نئی دہلی: اردو کے ممتاز ادیب و ناقد اوردرجنوں کتابوں کے مصنف پروفیسر شارب ردولوی نے آج دنیائے فانی کو الوداع کہہ دیا۔ ان کے انتقال پر ملال پر پوری اردو دنیا سوگوار ہے۔ اس موقع پر اردو اکادمی، دہلی کے سکریٹری محمد احسن عابد نے تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ اردو کے ایک بہترین ادیب اور نقاد کی حیثیت سے مشہور ہیں اور ان کے فیض یافتگان کی تعداد کثیر ہے۔ ان کے جانے سے علمی اور تنقید کی دنیا کو جو خسارہ ہوا ہے اس کا پُر ہونا نہایت مشکل ہے۔اگر ان کی علمی اور ادبی تصانیف کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ وہ اپنی پہلی تصنیف جو 1959میں شائع ہوئی ’’مراثی انیس میں ڈرامائی عناصر‘‘ سے کافی مشہور ہوگئے تھے اور ادبی حلقوں میں ان کی پذیرائی ہونے لگی تھی۔ اس کے بعد ان کی کتابیںافکارِ سودا، گلِ صد رنگ، جگر: فن اور شخصیت منظر عام پر آئیں، جنھوں نے ان کے ادبی مقام کو بلند کیا۔ 1968 میں ان کی اہم ترین کتاب ’’جدید اردو تنقید اصول و نظریات‘‘ شائع ہوئی تو اس نے ان کی شہرت کو بامِ عروج پر پہنچادیا،جس کے اب تک تقریباً دس ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔ اس کے بعد بھی ان کا قلم برابر جاری رہا اور ان کی تصانیف معاصر اردو تنقید ، تنقیدی مباحث، مرثیہ اور مرثیہ نگار، اسرارالحق مجاز، تنقیدی عمل، ترقی پسند شعری فکر اور اردو شعرا شائع ہوچکی ہیں اور ان کے ادبی قد میں اضافے کا سبب بنی ہیں۔ان کی شخصیت پر کئی یونیورسٹیوں میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کے مقالے بھی تحریر کیے جاچکے ہیں۔
پروفیسر شارب ردولوی 1961 میں دہلی یونیورسٹی سے وابستہ ہوئے۔ وہ1975 وزارتِ تعلیم و سماجی بہبود میں بھی ملازم ہوئے۔1979 میں شعبۂ اردو دہلی یونیورسٹی سے بحیثیت ریڈر منسلک ہوئے۔ 1993میں جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں بحیثیت پروفیسر ان کا تقرر ہوا اور 2000 میں وہیں سے سبکدوش ہوئے۔ سبکدوشی کے بعد لکھنؤ نقل مکانی کر گئے۔ اُن کو بہت سے علمی و ادبی اعزازات و انعامات سے بھی نوازا جاچکا ہے۔ جن میں حکومت اتر پردیش کا سب سے بڑا اعزاز یش بھارتی ایوارڈ، غالب انسٹی ٹیوٹ کا غالب ایوارڈ برائے تحقیق و تنقید، اردو اکادمی دہلی کا ایوارڈ برائے تحقیق و تنقید اور ان کی گراں قدر مجموعی و علمی خدمات کے اعتراف میں اردو اکادمی، دہلی نے ہی انھیں 2018 میں ’’ کل ہند بہادر شاہ ظفر ایوارڈ‘‘ سے نوازا۔ وہ اپنی زندگی میں بہت سی علمی انجمنوں اور سرکاری و غیر سرکاری اداروں کے ممبر بھی رہے۔ انھوں نے اردو اکادمی، دہلی کی گورننگ کونسل میں ایک زمانے تک اہم رُکن کی حیثیت سے اپنی خدمات انجام دیں۔ ان کے انتقال سے ادبی حلقوںمیں ایک بڑا خلا پیدا ہوگیا ہے۔اس موقع پر سکریٹری اکادمی نے اللہ سے دعا کی کہ وہ اردو دنیا کو ان کا نعم البدل عطا کرے۔