Home تراجم اترپردیش میں انتخابی سیاست کی جہتیں اور مسلمان-پروفیسرمحمد سجاد

اترپردیش میں انتخابی سیاست کی جہتیں اور مسلمان-پروفیسرمحمد سجاد

by قندیل
ترجمہ: اسعد فیصل فاروقی
(پہلی قسط)
اتر پردیش میں2011کی مردم شماری کے مطابق مسلمانوں ( جن کی آبادی مجموعی طور پر 100 سے زائد ذاتوں پر مشتمل ہے) کا کل آبادی میںحصہ تقریباً 19.26 فیصد ہے۔ عام طور پریہاںمسلم انتخابی رویے کو غیر مسلم ووٹروں سے علیحدہ سمجھا جاتا ہے۔ یہ مضمون اس سلسلہ میں دلائل پیش کرے گا کہ ممکنہ طور پر ایسا سوچنا اور سمجھنا درست نہیں ہے۔
گذشتہ تین دہائیوں میں (1990 کی دہائی سے)، اتر پردیش کی انتخابی سیاست میں مسلم سوال بنیادی طور پر علاقائی سیاسی جماعتوں، جن کی شناخت ہندو او بی سی اور دلتوں سے ہوتی ہے، کے ساتھ مسلم وفاداری کے گرد گھومتا رہا ہے ۔ 1980 کی دہائی کے آخر میں ہندوتوا کے استحکام کو کانگریس اور بی جے پی کے خلاف تاریخی طور پر مظلوم طبقوں کے دعوے کے ذریعے تسلیم کرنے کی کوشش کی گئی تھی، ان دونوں سیاسی جماعتوں نے قیادت کے لحاظ سے، بنیادی طور پر اعلیٰ ذاتوں اور تجارتی برادریوں کے ساتھ شناخت قائم کی تھی۔
یہ سیاسی شب عروسی، اپنے اتار چڑھاؤ کے ساتھ، اتر پردیش اسمبلی کے 2017 کے انتخابات تک برقرار رہی، جو کہ 2014 کے لوک سبھا انتخابات سے زیادہ ہے۔ ان دو انتخابات نے یہ واضح کیا کہ ، او بی سی ہندوؤں اور دلتوں کا ایک بڑا حصہ جو کہ غیر یادو اوبی سی اور غیر جاٹو دلتوں میں سے آتے تھے نے بی جے پی کی گود میں پناہ لی۔اس بات کو نیویارک ٹائمز (12 جولائی 2017) کے دو نوجوان یادو جواب دہندگان نے زیادہ واضح طور پر بیان کیا ہے، جنہوں نے بتایا کہ وزیر اعظم نریندر مودی کے باوجود ہندو، مسلمانوں کو ان کی اوقات میں رکھنے میں اتنے کامیاب کیوں نہیں ہوئے ہیں۔ اس مخصوص نامکمل ایجنڈے کو پورا کرنے کے لئے مارچ 2017 میں یوگی آدتیہ ناتھ  اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ کے طور پر آئے ہیں۔ 2017 کے اسمبلی انتخابات نے اپنی بے مثال اکثریتی استحکام کی وجہ سے، مسلم ووٹروں کو تقریباً غیر متعلق اور غیر ضروری بنا دیا، یا یہ کہیں سیاست میں ان کی کوئی قدرو قیمت نہیں رہی۔ اس الیکشن کے بعد ان کے اور ان کی قیادت کے سامنے سوچنے کے لیے بہت سے سوالات کھڑے کر دیے۔
اگر اتر پردیش کے 2017 مینڈیٹ نے یادو خاندان (اکھلیش یادو) کو ایک طرح سے ختم کر دیا، اور اگردلت سیاست کے نام پر صرف ایک جاٹو لیڈر (مایاوتی) کوپیش کیا گیا، توپھر یوپی کی سیاست میں مسلم کمیونٹی کے مستقبل پر سوال کیوں اٹھتا ہے؟ہندوستانی سیکولرازم سے اصل میں کیا مراد ہے؟ اقلیتوں کی خوشنودی یا’اقلیت پسندیـ ‘کی سیاست سے اصل میں کیا مراد ہے؟ جس کا دوسری جماعتوں پربی جے پی لگاتار الزام لگاتی رہی ہے۔2017 کے یوپی مینڈیٹ کی تشریح کرتے ہوئے، یہ ظاہر ہوا کہ فرقہ وارانہ پولرائزیشن یعنی مذہب پر مبنی تقسیم، جو یقیناً موجود تھی، اس پر نسبتاً زیادہ زور دیا گیا تھا۔ تاہم، اس کے علاوہ بھی دیگر اہم عوامل تھے، جنہوں نے ووٹنگ پیٹرن کو متاثر کیا۔
سماجی انصاف کی سیاست کے اندر، او بی سی یعنی پسماندہ ذاتوںکے درمیان، طویل عرصے سے، یادوذات کے غلبے کے خلاف کافی عدم اطمینان پایا جاتا رہاہے۔ اسی طرح دلتوں کی کل 66 برادریوں میں جاٹو بالادستی کے خلاف زبردست غصہ اور ناراضگی پائی جاتی ہے۔ ان غیر یادو اور غیر جاٹو ذاتوں کی ، اپنے اپنے حقوق کے لئے جدو جہد جاری ہے۔ جیسا کہ یادو اور جاٹو کا  یوپی کے اقتدار پر یہ غلبہ مسلم رائے دہندگان کی حمایت سے برقرار تھا، انہیں یعنی مسلمانوں کو حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے ،دیانت داری اور انصاف کے ساتھ دیگر پسماندہ؍دلت ذاتوں کو حاشیہ پر لے جانے کی اس یادو؍جاٹو سیاست کے خلاف بولنا چاہیے تھا۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ مسلم قیادت نے کبھی ایسا نہیں کیا، جس کا خمیازہ اس کو اٹھانا پڑ رہا ہے۔
  میں نے اپنے کالم (ریڈف ڈاٹ کام، 2؍فروری 2017) میں، یوپی اسمبلی انتخابات کے آغاز سے قبل، یہ پوچھا تھا کہ آنے والے یوپی انتخابات میں کیاکوئی یہ دیکھنا چا ہے گا:
 (a) اگر 2017 کے انتخابی نتائج میں واقعی ’’تیسرے جمہوری عروج‘‘کا کوئی  واضح اشارہ ہو؟  (b) اگر یہ عروج واقعی مسلم ذاتوں میں  بھی گھس جائے ، اور، (c) کیا ایسا ہوگا کہ بی جے پی ’’تیسرے جمہوری انقلاب‘‘کا آغاز کرے جس سے مسلم ذاتوں کے ایک بڑے حصہ کوبھی فائد ہ ملے؟
سنہ2012 کے اترپردیش اسمبلی انتخابات میں، آزادی کے بعد پہلی بار مسلمانوں نے بڑی کامیابی حاصل کی۔ ان کی سیاسی نمائندگی میں بڑا اضافہ ہوا تھا، ان کے403 میں سے 68 ممبر اسمبلی منتخب ہوکر آئے تھے، جو کہ 17.2 فیصد تھے یعنی یہ تعداد ان کی آبادی کے تقریباً تناسب میں تھی۔ اس سے قبل 2007 میں، اسمبلی میں 56 مسلم ایم ایل اے منتخب ہوئے تھے۔ گذشتہ 2017 کے اتر پردیش اسمبلی انتخابات میں ہندوستان کی سب سے زیادہ آبادی والی ریاست میں مسلم نمائندگی 5.9 فیصد تک گھٹ گئی ہے، جو اس کی آبادی کے تناسب  کے مطابق جو حصہ ہونا چاہئے ،اسکا ایک تہائی  ہے۔یہ تقریباً ربع صدی قبل، 1993 کے انتخاب میں،( جو کہ بابری مسجد کے انہدام کی وجہ سے دسمبر 1992 کے فرقہ وارانہ فسادکے بعد ہوا تھا)، مسلمانوں کی نمائندگی 5.9 فیصدکے برابر ہے۔ اوراسی طرح یہ 1991 میں ریکارڈ کی گئی 4.1فیصدکے مقابلے میں دو فیصد سے دو اعشاریہ کم  یعنی1.8 زیادہ ہے۔اگر دیکھا جائے تو یہ سب سے کم نمائندگی ہے۔
وہیںبی جے پی کی مقبولیت جبکہ سیٹوں کے لحاظ سے، چھ گنا بڑھ گئی ہے ۔جہاں 2012 میں اس کو کل 403 سیٹوںمیں سے صرف 47 سیٹیں ملی تھیں، 2017 میںاس کی سیٹوں کی تعداد 312 ہو گئی، یعنی بمپر اضافہ ہوا ۔دوسری جانب مسلم نمائندگی تقریباً 65 فیصد کم ہو گئی ہے۔ جہاں 2012 میں 68 سیٹوں پر مسلمان منتخب ہوئے تھے، 2017 میںیہ تعداد 24 رہ گئی ۔ مسلمان امیدواروں میں نمایاں طور پر، 84 امیدواردوسرے نمبر پر رہے (تین صرف معمولی فرق سے 200 سے 500 ووٹوں سے ہارے)۔ 2017 میں جیتنے والے قانون ساز اسمبلی کے 24 مسلم ارکان (ایم ایل اے) میں سے، نصف سے زیادہ، یا 14، اس سے پہلے انہی حلقوں سے جیت چکے تھے۔ جن میں سے چھ مسلم ایم ایل ایز نے کم از کم گذشتہ 15 سالوں سے اپنے حلقوں کی نمائندگی کی ہے۔ ان نئے مسلم ارکان میں کوئی بھی خواتین نہیں ہے(9.9% نئے ایم ایل ایز)۔ مسلم ایم ایل اے کے حلقے زیادہ تر روہیل کھنڈ،مغربی اترپردیش کے بالائی دوآب اور مشرقی یوپی کے پوروانچل کے علاقوں میں واقع ہیں۔ تجزیہ یہ بتاتا ہے کہ مسلم ووٹ اترپردیش کے81  لوک سبھا حلقوںمیں سے 34 اور 403 اسمبلی حلقوں میں سے 130 میں فیصلہ کن عنصر ادا کرتا ہے۔ (۱)
یہ اپنے آپ میں واضح کرتا ہے کہ 2017 کا مینڈیٹ صرف مسلم مخالف پولرائزیشن کے بارے میں نہیں تھا۔ اس میں اور بھی کچھ اہم تھا، جس کو ہمیں سمجھنا ہوگا۔ یہ مینڈیٹ جہاں، بنیادی طور پر، غیر یادو او بی سی، اور غیر جاٹو دلتوں کا مذکورہ بالا سیاسی طور پردو غالب ذاتوں کے خلاف، ایک طرح سے بغاوت اورغصہ کا اظہار تھا، اتنا ہی یہ مینڈیٹ ان ذاتوں کے علاقائی شہنشاہوں کی واحد ذات، واحد خاندان کے اقتدار کے تسلسل کے خلاف تھا۔
اس کے علاوہ بی جے پی نے اونچی ذاتوںکی بنیادی حمایت جوکہ اس کی اصل بنیاد ہے اور یوپی کے 23 فیصد ووٹروں پر مشتمل ہے، کو ملحوظ رکھتے ہوئے ، کافی احتیاط کے ساتھ، او بی سی (29 فیصد) اور دلتوں کے پسماندہ گروہوں کی اس ناراضگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے، اس کاازالہ کیا، اور ان کو اپنی پارٹی میں جگہ دی۔
مذکورہ عوامل کے علاوہ، بی جے پی کے حق میں ہوا تیزچلنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اس نے صرف یوپی میں غربت کی لکیر سے نیچے (بی پی ایل) خاندانوں میں تقریباً 55 لاکھ ایل پی جی سلنڈروں کی تقسیم بغیر کسی ذات پات اور برادریوںکے امتیاز کے کامیابی کے ساتھ کی۔ مرکزی حکومت کی اس اسکیم کو صوبے نے لاگو کیا تھا، لیکن حکومت کے ساتھ ساتھ تمام رنگ و نسل کے سیاسی کارکنان نے بھی اس اہمیت کے حامل اسکیم  کے بارے میں بے حسی اختیار کی اور اس سے ایک طرح سے بے خبر رہے۔ اسے ’زعفرانی کمیونزم‘کہا جا سکتا ہے۔
زعفرانی نظریات کی جانب جھکاؤ رکھنے والے ایک سبکدوش صحافی نے اس لیے زور دے کر کہا، ’’مودی وجہ ہیں، بی جے پی نہیں۔ وہ (مودی)عوام (ہندو) کو یہ بتانے میں کامیاب رہے ہیں کہ وہ ان کے لیے کچھ بھی کرنے کاجذبہ رکھتے ہیں۔ لوگ (ہندوؤں کا ایک بڑا طبقہ ) ان پر بھروسہ کرتے ہیں اور ان کے لئے کچھ کرنے اور وقت دینے کے لیے تیار ہیں۔ مزید یہ کہ ہندو سماج کے غریب طبقے کا ایک بڑا حصہ ابھی بھی یہ سمجھتا ہے کہ ڈی مونیٹائزیشن یعنی نوٹ بندی امیروں کے لیے ایک بہت بڑی تکلیف ہے۔‘‘
اگر بی جے پی کی الیکشن میں حالت بہتر تھی، توپھر، بی جے پی نے انتخابات کے درمیان ہی تقسیم اور پولرائزنگ کے حربے کیوں اختیار کیے؟ جزوی طور پر ہی سہی،کیونکہ بہار کے تجربے کے پیش نظر اس نے جو سماجی اتحاد بنایا تھا اس کی پائیداری کے بارے میں، وہ ( بی جے پی)زیادہ پراعتماد نہیں تھی( جے ڈی یو جس کا اتحاد 2013 میں بی جے پی سے ختم ہو گیا تھا ،2015 میں نتیش کمار کی قیادت میں آر جے ڈی۔جے ڈی یو۔کانگریس اتحاد نے بی جے پی کو شکست دی تھی )۔(۲)
اس مسلم مخالف بیان بازی سے اس بات کی پذیرائی ملی کہ چونکہ ان علاقائی شہنشاہوں نے مسلم ووٹوں کی مدد سے اقتدار پر قبضہ کیا (اورکرسی پر براجمان رہے) اس لیے ان کے خلاف کافی حد تک عوام میںغصہ پایا گیا۔ درحقیقت مایاوتی اور ملائم سنگھ یادو کی سیاست ان(مسلمانوں)کے ساتھ کافی سہل ہو گئی تھی۔ کیونکہ مسلمانوں کے ووٹ کوبغیر کسی جدوجہد کے حاصل کرنا ان کے لئے آسان تھا ۔ہندو ووٹر کے مختلف طبقات کے برعکس، مسلمان معاشرہ اور طبقات نے سوائے اس کے مذہب سے متعلق جذباتی معاملات کے، حکومت سے کسی بھی لحاظ سے یکساں شریک حقوق کی دعویداری نہیں کی اور، نہ ہی کوئی سنجیدہ مطالبہ کیا ۔
ملائم کے کنبے اور ان کے بڑے رشتے داروں کے نیٹ ورک کو دیکھتے ہوئے، اس کا قائم رہنا یوپی کے لوگوں کے لیے اور بھی نفرت انگیز ہو گیا۔ مایاوتی اور ملائم خاندان دونوں نے اس اعتماد کے ساتھ دوسرے سماجی گروہوں کو اس لئے اور بھی پیچھے ڈھکیل دیا کہ مسلمان کہلانے والے، اور کوئی مطالبہ نہ رکھنے والے،’غیر فعال‘ووٹر اقتدار پر قبضہ کرنے (اور رہنے) میں ان کی بھر پور مدد کریں گے ۔ دوسرے سماجی گروہوں کے مقابلے میں مسلم حلقے کا انتظام’سیکولر سٹوں‘ کے لیے ہمیشہ آسان رہا ہے۔ بس کچھ علامتی اقدامات اور ’ونڈو ڈریسنگ‘ یعنی اوپری مرہم پٹی کے ذریعہ مسلمانوں کے ریوڑ کو غیر محفوظ طریقے سے اکٹھا رکھے گی۔ وہ اپنے علاقوں میں تعلیم، صحت ، سڑکوں، بجلی کی بہتر سہولیات کے لیے زیادہ ہنگامہ نہیں کریں گے، اور اقتدار میں برابر کی شرکت کے لئے بھی زیادہ زور نہیں دیں گے۔ صرف جذباتی، مذہبی اور ثقافتی مسائل انہیں سڑکوں پر آنے پر مجبور کرتے ہیں۔ لہٰذا، ان کی قدامت پسندی اور غیر استدلالی رویہ کا محض دفاع اور یقین دہانیاں ان کے ووٹ کو ’سیکولرسٹوں‘ کے حق میں یقینی بنا سکتی ہیں۔ مسلم رہنما شاذ و نادر ہی اشتعال انگیز/تحریکی عمل سے باہر نکلتے ہیں۔ اس لیے، ان کے پاس اپنا زیادہ سے زیادہ ماس بیس نہیں ہے۔ یعنی وہ زمین سے جڑے نہیں ہوتے۔ لہذا، خاندانوں کی خواہش پران کو آگے بڑھایا جا سکتا ہے، اور گرایا جا سکتا ہے، ان کے تعاون کے ساتھ ساتھ باہر نکلنا ہمیشہ آسان ہے۔
  تاہم یہ عمل مسلم معاشرے کے اجتماعی مفادات کو اتنا ہی نقصان پہنچا رہا ہے جتنا کہ مجموعی طور پر ہندوستانی جمہوریت کو۔ ان خاندانوں کی وجہ سے مسلمانوں کے اندر معیاری قیادت کا فقدان پیدا ہوا ہے اور ان کی قیادت کے اندر گہری خامیاں پائی جاتی ہیں۔
اعظم خان (پیدائش 1948)، ملائم سنگھ یادو کے قابل اعتماد ساتھی  ، جنہوں نے یوپی کی مسلم سیاست کا ایک استعاراتی نمونہ پیش کیا، آج کل جیل میں بند ہیں۔ (یو پی سیاست کے مسلم چہرے کے طور پر اعظم خان پر ضمیمہ میں تفصیلات درج کی گئی ہیں)
رام پور کے خدمت گزار رہنما اعظم خان نے نہ صرف ا پنی اہلیہ تزین فاطمہ کے لیے راجیہ سبھا کی نشست بلکہ اپنے بیٹے عبداللہ اعظم کے لیے،( جیسے ہی وہ الیکشن لڑنے کی عمر کو پہنچے)، اسمبلی کا ٹکٹ حاصل کیا تاکہ ان کو لیجسلیچر بنایا جا سکے ( عمر کے سلسلہ میں عبداللہ اعظم پرایک مقدمہ زیر سماعت ہے)۔ انہوں نے اور ان کی سماج وادی پارٹی نے رام پور میں کسی دوسرے مسلمان کو لیڈر کے طور پر ابھرنے نہیں دیا۔ یہاں تک کہ، 2012 میں، انہوںنے منور سلیم کو ودیشا (مدھیہ پردیش) سے لاکرراجیہ سبھا بھیجا۔ یہ سب کچھ یوپی کے مسلمانوں کے سماج وادی پارٹی مسلم کارکنوں کی قیمت پر تھا۔ جلد ہی اعظم خاں مظفر نگر اور ملحقہ ضلعوں میں تشدد اور نقل مکانی کے فوراً بعد، سنگدلی سے یوروپ کی سیر پر چلے جاتے ہیں۔
اترپردیش کا یہ اہم مسلم چہرہ سیاسی طور پر کیسا کھیل کھیلتا ہے؟ آئیے اس پر ایک نظر ڈال لیتے ہیں: وہ فرقہ وارانہ تقسیم کو ہوا دینے کے لیے تفرقہ انگیز اور اشتعال انگیز بیانات دیتا ہے۔ نومبر 2015 میں، اس نے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کی مخالفت میں بیان  دیا۔ کملیش تیواری، جوکہ ہندو مہاسبھا کا ایک کم حیثیت کارکن تھا ، اس نے اس بیان میں اشتعال پھیلانے کاایک موقع دیکھا۔ تیواری نے یکم دسمبر کو پیغمبر اسلام کے خلاف توہین آمیزبیان دے کر، ایک طرح سے اس کا بدلہ لیا۔ 2016 کے اوائل میں، اس واقعہ کے بعد ملک بھر میں بڑے پیمانے پر کملیش تیواری کے خلاف مسلمانوں نے احتجاج  اور مظاہرے کئے ۔ یہ مظاہرے اعظم خان کے خلاف ہونا چاہیے تھے، جو دراصل اس اشتعال انگیز ی کے محرک تھے ‘‘۔(۳)
مذہبی جذبات کو ہوا دیتے ہوئے، اعظم خان غالباً 2013 کے مظفر نگر-شاملی فرقہ وارانہ فسادکے دوران داغدار ہونے والی اپنی شبیہ کو بچانے کی کوشش کر رہے تھے۔ اسے’’ اکھلیش اعظم حکومت‘‘ کی طرف سے ’’جان بوجھ کر فرقہ واریت‘‘ کہا جا سکتا ہے، جولائی۔ اگست 2013 کے وقعات، جس کا آغاز نوئیڈا کے سب ڈویژنل مجسٹریٹ (ایس ڈی ایم) درگا شکتی ناگپال کی معطلی کے ساتھ ہوا۔ جس کی انتہا ستمبر 2013 کے مظفر نگر-شاملی کا فرقہ وارانہ فساد تھا۔اس فرقہ وارانہ فساد کو روکنے اور اس پر قابو پانے میں ریاستی حکومت بالکل ناکام رہی، اور متاثرین کا خوفناک طور پر بے گھر ہونے کا سلسلہ ایک عرصہ تک جاری رہا، لیکن اس کے باوجود اعظم خان (اور ان کی حکومت) کے خلاف مسلمانوں کی جانب سے کوئی تنقیدنہیں کی گئی۔(۴)
حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے ، اکھلیش نے چالاکی سے اندازہ لگایا کہ متاثرین کو معاوضہ دینے سے ایس پی کو کافی مسلم ووٹ ملیں گے، اس کے علاوہ اس کے نتیجے میں جو پولرائزیشن ہوگی وہ دلتوں اور جاٹوں کو بالترتیب بی ایس پی اور لوک دل سے دور کردے گی۔ ایس پی نے فرقہ وارانہ منافرت کی اس سیاست کو استعمال کرتے ہوئے 2014 کے لوک سبھا انتخاب لڑنے کا منصوبہ بنایا۔ اس طرح اکھلیش یادو نے اپنے والد ملائم سنگھ یادو کو وزارت عظمیٰ تک پہنچانے کا خواب دیکھا۔(۵)
ڈھٹائی سے کھیلا جارہا  یہ کھیل، یقیناً، بی جے پی کے لیے بھی موزوں تھا،البتہ یہ خوفناک کھیل ایک وقت کے بعد اکھلیش انتظامیہ کے قابو سے باہر ہو گیا۔ اس وقت حکومت کرنے والی سماج وادی پارٹی( ایس پی) کو اس بات کا بہت کم احساس تھاکہ کوئی بھی دیگر سیاسی اتحاد کی تشکیل واقعی اس میدان میںبی جے پی کو پیچھے چھوڑ سکتی ہے۔
مسلم قیادت اور دانشوروں میں سے، اگر کوئی ایسی آواز موجود ہے تو انہوں نے بھی، اس خونی کھیل کے خلاف اس وقت کوئی خاص شور اور ہنگامہ نہیں کیا بلکہ خاموشی کو ترجیح دی۔ڈھٹائی اور خونی کھیل جو تقریباً پوری اکھلیش حکومت میں (2012 سے) خوب کھیلا گیا ، جس میں فرقہ وارانہ کشیدگی اور فسادکے تقریباً 600 واقعات رونما ہوئے۔ انہوں (مسلم قیادت )نے یہ بھی نہیں پوچھا کہ آخرمایاوتی بھی، اس طرح کی فرقہ وارانہ جھڑپوں کو روکنے میں اکھلیش حکومت کی ناکامی کے خلاف کیوں نہیں بول رہی ہیں۔
مایاوتی نے کبھی بھی اتر پردیش میں سڑکوں پر اترنے والی سیاست نہیں کی اور نہ ہی انہوں نے کسی طرح کی متحرک اور حملہ آور سیاست کو اپنایا۔ یہاں تک کہ اترپردیش میں دلتوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف بھی ایسی سیاست کرنے سے ان کو بعض رکھا اور اس وقت بھی انہوں نے ایسی سیا ست نہیں کی جب حیدرآباد کے دلت طالب علم روہت ویمولا کی خودکشی کا سانحہ رونما ہوا تھا، اور اونا (گجرات) میں دلتوں پر ہونے والے ظلم وستم کے معاملات عوام میں سلگ رہے تھے۔ ایساکیوں؟ اس کے جواب میں ایک بار پھر وہی وضاحت دلیل کے ساتھ درست ہوگی۔ راحت اور سہولت کی سیاست۔۔۔ جاٹو ، جو کہ ان کی اپنی ذات ہے ، تعداد میں وہ کم ہیں، لیکن ان کی بنیادی حمایت  جو کہ ان کو حاصل رہی ہے،کے علاوہ مسلم ووٹوں کا ایک تناسب ان(مایاوتی) کی پارٹی کو اقتدار حاصل کرنے میں مدد گار بنے گا۔
انہوں نے 2017 کے اسمبلی انتخابات میں تقریباً 100 مسلمانوں کو ٹکٹ دیے اور انتہائی رجعت پسند مولویوں سے اپنے لیے کچھ سازگار بیانات دلوائے۔ وہ دلتوں اور پسماندہ نچلے طبقوں کے بہت سے دوسرے سماجی گروہوں کو اپنے ساتھ ملانے اور ان کے ساتھ اتحاد  قائم کرنے کا خیال کیوں نہیں کرتی تھیں؟ صرف اس لئے کیونکہ مسلمانوں کے برعکس، وہ ایک غیر فعال، غیر مطالبہ، غیر مساوی، ماتحت اتحادی نہیں رہیں گے! اور’شہنشاہوں‘ کو اپنی ’خودمختاری‘ کو بانٹنے اور تقسیم کیے جانے سے محفوظ رکھنا تھا۔
اس سے یہ واضح  ہوجاتاہے کہ یہ ’سیکولر‘ جماعتیں اتنی مطمئن، اور پراعتماد کیوں رہتی ہیں۔ اس طرح ایس پی اور بی ایس پی نے  بالترتیب غیر یادو او بی سی اور غیر جاٹو دلتوں کے، ان میں موجود غیر متناسب غلبہ کے خلاف عدم اطمینان کو نظر انداز کرنے کا انتخاب کیا۔ بلکہ انہوں نے نہ صرف انہیں الگ کیا بلکہ اپنی پارٹیوں سے دور بھی کیا۔
ان علاقائی شہنشاہوں نے اپنے بنیادی حمایت کو کھو دیا، وہیں بی جے پی نے ان کو گلے لگاکر اپنے سماجی آدھار کی توسیع کی اور اس کو بڑھایا۔ مسلمان ووٹوں کے سہارے ان خاص ذاتوں کی مخصوص سہنشاہوں نے اقتدار حاصل کیا حکومت کی اور انہوں نے اقتدار میں رہ کر ہر قسم کی نظم و نسق اور ترقیاتی کاموں سے چشم پوشی کی۔ انہوں نے اس طرح ہندوستانی سیکولرزم کے قیمتی دستوری اثاثے کو بہت بری طرح مجروح اور بدنام کیا اور اس کی ساکھ کو گرایا۔عوام کے اندر ان کی ان حرکتوں کے خلاف غصہ تھا۔ عوام سیکولرزم کی اس مبالغہ آمیز بیان بازی اور بے جامصلحت پسندی اور موقع پرستی کی کریہہ شکل سے نجات حاصل کرنا چاہتے تھے۔ لمبے وقت سے غیر بی جے پی پارٹیوں کا اتحاد ایک رواج بن چکا تھا، جس کی وجہ سے سیکولرزم اور حکومت کی سطح پر مسلم قدامت پسندی کی حمایت کے درمیان فرق زیادہ سے زیادہ دھندلا ہوتا جارہا تھا۔ اس س طرح ہندوؤں کی ایک بڑی تعداد جو سیکولرزم پر یقین رکھتی تھی اور عمل بھی کرتی تھی، ان کے نظریہ پر بھی آنچ آنے لگی تھی اور ان کی فکر میں بھی سیکولرزم کے تئیں منفی تبدیلی آرہی تھی، اور اس طرح ان کی تعداد گھٹتی چلی گئی۔
اب، اس قسم کے سیاسی منظر نامے میں، مسلم سماج کے غور و فکرکرنے والا سوال یہ ہے کہ: وہ یادو/جاٹو دولہا کے پالکی بردار کے طور پر کیوں کام کریں؟ جیسا کہ ایک مسلمان دوست نے مناسب طور پر کہا: ’’ہم لوگ یادو اور جاٹو کے دولہا دلہن کی ڈولی کا بوجھ اٹھانے والے کہار بنا دئے گئے ہیں۔‘‘ 2017 کے مینڈیٹ کے بعد مکمل طور پر حاشیہ پر کئے گئے مسلمانوں نے پوچھا ’’اب ہمیں کیا کرنا چاہیے؟‘‘ اس سوال کا کوئی آسان جواب نہیں ہے۔ ہر تجویز کردہ اقدام بہت زیادہ مزاحمت پیدا کرے گا اور تیزی سے متنازعہ بحثوں کا سامنا کر نا پڑے گا۔ کیا مسلم سماج کے طبقات کو کچھ خود احتسابی اور روح کی تلاشی کرنی چاہیے؟کیا یہ سوال اس بات کا خطرہ نہیں پیدا کرے گا کہ اس سے افسوسناک طریقے سے مظلوم پر الزام لگایا جارہا ہے؟
ایک انتخاب میں ہر امیدوار کو الیکشن لڑنے کے لئے تقریباً ایک کروڑ (10 ملین) روپے خرچ کرنے ہوتے ہیں۔مسلم انتخابی امیدوار ہر پارٹی کے ٹکٹ کے لیے بھاگتے ہیں، اور پھر یہ توقع کرتے ہیں کہ پوری مسلم کمیونٹی اور پورا سماج صرف ان کی پارٹی کو ہی ووٹ ڈالے۔ کیا مسلمانوں کو ایس پی، بی ایس پی، کانگریس، لوک دل کے ان تمام مسلم نمایندوں سے سوال نہیں کرنا چاہئے کہ کیا وہ جو رقم الیکشن لڑنے کے لئے خرچ کر رہے ہیں ، اسی طرح سے وہ رقم کو تعلیم اور صحت کی سہولیات کے لئے اتنی ہی آسانی سے جمع کریں گے ؟
جواب، غالباً، ایک مایوس کن’نہیں‘ ہوگا۔ یہاں تک کہ ہندوستان کے مسلمانوں کے بہتر، متمول اور تعلیم یافتہ طبقہ بشمول این آر آئیز یعنی بیرون ممالک رہنے والے ہندوستانی مسلمان بھی ایسا نہیں کریں گے۔ ایسے میں مسلمانوں کے لیے بہترین طریقہ یہ ہوگا کہ وہ اپنے روایتی دستکاریوں، ہنر مندیوں اور پیشوں کو منظم اور ہموار کرنے کے مشکل لیکن قابل عمل کام پر توجہ دیں۔ یہ تجویز بھی تنقید کی طرف متوجہ ہونے کا خطرہ رکھتی ہے کیونکہ اس طرح سے مسلمانوں کی سیاست ختم ہو جائے گی۔ لیکن، مرکزی نقطہ یہ ہے کہ متوسط طبقے کا کافی تناسب پیدا کرنے کے لیے کچھ ٹھوس اجتماعی کوشش کی جانی چاہیے۔ اس کے بغیر کوئی بھی سیاست صحیح معنوں میں برقرار نہیں رہ سکتی حتیٰ کہ پریشر گروپ کی سیاست بھی نہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ بحرانوں کے وقت مسلم کمیونٹیوں اور مسلم طبقات تعلیمی اقدامات کے پہلو پر زیادہ زور دیتے ہیں۔ ایسا نہیں کہ ان کے پاس تعلیمی انفراسٹرکچر کی کمی ہے، بلکہ ان کے پاس معیاری تعلیم فراہم کرنے اور اپنے بچوں کو نظریات اور علم کے دائرے میں بڑا بنانے کی ترغیب دینے میں شدید کمی ہے۔ کمیونٹی کے تعاون سے مدارس پھل پھول رہے ہیں۔ مساجد کی تزئین و آرائش اونچے خوبصورت میناروں اور بڑے گنبدوں کی تعمیرسے کی گئی ہے جبکہ حکومت کی امداد سے چلنے والی مسلم اقلیتی اکیڈمیاں اعتدال پسندی کا گڑھ اور مرکز بنی ہوئی ہیں۔ جیسا کہ میں سمجھتا ہوں، انہیں اس مسئلے پر فوری اور سنجیدگی کے ساتھ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
مزید برآں، اب تک تمام قیاس شدہ سیکولر سیاسی جماعتوں کی طرف سے دھوکہ دہی کا شکار ہونے کے بعد، مسلم معاشرے کو بغیر کسی سیاسی وابستگی اور بہت سے دوسرے عوامی شعبوں میں شناختی نشانات کے اظہار کئے بغیر اپنے آپ کو صرف ذمہ دار شہریوں کے طور پر پیش کرنا چاہیے۔ دوسرے شہریوں کے ساتھ ضم ہو کر وہ ان سیاسی پارٹیوں میں سے کسی کے متعلق بات کیے بغیر اپنے محدود چوائس کو ملحوظ رکھتے ہوئے ووٹ ڈال سکتے ہیں۔ انہیں اتنا ہی رازداری اورخاموشی سے اپنا ووٹ دینا چاہئے، جیسے وہ بیت الخلاء جاتے ہیں۔ جب بھی ان کے ذمہ دارساتھی شہری تعلیم، صحت کی نگہداشت، سڑکوں، بجلی، امن و امان، مہنگائی، روزگار، ماحولیات، صنفی انصاف وغیرہ کے لیے (ریاست کے خلاف) ہنگامہ اور احتجاج کریں اور ان حقوق کے لئے آواز بلند کریں ، تو انہیں بھی ان کی آواز میں آواز ملاتے ہوئے ایسے احتجاج میں ضرور شامل ہونا چاہیے، مسلمانوں کی طرح نہیں، بلکہ اس ملک کے ذمہ دارشہریوں کے طور پر۔
یہ عمل ممکنہ طور پر فرقہ وارانہ پولرائزیشن اور تقسیم کو کسی حد تک کمزور کرنے کا ایک طریقہ ہو سکتا ہے۔ تعلیمی اور معاشی نقل و حرکت ان کے مذہبی ثقافتی خدشات کا خیال رکھے گی۔ ابھی تک، کئی دہائیوں سے، ایک غلط عقیدہ پر عمل کرتے ہوئے، وہ اپنی سیاست کو بنیادی طور پر مذہبی اور ثقافتی خدشات کے گرد ترجیحی طور پر مرکوز کئے ہوئے ہیں (ہم اس کا جائزہ اگلے پیراگراف میں دیکھیں گے)۔ یہ غلط ترجیح ان لوگوں کو اضافی چارہ فراہم کرتی ہے جو اکثریتی نفرت کی سیاست پر عمل کرتے ہوئے’مسلمانوں میں خوشامد‘کی دلدل کو بڑھاتے ہیں۔ یہاں تک کہ اس انتخاب کے بھی شاید ملے جلے مضمرات ہوں گے۔ بہر حال، یہ شاید ایک کوشش کے قابل عمل ہے!
ایسی دلیل سے’’سیاست سازی کو کمزور‘‘( ڈی پولیٹسائزنگ) کی تجویز پیش کرنے کی ایک خاص وجہ یہ بھی ہے کہ کانگریس اور کانگریس کے بعد کی علاقائی پارٹیوں (ایس پی،بی ایس پی) نے غداری اور چالاکی کے ساتھ اپنی مسلم حمایت کو اس حد تک ترک کر دیا ہے کہ وقفے وقفے سے لنچنگ کے خلاف، اور یہاں تک کہ ریاست کی طرف سے منظم انداز میںمسلم ذیلی طبقوں کی معاشی تباہی کے خلاف، ہونے والے احتجاج کے لئے ان علاقائی پارٹیوں نے اپنی بنیادی ذات اور کور گروپ کی حمایت کو سڑکوں پر نہیں لایا۔ اس بات کو اعجاز اشرف نے بہترین انداز میں بیان کیا، ایس پی، بی ایس پی، کانگریس پر الزام لگاتے ہوئے، انہوں نے کہا، ’’اتر پردیش میں گوشت کی سیاست کو (انتخابی) خطرہ نہیں ہے، کیونکہ گوشت کا سوال گائے کے گوشت یعنی بیف کا نہیں، بلکہ چکن، مٹن اور بھینس کاہے۔ ریاست کی سیاست ہندوتوا کے سبزی خوری کے جذبے کے بارے میں زیادہ ہے، اس روایت کو برقرار رکھنے کے لیے، گوشت پر ہنگامہ کیا جاتاہے، اور اس کا مقصد ترقی کی طرف بڑھتے ہوئے قریشی برادری کی اقتصادی بنیاد کو کمزور کرنا ہے، اور یہ نتیجہ اخذ کیا کہ وہ ’’نہ تو ہندوتوا مخالف ہیں اور نہ ہی مسلم ووٹوں کے خواہش رکھتے‘‘ ہیں۔(۶)
(جاری)
حواشی
۱۔گلس ورنیئرس، ’’The Rising Representation of Muslims in Uttar Pradesh‘‘، دی سینٹر فار پالٹکس اینڈ پبلک پالیسی، 8؍اپریل2014،
۲۔جیمس مینر،’’Undone By Its Own Mistakes: How the BJP Lost Bihar‘‘، اکنامک اینڈ پالٹکل ویکلی(EPW)،51، 10، 5؍مارچ 2016
۳۔تفصیلات کے لیے، دیکھیں میرا مضمون، ’’Malda Decoded: What really happened‘‘، جو کہRediff.com، 19 پرجنوری ، 2016 کو آن لائن شائع ہوا۔
۴۔ تفصیلات کے لیے، Rediff.com پر میرے کالم کو دیکھیں، 5 اگست 2013 کے (جس میں 1 بڑے پیمانے پر فرقہ وارانہ فسادات کی پیشن گوئی کی بات کی گئی، جو بدقسمتی سے ستمبر میں درست ثابت ہوئے)۔ فرقہ وارانہ فسادات پر ریڈف ڈاٹ کام پر 13اور 16ستمبر 2013کے میرے کالم کو دیکھیں، جن میں ان مسئلوں کو اٹھایا گیا ہے۔ ہلال احمد کے کالم 5 اکتوبر 2013، اور، 3 مئی 2014 کےEconomic and Political Weekly (EPW) کے شماروں میں دیکھیں۔بے گھر ہونے والوںکی پریشانیوں کی تفصیلات کے لیے، غزالہ جمیل کا مضمون، ’’Internally Displaced Muslims of Western Utter Pradesh‘‘، اکنامک اینڈ پولیٹیکل ویکلی (EPW)، 20 دسمبر 2014 دیکھیں۔
۵۔مظفر نگر فسادات سے بہت پہلے، 2012 سے یوپی کے کئی حصوں میں چھوٹے موٹے فرقہ وارانہ تشددکے واقعات اور پولرایزیشن کا مشاہدہ کیا گیا تھا، یہ اس قت کی بات ہے، جب ایس پی بی ایس پی کو شکست دے کر اقتدار میں آئی تھی۔۔۔ایس پی حکومت کے پہلے 10 مہینوں میں، 104 فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات رونما ہوئے تھے۔۔۔سیاسی قیادت نے انتظامی مشینری کو اپنی ذمہ داریاں صحیح طریقے سے ادا کرنے کی اجازت نہیں دی۔سیاسی رہنمائوں کی جانب سے حمایت اور واضح رہنمائی کے فقدان کی وجہ سے وہ رکاوٹ اور کم حوصلے کا شکار ہو گئے۔۔۔ریاستی انتظامیہ بھی متاثرین کو انصاف فراہم کرنے میں ناکام رہی۔ فسادات، بی جے پی اور ایس پی ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کر رہے تھے۔۔۔ یکم جون 2013 کودہلی کے لودھی روڈ کے علاقے میں، کسی خفیہ جگہ پر امت شاہ کے ساتھ ملائم سنگھ کے بھائی، شیوپال یادو، دھرمیندر یادو، اور بلرام یادو کی وشو ہندو پریشد کی 84کوس یاترا کے سلسلہ میں میٹنگ ہوئی۔ اسی طرح کی ایک میٹنگ اشوک سنگھل کے ساتھ بھی ہوئی، اور اس طرح سے ان کے درمیان اتفاق رائے سے چند فیصلے کئے گئے۔ ایس پی حکومت نے اس سلسلہ میں اہم کردار اد ا کیا، اس نے بڑھتے ہوئے فرقہ وارانہ ماحول کو کم کرنے کے لئے کوئی بھی تدارکی اقدامات نہیں اٹھائے۔ کیونکہ 2014کا الیکشن قریب آرہا تھا ان کو اس بات کا پوا یقین تھاکہ موجودہ فرقہ وارانہ اور تشدد کے ماحول میں ڈرے ہوئے مسلمان ، سماج وادی پارٹی کو ہی ووٹ کریں گے، اور جو ان کی پارٹی کو لوک سبھا میں اچھی سیٹیں دلوائیں گے یعنی ملائم سنگھ کو اقتدار کی کرسی تک پہنچائے گا، لیکن یہ چال کامیاب نہیں ہو پائی، اور ان کا ملائم سنگھ کو وزیر اعظم بنانے کا منصوبہ دھرا کا دھرا رہ گیا۔ دیکھئے سجن کمار اور سدھا پائی،Every Day Communalism: Riots in Contemporary Uttar Pradesh. OUP, Delhi, 2008.
۶۔ دیکھئے اعجاز اشرف کا مضمون،’’Utter Pradesh Meat Politics: Why Have ‘sickular parties’failed to show support for Muslims‘‘ 14 اپریل 2017 کو Scroll.In میں شائع ہوا۔ اتر پردیش میں گوشت کی سیاست: کیوں ’بیمار پارٹیاں‘ مسلمانوں کے لیے حمایت ظاہر کرنے میں ناکام رہی ہیں‘‘۔
(اصل انگریزی مضمون انڈین جرنل آف سیکولرزم، ممبئ، جلد 25، شمارہ 1 – 3 میں شائع ہوا ہے)

You may also like