Home تجزیہ یوپی کوگجرات بنایاجارہا ہے- شکیل رشید

یوپی کوگجرات بنایاجارہا ہے- شکیل رشید

by قندیل

(ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز)

یوپی کے مسلمانوں کے لئے 2020 اپنے دوصفروں کی ایک ذرا سی تبدیلی سے 2002 ثابت ہورہا ہے ۔ وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کا ’بدلہ‘ اور ’ انتقام‘ کا نعرہ رنگ لارہا ہے ، لہورنگ ، گاڑھا، سرخ ۔ یوگی کے ’ انتقام اور بدلے‘ میں ہر عمل جائز ہے ، مدرسوں کے اندر گھس کر بچوں اور باریش علماء کو عریاں کرکے پیٹنا بھی ، مذہبی کتابوں کی بے حرمتی کرنا بھی اور گرفتار بچوں کے ساتھ ’ بدفعلی‘ کرنا بھی ۔
مظفر نگر سے یوگی کی پولس کی درندگی کی جو کہانیاں سامنے آرہی ہیں ان سے دو باتیں بہت ہی واضح طور پر ثابت ہوجاتی ہیں ۔ ایک تو یہ کہ ’ منصوبہ ‘ یہ ہے کہ سی اے اے اور این آرسی واین آرپی کے خلاف تحریک کو کچلنے کے لئے مسلمانوں کو اسقدر پیٹا جائے ، اسقدر پیٹا جائے کہ وہ خواب میں بھی سی اے اے کی مخالفت نہ کرسکیں ۔ اور دوسرا یہ کہ ان کے ساتھ ایسی ’ حرکتیں‘ کی جائیں کہ ان کے ’ حوصلے ٹوٹ جائیں‘ اور ’ ذلت‘ کے شدید احساس سے وہ منھ چھپاتے پھریں ۔ ۔۔۔ یہ منصوبہ کوئی آج کا نہیں ہے ، یہ تو آر ایس ایس کے ایجنڈے کا ہی ایک حصہ ہے۔ آج چونکہ یوپی میں یوگی کی سرکار ہے اس لئے آزادی کے ساتھ اس ایجنڈے پر عمل ہورہا ہے اور یوپی کی پولس بغیر کسی جوابدہی کے خوف کے سنگھی ایجنڈے کو لاگو کرنے میں لگی ہوئی ہے ۔مظفر نگر کے 70 سالہ بزرگ مولانا اسد رضا حسینی کے جسم پر پولس کے لاٹھی اور ڈنڈے تو برسے ہی ہیں ، ان کے زخم تو ہرے ہیں ہی لیکن کبھی نہ کبھی بھر جائیں گے ، پر ان کی روح پر جو چوٹ لگی ہے وہ شاید کبھی نہ بھرسکے ۔کولکتہ کے انگریزی روزنامہ ’ دی ٹیلی گراف‘ نے پولس مظالم کی جو داستان سنائی ہے وہ رونگٹے کھڑے کردینے والی ہے ۔ مولانا اسد رضا ، سادات بارہہ کے سادات مدرسہ و یتیم خانہ کے ذمے داروں میں سے ایک ہیں ، 20دسمبر کے روز سی اے اے ، این آرسی اور این پی آر مخالف مظاہرہ کے دوران پولس مدرسہ اور یتیم خانہ میں گھس گئی تھی اور بچوں کو ۔ یہ یتیم بچے ہیں ۔لاٹھی ڈنڈوں سے پیٹنا شروع کیا تھا۔ مولانا اسد رضا بچوں کو بچانے کے لئے جب پہنچے تو انہیں بری طرح سے پیٹا گیا ۔ پولس نے اسی پر بس نہیں کیا انہیں اور مدرسہ کے بچوں کو پکڑ لے گئی جن میں سے کوئی 17 بچے ہنوز سلاخوں کے پیچھے ہیں ۔ مولانا اسد رضا کو سیول لائنز کے قید خانے میں مادرزاد ننگاکر دیا گیا اور پھر لاٹھی اور ڈنڈوں سے ان کی پٹائی شروع کی گئی۔مدرسہ ویتیم خانہ سے نکلنے سے پہلے پولس نے وہاں کی تمام چیزوں کو ، جن میں مذہبی اور دینی کتابیں بھی تھیں ، تہس نہس کردیا۔ آج مولانا اسد رضا کی روح گھائل ہے ، ان کا دل ودماغ تقریباً ماؤف ہوچکا ہے پر وہ اپنے ’بچوں‘ کو نہیں بھولے ہیں ، وہ بار بار یہی کہتے ہیں ’ میرے بچوں کو جیل سے باہر نکلوایا جائے ‘۔ ’ ٹیلی گراف‘ کی رپورٹ کے مطابق مولانا اسد رضا سوتے میں بھی سسکنے لگتے ہیں اور جو بھی اعزاواقارب ملاقات کے لئے آتے ہیں ان سے منھ چھپالیتے ہیں ۔ ایک باعزت شخص کو عریاں کرکے پیٹا جانا اس کے لئے ایک طرح کی ’ موت‘ ہی ہے ۔ اور آج مولانا اسد رضا خود کو زندہ نہیں سمجھتےـ
ایک نیوز پورٹل ’ نیوز کلک‘ کی رپورٹ کے مطابق ’’ جب وہ ہماری پٹائی کررہے تھے تب کہہ رہے تھے ’ یہ جو آزادی مانگ رہے ہو یہ ہے ۔‘‘ پولس نے ان بچوں سے جو 14 سال سے لیکر 21 سال کی عمر کے تھے ’’ہرہرمہادیو‘ اور ’ جئے شری رام‘ کے نعرے بھی لگوائے ۔۔۔ ’ٹیلی گراف ‘ نے ایک مقامی کانگریسی لیڈر کے حوالے سے یہ سنسنی خیز انکشاف بھی کیا ہے کہ ’ ’بغل کے کمرہ میں طلبا اور یتیم خانہ کے بچوں کا ساری رات استحصال کیا جاتا رہا ، ان بچوں کو پاخانہ تک نہیں جانے دیا گیا ، ٹارچر کی وجہ سے کئی بچوں کے مقعد سے خون بہہ رہا تھا‘‘۔ اب یہ بچے اسپتال میں ہیں ، لیکن یہ پولس حراست سے چھوڑے نہیں گئے ہیں !
یوگی کی پولس اس سارے معاملے پر ’قہقہہ‘ لگارہی ہے ۔ مظفر نگر کے ایس پی ستیہ پال انٹل پولس تشدد کو ’ جائز‘ قرار دے رہے ہیں کیونکہ ان کے بقول ’’پولس پر فائرنگ کی گئی تھی۔‘‘ سوال یہ ہےکہ ’انتقام ‘ اور ’ بدلہ‘ کو چاہے جسقدر ’جائز‘ اور ’ درست‘ ٹہرایا جائے بچوں کے ساتھ ممکنہ جنسی بدفعلی کو کیسے درست ٹہرایا جاسکتا ہے ؟؟ پر شاید اس ملک میں جو موجود ہ سرکار ہے اس سے یہ سوال کرنا ٹھیک نہیں ہے کیونکہ اس سرکار میں ایسے کتنے ہی لوگ ہیں جن پر ’ریپ‘ کے الزامات عائد ہیں ۔ یہ راج کررہے ہیں ! نہ صرف راج کررہے ہیں بلکہ ان کے راج میں ریپ کے واقعات بڑھ رہے ہیں بالخصوص یوپی میں ۔۔۔ ویسے یوگی راج کو اگر ’ جنگل راج‘ بھی کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا ۔ صرف مظفر نگر کے مدرسہ اور یتیم خانے میں ہی پولس نے دہشت نہیں پھیلائی یوپی میں جہاں جہاں سی اے اے کے خلاف مظاہرے ہوئے وہاں وہاں یوگی کی پولس نے مسلمانوں کو خاص طور پر نشانہ بنایا ، پر ساتھ میں وہ برادرانِ وطن بھی زد پر آئے جو سی اے اے اور این آرسی کے خلاف مظاہروں میں مسلمانوں کے ساتھ کندھےسے کندھا ملا کر کھڑے ہوئے ہیں ۔ مثال سماجی کارکن ایکتا اور روی شیکھر کی لے لیں ۔ اس جوڑے کی سواسال کی بچی چمپک نے کھانا پیناتک چھوڑ دیا تھا۔ اسی وارانسی میں ایک آٹھ سالہ بچہ اس وقت لوگوں کے پیروں تلے آکر روندا گیا تھا جب پولس نے مظاہرین پر ’لاٹھی چارج‘ کیا تھا۔ فیروز آباد میں تو پولس نے کمال کردیا، بنے خان کو مرے ہوئے چھ سال گذر چکے ہیں پر پولس نے انہیں ’’امن کےلئے خطرہ‘‘ قرار دے کر نوٹس بھیج دیا ! فیروز آباد میں بھی یوگی کی پولس نے مظفر نگر سے کم ظلم نہیں ڈھایا ۔ انگریزی روزنامہ ’ انڈین ایکسپریس‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق فیروز آباد کے لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ مقامی پولس نے نشانہ بناکر ان کے خلاف پر تشدد کارروائی کی ۔ 20 دسمبر کو فیروز آباد میں بھی سی اے اے کے خلاف زبردست مظاہرہ کیا گیا تھا۔ پولس کا الزام ہے کہ اس پر جگہ جگہ سے پتھراؤ کیا جارہا تھا۔ اس موقع کی ویڈیو میں پولس والوں کے ساتھ ’غیر پولس والوں‘ کو بھی دیکھا جاسکتا ہے ، یہ آزاد خان نامی ایک شخص کے گودام پر سنگباری کرتے اور پھر اسے جلانے کی کوشش کرتےہوئے دیکھے جاسکتے ہیں ۔۔ فیروز آباد میں چھ افراد پولس کی گولیوں کا نشانہ بنے ہیں ۔ انگریزی روزنامہ ’ دی ہندو‘ نے پولس تشدد پر ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی ہے اس رپورٹ کے مطابق ’’نینی اور جاتو پوری جنکشن پر رہنے والے اپنے گھروں میں بند ہیں ، انہیں باہر نکلتے ہوئے ڈر محسوس ہوتا ہے۔‘‘ رپورٹ میں صاف لفظوں میں لکھا ہے کہ احتجاج پر امن تھا لیکن اچانک پتھراؤ شروع ہوا اور پولس نے فائرنگ شروع کردی ۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ پولس فائرنگ میں جو مارے گئے وہ مظاہرے میں شریک تک نہیں تھے ۔ پولس نے ڈرون سے لوگوں کے گھروں کی نگرانی شروع کردی ہے ۔ لوگوں کی تصویروں والے پوسٹر لگوادیئے ہیں اور سارے علاقے میں سخت نگرانی ہے ۔ اس علاقے میں جو چھ افراد پولس کی گولی سے مارے گئے وہ راہگیر تھے ۔ ان میں سب سے زیادہ عمر محمد شفیق کی تھی۔ 40 سال کے محمد شفیق کی بعد محمد ہارون 30 سال کے تھے ، باقی کے سب ان سے کہیں چھوٹی عمر کے تھے ۔ کچھ یہی حال پولس والوں نےمیرٹھ کا بھی کیا ۔ آج بھی وہاں کے احمد نگر کے علاقے میں لوگ اپنی حفاظت کے لئے رات رات بھر جاگتے ہیں، ’دی ہندو‘ کی رپورٹ کے مطابق ’’ پولس مسلم اکثریتی علاقوں میں مقامی بی جے پی لیڈروں کے ساتھ نظر آرہی تھی۔‘‘ اور بجنور کے نہٹور میں پولس کے ساتھ ’’پولس مِتر‘‘ بھی تھے ۔ میرٹھ ہی میں پولس ایس پی اکھلیش این سنگھ نے مسلمانوں کو پاکستان جانے کی ’’صلاح‘’ دی تھی۔۔۔ چونکہ سارے ہی بھاجپائی مسلمانوں کو موقع موقع سے پاکستان جانے کی ’’صلاح‘ دیتے رہتے ہیں اس لئے پولس ایس پی سنگھ پر کوئی کارروائی کیسے ممکن تھی ، وہ آج بھی اپنی پوسٹ پر بنے ہوئے ہیں!
یوپی مسلمانوں کے لئے ایک پولس اسٹیٹ بن گیا ہے ۔ یوپی پولس کے حکام دعوے پر دعوے کررہے ہیں کہ ’’یوپی کی پولس فرقہ پرست نہیں ہے ‘‘لیکن یوپی بھر میں کسی بھی مسلمان سے پوچھا جائے وہ یہی کہے گا کہ پولس کی ساری کارروائی ساری سرگرمی متعصبانہ تھی، مظفر نگر سے لے کر کانپور ، اعظم گڑھ ، سنبھل ، علی گڑھ اور لکھنؤ تک میں اس نے گھروں کے اندر گھس کر توڑ پھوڑ کی ، لوگوں کو لاٹھی ڈنڈوں سے پیٹا، جبراً لوگوں سے ’عوامی املاک کی تباہی‘ کو ’بہانہ‘ بناکر ’جرمانہ‘ وصولا ۔ اور بڑی تعداد میں لوگوں کو سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا ۔
سابق آئی اے ایس افسر ہرش مندر نے ’ دی وائر اردو‘ سے بات کرتے ہوئے واضح لفظوں میں کہا کہ ’’آدتیہ ناتھ یوگی نے یوپی میں مسلمانوں کے خلاف جنگ چھیڑ دی ہے اور پولس خود دنگائی بن گئی ہے ۔‘‘ انہوں نے پولس کے ذریعے مسلمانوں کے گھروں میں گھس کر لوٹ پاٹ کی کہانیاں سنائیں ، بزرگوں ، عورتوں اور بچوں کے ساتھ مارپیٹ کی بھی بات کی ۔ سارے وردی پوش گھروں کے اندر گھس کر توڑ پھوڑ کرتے رہے ان کے ساتھ کئی جگہ غیروردی پوش بھی تھے ۔۔۔ ہرش مندر نے جو کہا وہ مسلسل مختلف فیکٹ فائنڈنگ کی ٹیمیں کہہ رہی ہیں ۔ کئی ہزار افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کرنا ، کئی سوافراد کو گرفتار کرنا ، گھروں میں گھس کر کہنا ’ہم تمہیں آزادی دے رہے ہیں ‘۔۔۔ اور یہ کہ ’’ اب تو تمہارا پاکستان جانے کا وقت آگیا ہے اب تو یہ گھر ہمیں ہی ملے گا۔‘‘ ہرش مندر کے مطابق ’’یوپی کی پولس نے سی اے اے ، این آر سی کو یہ سمجھا ہے کہ بٹوارہ کا جو ادھورا کام ہے وہ پورا کیا جائے یعنی مسلمان چلاجائے اور مسلم پاکستان اور ہندو ہندوستان بن جائے ۔‘‘ ہرش مندر کی یہ بات بے حد سنگین اور بے حد تشویشناک ہے ۔۔۔ یوگی آج وہی کررہے ہیں جو 2002 میں گجرات میں ہوا تھا، قتل عام جس کا الزام آج کے وزیراعظم مودی کے سر ہے ۔۔۔ یوگی کی سرکاریوپی کو گجرات بنانے کے لئے کوشاں ہے ، پر اس معاملے میں برادران ِ وطن مسلمانوں کے ساتھ کھڑے نظر آرہے ہیں ۔ لیکن یہ کافی نہیں ہے ،آج بھی امیت شاہ کہہ رہے ہیں کہ ’’ ہم سی اے اے سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے ۔‘‘ ایسے میں ایک بہت بڑی تحریک کی ضرورت ہے ، ہر طرح کے بھید بھاؤ اور تعصب سے پاک تحریک کی۔۔۔ ہم سب کو ایسی تحریک کے لئے تیار رہنے کی ضرورت ہے ۔

You may also like

Leave a Comment