ادب، لکھنؤ:
1929 میں سید اعظم حسین اعظم (3؍جنوری1908۔ 8؍اکتوبر1956) کی ادارت میں لکھنؤ سے رسالہ ادب کی اشاعت کا آغاز ہوا۔ اعظم حسین اعظم کا تعلق قصبہ کرہان اعظم گڑھ کے ایک علمی، ادبی خانوادہ سے تھا۔ اردو کے مشہور فکشن نگار علی عباس حسینی ان کے ماموں اور معروف شاعر شمیم کرہانی ان کے بھائی تھے۔ اعظم حسین اعظم اور ان کے رسالہ ’ادب‘ سے بہت کم لوگوں کو آگہی ہے۔ یہ وہ رسالہ ہے جس کا ذکر صحافت پر لکھی گئی کتابوں میں بہت کم ملتا ہے جب کہ یہ اپنے عہد کا ایک معتبر اور مؤقر رسالہ تھا جس کامقصد و مشن اردو زبان و ادب کو مذہبی و وطنی تعصبات اور مسلکی تحفظات اور فضلات و فضولیات سے پاک کرکے صحت مند اور صالح ادب قارئین کے روبرو پیش کرنا تھا۔ اسی لیے اس رسالہ میں آئین ادب کے زیر عنوان قواعد و ضوابط کے تحت یہ درج تھا کہ:
’’جن مضامین میں ذاتیات سے بحث ہوگی عصبیت کا شائبہ ہوگا۔ اس رسالہ میں درج نہ ہوں گے۔ ‘‘
سید اعظم حسین اعظم نے اپنے بیشتر اداریوں میں مذہبی مناقشہ اور مجادلہ کے خلاف لکھا ہے۔ اپنے ایک اداریے میں لکھتے ہیں:
’’ادبیات کو مذہبی جنبہ داری اور فرقہ وارانہ تنگ نظری سے پاک رکھنا چاہئے۔ فی الحقیقت علم و ادب کے پر بہار گلشن میں ملکی و ملی تعصبات کے خار مغیلاں کی جگہ نہیں۔ ہمیں افسوس ہے کہ اردو ادب کی خدمت گزاری کے بہت سے مدعی اس طرف ملتفت نہیں ہیں۔ وہ نہایت بیباکی سے ادبی میدان میں فرقہ وارانہ مست خرامی کے کمالات دکھلانے میں مشغول ہیں۔ ان کا قلم ادبیات سے بحث کرتے ہوئے مذہبی و قومی تعصب کے ترقی دینے میں رواں ہے۔ انہیں اس سے بحث نہیں کہ ان کی روش سے اردو ادب کو کتنا عظیم ضرر پہنچ رہا ہے۔‘‘
اسی طرح ’بزم ادب‘ میں انہوں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ ادبیات کی فضا میں سبحہ و زنار کی تفریق بے معنی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’مذہبی مناقشوں اور مجادلوں میں تعصب کی نمائش تو سمجھ میں آتی ہے لیکن خالص ادبی چیزوں میں غیر رواداری اور تعصب کی آمیزش کیوں لازمی قرار دے دی گئی ہے— اگر کوئی ہندو اردو ادب کا نہایت کامیاب انشاء پرداز ہے تو مسلمان کیوں نہ اس کے کمال کا اعتراف کرے۔ کامیاب ادیب یا کامیاب شاعر ہونا کسی خاص مذہب کی پابندی پر موقوف نہیں ہے۔ ادبیات کی فضا تو درحقیقت وہ فضا ہے جہاں سبحہ و زنار کا تفرقہ کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ برہمن و مسلم شانہ سے شانہ ملا کر بیٹھ سکتے ہیں۔‘‘
انہوں نے اسی تناظر میں سرشار اور شرر کے تعلق سے منفی اور متعصبانہ رویوں پر سخت تنقید کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’چونکہ سرشار ہندو تھے اور شرر مسلمان۔ لہٰذا مؤخر الذکر کے مقابلہ میں سابق الذکر کی ادبی خدمات کو نظر انداز کر دینا ہر مسلمان کا فرض ہے۔ چونکہ مولانا محمد حسین آزاد شیعہ تھے اس لیے ہر سچے سنی کا فرض ہے کہ وہ انہیں کسی بڑے پائے کا انشاء پردازتسلیم نہ کرے۔ چونکہ مومن سنی تھے اس لیے ہر شیعہ پر واجب ہے کہ وہ انہیں نہایت معمولی شاعر قرار دے۔ ‘‘
وہ آگے لکھتے ہیں کہ :
’’آج کل ہمارے اکثر ادیبوں کی یہ ذہنیت ہو رہی ہے۔ ظاہر ہے کہ ادبی شخصیتوں کے کمال کا اس معیار سے جانچنا کسی نہج سے معقول نہیں۔ اس غلط روش سے یقینی ادب کو سخت مضرتیں پہنچ رہی ہیں اور آئندہ پہنچنے کا قوی خطرہ ہے۔ ایسی حالت میں کیااس کی ضرورت نہیں۔ جہاں تک ممکن ہو اردو کو ان فرقہ وارانہ مناقشوں سے محفوظ رکھا جائے۔ ادبیات کے خوبصورت چہرہ پر ان غلط رجحانات کی گرد نہ بیٹھنے دی جائے۔‘‘
دراصل ان کا نشانہ علامہ نیاز فتح پوری کا رسالہ ’نگار‘ تھا۔ جس کے تعلق سے انہوں نے یہ لکھا ہے:
’’اس کی ادبی تنقیدوں میں فرقہ وارانہ رجحانات کے جراثیم بکثرت موجود ہوتے ہیں۔‘‘
رسالہ ’ادب‘ میں لغویات ناکارہ لٹریچر اور مضر صحت ادبی مواد کی اشاعت سے حتی الامکان پرہیز کیا گیا اور صالح افکار و اقدار کی اشاعت کو لازمی قرار دیا گیا۔ ان کا مقصد تجارت نہیں بلکہ’’علم و ادب کی صحیح لائنوں پر خدمت تھا۔‘‘اسی لیے انہوں نے صالح ادب کی خدمت کے لیے اس رسالہ کو وقف کر دیا تھا۔ اپنے ایک اداریے میں وہ لکھتے ہیں:
’’ہم اس کا احساس رکھتے ہیں کہ جس قسم کے مضامین کی اشاعت ہمارے پیش نظر ہے۔ ان کی مانگ بازار میں کم ہے۔ عام مذاق زیادہ تر عشق و عاشقی کے عریاں افسانوں، جذبات انسانی میں ہیجان پیدا کرنے والی تصویروں کا جویا ہے۔ جن رسائل میں اس جنس کی کمی ہے وہ شوق کی نگاہوں سے نہیں دیکھے جاتے۔ لیکن ہم مجبور ہیں۔ اس مذاق کی تسلی کا سامان مہیا کرنا ہمارے امکان میں نہیں ہے۔ تجارتی لحاظ سے ادب کی دوکان کا ان عام پسند چیزوں سے سجانا منفعت خیز یقینا ہے مگر ہم صرف تجارت کرنے نہیں نکلے ہیں۔ ‘‘
رسالہ’ ادب‘ نے خسارہ تو برداشت کیامگر عامیانہ مذاق اور تیسرے درجہ کے ادب کو شائع کرنا گوارہ نہیں کیا۔اور اداریے کے مطابق ’’شریفانہ انشاء پردازی کے جو آئین ہیں انہیں کسی حالت میں ترک نہیں کیا۔‘‘ ادبی امور میں رسالہ ’ادب‘ نے منصفانہ موقف اختیار کیا۔ کسی کو بھی بے جا طنز و تعریض اور تمسخر و تضحیک کا نشانہ نہیں بنایا بلکہ منطقی طور پر اپنے معروضات پیش کئے۔ ادیبوں کو دیئے جانے والے ایوارڈ، انعامات پر آج بھی اعتراضات ہوتے ہیں اور پہلے بھی ہوتے رہے ہیں ۔ ہندوستانی اکیڈمی کے انعامات پر سوال اٹھاتے ہوئے سید اعظم حسین اعظم نے دیکھئے کتنے سشتہ اور شائستہ پیرائے میں اختلاف کا اظہار کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’حصۂ نظم کا انعام تجویز کرنے کے لیے جو کمیٹی مقرر ہوئی تھی وہ اپنے اس فیصلے پر یقینا قابل مبارکباد ہے۔ اس نے سال گذشتہ کی طرح اپنے حسن ذوق اور معیار انتخاب کی بلندی کا ثبوت امسال بھی دیا۔ لیکن ہمیں اس کا افسوس ہے کہ نثر کے ادبی شعبے کا انعام تقسیم کرنے والوں نے اپنی ادب فہمی کو پھر شکوک کی آماجگاہ بنا دیا۔ سال گذشتہ کی طرح امسال بھی اس کمیٹی کی نظر صحیح کتاب پر نہ پڑی۔ جس کتاب کو انعام کے لیے منتخب کیا گیا وہ قطعاً اس عزت افزائی کی مستحق نہ تھی۔ مولانا سید سلیمان اشرف صاحب بہاری، استاد علوم دینیہ، مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کا یوں علمی حیثیت سے جو بھی پایا ہو لیکن ان کی کتاب المبین اغلاط سے پر ہے۔ قدم قدم پر غیر رواداری اور فن سے ناواقفیت کے آثار ملتے ہیں۔ (ادب، اپریل 1930)
رسالہ ’ادب‘ کی مدت حیات مختصر رہی۔شاید تین سال سات ماہ۔ مگر اس عرصہ میں اس نے قارئین کو اعلیٰ اور معیاری ادب عطا کیا۔ اس میں بہت اہم اور منفرد نوعیت کے مضامین شائع ہوتے رہے ہیں جن میں ہندوستان کے لسان الغیب، منشی ولایت علی خان ولایت صفی پوری (اثر لکھنوی)، ادبی تنقید (مولانا سید اختر تلہری)، مایوس کے حالات و کلام (سید مسعود حسن رضوی ادیب)، کیا غزل گوئی امرت پرستی کی محرک ہے(محمد حسین ادیب)، الحاق اودھ اور مسٹر بیورج (سید اعظم حسین)، علم الانصاب کی ضروری (منشی امیر احمد علوی)، یادگار نسیم کے اعتراضات اور ان کے جوابات (سراج الحق مچھلی شہری)، ریختی (شہاب میرٹھی)، شگرف نامہ (چودھری محب اللہ) ، بھگوت گیتا پر ایک نظر (مشیراحمد علوی بی ۔اے علیگ)، اردو غزل میں اخلاقیات (یوسف حسین موسوی) قابل ذکر ہیں۔ ادب کے محتویات کی وجہ سے اس کا شمار اردو کے مؤقر اور معتبر رسالوں میں ہوتا ہے۔ مگر اس مجلہ اور مدیر کی بدقسمتی یہ رہی کہ ادب اور صحافت کے مؤرخین اور محققین نے انہیں مکمل طور پر نظر انداز کیا۔ ادبی صحافت پر جو تحقیقات عالیہ سامنے آئی ہیں یا جو کتابیات مرتب کی گئی ہیں ان میں بھی اس رسالہ کا ضمناً بھی ذکر نہیں ملتا۔ جاوید اختر علی آبادی نے اگر اس رسالہ کی تلاش و جستجو نہ کی ہوتی تو شاید اس کے بارے میں لوگوں کو پتہ بھی نہ چل پاتا۔ ان کی یہ شکایت بجا ہے کہ ایک مایہ ناز صحافی اب تک گوشۂ گمنامی میں کیوں ہے اور اُن کی خدمات کو نظر انداز کیوں کیا گیا۔ جاوید اختر نے رسالہ ’ادب‘ کے 32شماروں کا اشاریہ تیار کیا اور نثری اور شعری تخلیقات کا ایک انتخاب بھی پیش کیا ہے جس سے اس مجلہ کی معنویت کا اندازہ بہ آسانی لگایا جا سکتاہے۔ اس میں بہت اہم اور منفرد نوعیت کے جو مضامین شامل ہوئے ان میں ادبی تنقید کے عنوان سے اختر علی تلہری کا ایک نہایت بصیرت افروز مضمون ہے۔ انہوں نے بہت ہی خوبصورت اور معنی خیز جملہ لکھا ہے کہ:
’’تنقید کی شریعت میں مراعات اور تعصب دونوں معصیت ہیں۔ آج کل اردو میں جتنی تنقیدیں نکل رہی ہیں وہ کم و بیش مراعات اور تعصب کی گندگیوں میں ملوث ہوتی جا رہی ہیں۔ پارٹی بندی، مذہبی و قومی جنبہ داریاں ہر ہر قدم پر نظر آتی ہیں۔‘‘
اسی طرح پروفیسر خواجہ اطہر حسین کا ایک مضمون نظم اور نثر کے عنوان شائع ہوا ہے جس میں انہوں نے لکھا کہ:
’’اردو ادب کے موجودہ رجحان کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ نثر ایک حد تک ثانوی اور حقیر چیز سمجھی جاتی ہے۔ حالانکہ اس کے حدود بہت وسیع ہیں اور اس میں ترقی کی بہت گنجائش ہے۔‘‘
جاوید اختر نے ادب سے جن مضامین کا انتخاب اپنی کتاب ’سید اعظم حسین اعظم کا رسالہ ادب‘(تحقیق، انتخاب اور اشاریہ) شامل کیا ہے ان میں اردو تنقید (اختر علی تلہری)، نظم اور نثر (خواجہ اطہر حسین)، اردو غزل میں اخلاقیات (یوسف حسین موسوی)، ہماری افسانہ نگاری (خواجہ اطہر حسین)، صنعتوں کا استعمال (پروفیسر سید مسعود حسن رضوی ادیب)، اردو شاعری اور صنف مثنوی (امیر احمد علوی)، فانی کا دیوان اور رشید احمد صدیقی(نواب علی گوہر)، میر انیس کی سیرت (پروفیسر سید مسعود حسن رضوی ادیب)، درد کا صوفیانہ کلام (محمد سلیم صدیقی)، آسمان شاعری کا آفتاب (فاطمہ بیگم صاحبہ، منشی)، مرزا اسداللہ خاں غالب (علی مہدی خان جونپوری)، امیر مینائی (محمد اظہار الحسن (علیگ)، لسان االہند مولانا عزیز لکھنوی مرحوم (پروفیسر آغا اشہر لکھنوی)، داغ کی شاعری پر ایک بسیط نظر (مرزا محمد عسکری)، انیس کے کلام میں فلسفۂ نفسیات (پروفیسر سید امیر حسین)، پنڈت برج نرائن چکبست: بحیثیت ایک نثر نگار کے (اختر علی تلہری)بہت اہم اور وقیع ہیں۔رسالہ ’ادب‘ تعطل کا شکار رہا۔ دور اول کے بعد جدید دور ثانی میں ناصر لکھنوی کی ادارت میں اس کی اشاعت کا آغاز ہوا۔ انہوں نے خصوصی شمارہ محمود آباد نمبر نکالا جس کی علمی و ادبی حلقوں میں بڑی پذیرائی ہوئی۔
جدید اردو، کلکتہ:
1938میں کلکتہ سے ماہنامہ جدید اردو کا اجراء ہوا۔ اس رسالہ کے مدیر مسئول پرویز شاہدی ایم۔اے، مدیر مہتمم عبدالجلیل اور مدیر اعزازی ظہور احسن قاضی تھے۔ اس سے احسن احمد اشک اور سعد منیر کی بھی وابستگی تھی۔ یہ مشرقی ہندوستان کا ایک معتبر علمی اور ادبی ماہنامہ تھا جس کے ابتدائی شماروں کے سر ورق پر یہ شعر درج ہوتا تھا:
گیسوئے اردو ابھی منت پذیر شانہ ہے
شمع یہ سودائی دل سوزی پروانہ ہے
عمدہ اور معیاری مشمولات کی وجہ سے اس رسالہ نے بہت جلد ادبی دنیا میں اپنی شناخت قائم کی۔ مگر اسے بہت سی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔ جس کا اظہار شذرات میں کیا جاتا رہا۔ اے جلیل نے اپنے ایک اداریے میں ان دشواریوں کا ذکر یوں کیا ہے :
’’اردو صحافت کی کتنی بڑی بدنصیبی ہے کہ جب کبھی کوئی رسالہ افق صحافت پر طلوع ہوا تو بجائے ہمت افزائی کے اپنوں نے ہی اس کا گلا گھونٹ دینا چاہا۔ مخالفت و معاندت کی آوازیں ہر چہار سو سے آنے لگیں۔جدید اردو کا یہ دوسرا سال ہے جو اوقات دہر اور انقلابات زمانہ سے بچتا بچاتا ایک سال کی زندگی ختم کرکے دوسرے برس میں قدم رکھ رہا ہے۔ اس ایک سال کی مدت میں کن کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ کیسے حوصلہ شکن واقعات پیش آئے۔ کن کن دشوار گزار اور خار دار وادیوں سے گزرنا پڑا۔ اس کا بیان بڑا ہی تلخ ہے۔ سرزمین بنگال میں کتنے ہفت وار ماہنامے اور روزنامے اپنی تمام تابناکیوں اور درخشانیوں کے ساتھ منصہ شہود پر ضو فگن ہوئے لیکن اس کا حشر کیا ہوا۔ کچھ دنوں سسک سک کر تڑپ تڑپ کر ہمیشہ کے لئے فنا ہوگئے۔ بنگال کی زمین خصوصاً کچھ ایسی سنگلاخ ہے کہ اردو صحافت کے لیے یہاں کی آب و ہوا سازگار نہیں ہوتی۔ مزید برآں اردو داں طبقے کی غفلت اور بے اعتنائی ہر درجہ ہمت شکن ہے۔ ‘‘
(اداریہ : جلد دوم، نمبر۔2)
پرویز شاہدی نے بھی اپنے شذرات میں ’جدید اردو‘ کی اشاعتی دشواریوں پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے اور اردو رسالوں کے مستقبل پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ جون 1939کے ایک اداریے میں لکھتے ہیں:
’’ہندوستان کے کسی گوشے میں بھی ’ادب اردو‘ کا مستقبل تاباں نظر نہیں آتا۔ یاد ماضی کی روشنی حال کی تاریکیوں کو دور نہ کر سکی۔ جہاں دیکھئے اردو رسالوں کی کشتی حیات گرداب بلا میں ڈگمگاتی ہوئی نظر آئے گی۔ جہاں جائیے ناخدایان ادب کے عزم ناخدائی کو طوفان حوادث سے دست وگریباں پائیں گے۔ ‘‘
اسی اداریے میں وہ لکھتے ہیں:
’’آئے دن دہلی، لکھنؤ اور لاہور کے ایسی مرکزی اور ممتاز جگہوں سے رسالے نکلتے ہیں اور بند ہو جاتے ہیں جب یہ عالم اردو کے مرکزی مقاموں کا ہے تو کلکتے کی فضائے ناسازگار کی کیا شکایت کی جاسکتی ہے۔ کلکتے میں کتنے رسالے عالم وجود میں آئے اور ابھی طفلی کا زمانہ ختم نہ ہونے پایا تھا کہ پھر حجاب عدم میں روپوش ہوگئے۔ اردو دانوں کے غیرہمدردانہ سلوک نے ہمیشہ ہمت شکنی سے کام لیا—کوئی کہتا ہے کہ اب زمانہ سیاسی رسالوں یا اخباروں کا ہے ادبی جریدوں کا نہیں۔ بعضوں کا یہ خیال ہے کہ کلکتے کی سرزمین رسالوں کی پیداوار کے لیے بہت شور واقع ہوئی ہے۔ اس لئے یہاں تخم ریزی اور جاں فشانی سے کام لینا سخت غلطی ہے۔ ‘‘
پرویز شاہدی کے شذرات بہت اہم نکات پر مبنی ہوتے تھے۔ انہوں نے اپنے ایک اداریے میں ہندوستان کے نقادان ادب کے حوالے سے لکھا ہے اور نقد و نظر کے معیار کی پستی پر تشویش کا اظہا ر کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’ہندوستان اور بالخصوص زبان اردو میں ایک تو کسی جوہر قابل کا پیدا ہونا ہی کچھ خرق عادت سا معلوم ہوتا ہے۔ اس پر ستم یہ ہے کہ ہر طرف کور دل نقادوں کا سیلاب امڈا ہوا نظر آتا ہے جو کشت زار علم و ادب کو اپنی غلط رفتاری سے برباد اور غارت کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔‘‘
جنوری1929کے ایک اداریے میں ایک بہت اہم نکتہ کی طرف اشارہ کیا گیا تھاکہ:
’’اس میں شک نہیں کہ دہلی اور لکھنؤ نے ہی اردو کو عرصۂ وجود میں لایا۔ یہ انہیں کی بدولت پھولی، پھلی اور پروان چڑھی۔ لیکن اب جب کہ ہندوستان کی مشترکہ زبان بن چکی ہے۔ اس پر پنجاب ، بنگال اور دکن کا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا کہ لکھنؤ اور دہلی کا۔ کوئی ضروری نہیں کہ اردو زبان صرف لکھنؤ اور دہلی کے ایجاد کردہ محاورے اور انہی کے بنائے ہوئے قواعد سے بھری رہے۔ اگر دہلی اور لکھنؤ کو ایک لفظ کے تذکیر و تانیث میں اختلاف ہو سکتا ہے تو بنگال پنجاب کو بھی یہی حق حاصل ہے۔ چنانچہ اگر پنجاب والے لفظ ساقی کو تانیث لکھیں تو دہلی والے کو کوئی حق نہیں کہ وہ اس پر اعتراض کرے۔ ‘‘
جدید اردو نے مشمولات میں معیار اور تنوع کا خاص خیال رکھا۔ مضامین کی فہرست سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس میں ادبی، مذہبی،سیاسی، سماجی، تاریخی اور تمدنی مضامین شائع ہوا کرتے تھے۔ فروری1947کے شمارہ میں ہوگلی اور قدیم اسلامی یادگاریں (سید ریحان احمد)، قومی تعمیر میں ادب کی اہمیت (اختر عالم قیصر)، خونریزی کا روشن پہلو (عطا کریم برق)۔ جنوری 1939میں غالب اور میر( حضرت عصری کلکتہ)، فلورینس نائٹ اینگل (ربط ہاشمی مونگیری)۔ فروری 1939کے شمارے میں رودکی ایران کا ایک زندہ جاوید شاعر(مولانا ربط ہاشمی فاضل ادب)، اسکاٹ لینڈ کی آزادی پر بھینٹ چڑھنے والا پہلا شخص سرولیم ویلیس (سید مظہر حسنین مونگیری)، جون 1939میں بنگال کی ایک جواں مرگ شاعرہ تارودت (مولانا ربط ہاشمی فاضل ادب) ولیم مارس۔ یورپ کا ایک جلیل القدر شاعر (افسر ماہ پوری) ، جولائی 1946میں حالی کی سوانح نگاری (منہاج ردولوی) اقبال اور سیاست (انور عظیم) جیسے مضامین مجلہ جدید اردو کی معنویت اور اہمیت کا ثبوت ہیں۔ اس مجلہ میں نظمیں، افسانے اور تبصرے وغیرہ بھی شائع ہوا کرتے تھے۔ مولانا اسحاق امرتسری کی ایک تخلیق برما مسلم کا قومی ترانہ کے نام سے شائع ہوئی جس کا ایک شعر ہے:
برما کے ہم مکیں ہیں برما مکاں ہمارا
باغِ ارم ہے ہم کو یہ گلستاں ہمارا
جدیداردو ہی میں اجتبیٰ حسین رضوی کی نظم ’صبح بنارس‘ شائع ہوئی تھی۔ پرویز شاہدی گو کہ ترقی پسند تھے۔ مگر اس رسالہ میں مذہبی نوعیت کی تحریریں بھی شائع ہوتی رہی ہیں۔شہید کربلا اور میلاد النبی(حضرت شاہ مسترشد علی قادری)، قرآن مجید اور خوش نویسی (جمیلہ بیگم)، سیدنا حضرت غوث الاعظم (حضرت شاہ مسترشد علی القادری) کے عنوان سے مضامین نہ صرف چھپے بلکہ شذرات کے تحت پرویز شاہدی نے حقیقت اسلام اور میلاد النبی کے عنوان سے اداریے بھی قلم بند کیے۔
جدید اردو کی مدت اشاعت تقریباً دس برس ہے۔ اس عرصے میں جدید اردو کے کئی خصوصی شمارے بھی شائع ہوئے جن میں بنگال نمبر(جنوری1940 + اگست۔دسمبر1945 + اگست۔نومبر1946 ) اور ٹیگور نمبر (ستمبر 1941)قابل ذکر ہیں۔