Home تجزیہ سول سروسز امتحان کے نتائج اور مثبت ومنفی تبصرے؟-پروفیسر مشتاق احمد

سول سروسز امتحان کے نتائج اور مثبت ومنفی تبصرے؟-پروفیسر مشتاق احمد

by قندیل

حالیہ برسوں میں جب بھی یونین پبلک سروس کمیشن کے ذریعہ منعقد سول سروسزامتحان کے نتائج شائع ہوتے ہیں تو اس پر مسلم طبقے کی طرف سے بڑے ہی جوش وخروش سے دلچسپی لی جاتی ہے اور اس نتائج پر مثبت ومنفی تبصرے ہونے لگتے ہیں ۔ بالخصوص نتائج میں مسلمانوں کی تعداد الگ الگ لوگوں کے ذریعہ مشتہر کی جانے لگتی ہے اور سوشل میڈیا پر ایسے لوگ بھی اس امتحان کے تعلق سے اپنے تاثرات بیان کرنے لگتے ہیں جن کے سوشل اکاؤنٹ کا جائزہ لیجیے تو یہ تلخ حقیقت سامنے آئے گی کہ وہ سالوں بھر اپنے سوشل اکاؤنٹ سے جذباتی سیاسی تاثرات پوسٹ کرتے رہے ہیں یا پھر ان کی توجہ فضولیات پر رہی ہے۔غرض کہ ایسے لوگ کی اکثریت ہوتی ہے جو سول سروسز امتحانات کے تقاضوں اور باریکیوں سے انجان ہوتے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ ہمارے معاشرے کو جذباتی نعرے بازی اور فضولیات کا عادی بنا دیا گیاہے اس لیے وہ کسی بھی مسئلے پر اظہار خیال کو ضروری سمجھتے ہیں اور اپنی معصومیت کے اظہار میں کبھی کبھی ایسی باتیں بھی لکھ جاتے ہیں جو آج کے حالات میں ہمارے لیے مضرہیں ۔ اس سال کے نتائج میں بھی اسی طرح کے ملے جلے تبصرے دیکھنے کو مل رہے ہیں لیکن ان میں اکثریت منفی تبصروں کی ہے اور مبینہ طورپر الزام تراشی اور بے بنیاد افواہوں کو زیادہ دخل ہے۔اس سال اگر گذشتہ سال کے نتائج کے مقابل مسلم امیدواروں کی تعداد کم ہے تو اس کے وجوہ کیا ہیں اس کے متعلق بھی بے سر پاؤں کی باتیں زیادہ ہو رہی ہیں ۔ہاں اس تلخ سچائی سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ حالیہ دہائی میں ملک کا مزاج قدرے مکدر ہوا ہے اور مذہبی منافرت کو فروغ ملا ہے ، ذہنی تعصبات وتحفظات کے چرچے عام ہوئے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی اس طرح کے قومی مقابلہ جاتی امتحانات کے نتائج میں ہماری حصہ داری بڑھی ہے۔یہ اور بات ہے کہ گذشتہ سال سول سروس کے نتائج میں پچاس سے زائد مسلمانوں کی تعداد پر ’’آئی اے ایس جہاد‘‘ کے نعرے بھی گونجے اور قومی سطح پر طرح طرح کی افواہیں بھی گردش کرتی رہیں۔ مگر اب تو اسی طرح کے ماحول میں زندگی بسر کرنا ہے اس لیے ذہنی طورپر اس طرح کی فضا میں سانس لینے کے لیے خود کو تیار کرنا ہوگا کہ اس ملک میں لفظ جہادمسلم اقلیت طبقے کے لیے کتنے مسائل پیدا کر رہے ہیں ۔ اب تو روح افزا شربت کے حوالے سے بھی ’’شربت جہاد‘‘ کی بات ہونے لگی ہے اور یہ بات عدالت تک پہنچی ہے مگر عدالت بھی کیا کرے کہ اب فاضل ججوں کو بھی دھمکیاں دی جانے لگی ہیں اور عدالت عظمیٰ پر بھی نازیبا تبصرے ہو رہے ہیں ۔ ایسے حالات میں بھی مختلف قومی مقابلہ جاتی امتحانات میں ہمارے با صلاحیت نوجوان اپنی کامیابی کا پرچم لہرا رہے ہیں اس لیے جب کبھی کسی قومی امتحان میں کامیاب ہونے والے امیدواروں کی فہرست میں ہماری تعداد کم ہوتی ہے تو سب سے پہلے یہ جاننے کی کوشش ضرور کرنی چاہیے کہ اس امتحان میں ہمارے کتنے امیدوار آخری مرحلے تک پہنچے تھے۔ہم سب اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ بیشتر مقابلہ جاتی امتحانات دو یا تین مرحلے کے بعد ہی پورے ہوتے ہیں اور بیشتر امتحانات میں انٹرویو یعنی زبانی امتحان کی بھی غیر معمولی اہمیت ہے ۔جہاں تک سول سروسز امتحان کا سوال ہے تو یہ بھی تین مرحلے میں پورے ہوتے ہیں ۔ پہلا مرحلہ پی ٹی ہے اس میں کامیابی کے بعد ہی دوسرا مرحلہ جسے مینس امتحان کہا جاتاہے اس میں شمولیت ہو سکتی ہے اور اس اہم مینس امتحان میں کامیابی کے بعد ہی انٹرویو کے لیے امیدوار طلب کیے جاتے ہیں ۔اس امتحان میں ہر سال اسامیاں گھٹتی بڑھتی رہتی ہیں اور سول سروسز کے مختلف عہدے کے لیے امیدوار منتخب کیے جاتے ہیں ۔لیکن افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ ہماری تعلیمی شرح کے تناسب میں ہمارے طبقے کے امیدواروں کی تعداد اس قومی مقابلے کے پی ٹی امتحان میں ہی بہت کم ہوتی ہے ۔ظاہر ہے کہ پی ٹی امتحان کے مطابق ہی پھر مینس کے نتائج میں ہماری امیدواری طے ہوتی ہے اور آخر میں انٹرویو کے بعد آخری نتیجہ سامنے آتا ہے ۔جہاں تک شک وشبہات کا سوال ہے یا پھر دور حاضر ذہنی تعصبات وتحفظات کا رونا ہے تو وہ انٹرویو میں تو ممکن ہے لیکن پی ٹی امتحان اور مینس امتحان میں شاید ہی ممکن ہے ۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک کے مسلمانوں کے درمیان سنجیدگی سے اس مہم کی ضرورت ہے کہ مقابلہ جاتی امتحان میں ہماری زیادہ سے زیادہ شراکت ہو اور پھر جس طرح کے امتحان ہو رہے ہیں اس کی باریکیوں اور تقاضوں سے بھی خوب خوب واقفیت ہونی چاہیے ۔سول سروسز امتحانات کے لیے یہ ضروری ہے کہ اسکولی تعلیم کے بعد ہی ہمارے معاشرے میں ذہین اور با صلاحیت طلبا کے انتخاب کا ماحول تیار ہو اور اس کی ذہن سازی پر محنت کی جائے۔ کیوں کہ اس قومی امتحان کے تقاضے بہت ہی محنت طلب ہیں ۔اگر اسکولی تعلیم کے بعد سے گریجویشن مکمل کرنے تک یہ نشانہ رہے کہ سول سروسز امتحان میں شامل ہونا ہے اور کامیابی حاصل کرنا ہے ۔ حال کے برسوں میں اگر ہماری حصہ داری قدرے بڑھی ہے تو اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ ملک کے مختلف حصوں میں سرکاری طورپر مسلم اقلیت طلبا کے لیے رہائشی کوچنگ کا اہتمام کیا گیاہے ۔ مثلاً برسو ں سے زکوٰۃ فاؤنڈیشن ، دہلی کے کئی مراکز کام کر رہے ہیں ۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں بھی کوچنگ اکیڈمی ہے ، جامعہ ملّیہ اسلامیہ کی کوچنگ کے ساتھ ساتھ جامعہ ہمدرد ، حج بھون ممبئی ، حج بھون پٹنہ ، مولانا آزاد اردو یونیورسٹی ، حیدر آباد، بنگلورو، چنئی ، کولکاتا وغیرہ میں بھی کوچنگ چل رہے ہیں لیکن سچائی یہ ہے کہ زکوٰۃ فاؤنڈیشن اور جامعہ ملّیہ اسلامیہ کے مقابلے دیگر مراکز کے نتائج حوصلہ بخش نہیں ہیں ۔بالخصوص علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ، علی گڑھ کے کوچنگ مراکز کے نتائج کئی برسوں سے مایوس کن ہیں لیکن افسوس ہے کہ وہاں کی انتظامیہ کے لیے یہ لمحۂ فکریہ نہیں ہے؟ البتہ جامعہ ملّیہ اسلامیہ کے نتائج قابلِ تحسین ہیں کہ وہاں جتنے بچے کامیاب ہوتے ہیں ان میں پچاس فیصد مسلم بچے بھی رہتے ہیں اس لیے ہر سال سول سروسز امتحانات کے نتائج پر سر دھننے سے بہتر ہے کہ زمینی سطح پر اس امتحان کے تئیں خصوصی بیداری مہم چلائیں ، مقابلہ جاتی امتحانات کے لیے ماحول سازی کریں ،شادی بیاہ میں نمائشی فضولیات سے پرہیز کرتے ہوئے شہر سے دور افتادہ دیہی علاقوں میں بھی مقابلہ جاتی امتحانات کے لیے مراکز قائم کیجیے، اپنی پسماندگی کا ٹھیکرا صرف اور صرف حکومت کے سر مت پھوڑیے ، اپنے معاشرے میں صحت مند فکری ونظری فضا قائم کیجیے ، جذباتی نعروں میں الجھنے سے پرہیز کرتے ہوئے ملک کی بدلتی فضا میں جینے کا راستہ تلاش کیجیے ۔ میرے خیال میں اگر ملک کے مختلف حصوں میں اس طرح کا ماحول تیار ہوتا ہے تو سول سروسز امتحان میں بھی نمائندگی بڑھے گی اور دیگر امتحانات مثلاً اسٹاف سلیکشن کمیشن، ریلوے ، بینکنگ ، جوڈیشیری ، سی اے اور دیگر مرکزی حکومت کے دفاتر کے لیے قومی سطح کے مقابلہ جاتی امتحانات میں ہماری حصہ داری بڑھنی چاہیے کہ ان امتحانات میں اسامیاں زیادہ ہوتی ہیں اور بعد میں تو صرف تحریری امتحان کی بنیاد پر ہی نتائج سامنے آتے ہیں اس لیے یہاں مبینہ یہ خطرہ بھی نہیں رہتا کہ انٹرویو میں ذہنی تعصبات وتحفظات کی وجہ سے ہمارا نتیجہ اثر انداز ہوا ہے۔ حال کے دنوں میں جنوبی ہند کی ریاستوں اور بالخصوص کشمیر کے امیدواروں نے اپنی پوزیشن بہتر کی ہے تو اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ وہاں اسکولی تعلیم کا معیار بہتر ہوا ہے اور اقلیت طبقے کے اندر بھی یہ بیداری آئی ہے کہ وہ معیاری تعلیم پر سنجیدگی سے توجہ دے رہے ہیں اور شروع سے ہی مقابلہ جاتی امتحانات کی ماحول سازی کی جا رہی ہے لیکن شمالی ہند میں اس طرح کی ماحول سازی کی کوششوں کا فقدان ہے جب کہ جنوبی ہند کے مقابلے شمالی ہند میں مسلم اقلیت طبقے کی آبادی زیادہ ہے ۔اگر ہم تمام زمرے کے مقابلہ جاتی امتحانات کی باریکیوں سے آشنا ہوتے ہوئے اور اس امتحان کے تقاضوں کو پورا کرنے کے تئیں سنجیدہ ہوں گے اور بالخصوص اب جب کہ بیشتر امتحانات آن لائن ہونے لگے ہیں تو ہمیں تکنیکی شعبے میں بھی مہارت حاصل کرنی ہوگی کہ اگر ہم آن لائن امتحانات کے طریقہ کار سے واقف نہیں ہوں گے تو پھر اس سے بھی ہماری محنت رائیگاں جائے گی اس لیے اس طریقہ کار پر بھی ہماری گہری نظر ہونی چاہیے اور اپنی کمیوں کو دور کرنے کی کوشش کی جانی چاہیے کہ وقت کا تقاضہ یہی ہے ۔ جہاں تک ملک کی فضا کا سوال ہے تو وہ صرف ہمارے لیے ہی باعثِ فکر مندی نہیں ہے بلکہ ہر اس شخص کے لیے ہے جو اس ملک کی سالمیت کا خواہاں ہے اور سماجی تانے بانے کو مضبوط کرنے کی کوشش میں دن رات سرگرداں ہے۔حالات بہتر کی امید کے ساتھ ہی ہمیں اپنے مشن میں آگے بڑھنے کا حوصلہ رکھنا ہے کہ زندگی جینے کے لیے تغیر حالات سے مقابلہ کرنا بھی ضرور ی ہے۔

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

You may also like