نام رسالہ : سہ ماہی ’اردوادب‘ (میر تقی میرؔ نمبر)
مدیران : صدیق الرحمٰن قدوائی، اطہر فاروقی، صدف فاطمہ
اشاعت : جلد:-69 68، شمارہ: 274-271 (جولائی2024 تا جون2025 )
صفحات : 320
قیمت : 500 روپے
ناشر : انجمن ترقی اردو (ہند)، اردو گھر،212، راؤز ایونیو، نئی دہلی۔ (موبائل: 9968236208)
اردو کے ہر قسم کے رسائل و جرائد کا زوال ہرچندکہ یہاں موضوع نہیں مگر یہ سوال اہم ضرور ہے کہ جب خصوصاً اردو کے ادبی پرچے تیزی سے بند ہورہے ہیں تو آخر سہ ماہی ’اردو ادب‘ اپنی اشاعت کے 103 سال بعد بھی اتنی ہی آب و تاب سے کس طرح شائع ہورہا ہے۔ مشہور صحافی خشونت سنگھ نے Illustrated Weekly of India کا مدیر بننے کے بعد اس کی تعدادِ اشاعت کو لاکھوں میں پہنچا دیا تھا، انھوں نے کامیاب پرچے کا جو نسخہ اپنی خودنوشت سوانح Truth, love & a little malice an autobiography میں بتایا ہے، اس پر اردو کا کوئی جریدہ پورا نہیں اترتا۔ یعنی : Inform, Amuze and Irritate (ص 253)۔ اردو کے ادبی پرچوں میں بعد کی دونوں خصوصیات مفقود رہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک طرف جہاں انگریزی کے بعض علمی پرچوں میں مضمون اشاعت کے لیے منظور ہونے کے بعد پانچ برس تک انتظار کرنا پڑتا ہے، وہیں اردو میں نوکری اور ترقی کی مجبوری کا فائدہ اٹھانے والے اردو کے نام نہاد Peer Reviewed Journals کی تعداد اشاعت سو بھی نہیں ہے۔
اردو ادب کے مدیر ہمیشہ بڑے اور نہایت قابلِ احترام لوگ رہے ہیں۔ اس فہرست میں باباے اردو مولوی عبدالحق اور پروفیسر آلِ احمد سرور کے اسماے گرامی خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں، مگر ڈاکٹر اطہر فاروقی صاحب کی ادارت میں اردو ادب نے اپنی منفرد شناخت قائم کی ہے۔ مضامین کے موضوعات کا تنوع، بغیر کسی مصلحت کے تحریروں کا انتخاب اور پورے پرچے کی ایسی معیاری زبان جو تحریروں کے عدم توازن کو دور کردے، اردو کے علمی جریدے میں اب نظر نہیں آتی۔ اردو میں تو اصل میں ایڈیٹنگ کا انگریزی جیسا تصور ہی نہیں ہے۔ ایڈیٹنگ کا اصول یہ ہے کہ اگر مدیر ایک مضمون قاضی عبدالودود کا شائع کررہا ہے تو باقی مضامین کی زبان کو بھی وہ ایڈیٹنگ سے تقریباً قاضی صاحب کی زبان کی سطح پر لے تو آئے مگر دونوں کے درمیان امتیازبھی قائم رہے ۔
میر تقی میرؔ (1810-1723) اردو شاعری کے ان بلند پایہ شعرا میں شمار ہوتے ہیں جنھیں بجا طور پر خداے سخن کا لقب دیا گیا ہے۔ ان کے کلام میں انسانی جذبات، درد، عشق، اور فلسفۂ حیات کا جو امتزاج ملتا ہے، وہ اردو ادب میں ایک منفرد مقام کا حامل ہے۔ میر کی ولادت کے تین سو سالہ جشن کے موقعے پر انجمن ترقی اردو (ہند) نے پورے برس تقریبات منعقد کیں۔ پہلی تقریب 22 جنوری 2024 کو انڈیا ہیبی ٹیٹ سنٹر کے اشتراک سے اور دوسرا چار روزہ جشنِ میر 15 سے 18 فروری 2024 کو انڈیا انٹرنیشنل سنٹر، نئی دہلی کے اشتراک سے منعقد ہوا اور آخری تقریب 29 ستمبر کو میر تقی میرؔ کے 150 اشعار پر مبنی انگریزی کے مشہور شاعر رنجیت ہوسکوٹے کی کتاب The Homeland’s an Ocean پر انڈیا ہیبی ٹیٹ سنٹر ہی میں منعقد کی گئی۔ ان تینوں ہی تقریبات میں اردو کی اصطلاحی دنیا سے باہر میر کے شائقین کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ کسی بڑے شاعر کے جشن کی اکثر تقریبات رسمی یا خانہ پری کی حد تک محدود رہتی ہیں، لیکن انجمن نے اس روایت سے ہٹ کر میر کے تعلق سے جو کام انجام دیا، وہ میر کے مطالعات کے فکری اور تحقیقی میدان میں نمایاں اہمیت کا حامل ہے۔ جشن میر کا اختتام سہ ماہی مجلے ’اردو ادب‘ کے خاص شمارے میر تقی میرؔ نمبر، جلد 68-69، شمارہ نمبر 270-74 پر کیا گیا ہے، جو میر کے ادبی مقام کو روشن کرنے کی نہایت کامیاب کوشش ہے۔ یہ شمارہ میر کی شخصیت اور فن کے مختلف پہلوؤں کو پیش کرنے کی ایک عہدساز کوشش ان معنوں میں ہے کہ میر پر لکھی جانے والی تحریروں میں اب جو یکسانیت اور اوبا دینے والے چند ہی نکات کی تکرار ہوتی ہے، یہ شمارہ اس سے برات کی کوشش ہے۔ اس شمارے کا ہر مضمون میر کی زندگی اور کلام کے مختلف گوشوں پر روشنی ڈالتا ہے۔
اردو ادب کے میر تقی میرؔ نمبر میں نہ صرف میر کے فکر و فن پر سنجیدہ اور گہرائی پر مبنی تحقیق پیش کی گئی ہے بلکہ اس کے ذریعے میرؔ کو عالمی تناظر میں متعارف کرانے کی کامیاب کوشش بھی اس شمارے کا خاصہ ہے۔ جریدے کے مدیر ڈاکٹر اطہر فاروقی کا اس خصوصی شمارے کو انفرادی اور تحقیقی مواد سے مزین کرنے میں فیصلہ کن کردار جا بجا نظر آتاہے۔ اس شمارے میں شامل مضامین، تراجم، اور مباحث میر کے تخلیقی، فکری، اور تہذیبی پہلوؤں کو نمایاں کرتے ہیں۔ یہ شمارہ اس بات کا بھی مظہر ہے کہ کس طرح ایک مدیر اپنی بصیرت، محنت، اور علمی ذوق سے ایک ادبی مجلے کو اتنے اعلا معیار پر پہنچا سکتا ہے اور وہ بھی ایسے وقت میں،جب اردو کے علمی جریدے تیزی کے ساتھ بند ہورہے ہیں، اور جو جاری ہیں، ان کی تعداد بہت کم ہے جب کہ ’اردو ادب‘ علمی و ادبی مجلہ ہوتے ہوئے بھی بڑی تعداد میں فروخت ہوتا ہے۔جسے اب امیزون کے ذریعے بھی خریدا جاسکتا ہے۔ سرکیولیشن کی اس ا ٓسانی کو شاید ہی کسی دوسرے اردو رسالے نے اپنایا ہو۔
اطہر فاروقی صاحب نے اس شمارے کی وساطت سے نہ صرف میر کے علمی اور ادبی پہلوؤں کو ایک نئے اور معروضی انداز میں پیش کیا ہے بلکہ میر کی شاعری کی عصری معنویت اور بین الاقوامی اہمیت پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ شمارے میں شامل مختلف النوع موضوعات نہ صرف میر کے کلام کو مختلف زاویوں سے سمجھنے میں معاون ہوں گے بلکہ ادب کے طلبا اور محققین کے لیے یہ شمارہ نئے امکانات کو بھی روشن کرتا ہوا نظر آتا ہے۔
اس خصوصی شمارے کا اداریہ انجمن کے صدر پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے تحریر کیاہے، جس میں انھوں نے میر پر سنجیدہ اور معیاری کام کی ضرورت پر زور دیاہے۔ ان کے خیالات اس بات کا واضح اشارہ دیتے ہیں کہ اب میر کی شاعری اور ان کی شخصیت کے مطالعے میں گہرائی اور وسعت دونوں کا مکمل فقدان ہے۔ اپنے اداریے میں انھوں نے میر کی شاعری کو ان کے عہد کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت پر زور دیا ہے اور اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ میر کی شخصیت اور کلام کے حوالے سے تحقیق کے نئے دروازے کھولنے کی ضرورت ہے۔ اداریے میں اس بات پر بھی زور دیا گیا ہے کہ میر کا مطالعہ ان کے فارسی کلام کے بغیر نامکمل ہے۔ اس بات کو شمارے میں شامل مضامین کی ترتیب اور تنوع سے بخوبی تقویت ملتی ہے۔ قدوائی صاحب کا یہ اداریہ ’اردو ادب‘ کے اس خصوصی شمارے کی علمی سمت کو بھی متعین کرتا ہے۔ انھوں نے نہایت بصیرت افروز انداز میں میر پر سنجیدہ تحقیقی کام کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ ان کے مطابق، میر کا مطالعہ صرف ان کے کلام تک محدود نہیں ہونا چاہیے بلکہ ان کی شاعری کے ذریعے ان کے عہد، ثقافت، اور انسانی جذبات کی تفہیم بھی ضروری ہے۔
میر کے عالمی تناظر میں تعارف کے لیے انگریزی کے بین الاقوامی شہرت یافتہ شاعر رنجیت ہوسکوٹے کے قلم سے کیے گئے میر کے 150 اشعار کا ترجمہ Homeland’s an Ocean قابلِ ذکر ہے۔ شمارے میں شامل ’گوشہ ہوسکوٹے‘ کے تحت ان کی تقریر بعنوان ’میر کی راہ پر‘ اور سلمان خورشید صاحب کے ساتھ گفتگو میر کے تخلیقی عمل اور ان کے تہذیبی و ثقافتی اثرات کی تفہیم کے نئے امکانات سے پُر ہے۔ یہ گوشہ میر کی شاعری کی بین الاقوامی اہمیت کو نمایاں کرتے ہوئے یہ بتاتا ہے کہ میر کا کلام نہ صرف اردو دنیا میں بلکہ دیگر زبانوں اور ثقافتوں پر بھی گہرا اثر رکھتا ہے۔ ڈاکٹر اطہر فاروقی کی ذاتی دلچسپی کی وجہ سے رنجیت ہوسکوٹے جیسا انگریزی کا بین الاقوامی شہرت یافتہ شاعر انجمن ترقی اردو (ہند) کی دعوت پر میر پر گفتگو کے لیے دلّی آیا۔ یہ دونوں تحریریں انگریزی سے اردو میں نریش ندیم صاحب نے ترجمہ کی ہیں اور ان کی مہارت کے ساتھ ایڈیٹنگ ڈاکٹر صدف فاطمہ نے کی ہے۔
شمارے میں شامل مضامین کی فہرست اور ان کے موضوعات میر کی زندگی اور شاعری کے تمام ضروری پہلوؤں کا احاطہ کرتے ہیں۔ ہمارے زمانے میں فارسی کے سب سے محترم اسکولر پروفیسر شریف حسین قاسمی کا مضمون میر تقی میر کی دہلی (منظوم و منثور فارسی آثار کی روشنی میں) میر کی دہلی اور شاہ جہان آباد کے ادبی منظرنامے کو میر کی فارسی شاعری کے تناظر میں پیش کرتا ہے جو اس دور کی گنگا جمنی تہذیب کو سمجھنے میں ایک ایسے وقت میں مددگار ہوگا جب اس گنگاجمنی تصور کے گردہی خطرات منڈلا رہے ہیں۔
’میر کے چند محاوراتی اشعار‘ میں ڈاکٹر بیدار بخت نے میر کے محاوراتی اشعار کا تنقیدی جائزہ لے کر ان کے اسلوب کے اثر، نزاکت اور معنوی گہرائی کو روشن کیا ہے۔ اس مضمون سے میر کے اشعار کی فلسفیانہ اور ادبی اہمیت بھی واضح ہوتی ہے۔ ’میر تقی میر: تازہ تحقیقات و انکشافات‘ میں پروفیسر معین الدین عقیل نے میر پر ہونے والی جدید تحقیقات کو پیش کرتے ہوئے اہم انکشافات کیے ہیں۔ ان کی تحریر تحقیقی نوعیت کی ہے اور نئے قاری کے لیے میر کے مطالعے کو دلچسپ بناتی ہے۔
’میر کی فارسی شاعری (اختصاص و امتیاز)‘ میں پروفیسر اخلاق آہن نے میر کی فارسی شاعری کے اختصاص اور امتیاز کو بیان کیاہے۔ ان کا مضمون اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ میر صرف اردو ہی کے شاعر نہیں تھے بلکہ فارسی ادب میں بھی بلند مقام رکھتے ہیں۔ ’آب حیات اور میر‘ میں ڈاکٹر سرور الہدیٰ نے ’آب حیات‘ میں میر کی تصویر کشی پر تنقید تو کی ہے مگر اس کتاب کو سنجیدگی کے ساتھ پڑھنے پر زور دیاہے۔ خالد ندیم کا مضمون ’تلمیحات میر: انبیاے کرام کے حوالے سے‘ میں میر کی شاعری میں مذہبی حوالہ جات اور تلمیحات کے استعمال کو گہرائی سے بیان کرتا ہے۔ یہ مضمون میر کی فکری وسعت اور ان کے ادبی ورثے کی اہمیت کو مزید نمایاں کرتا ہے۔
’قندِ مکرر‘ کے عنوان کے تحت پروفیسر ارجمند آرا کا ترجمہ کردہ رالف رسل کا مضمون ’میر: ایک شخص اور اس کا عہد‘ اور علی سردار جعفری کے ’کلیات میر کا دیباچہ‘ ایک بار پھر شائع کرنا شمارے کی اہمیت میں قابلِ قدر اضافہ کرتا ہے۔ یہ تحریریں میر کی شخصیت اور ان کے عہد کو بہتر سمجھنے میں معاون ہیں۔
پروفیسر ارجمند آرا کا ہی مضمون ’کلاسیکی غزل پڑھنے سے پہلے‘ نئے قارئین کے لیے نہایت اہم ہے۔ میر کے اشعار کو سمجھنے کے لیے دیے گئے نکات نہایت مفید ہیں اور ان کی شاعری کے پس منظر کو واضح کرتے ہیں۔ اس مضمون سے قبل ڈاکٹر اطہر فاروقی کی وضاحتی نوٹ بعنوان ’دیوانِ میر ناگری میں : کہانی ایک نہایت شاطرانہ سرقے کی‘ نے دیوان میر کی تدوین اور اشاعت کے مسائل کے اس سلگتے ہوئے سوال کو اٹھایا ہے جو اردو شاعری کی ناگری میں اشاعت کے متعلق ہے۔ اردو سے ہندی ترجمے کو لوگ دنیا کا سب سے آسان کام نہ صرف سمجھتے ہیں بلکہ اسے مشینی انداز میں کرتے بھی ہیں، جو اردو ادب کے لیے نیک فال قطعی نہیں ہے۔ پروفیسر ارجمند آرا اپنے ایسے ہی ایک شاگردـ ’وپن گرگ‘ کی بدنیتی کا شکار ہوگئیں۔ ان کے اس شاگرد کا خیال تھا کہ ایک اردو اور ناگری جاننے والے ٹائپسٹ کے ذریعے میر کی شاعری کو اردو سے ناگری لپی میں منتقل کرنا نہایت آسان کام ہے۔ ارجمند آرا صاحبہ نے اس متن کو ناگری میں ازسرِنو مرتب کیا مگر ان کے شاگرد نے اس کتاب کو ’چلو ٹک میر کو سننے‘ کے عنوان سے راج کمل پرکاشن سے صرف اپنے نام سے شائع کرالیا۔
محمود احمد کاوش کا مضمون ’میر تقی میرؔ کا غیر مطبوعہ دیوانِ ہفتم‘ میں میر کے متنازع غیر مطبوعہ ’دیوان ہفتم‘ کے حوالے سے کی گئی تنقیدمضمون نگار کی علمی گہرائی اور باریک بینی کا مظہر ہے۔ پروفیسر معین الدین عقیل صاحب کے مطبوعہ متن میں سیکڑوں غلطیوں کی نشاندہی اور مدون کے دعووں کی تردید نے اسے ایک غیرمعمولی مضمون بنادیا ہے۔ خاص طور پر دو غزلوں، چند اشعار، اور ایک مصرع کی بنیاد پر نئے دیوان کا دعویٰ، جسے محمود احمد کاوش نے ’فریب‘ یا ’لاعلمی کا شاہکار‘ قرار دیا، اردو تحقیق کے معیارات پر سوال اٹھاتا ہے۔ مدیر نے یہ مضمون شائع کرکے علمی اختلاف کا دروازہ ایک بار پھر کھولاہے۔ ان کا یہ قدم نہایت جرأت مندانہ ہے اور سہ ماہی ’اردو ادب‘ کی علمی دیانت داری پر بھی ایسے وقت میں دلالت کرتا ہے جب اردو کے علمی پرچے ستائشِ باہمی کا کلب بن کر رہ گئے ہیں اور ان میں چوں کہ کوئی اختلافی بات مصلحتاً شائع نہیں کی جاتی، اس لیے، قاری کی ان میں کوئی دل چسپی نہیں ہوتی۔
’ارمغان انجمن ترقی اردو (ہند)‘کے عنوان کے تحت ڈاکٹر صدف فاطمہ کے ترجمہ کردہ ’میر کے فارسی لطائف‘ کو شامل کرنا انجمن کا ایک اور جرات مندانہ قدم ہے۔ یہ ترجمہ میر کی شخصیت اور فن کے ان گوشوں کو سامنے لاتا ہے جو اب تک نظر انداز کیے گئے تھے۔ یہ ترجمہ ایک قابل تحسین کاوش ہے۔ اس نے میر کے تخلیقی پہلو کے ایک اہم گوشے کو اردو قارئین کے سامنے پیش کیا ہے۔ اس ترجمے کو شائع کر کے انجمن نے اپنی اس 98 سالہ غلطی کی عملی تلافی کی ہے جو مولوی عبدالحق نے اپنے نام نہاد مذہبی جوش میں کی تھی۔ ہمارے علماء نے کبھی میر کی شاعری پر اس لیے اعتراض نہیں کیا کہ اس میں موجود فحاشی کا بیان بیمار ذہن کی پیداوار نہیں بلکہ ایک زوال آمادہ معاشرہ کا آئینہ ہے جسے تاریخ کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ ترجمہ نہ صرف نہایت سلیس ہے بلکہ اس پر ڈاکٹر صدف فاطمہ نے جو علمی حواشی لکھے ہیں، وہ بھی بے مثال ہیں۔ اس حصے کو پڑھنے کے بعد ہی میر اور بے خود دہلوی کے ان رشتوں کا پتا بھی چلتا ہے جن پر ابھی تک میر کے کسی نقاد نے لکھا ہی نہیں ہے۔ صدیق الرحمان قدوائی صاحب نے اپنے اداریے میں یہ مژدہ بھی سنایا ہے کہ ڈاکٹر صدف فاطمہ نے ذکرِمیر کے اس آخری حصے کا انگریزی ترجمہ بھی کرلیا ہے جو اس لیے بھی خوش آئند ہے کہ اس طرح اردو کو ایک ایسا مترجم مل گیا ہے جو اردو سے انگریزی اور فارسی سے اردو اور انگریزی میں نہایت عمدہ ترجمہ کرسکتا ہے۔
’میر کی دلی: شاہ جہان آباد، ایک شہر ممکنات‘ کے عنوان کے تحت فروری 2024 میں منعقدہ انجمن کی تقریب میں میر کے تخلیقی ورثے کو دہلی کی ثقافت کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی تھی۔ اس تقریب کے ساتھ دو اور تقریبات جن کا ذکر ابتدائی صفحات میں کیا گیا، کی تفصیلی رپورٹس بھی اس شمارے میں شامل ہیں، جو ان تقریبات کو ریکارڈ کا حصہ بنانے کی ایک عمدہ مثال ہونے کے ساتھ قارئین کو ان لمحات کا مشاہدہ کرنے کا موقع بھی فراہم کراتی ہیں۔
ایک بار پھر یہ بات کہنے کی ضرورت ہے کہ سہ ماہی اردو ادب کا مذکورہ ’میر تقی میر نمبر‘ انجمن ترقی اردو (ہند) کا ایک تاریخی علمی کارنامہ ہے۔ یہ شمارہ میر کی زندگی، شاعری، اور ان کے عہد کو نئے زاویوں سے پیش کرتے ہوئے اردو ادب میں تحقیق و تنقید کی نئی راہیں ہموار کرتا ہے۔ شمارے میں شامل مضامین اور تراجم میر کے ادبی مقام کو مزید مستحکم اور ان کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کو روشن کرتے ہیں۔ انجمن نے اس شمارے کے ذریعے میر کے تین سو سالہ جشن کو محض رسم کی ادائیگی تک محدود نہیں رکھا بلکہ پورے ایک برس ہر ممکن طریقے سے علم و ادب کی خدمت کا عملی مظاہرہ بھی کیا ہے۔ڈاکٹر اطہر فاروقی کی ادارت نے اس شمارے کو علمی، تحقیقی، اور ادبی شاہکار میں تبدیل کر دیا ہے۔ یہ شمارہ نہ صرف میر کے کلام کی عظمت کو روشن کرتا ہے بلکہ اردو ادب کی تحقیق اور تنقید میں نئے رجحانات کو بھی فروغ دیتا ہے جو ادب کے قارئین اور محققین کے لیے یقیناََ ایک بیش قیمتی تحفہ ہے۔