پروفیسر گوپی چند نارنگ معاصر لسانی اور ثقافتی منظرنامہ میں اردو کی شناخت کا ایک معتبر اور روشن حوالہ تھے جبکہ اردو ان کی مادری نہیں بلکہ اکتسابی زبان تھی۔ ان کی والدہ سرائیکی بولتی تھیں مگر اردو نارنگ کے رگ و پے میں اس قدر رچ بس گئی تھی کہ ان کی ثقافتی شناخت بن گئی 16 جون2022 کے انگریزی اخبارات کی سرخیاں اسی شناخت کی شہادت دیتی ہیں۔ انڈین ایکسپریس کی سرخی تھی :
The Renaissance Man of Urdu
تو ٹائمز آف انڈیا کی ہیڈ لائن تھی :
Ambassador of urdu World dies at 91
زندگی کی آخری سانس تک نارنگ نے اردو تہذیب کو اپنی ذات کا جزو بنائے رکھا جب کہ مسلمانوں کے اشرافیہ طبقہ نے بہت پہلے اردو زبان اور کلچر سے دوری بنالی تھی۔ نارنگ نے اردو کو صرف زبان نہیں سمجھا بلکہ ان کا یہ خیال تھا کہ :
’’اردو جینے کا ایک سلیقہ سوچنے کا ایک طریقہ زیست بھی ہے اور مشترک تہذیب کا وہ ہاتھ جس نے ہمیں گھڑا ،بنایا اور سنوارا ہے اور وہ شکل دی ہے جسے ہم آج پہچان کی ایک منزل سمجھتے ہیں۔‘‘
(اردو زبان اور لسانیات)
اردو ان کی نظر میں’ صدیوں کے تاریخی ربط و ارتباط سے بنی ایک جیتی جاگتی زندہ تہذیب کا ایک ایسا روشن استعارہ ہے جس کی کوئی دوسری مثال کم ازکم بر صغیر کی زبانوں میں نہیں ۔‘
نارنگ اردو کی تہذیب اور اس کے آداب میں ڈھلے ہوئے تھے۔ وہ اردو کے ایک سچے عاشق ہی نہیں تھے کہ وہ اردو کو زبانوں کا تاج محل مانتے تھے بلکہ وہ اردو زبان کے وکیل دفاع بھی تھے۔انہوں نے اسلوبیات، صوتیات، غزل اور فکشن کی شعریات، میریات، انیسیات غالبیات، ساختیات پس ساختیات پر وقیع اور قابل قدر کام کیے ہیں اور اس کے ساتھ اردو زبان پر کیے جانے والے اعتراضات کا مدلل اور مسکت جوابات بھی دیے ہیں ۔
بہت ممکن ہے کہ مستقبل میں میر و غالب پر مطالعات اور صنفی شعریات پر بحث و مباحثے کا سلسلہ ختم ہو جائے مگر جب تک زبانوں کے مابین جنگ جاری رہے گی، لسانیاتی مباحث اور موضوعات زندہ و تابندہ رہیں گے۔ میرا خیال ہے کہ ترقی اور توانائی کے لیے لسانی جنگ ہی زبانوں کو زندہ رکھے گی اور امکانات کے نئے در کھولے گی کیوں کہ زبانوں کی مزاحمتی قوت ختم ہوگئی تو بہت سی زبانیں معدوم ہو جائیں گی۔ تقریباً پانچ ہزار سے زائد زبانیں مر چکی ہیں اور بہت سی زبانیں صرف کتابوں کے بوسیدہ اوراق یا پرانی پوتھیوں میں محفوظ ہیں۔
اردو بھی کب کی ختم ہو چکی ہوتی مگر اس زبان کے اندر اتنی داخلی قوت ہے کہ نامساعد حالات کے باوجود یہ زبان نہ صرف زندہ ہے بلکہ نامانوس اور اجنبی علاقوں میں بھی اپنا دائرۂ اثر بڑھا رہی ہے اور پوری دنیا میں اردو کی نئی بستیاں آباد ہو رہی ہیں ۔
گوپی چند نارنگ کو اردو زبان کو درپیش چیلنجز کا پورا احساس و ادراک تھا، اس لیے انہوں نے اردو زبان کے بنیادی مسائل اور متعلقات پر اپنی توجہ مرکوز کی۔ اس تعلق سے ان کے جو چند مضامین نہایت وقیع، بیش قیمت، بصیرت افروز اور چشم کشا ہیں، ان میں ’اردو ہماری اردو‘ ’اردو کی ہندوستانی بنیاد‘ ’اردو اور ہندی کا لسانی اشتراک‘ ’اردو رسم الخط تہذیبی و لسانیاتی مطالعہ‘ ’اردو میں اتحاد پسندی کے رجحانات‘ قابل ذکر ہیں ۔
ان مضامین کی مرکوز قرات سے اندازہ ہوتا ہے کہ نارنگ اردو اور ہندی کے تفریقی تشخصات کے سخت خلاف ہیں۔ ان کے نزدیک اردو کا ایک نام سیکولرزم یعنی غیر فرقہ واریت اور بقائے باہم ہے۔ وہ دلائل کے ساتھ یہ ثابت کرتے ہیں کہ اردو کی اساس ہندوستانی ہے وہ نان انڈین زبان قطعی نہیں ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’واقعہ ہے کہ اردو ہندوستان کی انتہائی ترقی یافتہ زبانوں میں سے ہے۔ اگر ایک طرف اس کا دامن سامی اور ایرانی زبانوں سے بندھا ہوا ہے تو دوسری طرف اس کی بنیاد آریائی ہے۔‘‘
نارنگ صاحب اس خیال کو مسترد کرتے ہیں کہ اردو،عربی، فارسی کا ظل ثانی یا نقش ثانی ہے۔ وہ اردو کی آزادانہ حیثیت پر زور دیتے ہوئے اردو پر کیے جانے والے ابلہانہ اعتراضات اور سفیہانہ مفروضات کی تغلیط و تردید کرتے ہیں۔ وہ اردو میں عربی اور فارسی الفاظ کی کثرت کے الزام کو سرے سے خارج کرتے ہوئے کہتے ہیں:
’’سید احمد دہلوی مؤلف فرہنگ آصفیہ کے اندازے کے مطابق اردو کے 55ہزار الفاظ کے سرمایے میں تقریبا چالیس ہزار الفاظ ایسے ہیں جو سنسکرت اور پراکرت کے ماخذ سے آئے ہیں یا غیر زبانوں کے الفاظ کو اردوا کر بنے ہیں—دوزبانوں میں لسانی اشتراک کی یہ غیر معمولی مثال ہے۔‘‘
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ’ اردو میں تقریبا تین چو تھائی الفاظ دیسی ہیں یعنی وہی ہیں جو ہندی میں استعمال ہوتے ہیں۔‘ نارنگ صاحب نے یہ بھی لکھا ہے کہ’’ اردو کی تقریبا چالیس آوازوں میں سے صرف چھ ایسی ہیں جو فارسی اور عربی سے لی گئی ہیں باقی سب کی سب ہندی اور اردو میں مشترک ہیں ۔‘‘
یہاں میں پروفیسر گوپی چند نارنگ کی اسی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے یہ کہنا چاہوں گا کہ پنڈت امر ناتھ جھا نے اردو میں عربی فارسی الفاظ کی کثرت کو بنیاد بنا کر اسے غیر ملکی زبان کہا تھا جبکہ لسانیاتی حقائق اس تصور کی تردید کرتے ہیں۔اگر پنڈت جی کی بات مان لی جائے تو مراٹھی بنگالی پنجابی اڑیا گجراتی جیسی علاقائی زبانیں غیر ملکی قرار پائیں گی کیونکہ ان مذکورہ بالا زبانوں میں بھی عربی اور فارسی کے الفاظ بکثرت موجود ہیں اور اس کی زد میں ہندی جیسی زبان بھی آجائے گی کہ سیتا رام شاستری کے ایک سروے کے مطابق دو ہزار تین سو عربی فارسی اور ترکی کے ایسے الفاظ ہیں جو ہندی میں مستعمل ہیں۔ اس سروے کا حوالہ نارنگ صاحب نے بھی دیا ہے ۔
دیکھا جائے تو ملیالم جیسی قدیم زبان میں بھی عربی فارسی کے الفاظ ہیں، پنجابی کے گرنتھوں میں فارسی کے کافی الفاظ ہیں تو کیا اس کی بنیاد پران زبانوں کو نان انڈین کہا جاسکتا ہے۔ حد تو یہ ہے رام چرت مانس اور رامائن میں بھی عربی فارسی الفاظ ہیں۔ پریم پال اشک نے ’رام چرت مانس میں عربی فارسی الفاظ‘ کے عنوان سے ایک مضمون لکھا تھا جو نیادور لکھنؤ کے شمارہ اکتوبر 1966میں شائع ہوا اور اسی نوعیت کا ایک مضمون محمد مصطفی خاں مداح نے ’رامائن میں عربی فارسی الفاظ‘ کے عنوان سے تحریر کیا جو انجمن ترقی ارد ہند کے مجلہ اردو ادب جولائی 1956 میں شائع ہوا۔ان دونوں مضامین میں رامائن اور رام چرت مانس میں عربی اور فارسی الفاظ کی نشاندہی کی گئی ہے تو کیا عربی فارسی الفاظ کی وجہ سے ان دونوں کتابوں کو سناتن دھرم کا مقدس صحیفہ نہیں مانا جائے گا ۔(یہ دونوں مضامین بہت اہم ہیں۔ ضرورت ہے کہ ان کی مکرر اشاعت کے ساتھ مختلف زبانوں میں ان کا ترجمہ کیا جائے ۔)
ایک طرف جہاں اردو کی ہندوستانی بنیاد سے انکار کا متعصبانہ رویہ ہے وہیں گوپی چند نارنگ اردو کی ہندوستانی جڑوں پر زور دیتے ہوئے کہتے ہیں :
’’اردو کاتعلق ہندوستان اور ہندوستان کی زبانوں سے بہت گہرا ہے۔ یہ زبان یہیں پیدا ہوئی اور یہیں پلی بڑھی۔ آریاؤں کی قدیم زبان سنسکرت اس کی جد امجد قرار پاتی ہے۔ ‘‘
وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ :
’’اردو اور ہندی کی بنیاد ڈول اور کینڈا بالکل ایک ہیں یہاں تک کہ کئی بار دونوں زبانوں کو ایک سمجھ لیا جا تا ہے ۔‘‘
گوپی چند نارنگ کے خیال میں دونوں زبانوں میں سب سے زیادہ قربت ہے اور جتنا اشتراک اردو ہندی کی لفظیات، صرفیات اور نحویات میں پایا جاتا ہے شاید ہی دنیا کی کسی دو زبانوں میں پایا جاتا ہو ۔
دونوں زبانوں میں دوریاں اور مصنوعی تقسیم، سیاست کی زائیدہ ہیں۔ اس حوالے سے بہت سے لسانی مطالعات سامنے آچکے ہیں جن سے ہندی اور اردو کے لسانی اشتراک کی ساری صورتیں واضح ہو جاتی ہیں۔ یہاں ایک ایم بی بی ایس ڈاکٹر عبد الجمیل خاں کی ایک کتاب Urdu/Hindi: An Artificial Divideکا حوالہ دینا موزوں ہوگا جو اس تنازعہ کے تعلق سے ایک مستند اور معتبر دستاویزی کتاب ہے۔ 17 ابواب پر محیط اس کتاب میں زبان کی ابتدا، تاریخ، منبع و ماخذ، Genetics، سنسکرت، پراکرت، سامی، دراوڑی زبان، انڈین کلچر، برٹش کالونیلزم، افریقی وراثت، اور میسوپوٹامیائی جڑوں کا مبسوط جائزہ لیتے ہوئے دلائل و براہین کے ساتھ ہندی اردو کی تقسیم کو مصنوعی قرار دیا گیا ہے ۔
(المیہ یہ ہے کہ اس کتاب کا ذکر کم ہوتا ہے جبکہ اردو اداروں کو اردو اور ہندی دونوں زبانوں میں اس کا ترجمہ کرانا چاہیے تاکہ دونوں زبانوں کی حقیقی صورت حال سے آگہی کی صورت نکلے )
پروفیسر گوپی چند نارنگ نے اردو رسم الخط پر بھی خاصی مدلل بحث کی ہے اور خواجہ احمد عباس کے اس خیال کو مسترد کیا ہے کہ اردو والے اپنا رسم الخط دیوناگری کرلیں۔ خواجہ احمد عباس کا یہ مضمون دھرم یگ میں شائع ہوا تھا۔ نارنگ صاحب نے نہایت معروضی اور منطقی انداز میں اپنی بات کہی ہے۔ وہ لکھتے ہیں :
’’سنسکرت تمام ہند آریائی زبانوں کی بنیاد ہے یعنی بنگالی اڑیا آسامی اودھی مگہی میتھلی بھوجپوری کھڑی ہریانی گجراتی راجستھانی پنجابی سبھی زبانوں کا سلسلہ سنسکرت تک پہنچتا ہے لیکن ظاہر ہے کہ ان سب کا رسم الخط ایک نہیں ہے۔ یہی ہندی اور اردو کا معاملہ ہے۔ دونوں آریائی ہیں لیکن اپنے ارتقائی سفر میں یہ دونوں زبانیں اتنی آگے بڑھ چکی ہیں کہ اب ان کے لیے ایک ہی رسم الخط کی تجویز کرنا دونوں کے حق میں مضر ہوگا۔‘‘
پروفیسر گوپی چند نارنگ نے اس خیال کو بھی دلیلوں سے مسترد کیا ہے کہ اردو کا رسم الخط غیر ملکی ہے :
’’اردو رسم الخط میں ایک تہائی سے بھی زیادہ حروف کا اضافہ اردو کی ہند آریائی ضرورتوں کی وجہ سے ہوا ہے۔ اس میں ایسی ایسی آوازوں اور علامتوں کا اضافہ ہو چکا ہے جو نہ عربی میں ہیں اور نہ فارسی میں اور یہ حقیقت ہے کہ اردو کا ایک صفحہ تو کیا ایک پیرا گراف بھی ان آوازوں کے بغیر نہیں لکھا جاسکتا۔ مثال کے طور پرکسی اردو اخبار یا کتاب کا ایک صفحہ بھی اگر کسی ایرانی یا عرب کے سامنے رکھا جائے تو اسے صحیح نہیں پڑھ پائے گا۔‘‘
نارنگ صاحب کی یہ بات مشاہداتی حقیقت پر مبنی ہے—ہاتھ کنگن کو آرسی کیا ۔
اردو کے عربی فارسی رسم الخط والی بات غلط مفروضہ اور ان دونوں زبانوں کی اساس اور مبادیات سے ناواقفیت پر مبنی ہے۔ ان دونوں زبانوں کا اسلام اور مسلمانوں سے کیا رشتہ رہا ہے اور ان رشتوں کی نوعیت کیا ہے، اس پر غور و فکر کیے بغیر اسے مسلمانوں سے مختص یا مشخص کرنا بدیہی حقیقت اور تاریخی صداقت کے منافی ہے۔ ہند میں فارسی رسم الخط پنڈت تلک کاشمیری کا ایجاد کردہ ہے اور عربی صرف مسلمانوں کی زبان نہیں ہے۔ طلوع اسلام سے قبل یہ مشرکین عرب کی زبان رہی ہے۔ دور جاہلیت میں عربی میں قصیدے لکھے جاتے تھے۔ سبع معلقات جاہلی دور کا شاہکار ہے اور عربی کا سب سے بڑا شاعر امرء القیس ہے جسے حضور نے الملک الضلیل قرار دیا تھا۔ وہ تو مومن نہیں تھا اور یوں بھی عربی بولنے والے یہودی اور عیسائی بھی ہیں اس لیے عربی فارسی رسم الخط کی وجہ سے اردو کو اسلام یا مسلمانوں سے منسوب کرنا سراسر غلط ہے۔
اردو کی لفظیات، صرفیات، نحویات پر جہاں اعتراضات ہوتے رہے ہیں وہیں اردو فکریات پر بھی الزامات لگائے جاتے رہے ہیں۔ اردو کے بارے میں یہ نہایت شدو مد کے ساتھ کہا جاتا رہا ہے کہ اردو پر مسلم کلچر کا رنگ غالب ہے اور ہندوستانیت غائب ہے۔ پروفیسر گوپی چند نارنگ نے دلائل ساطعہ و براہین قاطعہ سے اس مفروضے کو غلط ٹھہرایا ہے اور اردو زبان کو گنگا جمنی تہذیب /مشترکہ ہندوستانی تہذیب کا موثر ترجمان قرار دیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں :
’’اردو ادب کا کوئی گوشہ ایسا نہیں ہے جو مشترک ہندوستانی تہذیب سے اثر پذیر نہ ہوا ہو۔‘‘
نارنگ صاحب نے اپنے مضمون ’اردو ادب میں اتحاد پسندی کے رجحانات‘ میں مشترکہ تہذیبی ورثہ کی بات کرتے ہوئے اردو کو جمہوری اقدار و افکار کی زبان کہا ہے۔ انہوں نے اردو کے کلاسیکی شاعروں کے حوالے سے یہ ثابت کیا ہے کہ اردو کلاسیکی شعراء کا ذہن تمام تر مذہبی تعصبات اور تحفظات سے پاک تھا۔ وہ دوسروں کے مذہبی عقاید و علامات کا دل سے احترام کرتے تھے۔ انہوں نے بہت پتہ کی بات لکھی ہے کہ :
’’مسلمان مصنفین اپنی کتابوں کی ابتدا سری گنیش یا سرسوتی کی مدح سے کرتے اور ہندو بسم اللہ الرحمن الرحیم سے اپنی تالیف کا آغاز کرتے تھے۔‘ ‘
ڈاکٹر تاراچند کے حوالے سے نارنگ لکھتے ہیں کہ:
’’رحیم نے مدناسکا سری گنیش نامہ لکھ کر شروع کیا۔ جہانگیر کے عہد کے ہندی مصنف نے اپنی تالیف سامدریکا میں یہی کیا ہے۔ احمد اللہ دکشنا نے اپنی تصنیف نیاکا بھید میں سری رام جی سرسوتی اور گنیش کا نام لیا ہے۔ یعقوب نے راشا بھوشن لکھی تو سری گنیش جی سری سرسوتی جی سری رادھا کرشن جی اور سری گوری شنکر جی کے فضل و رحمت کا طالب ہوا اور اسی طرح آنند رام مخلص شیو پرشاد دیبی دیبی پرشاد سحر بدایونی اور برج باشی لال عاصی نے اپنا دیوان بسم اللہ الرحمٰن الرحیم سے شروع کیا۔‘‘
پروفیسر نارنگ نے شعری شواہد سے یہ ثابت کیا ہے کہ اردو زبان و ادب کے خمیر اور روح میں ہندوستانیت رچی بسی ہوئی ہے۔ اردو کے شاعروں نے ہندوستانی افکار و اقدار، ہندو تلمیحات و حکایات، علامات و اساطیر کا بکثرت استعمال کیا ہے۔ انشاء اللہ خاں انشا کا مشہور شعر ہے :
سانولے پن پہ غضب ہے دھج بسنتی شال کی
جی میں ہے کہہ بیٹھیے اب جے کنھیا لال کی
امیر مینائی کا بھی ایک شعر ہے :
سانولی دیکھ کے صورت کسی متوالی کی
ہوں مسلمان مگر بول اٹھوں جے کالی کی
مسلمان شاعروں نے رام چندر جی اور سری کرشن سے جذباتی محبت اور والہانہ عقیدت کا ثبوت دیا ہے۔ علامہ اقبال رام جی کو خراج محبت وعقیدت پیش کرتے ہوئے یہ اشعار کہتے ہیں‘
ہے رام کے وجود پہ ہندوستاں کو ناز
اہل نظر سمجھتے ہیں اس کو امام ہند
تلوار کا دھنی تھا شجاعت میں فرد تھا
پاکیزگی میں جوش محبت میں فرد تھا
مولانا حسرت موہانی نے کرشن بھگتی سے لبریز ہوکر یہ کہا :
متھرا کہ نگر ہے عاشقی کا
دم بھرتی ہے آرزو اسی کا
پیغام حیات جاوداں تھا
ہر نغمہ کرشن کی بانسری کا
نظیر اکبر آبادی تو کرشن بھکت تھے ہی انہوں نے کرشن کنہیا پر ایسی نظمیں لکھی ہیں کہ شاید ہی کوئی ہندو شاعر لکھ سکے ۔
مسلمان شاعروں نے بسنت، ہولی، دیوالی پر بھی اشعار کہے ہیں۔ اتنے مضبوط شواہد کے بعد یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ اردو پر مسلم کلچر حاوی ہے ۔
اردو کی پوری تاریخ اس کی شہاد ت دیتی ہے کہ اردو کبھی کسی خاص مذہب کی ترجمان نہیں رہی ہے۔ یہ ہماری ساجھی وراثت اور ہندو مسلم اشتراک کی نشانی ہے۔ خواجہ احمد فاروقی نے بہت اہم بات کہی ہے کہ :
’’ہندوستان بھر کی علاقائی زبانوں میں کوئی بھی زبان اتحاد پسندی کے رجحانات کی ترویج و ترقی میں اردو سے سبقت نہیں لے جاسکتی ۔‘‘
اردو پر جتنے بھی اعتراضات اور الزامات ہیں سب مہمل، عبث اور تعصبات و تحفظات پر مبنی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اردو ہندوستانیت کا تہذیبی استعارہ ہے۔
کالونیل انڈیا میں 1867میں ہندی اردو تنازعہ کا جو سلسلہ شروع ہوا تو آزاد ہندوستان میں بھی اس کے تصفیہ کی صورت نہیں نکل پائی ہے۔ جب کہ اس تعلق سے اتنے مضامین اور مطالعات سامنے آچکے ہیں کہ اب یہ تنازعہ صرف وقت اور توانائی کا زیاں ہے۔ اردو میں پنڈت برج موہن دتاتریہ کیفی نے اپنی کتاب ’ناگزیر قیل و قال‘ (انجمن ترقی اردو ہند، 1947) میں زبان اردو پر کئے جانے والے اعتراضات کا مسکت جواب دیا ہے۔ وہیں پروفیسر اویس احمدادیب نے ’اردو زبان کی نئی تحقیق‘ (خطبہ، بتاریخ 22 فروری 1941) کے عنوان سے اس نزاعی مسئلہ پر تحقیقی روشنی ڈالی ہے اور انھوں نے دلائل سے یہ ثابت کیا ہے کہ سنسکرت ہندوستان کی اولین اردوہے۔ قیوم خضر نے ’اردو اور قومی ایکتا (موشوعہ 1975) میں اردو ہندی جھگڑے پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے اور اردو پر لگائے جانے والے تمام الزامات اور اعتراضات کا معروضی اور منطقی جواب دیا ہے۔ انہوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ اردو نہ غیر ملکی زبان ہے اور نہ ہی ملک دشمن زبان ہے۔ ادیب الملک نواب سید نصیر احمد خیال نے ’داستان اردو‘ (ادارہ اشاعت اردو حیدرآباد دکن) میں بھی ساری حقیقتوں کو واشگاف کیا ہے۔ انہوں نے ’مغل اور اردو‘ میں بھی دلائل کے ذریعہ یہ واضح کیا ہے کہ اردو کو دوسری زبانوں پر سروری حاصل ہے۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے ’اردو ہندی تنازع‘ کے عنوان سے کتاب تحریر کی ہے اور اس تنازعہ کے پس منظر، محرکات پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے۔ ڈاکٹر عبدالودود نے بھی اپنی کتاب ’اردو سے ہندی تک ‘ میں اردو مخالفت اور متعصبانہ نظریات پر بات کرتے ہوئے اُن تمام ہفوات کا ذکر کیا ہے جن میں حقائق کو مسخ کرکے اردو کے خلاف باتیں کہی گئی ہیں۔ انہوں نے خاص طور پر چندر بلی پانڈے کا ذکر کیا ہے۔ جنہوں نے اردو کی مخالف ناگری پرچارنی سبھا میں مضامین لکھ کر ہندی کی فوقیت و برتری ثابت کرنے کے لیے اردو کے خلاف بے بنیاد باتیں لکھی ہیں۔ انہوں نے دلائل سے یہ ثابت کیا ہے کہ اردو اور ہندی حریف نہیں، حلیف ہیں۔ سشیل رتن چوپڑا نے بھی ’ہندوستانیت اور اردو‘ میں اردو کے تعلق سے چشم کشا باتیں کہی ہیں۔ خاکسار نے ’اردو کی مشکوک شہریت‘ (مطبوعہ قندیل آن لائن ڈاٹ کام، ادب عالیہ، نئی دہلی) کے عنوان سے ایک مبسوط مقالے میں تمام تر اعتراضات کا جواب دینے کی مقدور بھر سعی کی ہے۔
اس تنازع کے تعلق سے انگریزی میں بھی کچھ کتابیں شائع ہوئی ہیں۔ جن میں”Christopher Rolland King کی کتاب One Language Two Scripts اور طارق رحمن کی کتاب From Hindi to Urduقابل ذکر ہیں۔ امرت رائے نے بھی A House Divided کتاب لکھی تھی۔ قدیم زمانے کے رسائل میں بھی اردو ہندی تنازعہ سے متعلق بہت سے مضامین شائع ہوئے ہیں۔ خاص طور پر ’زمانہ کانپور‘ میں تسلسل کے ساتھ اس تنازعہ پر فریقین کے بکثرت مضامین شا ئع ہوئے ہیں۔
ضرورت ہے کہ اردو ہندی سے متعلق جتنے مباحث اور مطالعات ہیں، انہیں ایک دستاویز کی صورت میں شائع کیا جائے اور ہندی میں اس کے ترجمہ اور اشاعت کی صورت بھی نکالی جائے تاکہ دونوں زبانوں کے مابین دوریوں کا دروازہ بند ہو اور لسانی مفاہمت کا ایک نیا در کھلے۔ اس وقت مجادلے کی دیواریں گراکر مکالمے کے نئے دریچے کھولنے کی شدید ضرورت ہے۔ یہ مان لینے میں کوئی حرج نہیں کہ اردو کی لطافت اور ہندی کی کومَلتا کا جب تک امتزاج نہیں ہوگا دونوں زبانوں کو ترقی اور توانائی نہیں مل سکتی۔ پنڈت گنگا ناتھ جھا نے بہت قیمتی بات کہی ہے کہ ’’روحانی نقطۂ نظر سے صرف ہندی اور اردو ہی نہیں بلکہ ملک کی تمام زبانیں ایک ہیں اور ایک رہیں گی۔‘‘