Home تجزیہ ام المدارس دارالعلوم دیوبند اور موجودہ حالات کے تقاضے-مسعود جاوید

ام المدارس دارالعلوم دیوبند اور موجودہ حالات کے تقاضے-مسعود جاوید

by قندیل

دارالعلوم دیوبند کا قیام اور غرض وغایت1857کے انقلاب کی ناکامی مغلیہ سلطنت کے خاتمے کا اعلان تھا۔ مسلمانوں کا قتل عام ہوا اور علما کی ایک بڑی جماعت، جس نے انگریزی اقتدار کی مخالفت کی تھی بے، دردی کے ساتھ تہ تیغ کر دی گئی۔ بہت سوں کو درختوں پر لٹکا کر پھانسی دی گئی اور جو بچ گئے انہیں جزیرۂ انڈمان بھیج دیا گیا۔انگریزی حکومت نے ایک طرف اوقاف ،جن کی آمدنی سے دینی درسگاہیں چلتی تھیں، ضبط کر لیں تو دوسری طرف عیسائیت کی تبلیغ شروع کر دی گئی اور اس طرح ہندوستان میں اسلام اور اسلامی شریعت کی بقاایک چیلنج بن کر سامنے آئی۔ اس پر آشوب دور میں 30 مئی1866 کو مولانا محمد قاسم نانوتوی اور ان کے رفقاء رحمہمُ اللہ نے کتاب وسنت کے نشر و اشاعت کے لئے دیوبند میں ” مدرسہ اسلامی عربی” کے نام سے بے سروسامانی کے عالم میں ایک مدرسے کی داغ بیل ڈالی۔ غرض و غایت جیسا کہ اس کے بانی نے لکھا کہ چونکہ سرکاری مدرسوں (اسکولوں) میں دینی تعلیم کا نظم نہیں ہے، اس لئے اس کمی کو پورا کرنے کے لئے مدرسے کا قیام عمل میں آیا ہے۔ رہا سوال عصری علوم کو نصاب میں شامل نہیں کرنے کا تو جو کمی ہے وہ ہم یہاں پورا کریں، اس کے بعد طلبۂ مدرسہ ہذا کو سرکاری مدارس (اسکولوں) میں جاکر علوم جدیدہ (عصری تعلیم) میں کمال پیدا کرنے کی سعی جاری رکھنی چاہئے۔ بانی نے آج سے154 سال قبل اس وقت کے حالات کے مد نظر جو نصاب مقرر کیا تھا، اس میں بھی اس کی گنجائش رکھی تھی کہ عصری علوم حرام نہیں ہیں اور جہاں سے میسر ہو حاصل کرنا چاہیے؛ لیکن کیا اربابِ دارالعلوم ومدارس نے اپنے بانی کے نظریات اور افکار کوبدلتے ہوئے حالات کے تقاضوں کے مطابق زمین پر اتارنے کی کوشش کی؟ آج اس ام المدارس دارالعلوم دیوبند کی ‘شاخیں بالواسطہ یا بلاواسطہ ہزاروں کی تعداد میں پورے ملک میں پھیلی ہوئی ہیں۔ کیا ان مدارس میں بنیادی عصری تعلیم شاملِ نصاب ہے؟کیا یہ مدارس ایک پڑھا لکھا اچھا انسان اور ذمے دار شہری بنانے میں معاون ہیں؟ کیا صرف قرآن، ترجمہ و تفسیر ، صحاح ستہ اور فقہ پڑھانا کافی ہے ؟ کیا ان طلبا کو ملک کے دستور میں ان کے کن حقوق کی ضمانت دی گئی ہے اور ملک اور ملک میں رہنے والوں کے تئیں ان پر کیا ذمے داریاں عائد کی گئی ہیں، یہ جاننا ضروری نہیں ہے؟ ملک میں سماجی اور سیاسی حالات کو جاننے اور سمجھنے کی اجازت انہیں کیوں نہیں ہے؟ بحیثیت فرد ملک میں نمودار ہونے والے مثبت یا منفی حالات پر ردعمل کاانہیں حق نہیں ہے؟ ان حقوق سے محروم رکھ کر کیا ارباب مدارس اپنی چودھراہٹ جماتے ہیں یا ان کے جذبۂ فرمانبرداری کا استحصال کرتے ہیں ؟ پچھلے کئی سالوں سے ارباب مدارس کی سوچ میں ایک مثبت تبدیلی آئی ہے یاشاید کسی دباؤ کا نتیجہ ہے کہ26جنوری کو یوم جمہوریہ اور15 اگست کو یوم آزادی کی تقریب منعقد کی جاتی ہے۔ ان موقعوں پر اپنے اسلاف کی تاریخ چند جملوں میں بیان کر کے فرض کفایہ ادا کر دیتے ہیں؛ لیکن یوم جمہوریہ کی غرض و غایت اور مرکز اور ریاستوں کے مابین فیڈرل نظام پر کوئی سیر حاصل تقریر ہوتی ہے اور نہ ہی طلبہ کویہ پڑھایا جاتا ہے۔ آج جب مسلمانوں کی شہریت پر آنچ آئی ہے، تو مسلمانان ہند اور بالخصوص اہل مدارس کس تاریخ اور وثائق کی بنیاد پر قوت سے دفاع کریں گے؟ شیخ الہند ، شیخ الاسلام اور عبیداللہ سندھی اسی دارالعلوم کے جیالے تھے ،تو بعد میں اس عظیم ادارے کے سوتے کیسے سوکھ گئے ؟ ان جیسے فرزند نہیں نکل رہے ہیں؛ لیکن یہ تعلیم گاہیں ایسی تعلیم وتربیت اور ماحول تو دیں، جس طلبا ان اکابر جیسے جذبے سے سرشار ہوں۔ ایسا تو نہیں کہ ان اداروں میں ‘ دستور زباں بندی کسی خاص وجہ سے ہے؟ اور تاویل ظاہر ہے یہی ہوگی کہ آپ کا کام اپنی تعلیم پر توجہ دینا ہے ،نہ کہ سیاسی مظاہروں میں شریک ہونا!

You may also like

Leave a Comment