ترجمہ:نایاب حسن
شمالی ہندوستان کی جدید زبانوں کی کہانی 12ویں صدی سے کچھ پہلے تک جاتی ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا، جب حکمراں اشرافیہ طبقات علاقائی پراکرت میں بات کرتے اور لکھتے تھے اور ان کے درباروں میں سنسکرت ادب کی سرپرستی کی جاتی تھی۔ عام لوگ پرانی مقامی زبانیں بولتے تھے، جو مشرق میں قبائلی اور مغرب میں وادیِ سندھ کی تہذیب کی زبانوں سے جڑی ہوئی تھیں،یہ زبانیں اس وقت تک زندہ، مگر غیر مکتوب اور تاریخی ریکارڈ میں کھو چکی تھیں۔ ساتھ ہی یہ چھوٹی مقامی زبانیں پراکرت کے الفاظ اپنا رہی تھیں، جس طرح آج ’ ہنگلش‘ انگریزی الفاظ اور فقروں کو جذب کر رہی ہے۔ اسی دوران قصبوں میں لوگوں نے لکھنا شروع کر دیا تھا، ابتداءاً صرف فہرستیں اور قانونی دستاویزات لکھے جاتے؛ لیکن یہ بھی ہمیں ان زبانوں کی پہلی جھلک سے روشناس کرواتے ہیں، جو بہت زیادہ ان زبانوں کی طرح ہی نظر آتی ہیں جو ہم اب بولتے ہیں۔
پرانا نظام جو پراکرت بولتا تھا اور سنسکرت ادب کی سرپرستی کرتا تھا، وہ اس طرح آمادۂ زوال تھا ، جیسے کوئی ڈایناسور تباہی کے دہانے پر ہو ۔ پھر 12ویں صدی میں شمالی ہندوستان کے کئی حصوں میں اس کا ایک نیا مدمقابل نمودار ہوا،یہ ترکی النسل (جو اب ازبکستان کا حصہ ہے) لوگ تھے، جنھوں نے بالآخر پہلے سے ہی ٹوٹی پھوٹی حکومتوں کو آخری دھکا دے کر لڑھکا دیا اور نئی سلطنتوں کی بنیاد رکھی۔
جب وسطی ایشیائی یہاں آئے، تو وہ اُزبیک بولتے تھے اور ان میں جو پڑھے لکھے تھے، وہ فارسی بھی جانتے تھے۔ ان کے پاس پرانی پراکرت زبان کی حمایت کرنے کی کوئی وجہ نہیں تھی ۔ جلد ہی انھوں نے اپنی زبان کے شاعروں اور نغمہ نگاروں کو اپنے درباروں میں مدعو کرنا شروع کر دیا اور اپنی زبان کے پھلنے پھولنے کے لیے مناسب ماحول سازی کرنے لگے۔
دہلی کے علاقے میں ایک نئی زبان پہلے ہی ابھر چکی تھی۔ اسے ہم ’دہلوی‘ کہہ سکتے ہیں۔ وہ دوسری نئی زبانوں، جیسے برج اور اودھی کے ساتھ بڑے حصے میں بولی جانے لگی، اسے جو سب سے بڑا فائدہ ہواوہ اس کی جاے وقوع کا تھا۔ یہ دارالحکومت کی لوکل زبان تھی۔ ہندوستانی تاریخ کے تمام پیشرو مہاجرین کی طرح نئے مہاجرین نے بھی اپنی ’زبانِ معلیٰ‘ کو محفوظ رکھا، لیکن اپنی پرانی مقامی زبان کو ترک کر دیا۔ انھوں نے فارسی زبان باقی رکھی؛لیکن اپنی روزمرہ گفتگو کے لیے ازبیک کو دہلوی سے بدل دیا۔ اسے انھوں نے دریافت کیا، پسند کیا اور بعض فارسی الفاظ شامل کرکے اسے استعمال کرنے لگے۔ امیر خسرو کی کچھ نظموں سے ہمیں اس زبان کی جھلک ملتی ہے:
خسرو دریا پریم کا الٹی وا کی دھار
جو اترا سو ڈوب گیا، جو ڈوبا سو پار
دہلوی ایک بول چال کی زبان تھی؛ لیکن جلد ہی لوگوں نے اس زبان میں لکھنا شروع کر دیا، البتہ سنجیدہ ادب فارسی اور سنسکرت میں لکھا جاتا رہا۔ یہ فارسی رسم الخط میں بھی لکھا جاتا تھا اور مقامی رسم الخط جیسے کیتھی اور مہاجنی میں بھی لکھا جاتا تھا۔ وقت کے ساتھ اسے ’ہندی‘ کہا جانے لگا، ’ہندوی‘ نہیں، جس کا اطلاق خسرو نے فارسی کے علاوہ تمام مقامی زبانوں پر کیا ہے۔ یہ ہندی تھی اور سبھی اسے استعمال کرتے تھے،نئے بھی اور پرانے بھی۔
صدیوں بعد مغلیہ دور میں، اورنگ زیب کے عہدِ حکومت میں، دہلی کے قریب نارنول سے تعلق رکھنے والے ایک شاعر جعفر زٹلی نے قارئین کے وسیع تر حلقے کے لیے لکھنے کا خواب دیکھا۔ یہ حکومت پر تنقیدپر مشتمل شاعری تھی؛ اس لیے اسے اس زبان میں ہونا چاہیے تھا، جو عام لوگ سمجھتے ہیں یعنی ’بولی جانے والی ہندی‘ میں؛ لیکن اسے الفاظ کی ضرورت تھی۔ اس وقت تک وہ صرف فارسی میں غزلیں لکھتے رہے تھے؛ چنانچہ فارسی وہ سر چشمہ بن گئی، جس میں ڈبکی لگاکر انھوں نے نئے ضروری الفاظ نکالے اور یہ تقریباً تمام ’اسما‘ تھے۔ انھوں نے بولی جانے والی ہندی کے بنیادی آپریٹنگ سسٹم میں کوئی تبدیلی نہیں کی ۔
1780 میں مصحفی جو لکھنؤ میں شاعری کر رہے تھے،انھوں نے اس نئی زبان کا نام ’’اردو‘‘ رکھا۔اب جب کہ اردو ایک ادبی زبان ہوگئی تھی، فارسی سے نئے اسما اخذ کرنے لگی۔ مرزا غالب نے دہلی پر انگریزوں کے قبضے کے دوران اس زبان میں شاعری کرکے اس کو اُس بلندی تک پہنچادیا کہ دہلی دربار کے بہت سے دوسرے شاعروں کے لیے بھی اسے سمجھنا مشکل ہو گیا؛ لیکن جس اردو میں وہ بولتے تھے اور دوستوں کو خط لکھتے تھے، یہ وہ زبان تھی جسے ہم بہ آسانی سمجھ سکتے ہیں:
’’انصاف کرو، لکھوں تو کیا لکھوں؟ کچھ لکھ سکتا ہوں؟… بس اتنا ہی ہے کی اب تک ہم تم جیتے ہیں۔زیادہ اس سے نہ تم لکھوگے نہ میں لکھوں گا‘‘۔
انگریز اردو میں فارسی الفاظ کی موجودگی سے ناخوش تھے ،حالاں کہ پرانے قانونی نظام میں وہ اب بھی انھیں استعمال کر رہے تھے۔ 1900 میں انھوں نے فیصلہ کیا کہ اردو کو فارسی الفاظ سے ’پاک‘ کیا جائے اور انھیں اس زبان کے الفاظ سے بدل دیا جائے جنھیں وہ پسند کرتے تھے ،یعنی فارسی کی جگہ اردو میں سنسکرت الفاظ داخل کیے جائیں؛چنانچہ اسی سال حکومت نے ایک حکم نامہ جاری کیا جس میں ’ناگری اور فارسی حروف‘ یا تحریری نظام کو ’ہندی اور اردو زبانوں‘ کی تعبیر دی گئی۔ ہندی اور اردو کی دو الگ الگ زبانوں میں تقسیم اسی سرکاری حکم نامے سے جڑی ہوئی ہے، جسے آں وقتی پریس میں ’نادانی ‘ پر مبنی اور ’غلط‘ قرار دیا گیا تھا۔
آپ دو زندگی کی ان شکلوں کو کیا کہتے ہیں جو ایک جنین کے طور پر شروع ہوئیں؛ لیکن دو حصوں میں تقسیم ہو گئیں؟ ایک جیسے جڑواں بچے، جو خیالات، اختیارات یا قصۂ حیات کے لحاظ سے یکسانیت نہیں رکھتے ۔ ایک جیسے جڑواں بچوں کو الگ الگ بتانا اکثر آسان ہوتا ہے؛ لیکن وہ جو کچھ بھی بنیں، کہیں بھی جائیں، ہمیشہ جینیاتی سطح پر ایک جیسے ہوں گے۔ دونوں کے درمیان اعضا کی پیوند کاری بھی ان کی ساختیاتی و بافتیاتی یکسانیت کے استرداد کا سبب نہیں بنتی۔
اسی طرح لسانی لحاظ سے ہندی ،اردو دونوں کا بنیادی گرامر اور بنیادی اصوات ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں۔ وہ تمام اسما جو دونوں زبانوں نے زندگی کے سفر میں حاصل کیے ہیں، مختلف تحریری نظام جو وہ اپناتے ہیں، ان کا ان کے جینیات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اردو نے فارسی/عربی سے چند حروف لیے ہیں مثلاً : خ، غ اور ق؛ لیکن جب ہم ساری توجہ ان اجنبی آوازوں پر مرکوز کرتے ہیں، تو ہم اس سے زیادہ اہم حقیقت کو نظر انداز کرتے ہیں کہ اردو میں دوہرے انعکاس کی صفت پائی ہے: ت اور ٹ اور د اور ڈ الگ الگ آوازیں ہیں، دانت اور ڈانٹ مختلف الفاظ ہیں اور یہی اس بات کا حتمی ثبوت ہے کہ یہ زبان ہندوستانی ہے ؛ کیوں کہ اس کی جڑیں 70,000 سال پہلے کے ان لوگوں سے جڑی ہیں، جو افریقہ سے آکر یہاں آباد ہوئے تھے۔
کیا کوئی زبان اس سے بھی زیادہ ہندوستانی ہو سکتی ہے؟
(اصل انگریزی مضمون روزنامہ انڈین ایکسپریس کے 19 اپریل 2025 کے شمارے میں شائع ہوا ہے۔ مضمون نگار ممتاز ماہرِ لسانیات ہیں ،ہارورڈ یونیورسٹی،جواہر لال نہرو یونیورسٹی اور اشوکا یونیورسٹی میں لسانیات اور جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ماس کمیونکیشن کی استاذ رہی ہیں۔لسانیات پر ان کی ایک کتاب 2021 میںWanderers, Kings, Merchants: The Story of India through Its Languages نام سے شائع ہوئی تھی،دوسری کتاب حال ہی میں Father Tongue, Motherland: The Birth of Languages in South Asiaکے نام سے منظر عام پر آئی ہے۔ دونوں کتابیں پینگوئن رینڈم ہاؤس نے چھاپی ہیں۔)