یہ بے گھری کے مصائب تو ہم پہ آنے ہیں
تمہارا کیا ہے تمہارے تو سو ٹھکانے ہیں
خوشی کے پیڑ بھلا کس جگہ اُگانے ہیں
زمین پر تو اداسی کے کارخانے ہیں
مرے دماغ میں ہر روز وصل کی تجویز
تری زبان پہ ہر دن نئے بہانے ہیں
ذرا سی بات تو ہجرت کی بات ہے لیکن
ذرا سی بات پہ وہ گال بھیگ جانے ہیں
یہ سیدھے سادھے مسافر کہاں قیام کریں
جگہ جگہ پہ تمہارے فریب خانے ہیں
وہ خوش ہے اپنی اسی چار دن کی شہرت پر
میں مطمئن ہوں کہ میرے لیے زمانے ہیں
ہمارے دم سے ہے راہِ سخن میں ہریالی
ہمارے بعد یہ پتے بھی سوکھ جانے ہیں