Home نقدوتبصرہ اردو ادب : منفرد مشمولات پر مشتمل شاندار شمارہ- شکیل رشید

اردو ادب : منفرد مشمولات پر مشتمل شاندار شمارہ- شکیل رشید

by قندیل

اگر یہ کہا جائے کہ ’ انجمن ترقی اردو ( ہند) نئی دہلی ‘ کے جنرل سیکرٹری اطہر فاروقی کا شمار ، اردو زبان کے ادبی رسائل کے اُن چند مدیران کرام میں ہوتا ہے – جنہیں ایک ہاتھ کی انگلیوں پر گنا جائے تو اُنگلیاں بڑھ جائیں – جو اپنی مدیرانہ صلاحیتوں کی بِنا پر اردو زبان و ادب کی لاج بچائے ہوئے ہیں ، تو غلط نہیں ہوگا ۔ اطہر فاروقی میں دو اضافی خوبیاں دانشوری اور روشن خیالی ہیں ۔ اور یہ ایسی خوبیاں ہیں جو اُنہیں ، اُن موضوعات پر ، جنہیں دوسرے مدیران کرام نے اپنے لیے خود سے ’ ممنوع ‘ بنا لیا ہے ، خود لکھنے اور دوسروں سے لکھوانے میں کوئی خوف اور جھجھک محسوس نہیں کرتے ۔ ’ انجمن ترقی اردو ( ہند) ‘ کے سہ ماہی مجلے ’ اردو ادب ‘ کا تازہ شمارہ اِس کی ایک مثال ہے ۔ اِس شمارے کے مشمولات عام ادبی رسالوں کے مقابلے منفرد ہیں ۔ رسالے کے مدیر اعلا ( یہ انجمن کا املا ہے ، رشید حسن خاں کا تجویز کردہ ) صدیق الرحمان قدوائی مشمولات سے متعلق اداریہ میں لکھتے ہیں : ’’ اردو ادب کا موجودہ شمارہ ادبی تحریروں سے زیادہ زبان کے مسئلے پر مرکوز ہے ۔‘‘ زبان کا مسئلہ اس اداریے میں بھی اٹھایا گیا ہے ۔ قدوائی صاحب لکھتے ہیں : ’’ تعلیمی نظام میں ہندستانی زبانوں کی شمولیت کا مسئلہ ایک مرتبہ پھر موضوعِ بحث ہے ۔ ہندی کو قومی زبان ہونا چاہیے اس میں کسی کو شک نہیں ، مگر یہ اُس وقت تک ممکن معلوم نہیں ہوتا جب تک خود ہندی والے دل سے تمام ہندستانی زبانوں کو مساوی توقیر کی حامل زبانیں تصور نہیں کر لیتے ۔ جنوبی ہند کی علاقائی زبانوں کو شکوہ ہے کہ انھیں شمالی ہند میں زندگی کے کسی گوشے میں براے نام بھی عملاً کوئی جگہ نہیں دی گئی ۔ یہ شکوہ غلط نہیں ہے ۔ جنوبی ریاستوں اور مغربی بنگال کو شروع سے ہی ذولسانی – صوبے کی آبادی کی اکثریت کی علاقائی زبان اور انگریزی – فارمولہ اختیار کرنے کے لیے بد نام کیا گیا لیکن در حقیقت پہ ذولسانی فارمولا شمال میں آزادی کے بعد سے ہی نافذ ہے بلکہ اس معنی میں اسے یک لسانی فارمولا ہی کہا جائے گا کہ اس میں بارہویں جماعت تک ہندی کی اجارہ داری ہے اور انگریزی کے حروف تہجی سے ، ریاستی بورڈ سے ملحق اسکولوں میں طالب علم کا تعارف چھٹی جماعت سے ہوتا ہے ۔ سہ لسانی فارمولے کے نام پر شمالی ہند خصوصاً اتر پردیش کے صوبے میں تیسری زبان کے طور پر سنسکرت کو شامل کیا گیا ہے ۔ سنسکرت ہندی کے نصاب کا بھی لازمی حصہ ہے اور طالب علموں کو علاحدہ سے ایک جدید ہندوستانی زبان کے طور پر تیسری زبان کی حیثیت سے بھی پڑھائی جا رہی ہے ۔ سنسکرت کی تعلیم اس لیے دی جاتی ہے کہ طلبہ کے لیے اسکولوں میں بارہویں درجے تک کسی بھی سطح پر عملاً کسی اور علاقائی یا ریاستی زبان کو پڑھنے کی سہولت موجود نہیں ہے ۔ سنسکرت کو شمال کی ریاستوں میں جدید ہندوستانی زبان کے زمرے میں پڑھانے کا واحد مقصد اسکولوں کے نظام میں اردو کی تدریس کے امکانات کو مسدود کرنا ہے ۔‘‘ اردو زبان سے حکمرانوں کا یہ کیسا دشمنوں جیسا رویہ ہے ! لیکن اردو زبان ہے کہ مٹنے کا نام نہیں لے رہی ہے !

اطہر فاروقی نے رسالے کے اپنے کالم ’ پہلا ورق ‘ میں ’ سب کچھ ختم نہیں ہوا ‘ کے عنوان سے ، سپریم کورٹ کے اردو زبان سے متعلق ایک حالیہ فیصلے کو بنیاد بنا کر زبان کے مسئلے پر کچھ ایسے سوال اٹھائے ہیں ، جو تلخ تو ہیں مگر جائز ہیں ۔ یہ سوال پوچھے جانے ضروری تھے ۔ اترپردیش میں اردو کو دوسری سرکاری زبان بنانے کے فیصلے کے خلاف ’ اترپردیش ہندی ساہتیہ سمیلن ‘ کی درخواست کو الہ آباد ہائی کورٹ میں شکست ہوئی اور تازہ معاملہ میں سپریم کورٹ نے اردو دشمنی کے خلاف فیصلہ سنایا ، لیکن ان دونوں ہی معاملات میں وہ کہاں تھے جو خود کو اردو والے کہلانے میں فخر محسوس کرتے ہیں؟ اطہر فاروقی لکھتے ہیں : ’’ دل چسپ بات مگر یہ ہے کہ اس عرصے میں اردو کے کسی ادارے یا اردو کے کسی مجاہد نے اترپردیش میں اردو کو دوسری سرکاری زبان بنانے کے مقدمے میں فریق (Intervener) بننے تک کی کوشش نہیں کی جس کے لیے محض ایک درخواست دینی ہوتی ہے ۔ ایک طرح سے یہ مقدمہ اردو کی طرف سے عدلیہ نے ہی لڑا اور آخری فیصلہ اردو کے حق میں ہوا ۔ اردو دنیا مع مجاہدین اردو کے – جن کا تمام تر تحرک آج بھی اردو اخبارات میں اپنے بے مقصد بیان چھپوانے تک محدود ہے – اس مقدمے اور اس فیصلے سے واقف تک نہیں ۔‘‘ اطہر فاروقی اس بات پر زور دیتے ہیں کہ اس فیصلے سے ’’ یہ سبق حاصل کرنے کی ضرورت ہے کہ اگر آپ اردو کے تئیں سنجیدہ ہیں تو اہل ملک کا ایک بڑا طبقہ اور عدلیہ آپ کے ساتھ ہے ۔‘‘ اس کا ایک مطلب یہ ہوا کہ جو خود کو اردو والا کہتے ہیں وہ اردو زبان کے تئیں سنجیدہ نہیں ہیں ۔ اطہر فاروقی اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں کہ ملک کے پڑھے لکھے طبقے کے ہندوؤں نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی دل کھول کر تعریف کی مگر مسلمان ہیں کہ ان کا بس نہیں چلتا کہ اردو کو مشرف بہ اسلام کرکے اسے قعر مذلت میں اور ڈھکیل دیں ۔ وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں یہ یقین رکھتے ہیں کہ اس سے اردو کے آئینی حقوق کی بازیابی میں بڑی مدد ملے گی، مگر وہ یہ مانتے ہیں کہ ’’ اردو کے ہر قسم کے حقوق اور اسے رواج دینے کے لیے اردو والوں کو ہی متحرک ہونا ہوگا ‘‘ ، یہ زور اس لیے ہے کہ اطہر فاروقی اردو کے لیے تحریک چلاتے ہوئے اس حقیقت سے خوب واقف ہو چکے ہیں کہ اردو والے عمل کے معاملہ میں بے حِس ہیں ۔ وہ لکھتے ہیں : ’’ انہیں ( اردو والوں کو) بہانے تراشنے کے بجائے اپنے بچوں کو اردو پڑھانی ہوگی ۔ محض سوشل میڈیا پر اردو زندہ باد کے نعرے لگانے سے اردو کا کچھ بھلا ہونے والا نہیں ہے ۔‘‘ اس شمارے میں زبان کے مسئلے پر اطہر فاروقی کا ایک اور مضمون ’ سہ لسانی فارمولا اور اردو ‘ کے عنوان سے ہے ۔ اس مضمون میں زبانوں کے تعلق سے سرکاری پالیسیوں کا ذکر کرتے ہوئے وہ صاف لفظوں میں لکھتے ہیں کہ نتیجتاً : ’’ طالب علموں کے لیے اردو یا دوسری سرکاری زبانیں پڑھنے کے مواقع محدود تر ہو گیے ۔‘‘ اِس مضمون میں ’ ذاکر حسین اسٹڈی سرکل ‘ کی جانب سے اقلیتوں اور اُن کی زبانوں پر فروری 2002 کے ایک چار روزہ بین الاقوامی کانفرنس کی پہلی زبان ، دوسری زبان اور تیسری زبان کے مباحث کی روشنی میں تجاویز کا بھی ذکر کیا گیا ہے ۔ اطہر فاروقی نے ان تجاویز کو ’ قابل عمل ‘ اور ’ اہم کارنامہ ‘ قرار دیا ہے ، لیکن وہ لکھتے ہیں : ’’ سوال اب اِس کے نفاذ کا ہے ، یعنی مرحلہ عمل کا ہے جو اردو والوں کی مخلصانہ کوششوں کے بغیر ممکن نہیں ۔‘‘ وہ مزید لکھتے ہیں : ’’ دیکھنے کی بات یہ ہے کہ اردو تعلیم کا مسئلہ اردو آبادی کی پہلی ترجیح کب بنتا ہے اور کب ان کا سیاسی لائحہ عمل نہ صرف حکومت کو اس بات پر مجبور کرتا ہے کہ سہ لسانی فارمولے کا صحیح نفاذ ہو اور ان کے بچوں کو اردو تعلیم کے حصول کے مواقع میسر آئیں بلکہ دیکھنا یہ بھی ہے کہ خود اپنے اداروں میں اردو والے کب سہ لسانی فارمولے کا نفاذ کرتے ہیں ۔‘‘ اطہر فاروقی نے اِن چند سطروں میں اردو والوں کو یاد بھی دلا دیا ہے کہ اُنہیں کیا کرنا چاہیے اور ان کے رویے کو بھی اجاگر کر دیا ہے ۔

اردو زبان کے مسٗلہ پر دو پرانے مگر اردو سے محبت رکھنے والوں کے لیے ضروری مضامین اس شمارے کا حصہ ہیں ۔ ایک مضمون اردو زبان کے برطانوی اسکالر رالف رسل کا بعنوان ’ آزادی کے بعد اردو کے مسائل اور اردو ادارے ‘ ہے ، اور دوسرا مضمون ہندی کے معروف ادیب اور جے این یو کے ہندوستانی زبانوں کے مرکز کے بانی نامور سنگھ کا ہے ’ باسی بھات میں خدا کا سانجھا ‘۔ مذکورہ مرکز کا قیام اردو اور ہندی کو ایک دوسرے سے قریب لانے کے لیے کیا گیا تھا ( اس وقت اردو کے سربراہ پروفیسر محمد حسن تھے ) ، لیکن اس مضمون کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ نامور سنگھ کے دل میں اردو کے لیے کس قدر زہر بھرا ہوا تھا ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہندی والوں میں سے بہت سے ہیں جو یہ قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں کہ یہ مضمون نامور سنگھ کا ہے ، اسی لیے اس شمارے میں اصل ہندی مضمون کے پہلے صفحے کا عکس دے دیا گیا ہے ۔ اس مضمون کے ذریعے یہ پوری کوشش کی گئی تھی کہ اردو اترپردیش کی دوسری سرکاری زبان نہ بن سکے ۔ رالف رسل کے مضمون کا متعدد بار ترجمہ ہوا ہے ، یہ ترجمہ ارجمند آرا کا کیا ہوا ہے ، اور سابقہ ترجموں کے مقابلے زیادہ رواں ہے ۔ اس ترجمے کے ساتھ رسل کے مضمون پر جو ردعمل آئے تھے ، اور رسل نے جو جواب دیے تھے انہیں بھی ترجمہ کرکے اس مضمون کے ساتھ شامل کر دیا گیا ہے ۔ رسل نے اس مضمون میں ، اطہر فاروقی کے ایک انٹرویو اور ان کی ایک کتاب کا حوالہ دیا بھی دیا ہے ۔ یہ مضمون قاری کو سوچنے پر مائل کرتا ہے کہ گزرے ہوئے کل اردو کا جو مسٗلہ تھا کیا آج اس کا کوئی حل نکلا ہے ، یا سب پہلے کی طرح ہے ، ادارے پہلے ہی کی طرح سوئے ہوئے ہیں ، اور اردو کے قائدین نے اپنی خامیاں اور کمزوریاں دور کی ہیں یا نہیں ۔ ایک بہت شاندار مضمون انل مہیشوری کا ہے ’ قیامِ پاکستان کے لیے مسلمانوں کی حمایت ایک مسخ شدہ حقیقت ‘۔ یہ مضمون اُن سب کو پڑھنا چاہیے جو تقسیمِ ملک کا الزام مسلمانوں کے سر منڈھتے ہیں ، بالخصوص ’ ہندتوادیوں ‘ کو ۔ انل مہیشوری نے اعداد و شمار کے ذریعے بتایا ہے کہ ’’ ہندی مسلمان اگر واقعی پاکستان کے قیام کے لیے مضطرب ہوتے اور یہاں سے ہجرت کرتے تو 1946 میں مسلم لیگ کو مسلمانوں کی کہیں زیادہ حمایت حاصل ہوتی ۔ اہم ترین بات یہ ہے کہ یوپی سے زیادہ کسی خطے سے اتنی بڑی تعداد نے نقل مکانی نہیں کی ۔ پھر بھی اس صوبے سے 1947 اور 1957 کے درمیان صرف 11 لاکھ مسلمان – صوبے کی مسلم آبادی کا محض 11 فی صد – پاکستان گیا ۔ وہ بھی زیادہ تر شہری علاقوں سے ۔ ان صوبوں میں 1941 اور 1951 کی مردم شماری کے مطابق مسلم آبادی میں محض ایک یا دو فی صد کی کمی آئی ۔ یہ تخمینے 1931 اور 1951 کی مردم شماری کے اعداد و شمار پر اس لیے مشتمل ہیں کیوں کہ 1941 میں دوسری عالمی جنگ کے سبب دوبارہ کوئی مردم شماری نہیں کرائی گئی تھی ۔ ان علاقوں کے زیادہ تر مسلمان تقسیم ملک کے بعد یہیں رہے اور ظاہر ہے کہ اس کا فیصلہ انھوں نے اپنی پسند اور مرضی سے کیا ۔ یہ ایک ایسی تاریخی حقیقت ہے جسے تقسیم ملک کا مطالعہ کرنے والوں نے مکمل طور پر نظر انداز کر کے اپنے مفاد کے مطابق اور اپنی پسند کے نتیجے گھڑ لیے ہیں ۔‘‘ یہ ایک شاندار تحقیقی مضمون ہے ، اس کا پڑھنا ہر ایک کے لیے ضروری ہے ۔ اس مضمون کے حوالے سے ، بلکہ یہ کہنا زیادہ درست ہوگا کہ انل مہیشوری کے مضمون کو آگے بڑھاتے ہوئے ’ اردو ادب ‘ کی معاون مدیر صدف فاطمہ کی ایک تحریر ’ قیامِ پاکستان اور ہندوستانی مسلمانوں کی حمایت ‘ کے عنوان سے ہے ۔ انہوں نے انتہائی جرأت کے ساتھ لکھا ہے : ’’ ہندوستانی مورخین نہرو کے تئیں اپنی وفاداری کی وجہ سے تقسیم کے سوال پر صرف جناح کو ذمے دار ٹھہراتے ہیں اور پاکستانی تاریخ تو خیر ہے ہی جھوٹ کا انبار ۔‘‘ وہ اپنے مضمون میں مشیر الحسن کا حوالہ بھی دیتی ہیں کہ انہوں نے تاریخ نویسی میں کیسی بددیانتی کی تھی ، اور ایسی کتابیں لکھیں جو کسی کے بھی جذبات کو ذرا بھی مجروح نہ کریں ۔ وہ لکھتی ہیں کہ ’’ ایسی ہیپی ، گو ، لکّی کتابیں کسی بھی علمی کام کی نہیں ہوتیں ۔‘‘ اس مضمون میں مشیر الحسن کے حوالے سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ انہوں نے مکتبہ جامعہ کو تباہ کرنے کا افسوس ناک کام کیا ہے ۔ ( مکتبہ جامعہ کی بربادی ایک اہم موضوع ہے ، اس پر تفصیلی مضمون کی ضرورت ہے ) ۔ صدف فاطمہ کا ایک مضمون ’ دینی مدارس کے فارغین اور یونی ورسٹی نظام میں اردو درس و تدریس ‘ کے عنوان سے ہے ، اس میں یونی ورسٹیوں اور اردو ادب پر ان ’ فارغین ‘ کے ’ اثرات ‘ پر بھی بات کی گئی ہے اور اس پر بھی کہ ان فارغین کے لیے ایک ایسا نصاب تیار کرنے کی ضرورت ہے جس کے بعد وہ اردو ادب بلکہ سماجی علوم کے دیگر مضامین انگریزی کے ذریعے پڑھنے کے اہل ہو سکیں ۔ یہ مضمون بھی شاندار ہے ، صدف فاطمہ مبارک باد کی مستحق ہیں ۔ اور اطہر فاروقی ہم سب کے شکریے کے حق دار کہ اس قدر منفر مشمولات پر مشتمل شمارہ ہم سب کو دیا ۔ یہ شمارہ 150 روپیے کا ہے ، اسے موبائل نمبر 9968236208 پر رابطہ کرکے حاصل کیا جا سکتا ہے ۔

You may also like