اکیسویں صدی میں اردو زبان وادب کی صورتحال کا جائزہ لیتے ہیں تو ایسا لگتا ہے گھڑی کی سوئیاں الٹی سمت anti clockwise چل رہی ہیں ۔
ایسا اس لیے محسوس ہوتا ہے کہ انیسویں صدی میں جب مسلم خواتین پر دقیانوسی اور مرد برتر معاشرہ کی طرف سے پابندیاں ، گھر کی چہار دیواری میں قید رکھنا اور تعلیم نسواں کی آزادی سے محروم رکھنے جیسے بیانیے لبرلز نے عام کر رکھا تھا اس دور میں بھی غیر مسلم خواتین کی بہ نسبت مسلم خواتین میں علم و ادب کا رجحان زیادہ تھا ۔ چنانچہ 1884 اور اس کے بعد کے سالوں میں ” رفیق نسواں” تہذیب نسواں "، شریف بیبیاں ، اخبار النساء ، اور بیسویں صدی میں مشرقی آنچل ، پاکیزہ آنچل ، خاتون مشرق ، بانو، وغیرہ متعدد رسائل و جرائد شائع ہوتے تھے۔
بیسویں صدی میں اردو افسانوں کا معیاری ماہانہ میگزین ” بیسویں صدی” کے قارئین کی اچھی خاصی تعداد ہوتی تھی اردو کی معتبر شخصیات ؛ شاعر، ادیب، پروفیسر اور باذوق قارئین معیاری افسانوں پر پرمغز تبصرے کرتے تھے۔
دینی مزاج کے قارئین کے لئے "ھدی” ڈائجسٹ اور دنیا جہاں کے ادبی شہہ پاروں ، قسط وار ناولوں اور متنوع تحریروں سے محظوظ ہونے والوں کے لئے "ھما” ڈائجسٹ، فلمی دنیا سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے شمع میگزین , معاشرہ میں جرائم پر مبنی مضامین کے لئے "جرائم کی دنیا” اور "مجرم” اور خواتین کے ذوق کے مطابق مختلف ڈائجسٹ اور ایک نشست یا جلد از جلد پڑھ کر مکمل صورتحال سے واقف ہونے کے لئے بیتاب کرنے والی ابن صفی کا جاسوسی دنیا کا سیریز میسر تھے ۔
انسانی تجربات اور مشاہدات کو تحریر کا جامہ پہنانے اور سماجی، سیاسی، فکری اور معاشی صورتحال کی عکاسی کو ناول کی تعریف یا تشریح کہہ سکتے ہیں ۔
اس کا مرکزی کردار عشق اور عاشقی کے خزاں اور بہار کے موسم ہوں یا وصال و ہجر کے مختلف ادوار، تشبیہات اور استعارات کے ذریعے موجودہ سیاسی اور سماجی بالخصوص اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کے واقعات کی تصویر کشی ہو یا فرقہ وارانہ منافرت کی مسموم فضا کے پیچھے کے عناصر کی نشاندہی ہو یہ اردو ادب نثر و نظم کے موضوعات ہیں۔
ماضی قریب میں بلکہ ایک سال قبل اس دار فانی سے رخصت ہونے والے ناول نگار مشرف عالم ذوقی کو فکشن کی زبان میں فیکٹ اجاگر کرنے میں ید طولی حاصل تھا۔ "مرگ انبوہ”، "نالۂ شب گیر” ، مردہ خانہ میں عورت ” جیسے ناول لکھنے والے شاید اب خال خال ہیں۔
میں اپنے بچپن کے دنوں کو یاد کرتا ہوں تو ماضی کی عظمتوں کا نوحہ ، یا پدرم سلطان بود کے احساس کے تحت شاندار ماضی پر فخر اور مسلمانوں کی زبوں حالی پر نوحہ کرنے والے نسیم حجازی کے ناول ‘اور تلوار ٹوٹ گئی’ ، ‘آگ کا دریا’ ، ‘محمد بن قاسم’ ، یا دیگر کتب ‘ خدا کی بستی’ اور ‘اداس نسلیں’ ، جیسی کتابیں پڑھنے کا نشہ ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ گلشن نندہ وغیرہ کے ناول جو باسانی دستیاب ہوتے تھے خوب پڑھا اور اس طرح پڑھا کہ گھر والوں کے ڈر سے رات دیر گئے پڑھتا تھا اور بستر کے نیچے چھپا کر رکھ دیتا تھا۔ دیر رات میرے کمرے میں بلب جلنا اور پھر بجھا دینا کبھی کبھی والدہ نوٹس کرتی تھیں اور پھر والد صاحب سے کہہ کر حضرت جی سے تعویذ دلایا گیا کہ ہو نہ ہو اس پر کسی سایہ کا اثر ہے۔
اے ایچ وہیلر A H Wheeler کتب فروشی کا سب سے بہتر چین تھا اس کو آج کے دور کا ایمزون کہہ سکتے ہیں وہ ہندوستان بھر میں ہر ریلوے اسٹیشن پر اردو ہندی انگریزی کے علاوہ مقامی زبانوں میں ہر قسم کے اخبارات ، رسائل جرائد اور ناول قارئین تک پہنچانے کا بہترین ذریعہ تھا ۔
آج اردو ادب کے تاریخی اور افسانوی ادب اور شعری مجموعوں کو پڑھنے کے تناظر میں ہم کس مقام پر ہیں آیا نئی نسل میں وہ ذوق اور شوق مزید بڑھا یا یہ سب قصہ پارینہ بن کر رہ گیا ۔
بیسویں صدی میں طباعت آج کی طرح آسان نہیں تھا ۔ خطاط کاتب مسودہ کو پیلے رنگ کے کاغذ، جسے مسطر کہا جاتا تھا ، پر بانس ، سرکنڈے کی قلم اور مخصوص روشنائی سے لکھتے تھے۔ حروف کی چوڑائی کے مطابق قلم کی نوک بنائی جاتی تھی ۔ پروف ریڈنگ میں جو غلطیاں پائی جاتی تھیں انہیں مسطر سے کاٹ کر نکالا جاتا تھا اور اس جگہ دوسرا صحیح لکھا ہوا چپکایا جاتا تھا۔ چھپائی خانہ میں لیتھو پریس ہوتا تھا ، بعد میں ترقی ہوئی تو آفسیٹ پرنٹنگ پریس کا دور آیا اب سفید چکنے کاغذ پر لکھے ہوئے مسودے کی فلم بننے لگی۔ لیکن اکیسویں صدی انفارمیشن ٹیکنالوجی کا دور نے بے شمار سہولیات مہیا کر دی ۔ اب خطاطی اور کتابت کی جگہ کمپیوٹر پر کمپوزنگ ہوتی ہے۔ پروف ریڈنگ میں جو غلطیاں سامنے آتی ہیں اسے ایڈٹ کرتے ہیں جملے حذف یا اضافہ بآسانی کرتے ہیں ۔ تو پھر سوال یہ ہے کہ
عام اردو قاری کی قوت شراء میں اضافہ اور پرنٹنگ کی ان آسانیوں کے باوجود۔۔۔
١- کیا وجہ ہے کہ ہمارے اپنے اخبارات جمعیت علماء ہند کے روزنامہ اور ہفت روزہ الجمعیۃ، جماعت اسلامی ہند کے روزنامہ، سہ روزہ اور ہفت روزہ دعوت بند ہو گئے ، روزنامہ انقلاب کو دینک جاگرن نے خرید لیا، کانگریس پارٹی کے ترجمان ” قومی آواز” جو اپنے وقت میں بہت مقبول متعدد ایڈیشن والا اخبار تھا بند ہو گیا۔
٢- کیا وجہ ہے کہ نسیم حجازی اور ابن صفی جیسے ناول نگار کی جگہ پر نہیں ہوئی!
٣- کیا وجہ ہے کہ اردو قارئین کو اسلامی تاریخی، افسانوی ادب کی کتابیں خریدنے اور پڑھنے میں دلچسپی نہیں رہی !
کیا وجہ ہے کہ اساتذہ اور ہمعصر شعراء کے شعری مجموعے کے دوسرے تیسرے ایڈیشن نہیں چھپتے !
پہلے تقریباً ہر محلے میں دو ایک ایسے بک اسٹال یا پان سگریٹ کی دکان ہوتی تھیں جو کتابیں رسالے اور ناول کرائے پر دیتے تھے ہفتہ وار ، پندرہ روزہ اور ماہنامہ رسالے فروخت کرتے تھے۔ اب شاذ و نادر ایسا کہیں دیکھنے کو ملتا ہے !
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)