خواجہ الطاف حسین حالی نے جب یہ نظم لکھی تھی تو ان کے پیش نگاہ ہندوستان میں اسلام کی مسخ شدہ شکل تھی۔ ایک ایسی شکل جو شرک و بدعات و خرافات اور مسلمانوں کے آپسی انتشار کے سبب انتہائی کریہہ ہو چکی تھی۔ یعنی نام تو اسلام کا لیا جا رہا تھا لیکن درحقیقت غیر اسلامی رسوم و رواج نے مسلم معاشرے میں جڑ پکڑ لیا تھا۔ اسی لیے انھوں نے کہا تھا کہ جو دین شان و شوکت کے ساتھ جزیرة العرب سے نکلا تھا وہ آج ہندوستان میں آکر غریب الوطنی کا شکار ہو گیا ہے اور اس کی محفلیں سونی ہو گئی ہیں:
وہ دین ہوئی بزمِ جہاں جس سے چراغاں
اب اس کی مجالس میں نہ بتی نہ دیا ہے
جو دین کہ تھا شرک سے عالم کا نگہباں
اب اس کا نگہبان اگر ہے تو خدا ہے
اس کے بعد انھوں نے مسلمانوں کی آپسی لڑائی، گروہ بندی اور باہمی خون خرابے میں ملوث مسلمانوں کی حالت پر اظہار تاسف کرتے ہوئے کہا تھا کہ جو دین دنیا بھر کے تفرقوں کو مٹانے آیا تھا اب وہ خود ہی فرقہ بندیوں میں مبتلا ہے اور اسے خانوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ پھر وہ مسلمانوں کے انتشار و افتراق کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:
جس دین نے غیروں کے دل تھے آکے ملائے
اس دین میں اب بھائی خو دبھائی سے جدا ہے
اور آخر میں یہ کہہ کر انھوں نے اپنی فریاد کی لے روکی تھی کہ:
ہاں حالی گستاخ نہ بڑھ حدِ ادب سے
باتوں سے ٹپکتا تری اب صاف گلہ ہے
ہے یہ بھی خبر تجھ کو کہ ہے کون مخاطب
یاں جنبشِ لب خارج از آہنگِ خطا ہے
آخر میں وہ اپنی بات یوں پردرد انداز میں ختم کرتے ہیں:
اے خاصہ خاصانِ رسل وقتِ دعا ہے
امت پہ تری آکے عجب وقت پڑا ہے
لیکن آج اگر حالی ہوتے اور مسلمانوں کی موجودہ حالت کا مشاہدہ کرتے تو کوئی اور نظم، کوئی اور مسدس لکھتے، کسی اور انداز سے گلہ کرتے، کسی اور زاویے سے فریاد کرتے۔ انھوں نے اپنی مذکورہ نظم میں اسلام اور مسلمانوں کے اندر در آئی جن خرابیوں کی نشاندہی کی ہے وہ دور نہیں ہوئیں بلکہ وہ اور سنگین ہو گئی ہیں اور مزید خرابیاں پیدا ہو گئی ہیں۔ باطنی تو باطنی مسلمانوں کی اکثریت ظاہری طور پر بھی مسلمان نہیں لگتی۔ دین کے تعلق سے ان میں ایسی بے حسی پیدا ہوئی ہے کہ شاید تاریخ نے ایسی بے حسی کبھی نہیں دیکھی ہوگی۔ لیکن بہرحال مسلمانوں کی بے حسی تو اپنی جگہ پر، اب ایک نئی اور پریشان کن صورت حال نے ان کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔ آج مسلمانوں کا دینی تشخص جو تھوڑا بہت بچا ہوا ہے، داو ¿ پر لگ گیا ہے۔ مزید برآں ان کے جان و مال کی حفاظت کا معاملہ بھی آن پڑا ہے۔ وہ کون سے مظالم ہیں جو ان پر توڑے نہیں جا رہے۔ پہلے فرقہ وارانہ فسادات میں ان کو جان و مال کا نقصان برداشت کرنا پڑتا تھا لیکن آج ستم رانی کے نئے طریقے ایجاد کر لیے گئے ہیں۔ اترپردیش سے نکلنے والے بلڈوزر نما راکشس کے نشانے پر سب سے زیادہ مسلمان ہی ہیں۔ آج ان کے مکانوں ، دکانوں اور عبادت گاہوں کو کب اور کہاں غیر قانونی کہہ کر ڈھا دیا جائے کہا نہیں جا سکتا۔ ملک کی عدالت عظمیٰ کی جانب سے اس ظلم و زیادتی پر پابندی لگانے کا کوئی اثر حکومت و انتظامیہ پر دکھائی نہیں دے رہا۔ ان کو توہین عدالت کے جرم کے ارتکاب سے بھی پرہیز نہیں ہے۔ اور کیوں ہو جب خود عدالت عظمیٰ خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ اس کے حکم کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں اور وہ چپ ہے۔ سابق چیف جسٹس نے انصاف کی دیوی کی آنکھوں کی پٹی تو ہٹا دی تھی لیکن ایسا لگتا ہے کہ یا تو اب وہ پٹی پھر سے بندھ گئی ہے یا پھر اس دیوی کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اس کی آنکھوں کے سامنے ہی قانون و انصاف کو ملیا میٹ کیا جائے۔ سماجی و مذہبی ہم آہنگی کے مخالفین دندناتے پھر رہے ہیں۔ فرقہ واریت کا جنون برادرانِ وطن کے ایک طبقے پر سوار ہے۔ وہ جہاں چاہتے ہیں کسی مسلمان کو بے بنیاد الزام کے تحت پکڑ کر زدوکوب کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ وہ واقعہ پرانا نہیں ہوا جب ایک وردی پوش نے ٹرین کے اندر مسلمانوں کو گولی ماری تھی۔ وہ واقعہ بھی لوگوں کو یاد ہوگا جب ٹرین سے ممبئی جاتے ہوئے ایک صاحبِ ریش بزرگ کو بری طرح مارا پیٹا گیا تھا۔ اب ایک بار پھر یہ سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ رمضان کے مہینے میں مدارس کے بے شمار سفرا عطیات و خیرات کے لیے ملک کے گوشے گوشے کا دورہ کرتے ہیں۔ ایسے ہی دو سفرا کو ٹرین کے اندر خواتین کو چھیڑنے کے الزام میں مارا پیٹا گیا۔ پہلے گجرات میں ایسا واقعہ پیش آیا اور پھر مغربی بنگال میں۔ گویا اب مسلمان سفر حضر کہیں بھی محفوظ نہیں ہیں۔ مختلف بہانوں سے ان کو نشانہ بنانے کا سلسلہ جاری ہے۔ صورت حال سنگین سے سنگین تر ہوتی جا رہی ہے۔ انتظامیہ کے اہلکاروں اور ذمہ داروں کے ’متعصب ہندو‘ بن جانے کی شہادتیں روز بہ روز مل رہی ہیں۔ سنبھل کا وہ پولیس افسر جو وردی میں ملبوس ہوتے ہوئے گدا لے کر گشت کر رہا تھا اب مسلمانوں سے کہہ رہا ہے کہ وہ ہولی کے دن گھر سے باہر نہ نکلیں۔ اس نے یہ کہہ کر اپنی فرقہ وارانہ ذہنیت کا ایک بار پھر کھل کر مظاہرہ کیا ہے کہ جمعہ سال میں 52 بار آتا ہے اور ہولی ایک بار آتی ہے۔ اگر مسلمانوں کو رنگ سے پرہیز ہے تو گھروں میں قید رہیں اور جسم کے جس عضو پر رنگ پڑ جائے اسے کٹوا دیں۔ کیا یہ کسی پولیس افسر کی زبان ہو سکتی ہے۔ طرفہ تماشہ یہ ہے کہ محکمہ پولیس کے ضابطہ اخلاق کی دھجیاں اڑانے کے باوجود اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی بلکہ یوپی کے وزیر اعلیٰ نے تو اس کی حمایت کی ہے۔
ایک طرف یہ سب کچھ ہو رہا ہے اور دوسری طرف ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے قائدین چادر تانے سو رہے ہیں۔ ان کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ کہاں مساجد کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، کہاں مدارس اور مذہبی مقامات کو۔ کہاں مسلمانوں کے مکانوں و دکانوں کو منہدم کیا جا رہا ہے اور کہاں ان کے عزت و ناموس اور جان ومال پر حملہ ہو رہا ہے۔ ایسی خاموشی چھائی ہوئی ہے کہ کہیں سے نہ تو کوئی صدا اٹھ رہی اور نہ ہی اس کے تدارک کے لیے کوئی کوشش ہو رہی ہے۔ سیاسی شخصیات مست ہیں اور مذہبی قائدین قیلولہ فرما رہے ہیں۔ مسلمانوں کے جان و مال اور عزت و آبرو کے تحفظ کے لیے کوئی سعی نہیں کی جا رہی۔ ہاںبیانات ضرور دیے جا رہے ہیں۔ اس وقت جو صورت حال ہے اس کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ وہ آزادی کے بعد پیدا ہونے والی سنگین ترین صورت حال ہے۔ ملی درد رکھنے والے بعض ذمہ داروں کی جانب سے اس کرب کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ آج مسلمانوں کے اندر خوف و ہراس کا جو عالم ہے وہ چنگیز و ہلاکو کے دورمیں بھی نہیں رہا ہوگا۔ دوسری طرف ذمہ دار حضرات اپنے اپنے حال میں مست ہیں۔ دانش گاہوں کے پروفیسران میر و غالب کے اشعار کی تشریح میں مگن ہیں تو شعرا محبوب کی زلفِ دراز کی پیمائش میں محو ہیں اور نام نہاد دانشوران نئی نئی موشگافیوں میں مصروف ہیں۔ بہرحال اب ایک خوش آئند بات یہ سامنے آئی ہے وقف املاک کے تحفظ کی خاطر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے زیر اہتمام دہلی کے جنتر منتر پر ایک بڑے احتجاج کا اعلان کیا گیا ہے۔ ملت کے ہر دردمند فرد کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس میں شریک ہو اور اسے کامیاب بنانے میں ہر ممکن تعاون دے۔اس کے ساتھ ہی سنجیدہ اور سلجھے ہوئے برادران وطن کو بھی سامنے آنے کی ضرورت ہے۔ لیکن بہرحال ملت کے سامنے صرف یہی ایک مسئلہ نہیں ہے بلکہ دیگر بہت سے مسائل ہیں جن کے سلسلے میں عملی اقدامات کی ضرورت ہے اور یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ ہم کوئی مردہ قوم نہیں ہیں، ہم اپنے حقوق کے تحفظ کی خاطر ہر جائز اور قانونی اقدام کرنے کے لیے تیار ہیں۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)