جینوا:قوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے افغانستان میں اپنے امدادی مشن میں ایک سال کے لیے مزید توسیع کردی ہے۔ لیکن روس نے طالبان اقتدار کی نئی حقیقتوں کو نظر انداز کرنے کا حوالہ دیتے ہوئے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن کو مزید ایک سال کے لیے توسیع کرنے کے حوالے سے اقوام متحدہ سلامتی کونسل میں جمعرات کے روز ووٹنگ ہوئی۔15رکنی سلامتی کونسل کے 14اراکین نے امدادی مشن میں توسیع کے حق میں ووٹ دیئے ،لیکن روس نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔سلامتی کونسل کے اس فیصلے کے بعد اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ برائے افغانستان ڈیبورہ لائنس مشن کا کام کاج دیکھتی رہیں گی۔اقوام متحدہ میں ناروے کی سفیر مونا جول نے کہا کہ ناروے کی جانب سے تیار کردہ قرارداد اقوام متحدہ کے مشن کواپنے مینڈیٹ کے تمام پہلوؤں پر متعلقہ فریقین کے ساتھ سرگرم رہنے کا ایک ٹھوس مینڈیٹ فراہم کرتی ہے۔اِنہوں نے تاہم کہا کہ اس قرارداد کا مطلب کسی بھی طرح سے یہ نہیں ہے کہ اقوام متحدہ نے طالبان حکومت کو تسلیم کرلیا ہے۔اقوام متحدہ میں امریکہ کے نائب سربراہ جیفری ڈی لارینٹس کا کہنا تھا کہ قرارداد پر ووٹنگ افغان عوام کی مدد کی سمت ایک اہم قدم ہے۔ جنہیں کئی اہم چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔روس نے قرار داد کو افغانستان میں طالبان کے اقتدار پر قبضے کے بعد نئی حقیقتوں سے لاعلم قرار دیتے ہوئے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ گزشتہ برس اگست میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے افغانستان میں طالبان کی حکومت کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم نہیں کیا گیا ہے۔روس کے اقوام متحدہ میں سفیر نے سلامتی کونسل کو بتایاکہ ہم نہیں چاہیں گے کہ اقوام متحدہ کا افغانستان میں امداد ی مشن اقوام متحدہ کا مشن امپاسبل بن جائے، اصل حکمرانوں کی حمایت مشن کو موثر طریقے سے اپنے مینڈیٹ کو پورا کرنے اور اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کی اجازت دے گی۔روس کی جانب سے ووٹنگ سے گریز ایسے وقت سامنے آیا ہے جب گزشتہ ماہ یوکرین پر حملے کے بعد ماسکو عالمی سطح پر تنہائی کا شکار ہے۔اقوام متحدہ اور دیگر امدادی ایجنسیوں کا کہنا ہے کہ افغانستان کی 38 ملین آبادی میں سے نصف بھوک کا شکار ہے۔ یہ ملک سن1979سے مسلسل جنگ سے دوچار ہے۔گزشتہ برس افغانستان پر طالبان نے قبضے کے بعد سے بین الاقوامی امداد کا سلسلہ رک گیا تھا کیونکہ بیرونی ملکوں میں اس کے غیر ملکی کرنسی کے ذخائر منجمد کردیے گئے تھے۔امریکہ اور اقوام متحدہ نے طالبان کے متعدد رہنماوں پر پابندیاں عائد کردی تھیں۔بین الاقوامی برادری نے طالبان حکومت کو اب تک تسلیم نہیں کیا ہے۔ لیکن دوسری طرف بین الاقوامی ترقیاتی امداد بند ہونے اور افغان مرکزی بینک کے اثاثے منجمد کیے جانے کے بعد ملک میں انسانی بحران مزید بڑھ گیا اور معیشت تباہی کا شکار ہے۔