پروفیسر، شعبہ ٔ تاریخ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ
ترجمہ:اسعد فیصل فاروقی
1980 کی دہائی: مسلم سوال اور کانگریس کی بنیادی حمایت کاختم ہونا:
1980 کی دہائی میں، سیوڈو سیکولرازم اور ’اقلیتی ازم‘ہندوستانی سیاست کے دو اہم مسائل تھے۔ یہ الفاظ، جو بی جے پی کے ذریعہ استعمال کیے گئے ہیں، حکمران کانگریس کی طرف سے مسلمانوں کو، اور بعد میں (کانگریس کے بعد کی) دہائیوں میں علاقائی طاقتوں کے ذریعہ مسلمانوں کے لئے جگہ بنانے کی نشاندہی کرتے ہیں۔ ہندو اکثریت کا ایک طبقہ بھی ہمیشہ اس کے بارے میں غمزدہ رہتا ہے۔ یہ دکھ کانگریس کی نظریاتی تاریخ کے باوجود، کانگریس کے بہت سے لیڈروں نے بھی شیئر کیا۔
مسلم قیادت نے بھی طاقت اور معیشت کے ڈھانچے میںپسماندگی اور مارجنالائزیشن کے نام پر، اپنی سیاست کو تقریباً خصوصی طور پر جذباتی شناخت سے متعلق مسائل جیسے پرسنل لاء، اردو، مسلم یونیورسٹیاں وغیرہ سے منسلک رکھا۔ ثقافتی شناختوں کی تعریف مذہبی برادریوں کے علاقائی، نسلی اور لسانی تنوع کے لحاظ سے نہیں کی گئی۔ کم از کم اس خاص مسئلے پر، ’سیکولر‘ سیاست، ان کی مسلم قیادت اور اکثریتی فرقہ وارانہ سیاست سب ایک ہی کشتی پر سوار تھے۔اکثریتی فرقہ وارانہ کارڈ کا کھیلنا اس لیے اب آسان ہو گیا ہے۔
اس سلسلہ میں 1980 کی دہائی میں ہونے والی کچھ پیش رفتوں اور واقعات پر نظر ڈالنا ضروری ہے، جن کے اثرات یوپی میں ہی نہیںبلکہ ملک کے دیگر حصوں میں بھی پڑے تھے اور جنہوں نے عصری ہندوستانی سیاست کو بڑے پیمانے پرمتاثر کیا تھا۔ ایودھیا تنازعہ کو دیکھیں جو دیکھتے دیکھتے صرف 1986 میں اور اس کے بعد اچانک پورے ہندوستان کے مسلمانوں کے آتش گیر مسئلے میں بدل گیا ۔ اور پھرشاہ بانو (1916-1992) پر سپریم کورٹ کے 1985 کے فیصلے کے بعد مسلم قیادت کے طرز عمل کو بھی دیکھیں۔ لکھنؤ میں مقیم مولانا ابوالحسن علی میاں ندوی (1914-1999) نے اپنی اردو یادداشت (1988) ۷؎میں جو اعتراف کیا ہے، وہ مسلم قیادت کی سیاست کو چلانے کے طریقے کے تباہ کن مضمرات کو سمجھنے کے لیے کافی ہے۔ مولانا علی میاںندوی واضح طور پر بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے ہی راجیو گاندھی کو اس تجویز کو قبول نہ کرنے کے لیے، آمادہ درحقیقت گمراہ کیا تھا ، جس میں یہ واضح کیا گیا تھا کہ بہت سے اسلامی ممالک صنفی مسائل سے متعلق اپنے شرعی قوانین میں پہلے ہی اصلاح کر چکے ہیں۔ مولاناندوی کا مابعد حقیقت پسندانہ یہ بیان فتح پسندی کو ظاہر کرتا ہے۔ وہ ہندوستان میں اسی طرح کی صنفی اصلاحات کو روکنے کی اپنی کوشش کی کامیابی پر خوش ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ان کے سمجھانے کا راجیو گاندھی پر ایک خاص نفسیاتی اثر ہوا اور یہ کہ ان کا ’’تیر ٹھیک ٹھیک نشانے پر لگا۔ وہ تیر نشانے پر بیٹھ گیا‘‘۔ اپنی یادداشت کے صفحہ 157 پر علی میاں ندوی نے اس سلسلہ میںکھلا ’’اعتراف‘‘ کیا ہے، وہ لکھتے ہیں: ’’1986 میں شریعت کے تحفظ کے لیے ہمارے متحرک ہونے کے نتیجے میں بابری مسجد کا مسئلہ پیچیدہ ہو گیا اور ماحول کو بڑے پیمانے پر خراب کر دیا گیا۔ اس نے فضا میں اشتعال و اضطراب پیدا کرنے میں بہت بڑا حصہ لیا‘‘۔ اس سلسلہ میںمزید استدلال کے لیے نکولس نیوجینٹ (1990) کے ساتھ ندوی کی یادداشت کا مطالعہ کرنا بھی ضروری ہے۔، نکولس تحریر کرتے ہیں:
’’1986 کے اوائل میں کانگریس ہائی کمان کی جانب سے ’’ہندو کارڈ کھیلنے‘‘کا فیصلہ اسی طرح لیا گیا تھا جس طرح مسلم خواتین بل میں مسلم کارڈ کھیلنے کی کوشش کی گئی تھی۔۔۔ایودھیا دراصل مسلم خواتین بل کے لیے ایک پیکیج ڈیل تھا۔۔۔ یعنی ادلے کا بدلہ۔۔۔راجیو(راجیو گاندھی) نے تالاکھول کر پوجا پاٹ کررہے ہندوؤںکی تصویروں کو ٹیلی ویژن پر دکھا نے جیسے اقدامات کرکے پیکیج ڈیل کے ہندو فریق کو آگے بڑھانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔(۸)
یکم فروری 1986 کو فیض آباد کی ضلعی عدالت کی طرف سے فیصلہ سنائے جانے کے ایک گھنٹے کے اندر ہی مسجد کاتالا کھول دیا گیا تھا۔ جیسا کہ پہلے درج کیا گیا ہے، اس وقت کے وزیر اعظم، مسلمانوں کے مذہبی پیشوااور مومن کانفرنس سے وابستہ کانگریسی ممبر پارلیمنٹ ضیاء الرحمن انصاری کے درمیان اس سلسلہ میں ایک معاہدہ ہوا تھا۔ انصاری، (1925-1992) پہلے ہی جنوری 1986 (۹) میں ا س معاہدے سے باہر جاچکے تھے۔ پھر بھی، ایک پیچیدہ سوال، ایک معمہ، اب بھی باقی ہے اور ذہن کو پریشان کرتا ہے: وہ کون تھا، جو تالے کھولنا چاہتا تھا، اور کیوں؟ بہر حال، ملک میں انتخابات تقریباً چار سال دور تھے اور اس لیے راجیو گاندھی کا اس پورے واقعہ سے براہ راست انتخابی تعلق تو نہیں تھا۔
اس طرح مسلم قیادت نے اپنی قدامت پرستی کو برقرار کھنے پر زور دیا۔ انہوں نے جو کچھ بھی مانگا وہ سب سیکولرازم کے نام پر ان کو دیا گیا۔ مسلم سیاست اس سے آگے نہ بڑھ سکی، حالانکہ تعلیم، معیشت اور اقتدار کے ہر شعبے میں ان کی مایوس کن کارکردگی جاری رہی۔ سیکولرازم کی اس دانستہ اور جوڑ توڑ کی سیاست کو ممکنہ طور پر مسلم طبقات کی ’’ غیرشہریت کی سیاست‘‘کہا جا سکتا ہے۔
اس لیے مسلم عوام ان مسائل جن کا تعلق مخصوص مذہبی برادریوں سے نہیں ہے، جیسے مہنگائی، بے روزگاری، بجلی، سڑکیں، صحت کی نگہداشت، تعلیم، ماحولیات اور ایسے سماجی طور پر غیر منقسم روزمرہ کے مسائل کے خلاف احتجاج کرنے کے عادی نہیں تھے۔ستم ظریفی یہ ہے کہ وہ اب بھی ایک ’مطمئن اور بے فکر‘کمیونٹی ہونے کا شکار ہیں۔
جیسا کہ اکثریتی فرقہ وارانہ سیاست نے ان’سیکولر‘ پارٹیوں پر ’اقلیتی تسکین‘کا الزام لگایا، کانگریس کی قیادت والی UPA-1 (2004-2009) نے 2005 میں سچر رپورٹ کو ایک طرح سے’زعفرانی ہندوؤں‘کو یہ بتانے کے لیے سامنے لایا گیا، ’’دیکھو! اگر ہم مسلمانوں کو مطمئن کر دیتے تو ان کی معاشی حالت اتنی خراب نہ ہوتی!‘‘،لیکن ایسا نہیں ہونا تھا۔
اکثریتی نقطہ نظرسے،’’ہندوؤں پر جو چوٹ لگی‘‘ یا اقلیتوں کی خوشنودی ہوئی، اس سے متعلق، ان اتفاقی حقائق پر بھی غور کریں: وزیر اعظم (2004-2014) ، ڈاکٹر منموہن سنگھ، ایک سکھ تھے، کانگریس کی سربراہ سونیا گاندھی (حکمران اتحاد کی قیادت کر رہی تھی) ، ایک عیسائی (غیر ملک میں پیدا ہوئی)، ان کے سیاسی مشیر، احمد پٹیل (1949-2020) ایک مسلمان تھے، صدر جمہوریہ ، اے پی جے عبدالکلام، ایک مسلمان تھے، بعد میں نائب صدر جمہوریہ کے عہدے پر حامد انصاری کو فائز کیا گیا جو ایک مسلمان ہیں۔حکمراں اتحاد پر مشتمل بہت سی علاقائی تنظیموں کو مسلمانوں سے متعلق معاملات میں غیر ضروری طور پر موافق سمجھا جاتا تھا۔
اس ’اقلیت پسندی‘ کے لیے، کہا جاتا ہے، ایک درستی اور اصلاح کے عمل کی سخت ضرورت تھی۔ بی جے پی نے، وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں، 2014 میں، اپنے بنیادی حلقوں میں اس اصلاح یعنی درستی کے عمل کا آغاز کیا۔ یہ محض ہندوتوا کی نظریاتی فتح نہیں تھی بلکہ ہندوستانی جمہوریت آبادیاتی تبدیلی سے گزر رہی تھی۔
تاریخی طور پر مظلوم گروہوں ۔جن میںنچلے پسماندہ طبقات(OBCS )اور نچلے دلت آتے ہیں کے درمیان’بڑھتی ہوئی توقعات کا انقلاب‘ایسی چیز ہے جس کی کوئی سیاسی تشکیل نہیں ہوپائی، جس کو سوائے بہار کے نتیش کمار کی جنتا دل (متحدہ) کے کسی نے مخاطب نہیں کیا۔ اس سلسلے میں اس انقلاب کے سرخیل کرپوری ٹھاکر (1924-1988) تھے، جنہوں نے 1977-78 میں او بی سی یعنی پسماندہ ذاتوں کی دو پرتوں اور خواتین کے لیے بھی مثبت اقدام نافذ کئے۔ مزید برآں، سماجی گروہوں اور طبقوں کے درمیان، ہندوستان کا نوجوان شدت سے روزگار کی تلاش میں تھا اور وہ آج بھی ہے۔مودی نے 2014 میں اس سلسلے میں وعدے کیے اور ان خواہش مند گروہوں کو قوی امید دلائی کہ وہ ان کے لئے کچھ نہ کچھ کریں گے۔ لوگ ان پر اس حد تک بھروسہ کررہے تھے کہ اچانک نوٹ بندی (نومبر 2016) سے ہونے والی پریشانیوں کا بھی انہوں نے خوشی سے سامنا کیا۔ یہ صحیح ہے یا غلط ، یہ انہیں معلوم نہیں تھا۔ انہیں البتہ یہ یقین تھا کہ مودی جی کے اس اقدام سے کچھ اچھا نتیجہ ضرور نکلے گا۔
جیسا کہ پہلے کہا گیا ہے، بڑھتی ہوئی اکثریت پسندی 2017 کے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کی جیت کے لیے صرف ایک وضاحت ہو سکتی ہے۔ اس لئے یہ تغیر ہوتے ہوئے انتخابی رویے کی مناسب توضیح نہیں کرتی ہے۔ اس کی چند دوسری وضاحتیں بھی ہیں۔ سنٹر فار اسٹڈینگ ڈیولپنگ سوسائٹیز (سی ایس ڈی ایس، دہلی) کے پوسٹ پول سروے (2017) سے یہ منکشف ہوتاہے کہ غیر یادو او بی سی اور غیر جاٹو دلتوں نے بالترتیب ایس پی اور بی ایس پی سے خود کو دور کر لیا ہے۔ تقریباً 91 فیصد جاٹ، جو راشٹریہ لوک دل (RLD) کے روایتی ووٹر تھے، اور چودھری چرن سنگھ کے پیروکار تھے، نے اپنی میراث چھوڑ دی ، اور بی جے پی کو ترجیح دی ۔ اس رپورٹ میں مزید یہ انکشاف ہوا ہے کہ صرف 60 فیصد یادووں نے مہاگٹھ بندھن کے حق میں ووٹ دیا۔ یہ دونوں پارٹیوں۔ آر ایل ڈی اور ایس پی کے لیے قابل فہم طور پر اور بھی تشویشناک تھا۔ ان رپورٹوں میں مزید انکشاف ہوا ہے کہ 75% مسلمانوں نے، 75% جاٹو اور 52% غیر جاٹو دلتوں نے بی جے پی؍این ڈی اے کے خلاف ووٹ دیا۔
مسلمانوں کا نیاسیاسی عروج : ایک تماشا (2012-2017):
یہاں تک کہ اپنے دور حکومت (2012-2017) کے دوران، اکھلیش نہ صرف امن و امان کے محاذ پر ، بلکہ اس کے ساتھ فرقہ وارانہ تشدد اور جھڑپوں کو کنٹرول کرنے میں بھی بری طرح ناکام رہے، جوبا لآخر ستمبر 2013 میں بدترین فسادات میںسے ایک (مظفر نگر) میںاختتام پر پہنچا۔
اس سنگین فرقہ وارانہ فساد نے صوبے کے مغربی حصوں کی سیاسی زمین کو تبدیل کر کے رکھ دیا۔ ان فرقہ وارانہ واقعات کے نتیجے میں بی جے پی کے حق میں بڑے پیمانے پر ہندو اکٹھا ہوئے۔ اس کا ٹیمپو آہستہ آہستہ بنایا گیا تھا (’’روزمرہ کی فرقہ واریت ‘‘کے ذریعے، جیسا کہ سدھا پائی اور سجن کمار، 2018 نے اپنے مطالعہ میں بتایا)۔ کچھ ہی دنوں میں پورا ماحول تشویشناک حد تک فرقہ واریت سے گونج اٹھا۔ اکھلیش ووٹ کی بنیاد کی اس بڑی تبدیلی سے غافل رہے۔ یہاں تک کہ اس تبدیلی نے بہت سے یادووں کو بی جے پی کی طرف ڈھکیل دیا۔
ایک اور طرح کا سماجی منتھن بھی ساتھ ہی چل رہا تھا، جس کا سماج وادی پارٹی (ایس پی) کی حکومت اندازہ لگانے میں ناکام رہی۔ اسمبلی میں تقریباً 68 مسلم ایم ایل اے تھے۔ اکھلیش کے اقتدار کی کرسی پر فائز ہونے کے بعد، جون۔جولائی 2012 کے شہری بلدیاتی انتخابات میں مسلم امیدوار بڑی تعداد میں جیتنے لگے۔
کچھ بلدیاتی اداروں میں جیسے کہ میرٹھ میں کٹھور اور روہیل کھنڈ کے علاقوں میں مسلمان اکثریت میں تھے۔(۱۰) اس دوران اکھلیش پر مسلم نواز ہونے کا الزام خوب لگایا گیا کیونکہ ان علاقوں میںمسلمانوں کی اس بڑھی ہوئی سیاسی نمائندگی کو ایک خطرناک اضافہ کے طور پر دیکھا گیا، اوراس کو خطرہ قرار دیا گیا: یہ کہا گیا کہ مسلمان سیاسی نمائندگی میں ہندوؤں کو زیر کر رہے ہیں اور ان کو نیچا دکھا رہے ہیں۔ اکھلیش،یہاں یا تو’’مسلمانوں کے اضافے‘‘ کے خلاف اس ہندو الارم سے بے خبر رہے، یا پھر وہ سادہ لوحی میں’’ مسلم۔یادو کے انتخابی گٹھ جوڑ ‘‘(الیکٹورل اکوئیشن) سے مطمئن رہے۔(۱۱)
نتیجہ کے طور پر، اکھلیش کو پہلے 2014 کے لوک سبھا ، 2017 کی ودھان سبھا اورپھر 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں بھی بری طرح شکست اٹھانی پڑی۔ تاہم، یہاں یہ واضح کر دینا ضروری ہے کہ 2018 کے ضمنی انتخابات نے اس حقیقت کی طرف بھی کچھ اشارے فراہم کئے ہیں کہ بعض قسم کے اتحاد اکثریتی استحکام کے خلاف مزاحمت میں تعاون کر سکتے ہیں۔ شناختی سیاست (’’سوشل انجینئرنگ‘‘کے نام سے مشہور) کے ذریعے انتخابات کو مینیج کرنے کی کوتاہ نظر ترجیح اکثر اپنی حدود اور کمیوں کو ظاہر کرتی ہے۔
ضمنی انتخابات 2018:
ضمنی انتخابات 2018 کے نتائج نے یہ پیغام دیا تھا کہ علاقائی طاقتیں ایک بار پھر مرکزی سپرا کاسٹ یعنی ماورائے ذات پارٹیوں کی بالادستی جیسے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے خلاف زبردست مزاحمت کے طور پر ابھر رہی ہیں، جیسا کہ 1990 کے بعد کی کانگریس کے خلاف ان علاقائی پارٹیوں نے محاذ بنایا تھا۔ یہاں ایسا محسوس ہوتاہے کہ ان علاقائی پارٹیوں کی جانب سے ایک پارٹی کے غلبے کو چیلنج کیا گیا ہے۔ ایک اور اہم پیغام یہ تھا کہ فرقہ وارانہ پولرائزیشن کی سیاست ہر وقت کام نہیں کر سکتی۔
حزب مخالف (بی جے پی مخالف) اتحاد کے لیے یہ واضح تھا کہ وہ ایک انتہائی موافق اتحاد ہو، جہاں اتحادی پارٹیوں کو مناسب جگہ ملے اور ان کو سنجیدگی سے سنا جائے، یہ عمل اپوزیشن یعنی حزب مخالف کے لیے مددگار ہو سکتا ہے! مثال کے طور پر، کیرانہ لوک سبھا حلقہ میں، حزب مخالف کا عظیم اتحاد، اپنے ووٹ ایک مسلم امیدوار کو منتقل کرنے میں کامیاب رہا، یہ اس وقت ہوا جب کہ مسلم مخالف ماحول کا دور دورہ تھا۔
اس تناظر کو دیکھتے ہوئے، ایسا لگتا ہے کہ کیرانہ کا نتیجہ اس سال (2018) کے شروع میں مشرقی اتر پردیش کے گورکھپور اور پھول پور کے مقابلے زیادہ اہمیت کا حامل تھا۔ یہاں کیرانہ کے جاٹ اور گجر ووٹروں کے اتحاد کا بے مثال نمونہ د یکھنے کو ملا، اپنے ووٹ ڈالنے کے لیے قطاروں میں کھڑے ہوئے ان لوگوں نے، مسلمان روزے دار وں (مئی کی شدید گرمی میں رمضان کا مقدس مہینہ پڑا تھا) کو ووٹ ڈالنے کی جگہ دی، اس طرح اس عمل نے 2013 کے تشدد اور نقل مکانی کے زخموں کو پیچھے چھوڑتے ہوئے، سماجی ہم آہنگی کی گواہی دی۔
مزید یہ کہ کیرانہ میں بی جے پی حکومت کے خلاف کسانوں کا غصہ کافی واضح تھا۔ کیرانہ کے ووٹروں نے کسانوں کو گنے کی قیمتوں کی عدم ادائیگی کے علاوہ، نوجوانوں کی بے روزگاری، ایندھن کی بڑھتی ہوئی قیمتیں، نئے متعارف کرائے گئے گڈز اینڈ سروسز ٹیکس (جی ایس ٹی) سے تاجروں کی پریشانی، بینکوں میں بار بار کیش کی کمی، اور مجموعی معاشی عدم اطمینانی کوواضح طور پر بیان کیا۔
جاٹ برادری کی راشٹریہ لوک دل (RLD) سے علیحدگی اور 2014 اور 2017 میں بی جے پی میں چلے جانا، جاٹوں کے لیے بالادست بی جے پی سے مخصوص فوائد کی سودے بازی کرنے میں کوئی خاص مددگار ثابت نہیں ہوا۔ صوبائی حکومت کے ساتھ اپنی سودے بازی کی طاقت کو بڑھانے کے لیے، جاٹوں کو اپنی ہی پارٹی (RLD) کی جانب واپس آنا پڑا، اور ایک ایسے کولیشن کے ساتھ اتحاد کیا جو مرکز اور صوبے میں بھی طاقتور نہیں تھا۔ 2017 کے یوپی اسمبلی انتخابات کے نتائج اور اس کے بعد یوگی آدتیہ ناتھ کی حکمرانی نے کسی نہ کسی طرح یہ تاثر دیا تھا کہ ہندو اونچی ذات (سورنہ) کی بالادستی تاریخی طور پر مظلوم گروہوں کو خوف اور خطرے میں ڈال کر حاصل کی گئی ہے۔ ذات پات پر مبنی علاقائی طاقتوں کو بی جے پی کے ہاتھوں بڑا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ بی جے پی کے ساتھ اتحاد کرنے والے اپنے اپنے سماجی گروہوں کے لیے مناسب فائدہ حاصل کرنے میں اب تک ناکام رہے ہیں۔
آر ایل ڈی کے لیے، کیرانہ کا نتیجہ حوصلہ بڑھانے والا تھا اور اس سے اس کے نوجوان لیڈر جینت چودھری میں کافی امید جا گ گئی ہے۔ ان کے اندر مزید اعتماد پیدا ہو سکتا ہے اگر وہ سماجی گروہوں میں اتحاد قائم کرنے کے لیے سخت محنت کر سکے، جیسے کہ ان کے دادا چودھری چرن سنگھ (1902-1987) نے دہائیوں قبل کانگریس کے خلاف اتحاد قائم کرکے جدوجہد کی تھی۔ یہ آر ایل ڈی کو 2019 کے آئندہ عام انتخابات میں حصہ لینے کے لیے سیٹ الاٹمنٹ کی کوشش میں حزب اختلاف کے عظیم اتحاد کے اندر کچھ سودے بازی کی طاقت فراہم کر سکتا ہے۔
جاٹ زمینداروں کو زراعت پیشہ ہونے کے ناطے کھیتی کرنے کے لئے مزدوروں کی بھی ضرورت ہوتی ہے، جن میں زیادہ تعداد مسلمان اور دلت کی ہے۔ یہ اقتصادی باہمی انحصار اور آپسی اتحاد2013 کے مظفرنگر فسادات کے بعد متذلذل ایک طرح سے مہندم ہو گیا تھا۔ آر ایل ڈی قیادت بالخصوص باپ اجیت سنگھ اور بیٹے جینت چودھری کی محنت نے 2013 سے پہلے کی بین کمیونٹی ہم آہنگی کو بحال کرنے میں ثمر آور ثابت ہوئی ہے ۔
بہر حال، اس کی مخصوص آبادی یعنی ڈیموگرافی کو دیکھتے ہوئے، کیرانہ کے نتائج کو ایک دوسرے نظریہ سے بھی دیکھا جاسکتا ہے۔
اس الیکشن میںتقریباً 8 لاکھ ووٹ ڈالے گئے۔ اس میں تقریباً 4 لاکھ ووٹ فتحیاب امیدوار کو اور 3.5 لاکھ ووٹ بی جے پی کے امیدوار کو حاصل ہوئے ،جس نے ایک عظیم سیاسی اتحاد کا مقابلہ کیا۔ ایک ممکنہ وجہ جس سے بی جے پی تمام تر مشکلات کے باوجود، ایک بڑی ہندو آبادی کو متاثر کرنے میں کامیاب ہوئی، موجودہ وزیر اعلیٰ آدتیہ ناتھ کے ذریعہ 2013 کے تشدد میں ہندوؤں کے خلاف مقدمات کو واپس لینا ہے۔
کیرانہ میں ایک اندازے کے مطابق تقریباً 33 فیصد مسلم ووٹ ہیں۔ لہٰذا اس کا مطلب یہ ہے کہ واضح معاشی عدم اطمینانی کے باوجود بی جے پی کے پشت پر ایک بڑی ہندو آبادی موجود تھی، جس نے اس کو بڑی تعداد میں ووٹ کیا۔ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ مستقبل کے انتخابات میں، طاقت ور باغی امیدوار، حزب اختلاف کے عظیم اتحاد کے خلاف بھی، بی جے پی کی جیت کے لیے مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ یہ ایک اہم عنصر ہے، جس کے بارے میں بی جے پی مخالف قوتوں کو کافی فکر مند ہونا چاہئے۔
حزب مخالف قیادت کے لیے غور کرنے کا ایک اور عنصر یہ بھی ہے: دلتوں کے کتنے تناسب نے واقعی بی جے پی کے خلاف ووٹ دیا؟ کیرانہ میں دلتوں کی تعداد 14 فیصد کے لگ بھگ ہے اور اس وقت تک یہ پتہ نہیں چل سکا تھا کہ ان میں سے کتنے چندر شیکھر آزاد کی بھیم آرمی کے ساتھ ہیں اور کتنے مایاوتی کی بی ایس پی کے ساتھ۔
عام انتخابات میں ضمنی انتخابات کی جھلک شاذ و نادر ہی ہوتی ہے۔ 2019 کا لوک سبھا الیکشن بھی اس سے مختلف نہیں تھا۔ حالانکہ، اس کے ووٹروںکی جانب سے بی جے پی کو متنبہ کیا گیا تھاکہ وہ صرف فرقہ وارانہ پولرائزیشن سے اپنے انتخابی منافع کو زیادہ سے زیادہ نہیں حاصل کر سکتی ہے۔ اسے ہندوتوا پلس(Hindutwa+) یعنی ہندتوا کے علاوہ کچھ اور کی بھی ضرورت ہے۔ جیسا کہ ’’پلس‘‘ یعنی علاوہ غائب تھا۔ درحقیقت ڈیمونیٹائزیشن (نومبر 2016) کے اچانک جھٹکوں اور کووڈ لاک ڈاؤن (مارچ 2020) سے پہلے بنیادی طور پر وفاقی مخالف جی ایس ٹی کے نفاذ نے یقیناً تجارت، معیشت اور روزگار کے منظر نامے کو مزید خراب کر دیا تھا، جس سے کچھ لوگوں کو یہ توقع تھی کہ بی جے پی کے خلاف اینٹی انکمبینسی(anti incumbency) یعنی حکومت مخالف ووٹنگ بھی ہوسکتی ہے اور اکثریت پسندی اور مسلم دشمنی کے باوجود یہ عوامل بی جے پی کے خلاف کام کر سکتے ہیں۔ اچانک پلوامہ واقعہ نے مسلم پاکستان کو قومی سلامتی کے خطرہ کے نام پر پیش کرکے نہ صرف اکثریت کو متحد کیا بلکہ اس کے ساتھ اچانک ایک عضلاتی قوم پرستی کو جنم دیا، جس نے یقیناً بہت سے دوسرے عوامل کے ساتھ مل کر، جس میں کہ لیڈر شپ کی کمی کا شکار غیر موثر حزب مخالف(اپوزیشن) بھی شامل ہے، پی جے پی کو بڑی فتح یابی سے ہمکنار کیا۔ اس طرح بی جے پی نے 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں کلین سویپ کیا۔ اگرچہ گذشتہ دہائیوں کی، یوپی کی مسلم سیاست ایک خاص قسم کی تاریخی سرگزشت کو بیان کرتی ہے۔
(جاری)
حواشی
۷۔علی میاں ندوی، کاروانِ زندگی (1988)، جلد سوم، باب چار، صفحہ 134، 137
۸۔نکولس نیوجنٹ، راجیو گاندھی: سن آف آ ڈائنسٹی(Rajiv Gandhi:Son of a Dynasty)۔ بی بی سی بکس، 1990، صفحہ 187۔
۹۔ انصاری کی سوانح عمری، ونگز آف ڈیسٹینی(Wings of Destiny)، 2018 میں اس کا حوالہ موجود ہے، جو ان کے بیٹے فصیح الرحمان نے تصنیف کی ہے۔حال ہی میں اس کا ترجمہ برائون بکس نے شائع کیا ہے۔
۱۰۔ اے کے ورما،’’Muslim Resurgence in Urban Local Bodies of Utter Pradesh‘‘، EPW، 6 اکتوبر 2012۔
۱۱۔بی جے پی کے یوپی کے وزیر اعلیٰ راجناتھ سنگھ نے2000-2001 میں ایک سماجی انصاف کمیٹی (سماجک نیاہ سمیتی) کی تشکیل کی تھی، جس کی سربراہی بی جے پی کے گجر لیڈر حکم سنگھ (1938-2018) نے کی تھی تاکہ او بی سی بلاک کو دو یا تین پرتوں میں تقسیم کیا جائے، اس کو اشوک یادو، جو کہ ان کے کابینہ کے ساتھی تھے نے قانونی چارہ جوئی کے ذریعہ تارپیڈو، کیا تھا۔ اس طرح کے اقدام سے پہلے اکھلیش نے یہ سوچا کہ اپنی بنیادی سپورٹ بیس کی توسیع اور مضبوطی کر نا چاہئے، جس طرح کرپوری ٹھاکر نے بہار میں کیا تھا اور نتیش کمار نے بھی کیا تھا، جس میں اس غیر متناسب ریزرویشن کو بلدیاتی انتخابات تک بڑھا دیا تھا۔اب ایسا لگتا ہے کہ یوگی آدتیہ ناتھ ایسا کرنے کے لیے آگے بڑھ رہے ہیں۔ انہوں نے جسٹس راگھویندر کمار کی سربراہی میں چار رکنی سماجی انصاف کمیٹی تشکیل دی ہے۔ کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں او بی سی کے طور پر کل 79 ذاتوں کی نشاندہی کی ہے۔ انہیں تین زمروں میں تقسیم کیا گیا – پسماندہ طبقہ، زیادہ پسماندہ طبقہ اور سب سے زیادہ پسماندہ طبقہ۔ ریزرویشن کوٹہ ان میں ذیلی تقسیم ہونا تھا۔ اگرچہ، اس پر ابھی تک عمل نہیں ہوا ہے، اور بی جے پی کی اس وقت کی ریاستی حکومت میں اتحادی، سہیل دیو بھارتیہ سماج پارٹی (ایس بی ایس پی) کے سربراہ اوم پرکاش راج بھر نے اس طرح کے تین پرتوں والے استحکام کو ویٹو کر دیا تھا۔ اب 2021 میں، 2022 کے انتخابات کے دوران، یہ تین پرت او بی سی ک درجہ بندی ایک بار پھر زیر بحث ہے اب یہ دیکھنے کا انتظار ہے کہ اس پاور پلے (یا انتخابی چال) میں بی جے پی 102 مسلمان برادریوں کے بارے میں کیا قدم اٹھاتی ہے ؟
(اصل انگریزی مضمون انڈین جرنل آف سیکولرزم، ممبئی،ممبئی، جلد ۲۵،شمارہ ۱-۳ میں شائع ہوا ہے)