
اس طرح کے شعر کہنے والے نے ہی ’ہندی ہندو اور ہندوستان‘ کا نعرہ دیا تھا۔ اور اس کے بعد سے ہی بنارس اور الہ آباد سے اردو کے خلاف تحریکیں اور تنظمیں متحرک اور فعال ہوگئیں۔ ناگری پرچارنی سبھا قائم کی گئی جس میں یہ کہا گیا کہ اردو زبان میں فارسی عربی لفظ ضرورت سے زیادہ ہیں۔ بھارت ورش میں اس چیز کی اب گنجائش نہیں۔ بابو پرشاد منڈل، بابو نوین چند، بابو راجیندر لال مشر، بابو شیو پرشاد، جے کشن داس جیسے لوگ ناگری ہندی کے لئے متحرک ہوئے۔بعد میں اردو کے مایہ ناز محقق پروفیسر گیان چند جین بھی’’ ایک بھاشا: دو لکھاوٹ، دو ادب ‘‘ لکھ کر اسی کارواں میں شامل ہوگئے اور انہوں نے ایک نیا اردو مخالف بیانیہ تشکیل کیا اور اردو کے بارے میں وہ باتیں کہیں جو انہیں زیب نہیں دیتی تھیں۔ اردو سے اتنی نفرت بڑھی کہ بابو نوین چندرا رائے نے تو یہاں تک کہا کہ’ اردو کے پرچلت ہونے سے دیش واسیوں کو کوئی لابھ نہ ہوگا کیوں کہ وہ بھاشا خاص مسلمانوں کی ہے۔ اس میں مسلمانوں نے ویرتھ بہت سے عربی فارسی کے شبد بھر دیے ہیں۔ پدیا چھندو پد رچنا کے بھی اردو اپیکت نہیں ہے۔ ہندوؤں کا یہ کرتویہ ہے کہ وہ اپنی پرمپراگت بھاشا کی انتی کریں۔ اردو میں عاشقی کے اترکت کسی گمبھیر وشے کو ویکت کرنے کی شکتی نہیں ہے۔‘ جب کہ یہ خیال بہت غلط اور گمراہ کُن ہے ۔اردو میں سائنسی، سماجی، اقتصادی، طبی علوم کا بیش بہا ذخیرہ ہے۔ ڈاکٹر ابو ا للیث صدیقی کی ’اردو میں سائنسی ادب کا اشاریہ‘ ،خواجہ حمید الدین شاہد کی ’اردو میں سائنسی ادب‘، خواجہ حمید الدین ایم کی ’شمس الامراء کے سائنسی کارنامے‘، ڈاکٹر محمد شکیل خان کی ’اردو میں سائنسی تکنیکی ادب‘ کے علاوہ انجمن ترقی ہند کا رسالہ ماہنامہ سائنس اور دیگر رسائل اس ناواقفیت پر مبنی بیان کی تردید اور تغلیط کے لئے کافی ہیں۔
احیا پرست تنظیموں نے اردو کے تعلق سے ایک پرسیپشنل ڈسٹینس پیدا کیا اور عوامی ذہنوں میں یہ بات نقش کرنے کی کوشش کی کہ اردو سے ہندوستانی قومیت کوخطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ جبکہ برطانوی دور میں یہ عدالتی زبان تھی اورہندوؤں کی ایک بڑی تعداد اس زبان سے وابستہ تھی حتیٰ کہ بہت سے اصناف میں اولیت اور افضلیت کا شرف ہندوؤں کو حاصل تھا۔ پریم چند ، رتن ناتھ سرشار، نول کشور، لالہ سری رام اور رام بابو سکسینہ جیسے بڑے نام ہیں۔ خود تاراچند نے بھی یہی بات کہی ہے کہ:’’ اردو کے آغاز وارتقاکا سہرا صحیح معنوں میں ہندؤں کے سرہے وہی اس کی پیدائش کے حقیقی ذمہ دار ہیں۔‘‘اردو کے تعلق سے ان تمام حقائق کے باوجود اردو کے خلاف اس طرح کے بیانات مستقل دیے جاتے رہے جس کی وجہ سے ایک مشترکہ زبان کا وجود خطرے میں پڑ گیا۔ اور ہندی اردو کا بہناپا بھی ٹوٹ سا گیاجبکہ پنڈت دتاتریہ کیفی نے اپنی ایک نظم میں لکھا تھا:
ایسی زباں میں وجہ شرف کی یہی ہے بات
اردو کو ہر زبان سے ہے ربط و التفات
فرقوں کے ربط وضبط کا ہے اس سے انتظام
قومی یگانگی کا ہے قائم اسی سے کام
اردو بنی ہے مسلم وہندو کے میل سے
دونوں نے صرف اس پہ دماغ ودل کیے
بہناپا اس کا دوسری بھاشاؤں سے رہا
اس نے کسی کو غیر نہ سمجھا کبھی ذرا
اردو ہی دوستو وطنیت کی جان ہے
یہ یاد رکھو اس سے اخوت کی شان ہے
مگر یہی زبان بعد میں تقسیم کی تلوار بن گئی اور اسے مسلم تشخص (Identity)سے جوڑ دیا گیا اور لوگوں نے اس حقیقت کو فراموش کردیا بقول جاوید اخترکہ:’ زبان کا تعلق ریلجن نہیں بلکہ ریجن سے ہوتا ہے۔‘ تمام تر سیاسی تعصبات اور فرقہ وارانہ تحفظات کے باوجود بہت سارے روشن خیال افراد تھے جنہوں نے اردو کی وکالت اور حمایت کی۔ حکم چندنیر بھی اپنی ایک کتاب میں اردو پر غیرملکی ہونے کا الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہتے ہیں: اردو ایک خالص ملکی اور ہندوستانی زبان ہے۔ اس کی بنیاد خالص ہند آریائی عناصر پر ہے۔ صرفی اور نحوی اعتبار سے اردو بھی برج، ہریانی، اودھی، گجراتی، مراٹھی، بنگالی، پنجابی اور سندھی زبانوں کی مانند ایک خالص ملکی اور ہندوستانی زبان ہے۔ اگر کسی وجہ سے اردو کو غیر ملکی زبان کہا جا سکتا ہے تو پھر ہندوستان کی کسی بھی نئی اور پرانی زبان کو دیسی اور ملکی نہیں کہا جا سکتا ہے۔‘‘ یہی سوال اپنی ایک نظم میں راشد بنارسی نے اٹھایا تھا:
بہت سمجھے تھے ہم اس دور کی فرقہ پرستی کو
زباں بھی آج شیخ وبرہمن ہے ہم نہیں سمجھے

اگر اردو پر بھی الزام ہے باہر سے آنے کا
تو پھر ہندوستان کس کا وطن ہے ہم نہیں سمجھے

چمن کا حسن تو ہر رنگ کے پھولوں سے ہے راشد
کوئی بھی پھول کیوں ننگ چمن ہے ہم نہیں سمجھے

 

 

مجھے پنڈت گنگا ناتھ جھا کی یہ بات اس تعلق سے بڑی اچھی لگی کہ ’’روحانی نقطۂ نظر سے ہندی اور اردو ہی نہیں بلکہ ملک کی تمام زبانیں ایک ہیں اور رہیں گی۔ ‘‘
مگر اب حالات کا جبر دیکھئے اورسیاست کی ستم ظریفی کہ ہندوستان میں سب سے زیادہ تنازعہ اردو ہندی ہی کو لے کرہے جب کہ یہ دونوں ہی ہندآریائی زبانیں ہیں۔ ہندی کی کوئی لڑائی تمل، ملیالم، کنڑ جیسی دراوڑی زبانوں سے نہیں ہے اور نہ ہی انگریزی زبان سے ہے۔ ساری لڑائی صرف اس زبان سے ہے جس سے اس کی سب سے زیادہ قربت ہے۔ گوپی چند نارنگ نے بڑی اچھی بات لکھی ہے کہ:
’’اس بات کو اچھی طرح خاطر نشاں کرنے کی ضرورت ہے کہ ہندوستان کی تمام ہند آریائی زبانوں میں اردو زبان ہندی سے سب سے زیادہ قریب ہے۔ اور ان دونوں میں اٹوٹ رشتہ ہے۔دونوں زبانوںکا جد امجد انڈک ہے۔‘‘
یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہزبانوں کی جنگ میں زیاں لسانی لطافتوں اور جوہروں کا ہی ہوتا ہے۔ زبانوں کو ذریعہ اظہار کے بجائے میدان کارزار بنانے والوں نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ ان کے عمل سے ہی زبانوں کی زندگی کو خطرہ لاحق ہوتاہے۔ زبان کا جغرافیہ محدود سے محدود ترہوتا جاتاہے۔ زبانوں کے تشکیلی عناصر اور اس کی نزاکتوں، نکہتوں سے ناواقف افراد نے ہی زبانوں کے نمو اور ارتقا کی راہیں مسدود کی ہیں۔ ان لوگوں نے کبھی اس حقیقت پر غور نہیں کیا کہ زبانوں کی جنگ میںہار اکثر قوت اظہار کی ہوتی ہے اور مکالمہ مفلسی کا شکار ہوجاتاہے۔ ترسیل تنگ ہوجاتی ہے۔ زبانوں کی قوت ووسعت کا سارا انحصار جذب وانجذاب پر ہوتا ہے۔ لیکن مذہبی احیا پسندی کے زیر اثر یک لسانی نظام کو ایک مخلوط اور کثیر طبقاتی سماج پر مسلط کرنے والی ذہنیتیں یہ سمجھ نہیں پاتیں کہ زبان داخلی جذبات اور احساسات کے اظہار کا ایک ذریعہ ہوتی ہے۔ علامہ اقبال کا بھی خیال تھا کہ ’زبان اظہار مطالب کا ایک انسانی ذریعہ ہے۔ کوئی بت نہیں کہ جس کی پرستش کی جائے۔‘ زبانوں کے باب میں جبر سے تہذیب، اقدار ہی نہیں سماجی ساخت بھی مجروح ہوتی ہے اور لسانی استعماریت سے اظہاری منطقہ،علاقہ، رقبہ وسیع نہیں محبوس اور مختصر ہوجاتا ہے۔ جبر سے آزاد فضا میں زبانوں کو جب اپنے حصے کی زمین ملتی ہے تو اس کے فطری نشو ونما سے لسانی راہداریاں کشادہ سے کشادہ تر ہوتی جاتی ہیں۔ مگر محبوس اور مدقوق ذہن کے افراد ہمیشہ ایسی روش اختیار کرتے ہیں کہ غیر ضروری طور پر زبانوں میں جنگ چھڑ جاتی ہے اور شاید یہی جنگ ان کی بلند سیاسی خواہشات اور آرزؤں کی تکمیل کا ذریعہ کے علاوہ ان کے وجود کا جواز بن جاتی ہے۔
اردو کو متعصبانہ سیاست نے گو مسلمانوں سے منسوب کرکے ملک بدر کرنے کی سازش کی ہے مگر اس زبان نے جس کا کوئی علاقہ نہیں اس نے ہر علاقہ میں اپنی موجودگی درج کرائی ہے یہ وہ سخت جان زبان ہے کہ جتنا اسے دبائیں گے اتنی ہی ابھرتی جائے گی۔ رسالہ ساقی کے مدیر شاہد احمد دہلوی نے بہت اچھی بات کی تھی کہ:’صاحب یہ غضب کی ڈھیٹ زبان ہے بڑی سخت جان عجب بلا ہے کہ یونانی صنمیات کے ہائیڈرا کی طرح اگر اس کا سر قلم کیا جاتا ہے تو ایک کے بدلے دو سر نکل آتے ہیں۔ اردو کسی کے مارے مر نہیں سکتی۔ مرتی وہ زبانیں ہیں جو تنگ دل ہوتی ہیں۔‘ اردو ایک کشادہ دل زبان ہے جس نے تمام زبانوں کی لفظیات، استعارات، علامات، تلمیحات، تمثیلات کو اپنے اندر جذب کیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ آج پوری دنیا میں اردو کی نئی نئی بستیاں وجود میں آرہی ہیں۔ یہ زبان پہلے بھی ہندوستانی تھی اور آج بھی ہندوستانی ہے اور مستقبل میں بھی ہندوستانی ہی رہے گی۔ اس کی شہریت اور ہندوستانیت کوئی بھی چھین نہیں سکتا۔

You may also like

Leave a Comment