ادبی و علمی گروہ بازی اور نظریاتی اختلاف کی دھڑے بندیاں زمانہ قدیم سے موجود ہیں ۔ حق و باطل اور خیر و شر کی جنگ بھی ازل سے جاری ہے ۔ مزاج اور سوچ کا اختلاف کچھ لوگوں کو ایک دوسرے سے دور کردیتا ہے اور کچھ کو قریب ۔ یہ کہانی ایک گھر سے معاشرے اور معاشرے سے دیگر معاشروں میں پنپتی مٹتی ، بنتی بگڑتی واضح دیکھی گٸی ہے ۔ انسان ہمیشہ مذہب ، زبان ، جغرافیہ کے نام پر تقسیم ہوتا چلا آیا ہے ۔ اگر اس بنیاد پر جنگ و جدل اور تباہ کاری کی تاریخ کا ذکر پھر کسی وقت پہ اٹھا رکھا جاٸے تو ان اختلافات اور اس تقسیم کے نقصانات اور فوائد بھی گنوائے جاسکتے ہیں ۔ خصوصاً علمی و ادبی میدانوں میں نظریاتی اور فکری اختلافات اور دھڑے بندی سے ہمیشہ علم و ادب کی ترویج ہوئی اور کٸی نٸے منہاج سامنے آئے ۔ خرابی ہمیشہ اس وقت ہوئی جب ذاتی اور مادی مفادات کی بنیاد پر گروپ بازی وجود میں آئی ۔ پیسے اور اختیار نے مل جل کر رہنے کے حسن کو تباہ کرنے کے ساتھ انسان کے انسان کے ساتھ رشتے کو بھی ہمیشہ کمزور کیا ہے ۔ ادب میں بھی شہرت ، دولت اور دیگر مفادات کی دوڑ نے جن گروہوں کو پیدا کیا انہوں نے جینوئن ادیبوں کے خوف سے ہمیشہ یہی کوشش کی کہ ان کو دیوار سے لگا کے رکھا جائے اور ان کے مدمقابل کمزور ادیب بلند مرتبہ ثابت کیے جاٸیں تاکہ ایک طرف تو ان بڑے ادیبوں کا قد و قامت سامنے نہ آئے دوسرے کمزور ترین ادیبوں کے درمیان یہ مفاد پرست طبقہ کمزور تر ہونے کی وجہ سے بلند قامت نظر آئے ۔ پاکستان کے ادبی میدان میں ستر اور اسی کی دہائی میں فنون گروپ جس کے سربراہ احمد ندیم قاسمی تھے اور دوسرا اوراق گروپ جس کے قائد ڈاکٹر وزیر آغا تھے، ان دو گروہوں کی اجاری داری کا چرچا زبان زد عام و خاص رہا لیکن ان دونوں ادبی دھڑوں کا اختصاص یہ تھا کہ ان کے درمیان ایک تو علمی و ادبی نظریات کے اختلاف پر ہونے والے مباحث اور مقابلے نے کہیں کہیں ذاتی اور کہیں کہیں علم و ادب کی ترویج کا کام کیا لیکن ساتھ ساتھ میدان ادب میں نٸے آنے والوں کی تربیت کی جاتی رہی۔ اس مثبت رویے میں اولیت ڈاکٹر وزیر آغا کو حاصل رہی ۔ دھڑے بندی نے منفی رخ اس وقت اختیار کیا جب ان دونوں دھڑوں کے کچھ تیزطرار افراد نے ذاتی مفادات کو ترجیح دی ۔ ڈاکٹر وزیر آغا گروپ سے ناصر عباس نٸیر نے کسی قسم کے اختلافات میں پڑنے کی بجاے اندر ہی اندر خاموشی سے ترقی کرنے کا انداز اپنایا اور تدریسی طبقے میں جڑیں پھیلا کر اجارہ بنایا جبکہ عطاء الحق قاسمی ، حسن رضوی اور امجد اسلام امجد نے اخبارات کے ادبی ایڈیشنوں اور ٹی وی ، ریڈیو پر اپنا اثر و رسوخ قاٸم کیا ۔ ناصر عباس نٸیر نے عطاء الحق قاسمی کو مبینہ طور پر ایک خط کے زریعے زیر سایہ آنے کی گزارش کی اور مثبت جواب نہ پانے کی صورت میں گوپی چند نارنگ وغیرہ کی چھتر چھایا میں جابیٹھے اور شاگردوں کے ذریعے مضبوط ہوٸے جبکہ حسن رضوی ، عطاء الحق قاسمی اور امجد اسلام امجد نے ملکی و بین الاقوامی مشاعروں کو نفع بخش پاتے ہوئے پوری دنیا میں پبلک ریلیشننگ کی ۔ بیوروکریٹس اور سیاستدانوں سے روابط مضبوط کیے ، مشاعروں کے آرگنائزرز کو اعلیٰ ادیب اور عمدہ مہمان نواز بنا کے پیش کیا اور کنٹرول میں لے آئے ۔ امجد اسلام امجد اور اصغر ندیم سید نے سرکاری و غیر سرکاری ثقافتی ، ادبی اداروں اور تنظیموں کے بورڈ آف گورنرز اور ایوارڈز کمیٹیوں میں داخل ہو کر اقربا پروری اور ذاتی مفادات اٹھانے کی داغ بیل ڈالی جبکہ عطاء الحق قاسمی ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت کے لیڈران کو متاثر کرکے بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہوٸے ۔ امجد اسلام امجد نے لاہور میں رہ کر اپنی سلطنت قائم کی اور مطلق العنانی کی انتہاوں کو چھوا، جبکہ افتخار عارف نے اسلام آباد کو اپنے مکمل قبضے میں رکھا ۔ اسلام آباد میں انعام الحق جاوید نے عطاء الحق قاسمی کے ایک نہایت موثر اور کامیاب مہرے کا کام کیا ۔ افتخار عارف اکیڈمی آف لیٹرز کے سربراہ رہے ، آپ ساری زندگی حکمرانوں کی اطاعت کو فریضۂ اولیں اور ٹاپ بیوروکریسی سے روابط کو قرینۂ عنبریں سمجھتے ہوٸے پاکستان ٹیلی ویژن اور ریڈیو پاکستان سے لیکر دنیا بھر میں ہونے والی تقریبات پر اثراندا ہو کر کمتر تخلیقی درجے کے لوگوں سے نکل کر دیکھنے کو بدعت سمجھتے رہے ۔ ان سب نے مل کر جو اگلا کام کیا وہ تھا سرکاری تقریبات پر قبضے کے بعد این جی اوز کے فنڈز سے منعقد کی جانے والی تقریبات ، ان کو بھی قابو میں کرلیا گیا ۔ ایک طرف ان لوگوں نے اپنے عہدوں سے فائدہ اٹھایا تو دوسری طرف ارباب اختیار سے روابط کو استعمال کرتے ہوئے اپنی اجارہ داری قاٸم رکھی ۔ این جی اوز نے اپنے مقاصد کے لیے جب پاکستان میں فنڈنگ کا آغاز کیا تو سب سے پہلے فیض امن میلہ ، فیض احمد فیض کے نظریاتی ساتھیوں کے ہاتھ سے نکل کر ادب کی اسی مصنوعی اشرافیہ کے ہاتھ میں چلا گیا اور فیض کے کلام کو باونڈری والز میں قید کرکے اس کی نظریاتی طاقت پر وار کرنے کی کوشش کی گٸی ۔ ڈکٹیٹر جنرل مشرف کو ظل سبحانی کہنے والے افتخار عارف فیض احمد فیض کے ولی عہد بھی بنے رہے اور جنرل مشرف کے لیے رطب اللسانی کا فریضہ بھی سرانجام دیتے رہے ۔ کچھ چھوٹے موٹے مشاعرہ بازووں نے الگ سے اپنی آدھ انچ کی مسجد بھی بناٸے رکھی ۔ اسی دوران احمد شاہ نیشنل آرٹ کونسل کراچی کے ایسے سربراہ بنے کہ پچھلے سولہ سالوں سے مسلسل قابض چلے آرہے ہیں ۔ انہوں نے آرٹ کونسل میں غیر ادیبوں کی ممبرشپ بڑھا کر اپنے ووٹوں میں اضافہ کیا اور قبضہ برقرار رکھنے میں مسلسل کامیاب چلے آ رہے ہیں ۔ حرام ہے کہ ان کی فہرست میں کبھی کوٸی تبدیلی آٸی ہو اور اب تو خیر سے اپنی مخصوص ٹولیوں سمیت لاہور تک بھی آ پہنچے ہیں بلکہ اب اس سے بھی آگے کی سوچ رہے ہیں۔ کراچی کے آرٹسٹوں اور حقیقی شاعر ادیبوں کے واویلے کے باوجود ٹس سے مس ہوتے نظر نہیں آتے اور سندھ کے کلچر کے فروغ کے نام پر حکومت سندھ اور این جی اوز سے لیے جانے والے پیسوں سے غیر ملکی گلوکاراوں کے رقصیلے گانوں کے مظاہرے کو ملکی خدمت سمجھ کر پیش کرنے کو کارنامہ قرار دیتے ہوئے حیف ہے کہ کبھی ان کی زبان میں ذرا سی بھی لکنت آٸی ہو ۔ ایک وقت تھا جب کراچی میں شہر قاٸد کا سالانہ مشاعرہ دنیا کا سب سےبڑا مشاعرہ ہوا کرتا تھا ۔ ملک کا شاید ہی کوئی معتبر شاعر ایسا ہو جس نے اس میں شرکت نہ کی ہو ۔ پہلے تو حسن رضوی ، عطاء الحق قاسمی ، امجد اسلام امجد اور افتخار عارف نے اسے اپنے انفلوٸنس میں لیا پھر خیر سے احمد شاہ تشریف لاٸے تو آج اس بڑی روایت کی صرف یادیں باقی رہ گٸی ہیں ۔
قبضے کی بات صرف یہیں تک محدود نہیں رہی بلکہ پوری دنیا میں جہاں جہاں اردو بولی جاتی ہے اور شعر و ادب سے محبت کرنے والے آباد ہیں ان میں سے مشاعروں کے آرگناٸزرز کو خاص طور پر ٹارگٹ کیا گیا ، ان سے رسم و راہ بڑھائی گٸی اور اخباری کالموں میں ان کا لچھے دار ذکر اذکار کرکے ان کو ہاتھ میں کیا گیا اور پھر یہی دو چار لوگ تھے جو قطر کی ادبی تقریبات سے لیکر امریکہ تک کےمشاعروں پر چھا گٸے ۔ یہ لوگ ہر آنے والی تقریب کے شرکا کی فہرستیں بناتے ، اپنے منظور نظر لوگوں کو ریکمنڈ کرتے اور شاندار شعرا کے خلاف پروپیگنڈا کرکے ان کے نام کٹواتے اپنے جشن منانے لگے ۔ حتی کہ یو کے کے حضرت شاہ سے لیکر پتہ نہیں کس کس کو شاعر اور شاعرہ بنایا گیا، کس کس کے ریستوران بِکوائے گٸے ۔ ان کے ہر غیر ملکی دورے کے درمیان تحفے چھیننے کی نٸی سے نٸی کہانی سامنے آتی ہے ۔ اور بڑے بڑے مفادات حاصل کرنے کے چرچے سامنے آتے رہتے ہیں ۔ اردو مرکز لندن پر قبضہ برقرار رکھنے والوں میں ایک نمایاں نام افتخار عارف کا بھی ہے ۔ پھر سمندر پار ممالک میں بھی کمیونٹی کو ری پلیس کیا جانے لگا اور چوکس قسم کے افراد کو وہاں کی حکومتوں سے کلچر کے لیے ملنے والے فنڈز کا رستہ دکھایا گیا اور دس کی دس انگلیاں گھی میں ڈال دی گٸیں ۔ پاکستان کی تاریخ اٹھا کے دیکھی جاٸے تو پتہ چلے گا کہ سب سے زیادہ اور تسلسل سے ادبی اعزازات میں امجد اسلام امجد ، عطاء الحق قاسمی اور افتخار عارف کے نام آٸیں گے ، ادبی و ثقافتی اداروں کے عہدوں پر بھی یا تو ان کی ہی تاریخ نکلے گی یا ان کے آلہ کاروں کی ۔ یہاں تک کہ اعزازات کے لیے بناٸی جانے والی کمیٹیوں میں بھی زیادہ تر ایسے ہی افراد نظر آئیں گے ۔ ان لوگوں نے جہاں جہاں موقع ملا جینوٸن لوگوں کے سامنے رکاوٹیں کھڑی کیں ، ان کو پیچھے دھکیلا اور ان کے رزق سے لے کر عزت اور شہرت تک کو ڈیمج کیا ۔
ایک قبضہ گروپ جو مدرس کمیونٹی میں پیدا ہوا اس نے پچھلے چالیس سالوں سے ہمارے ادب اور ادیب کو جو نقصان پہنچایا اس کا ازالہ شاید صدیوں تک ممکن نہ ہو ۔ اس گروہ کا مرکز اورٸنٹل کالج پنجاب یونیورسٹی ہے ۔ یہ واٸرس یہاں سے پھوٹا اور پورے ملک میں پھیل گیا ۔ تحقیق کا کام چونکہ تعلیمی اداروں میں روٹین سے ہوتا ہے لہذا ڈگریوں کے حصول کے لیے طلبا و طالبات کو دیے جانے والے موضوعات کا انتخاب اساتذہ اور نگرانوں کے اختیار میں ہوتا ہے جسے چاہیں قبول کرلیں جسے چاہیں رد کردیں اور پھر نگران یا سپرواٸزر کا انتخاب بھی انہی کے پیٹی بھاٸیوں کے ہاتھ میں ۔ اس گروہ کے خود اپنے اندر سب سے پہلے اپنی ڈگریوں کے حصول کے لیے صف بندی کرنا یا صفوں میں شامل ہونا لازم ہے ۔ پھر بطور لیکچرر انٹرویو پاس کرنا اور کہیں تقرری حاصل کرنا اس طاقتور گروہ کے ہاتھ میں ہوتا ہے ۔ تقرری کے بعد اسسٹنٹ پروفیسر ،ایسوسی ایٹ پروفیسر اور پھر فل پروفیسر بھی ان کی گھر کی بات ہے ۔ کیا پڑھانا ہے ، یہ بھی خود ان کی صوابدید پر ہوتا ہے کہ کس نے پڑھانا ہے ، کب پڑھانا ہے بلکہ اب تو یہ سوال بھی شامل ہوچکا ہے کہ کیوں پڑھانا ہے ۔ یہ تمام معاملات ان سب کی آپس کی بات ہے ۔ ان کو ہر سال سینکڑوں نوجوان طلبا و طالبات میسر آتے ہیں جن میں سے لاٸق سے لاٸق سٹوڈینٹ بھی با اثر گرگوں کی اطاعت کے بغیر نہ اچھے نمبر لے سکتا ہے نہ نوکری ۔ یہ اپنے اداروں میں جتنے پرانے ہوتے جاتے ہیں ان کا مرتبہ خود اپنی نظروں میں میرو غالب اور حالی و حسن عسکری سے بلند ہوتا چلا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ انہوں نے حقیقی تخلیق کار ، نقاد اور محقق کو زندہ درگور کرنے کی ٹھان رکھی ہے ۔ کالج یونیورسٹیوں کی تقاریب میں حقیقی ادیبوں کے لیے دروازے بند کردیے گٸے ہیں جبکہ ملک بھر میں ہونے والی تقاریب میں بھی ہرجگہ یہی قابض نظر آتے ہیں ۔ غیر ملکی دورے اور تقرریوں کے لیے چھینا جھپٹی کا عالم ایک الگ منظرنامہ ہے ۔ اس گروہ نے پچھلے چالیس سالوں سے تاڑ تاڑ کر کمزور لوگوں پر تحقیقی کام کیا ہے ، ان کو تذکروں میں شامل کیا گیا ہے اور جن ادیبوں کی وجہ سے زبان و ادب آگے بڑھ رہا ہے انہیں اپنے قاتل دکھائی دیتے ہیں ۔ ظلم کی انتہا یہ ہے کہ اب تھیسس لکھنے کا باقاعدہ کاروبار وجود میں آ چکا ہے ۔
آج کل ایک اور طاقتور قبضہ مافیا متعارف ہو رہا ہے ، جو بیوروکریسی اور دیگر شعبے کے افسران شعرا پر مشتمل ہے ۔ ان لوگوں نے اپنے اثر و رسوخ سے ڈی سی اوز اور دیگر متعلقہ افسران پر اپنے ساتھ شامیں منانے ، مشاعرے بپا کرنے اور کانفرنسوں میں نمایاں رہنے کے سلسلے میں متواتر دباؤ رکھا ہوا ہے ۔ اس کی داغ بیل ڈالنے کا سہرا پوری دنیا میں وائرس کی طرح پھیل جانے والے ایک ایسے شاعر کے سر جاتا ہے جس کی پہلی شہرت دوسروں کے شعر چوری کرکے اپنے نام سے پڑھنے کی تھی ۔ پھر اس کی بازی گری کے شکنجے میں آیا ہوا ایک اعلیٰ سرکاری اکاونٹنٹ اتنا فعال ہوا کہ ان کے بعد آنے والے سرکاری افسر شعرا بلبلا کر اپنے اثر و رسوخ کو استعمال کرنے لگے ہیں ۔
اردو ادب کا قبضہ مافیا – فرحت عباس شاہ
previous post