Home نقدوتبصرہ عمیر ثاقب:ایک شاعر جسے بھلا دیا گیا-سمیّہ محمدی

عمیر ثاقب:ایک شاعر جسے بھلا دیا گیا-سمیّہ محمدی

by قندیل

عمیر ثاقب کا تعلق شاہ پور بگھونی (فاضل پور) سمستی پور سے تھا۔پیشے سے سرکاری محکمے میں رجسٹرار تھے اور پورے علاقے میں اسی نام سے جانے جاتے تھے۔جہاں تک ادبی سرگرمی کا تعلق ہے تو انہوں نے شاعری کی تمام اصناف کو اپنے جذبات و احساسات کی ترجمانی کے وسیلے کے طور پر استعمال کیا۔انہوں نے نثری اصناف میں بھی زور آزمائی کی اور ان کے کئی افسانے شائع ہوکر مقبول ہوئے۔ جس زمانے میں عمیر ثاقب شاعری کررہے تھے وہ کئی اعتبار سے پریشانیوں سے بھرا تھا، ان کے عہد کو پر آشوب دور سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔انگریزوں کی حکومت اور ناسازگار حالات سے ہر کوئی ہراساں و پریشاں تھا، ادیب بھی اس سے متاثر تھے۔اس زمانے میں تخلیقات کا کسی رسالے میں شائع کرانا آج کی طرح آسان نہ تھا اور اس شخص کے لیے تو ہرگز نہیں جو شہر سے کئی میل دور زندگی بسر کرتا تھا۔پھر نوکری اور دوسری ذمہ داریوں کی وجہ سے عمیر ثاقب کی بیشتر تخلیقات شائع نہیں ہوسکیں۔یہ اس شاعر کی زندگی کا المیہ ہی ہے کہ اپنے زمانے کا ایک اہم شاعر جس کی نظم’’ خانہ بدوش‘‘ بہار یونیورسٹی کے ’آئی اے‘ کے نصاب میں شامل تھی ، اسے ان کے ہم وطنوں نے بھی فراموش کردیا۔ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ان کو نظر انداز کیا گیا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ان کی تخلیقات منظر عام پرآئی بھی نہیں ،لہذا آہستہ آہستہ وہ گمنامی کی دھند میں گم ہوتے چلے گئے۔خدا بھلا کرے اصغرعلی صاحب کا جنہوں نے اس جانب توجہ دی اور متھلا یونیورسٹی کے صدر شعبۂ اردو پروفیسر انیس صدری صاحب کی نگرانی میں عمیر ثاقب کی ادبی خدمات پر اپنا تحقیقی مقالہ تحریر کیا۔
بہر کیف ابھی یہ موقع نہیں کہ ان کی پی ایچ ڈی کے مقالے یا عمیر ثاقب کی زندگی کے مختلف گوشوں پر گفتگو کی جائے۔ میرے پیش نظر ان کی مشہور نظم ’’ کھنڈر‘‘ ہے۔
عمیر ثاقب نے کئی یادگار نظمیں کہیں ۔جن میں ’’برسات کی ایک رات‘‘، خانہ بدوش‘‘، ’’اقبال‘‘، ’’سراب‘‘، خرافات‘‘ اور ’’رقاصہ‘‘کافی اہمیت کی حامل ہیں ہیں۔جہاں تک نظم ’’کھنڈر‘‘ کا تعلق ہے تو یہ ماہنامہ’’ صبح زندگی‘‘دربھنگہ کےمئی۱۹۵۰ کے شمارے میں شائع ہوئی۔نظم کی ابتدا ان مصرعوں سے ہوتی ہے:
اے کھنڈر تو راز دارِ عظمتِ دیرینہ ہے
تُو کتابِ دہر کا اک قصۂ پارینہ ہے
حال تو اس قصبۂ مدفوں کا مجھ کو کچھ سنا
گردشِ ایاّم نے کیسے کیا اس کو فنا؟
کھنڈر اس عمارت کو کہتے ہیں جس میں انسان تو نہیں رہتے ہاں اس سے وہاں کی تہذیب و تمدن کے نشانات ضرور نظر آجاتے ہیں۔عمیر ثاقب نے کھنڈر کو بطور استعارہ پیش کیا ہے۔یہ نظم ۱۹۵۰ میں شائع ہوئی تھی لہذا اس نظم کو ایک خاص تناظر میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ہندوستان کی آزادی کے فوراً بعد جو تقسیم کا سانحہ پیش آیا،اس نے صرف ایک زمین ایک ملک کے دو ٹکڑے نہیں کئے بلکہ سچ پوچھئے تو پوری تہذیب و تمدن کو اس واقعہ نے جس قدر نقصان پہنچایا اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔انسان بٹ گئے، تہذیبیں جدا ہوگئیں۔لوگ اپنی تہذیب و ثقافت چھوڑ کر دوسری جگہ آباد ہوگئے، مکان ویران ہوگئے کیونکہ ان کے مکین نہیں رہے۔ہر طرف تباہی و بربادی کا منظر،ویرانی اور خوفناکی کا عالم ۔نظم کا مطالعہ اس تناظر میں کیا جانا چاہیے۔
نظم ’’ کھنڈر ‘‘میں متکلم نے مکالمہ کا اسلوب اختیار کیا ہے۔متکلم کھنڈر سے سوال کرتا ہے کہ اے کھنڈر تو ماضی کی عظمت و بلندی کا راز دار ہے،متکلم کہتا ہے سچ کہوں تو تو ماضی کی تاریخ کا آئینہ دار ہے۔ اے کھنڈر تو اس گاؤں کی مٹتی نشانی کی وجہ بتا کہ آخر وقت کے جبر نےاسے کیسے تباہ و برباد کردیا۔ متکلم کے اس سوال سے کھنڈر کا ضبط جواب دیتا ہے اور وہ نہایت بے رخی سے کہتا ہے:
ہے نمک پاشِ جراحت تیرا اے شاعر سوال
کیا سناؤں ہے بہت غم نا ک اس بستی کا حال
ظاہر ہے متکلم کے اس سوال نے کھنڈر کے ماضی کی ان یادوں کو تازہ کردیا جس پر کسی زمانے میں اسے فخر تھا۔ وہ اپنے ماضی کے خوشحال دور کو یاد کرتے ہوئے کہتا ہے:
ایک دن وہ تھا کہ اس کا تھا ستارہ اوج پر
شوکت و حشمت کا اس کی مدح خواں تھا بحر و بر
دیدنی تھی اس کے عالیشان محلوں کی قطار
روکشِ باغ عدن تھی اس کے گلشن کی بہار
کیف سے لبریز جب ساؔون کی چلتی تھی ہوا
اور دیتی دعو تِ عیش طرب کالی گھٹا
محفلِ ارباب ذوق و دل ہوا کرتی تھی گرم
عیش و عشرت میں عدیم المثل ہوتی تھی وہ بزم
رقص، نغمہ ، حُسن اور رنگینی ٔ شعر و سخن
انہی اجزا سے بنا کرتی تھی ان کی انجمن
پیکرِ ایثار تھے، آپس میں تھے شِیر و شکر
صنعت و حرفت میں ماہر صاحبِ علم و ہنر
تھا جہاں میں شہرہ ا ن کی عظمتِ کردار کا
جَم چکا تھا سِکّہ ان کی تیغ جوہردار کا
کھنڈر اپنے ماضی کو یاد کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ایک وہ بھی دن تھا جب یہاں ہر طرف خوشحالی، ترقی اور سکون کا ماحول تھا، سچ پوچھیں تو اس گاؤں کا ستارہ اپنے عروج پر تھا۔ چاروں طرف ہریالی، خوبصورت اور دلکش عمارتوں کی قطار قابل دید تھی۔ بہار کی آمدکا سماں تھا ایسامحسوس ہوتا تھا گویا جنت کے باغ کی دلکش تصویر ہو۔کھنڈر مزید کہتا ہے کہ ساون کی گھٹا اپنے ساتھ کیف و مستی کا ماحول بناتی ، ہر طرف عیش و عشرت کی اشیا موجود ہوا کرتی تھیں، اور ایسے خوشگوار ماحول میں ارباب ذوق محفلیں سجاتے تھے، کیونکہ یہ بزم کے انعقاد کا صحیح موقع ہوا کرتا تھا،کوئی رقص کررہا ہے کوئی شعر و سخن میں مشغول ہے کوئی گیت گنگنا رہا ہے، گویا ہر دل خوشی اور مسرت میں جھومتا رہتا تھا۔ کھنڈر مزید کہتا ہے کہ یہاں کے لوگ صنعت و حرفت میں ماہر تھے اور آپس میں امن و سکون اور اتحاد سے رہا کرتے تھے۔کھنڈر کہتا ہے کہ یہاں کی تہذیب و تمدن ،رہن سہن ، صنعت و حرفت محبت ، خلوص اور اتحاد کی وجہ سے پوری دنیا میں یہاں کی عظمت کا سکہ اپنی چمک بکھیر رہا تھا۔مگر آہستہ آہستہ یہ تہذیب مٹتی چلی گئی اورجہاں کبھی محفلیں سجا کرتی تھیں وہاں ویرانی نے اپنا ڈیرا ڈال لیا:
پر نہ بھایا آسماں کو ان کا اقبال و حَشم
ایک گردش میں مہیاّ کر دیے سامانِ غم
پھر تو بدلا حال، بدلی چال اور بدلا نصیب
ہو گئی کافور مِلّت، بن گئے باہم رقیب
افترا پردازیوں میں اک سے اک بڑھنے لگا
ان کے ظلم و جَور سے ابلیس ؔ تھرّانے لگا
شاعر اور کھنڈر کے درمیان گفتگو بڑھتی ہے اور کھنڈر اپنے زوال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ میری اس رونق اور خوشحالی کو شاید کسی کی نظر لگ گئی اور ایک ہی بار میں ساری خوشیاں ختم ہوگئیں اور اس شاندار روایت ، اتحاد، امن و سکون اور متحد تو ختم ہوا ہی، لوگ آپس میں ایک دوسرے سے نہ صرف نفرت کرنے لگے بلکہ افترا بازی یعنی ایک دوسرے پر بہتان لگانے سے بھی خود کو باز نہ رکھ سکے۔ ایک دوسرے سے نفرت اور دشمنی اور بہتان تراشی کا ایسا دور چلا جسے ابلیس بھی دیکھ کے گھبرا جائیں۔ عمیر ثاقب کا اشارہ تقسیم کی جانب ہے کہ انگریزوں کی پالیسی’’ تقسیم کرو اور حکومت کرو ‘‘کامیاب ہوگئی اور اب تک جو لوگ بغیرمذہبی تفریق کے ایک ساتھ رہ رہے تھے وہ ایک دوسرے کے دشمن بن گئے:
تھا فساد اور جھوٹ کا یاں اس طرح بازار گرم
کیفیت اس کی بیاں کرتے ہوئے آتی ہے شرم
الاماں ان کی شرارت کا بیاں ممکن نہیں
فسق و عصیاں کی کہانی کا بیا ں ممکن نہیں
آسماں گھبر ا اٹھا تھا ان کی حالت دیکھ کر
مادرِ گیتی بھی روئی ان کی ذلّت دیکھ کر
متکلم تقسیم اور اس سے پیدا ہوئی صورت حال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ہر طرف فساد، خوں ریزی اورجھوٹ کا بازار گرم تھا ، متکلم اس دردناک اور نفرت کے داستان بتانے میں بھی گریز کرتا ہے ظاہر ہے اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آخر کیسا خطرناک ماحول بن گیا ہوگا۔متکلم کہتا ہے کہ میں لوگوں کی شرمناک حرکتوں کوکیا بیان کروں، بس اللہ کی پناہ یوں سمجھ لیجئے کہ سب فسق و فجور میں یوں ملوث ہوگئے کہ آسمان بھی ان کی اس حرکت سے گھبرا سا گیا ،بلکہ پوری کائنات یہاں کے عوام کی حرکت سے ششدر تھی اور شرمندگی محسوس کررہی تھی۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ تقسیم ہند ایک ایسا حادثہ ہے جو انسانی اذہان میں نفرت اور خوں ریزی کے لیے یاد رکھا جائے گا۔مذہب کے نام پر اس سے بڑا کوئی حادثہ شاید ہی پیش آیا ہو:
ان کی خونریزی کی کوئی مل نہیں سکتی مثال
ہے سبق آموز، قوموں کے لئے ان کا زوال
جب گنا ہ و ظلم کا لبریز پیمانہ ہوا
ختم اس بستی کا عبرت ناک افسانہ ہوا
فیضِ حق جنبش میں آیا، ہل گئے کون و مکاں
زلزلہ نے کر دیا اک پل میں اس کو بے نشاں
متکلم کہتا ہے کہ جہاں کے اتحاد اور امن و امان کی پوری دنیا میں کوئی مثال نہیں ملتی تھی، یہ ایک ایسا واقعہ تھا جس سے ایک قوم کا زوال ضرور ہے مگر اس سے دوسری قوموں کو سبق لینے کی ضرورت ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ جس قوم میں ظلم و جبر اور گناہ بڑھ جاتے ہیں تو وہاں عذاب بھی آتا ہے، یہی اس قوم کے ساتھ بھی ہوا ۔ کہتے ہیں مظلوم کی آواز آسمان کا جگر چیر دیتی ہے، متکلم اس جانب اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ظلم ہی دراصل اس علاقے کی تباہی اور بربادی کی وجہ بن گئی ۔متکلم اس جانب اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ایسا طوفان آیا جس نے پل بھر میں پوری بستی کو تباہ کردیا۔ایسی بربادی آئی کہ اس کا نوحہ کرنے والا بھی کوئی نہیں بچ سکا۔متکلم اسی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے:
الاماں میں کیا بتاؤں ہلنے کی بس دیر تھی
دم کے دم میں ساری بستی خاک کا اک ڈ ھیر تھی
شیون و فریاد کا پھر غلغلہ پیدا ہوا
غلغلہ سے آسماں میں زلزلہ پیدا ہوا
مٹ گئے ایسے کہ دنیا میں نشاں باقی نہیں
ان کی بربادی پہ کوئی نوحہ خواں باقی نہیں
عمیر ثاقب کی مذکورہ نظم ہمیں ن۔ م راشد کی یاد دلاتی ہے۔ ن۔م راشد نے ’’سبا ویراں ‘‘ جیسی شاہکار نظم کہی جس نے ملکۂ بلقیس کی سلطنت کے عروج و زوال کو بیان کیا ہے۔عمیر ثاقب کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے اس میں مقامیت کے رنگ کو شامل کردیا ہے۔راشد کی طرح عمیر ثاقب کی اس نظم کی قرأت کسی خاص تناظر کو پیش نظر رکھتے ہوئے ممکن نہیں۔یہ نظم ایسے لوگوں اور حکومتوں کے لیے ایک علامت ہے جو کسی خاص عہد میں تمام تر رعنائیوں کے باوجود ایک ایسے مقام پر آجاتے ہیں جسے عبرت کا مقام کہنا چاہیے۔اس وقت یہ تہذیب ایک کھنڈر میں تبدیل ہوجاتی ہے۔صرف تاریخ اور تہذیب کی نشانی باقی رہ جاتی ہے۔
عمیر ثاقب کی دوسری مشہور نظم ’’خانہ بدوش‘‘ ہے ۔ اس نظم کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ یہ نظم بہت دنوں تک بہار یونیورسٹی کے آئی اے کے نصاب(کتاب’’ نظم جدید‘‘ حصہ سوم: مولفہ عبد المنان بیدلؔ، ریٹائرڈ پروفیسر، پٹنہ یونیورسٹی ۱۹۵۴ ) میں شامل رہی۔
نظم ’’ خانہ بدوش‘‘کی اشاعت مذکورہ بالا کتاب میں ۱۹۵۴ میں ہوئی مگر عمیر ثاقب نے اس نظم کی تخلیق کا سال ۱۹۵۲ لکھا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس نظم کی تخلیق ۱۹۵۲ میں ہوئی ہوگی۔نظم کا آغاز یوں ہوتا ہے:
کس متانت سے چلا جاتا تو دنیا بدوش
رشک کرتا ہوں تیری قسمت پہ اے خانہ بدوش
تیرا کاشانہ نہیں منت پذیر خشت و سنگ
محفل عشرت ہے تیری بے نیاز ساز و چنگ
خیمہ زن ہوتا ہے تو ، دنیا کے ہنگامے سے دور
تجھ کو حاصل ہے حضور حسن فطرت کا سرور
خانہ بدوش کی زندگی کی حقیقت سے ہر کوئی واقف ہے،ان کی زندگی میں کسی قسم کی رعنائی اور رنگینی نظر نہیں آتی باوجود اس کے متکلم حسرت بھری نظروں سے نہ صرف خانہ بدوش کی زندگی کو دیکھ رہا ہے بلکہ وہ اس کی قسمت پرنازاں بھی ہے۔ نظم کی ابتدا ہی اس مصرعے سے ہوتی ہے کہ ’’کس متانت سے چلا جاتا تو دنیا بدوش‘‘ ۔ ظاہر ہے اسی مصرعے سے متکلم کے اندر کے اضطراب اور بے چینی کو دیکھا جاسکتا ہے۔ متکلم کہتا ہے کہ اے خانہ بدوش میں تیری زندگی اور طرز زندگی پر رشک کرتا ہوں کیوں کہ تیری زندگی زمان و مکاں کے محدود دائرے میں نہیں آتی،متکلم خانہ بدوش کی زندگی کو قابل رشک سمجھتے ہوئے یہ کہتا ہے کہ تیری’’ چنگ ‘‘ کی میٹھی آواز پورے ماحول پر ایک سحر طاری کردیتی ہے۔متکلم خانہ بدوش کی طرزز ندگی پر رشک کرتے ہوئے یہ کہتا ہے کہ تو خوش قسمت ہے اس لیے کہ تو جہاں چاہتا ہے اپنا خیمہ ڈال دیتا ہے۔خانہ بدوش کی خوبی یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ اپنا عارضی ٹھکانہ آبادی سے دور بناتے ہیں، متکلم کا خیال ہے کہ خانہ بدوش کی یہ دانستہ کوشش ہے وہ جان بوجھ کر اپنا ٹھکانہ آبادی سے دور بناتا ہے تاکہ وہ قدرتی وسائل کا صحیح استعمال کرسکے اور ساتھ ہی فطرت کے حسن سے لطف اندوز بھی ہوسکے:
ایک تو ہے جس کی جولا نگاہ سارا بحر و بر
ایک میں ناشاد، پابند و اسیر مستقر
حرکت پیہم میں مضمر ہے ترا راز حیات
سرنگوں ہے سامنے تیرے جہان بے ثبات
ہے روش تیری سبق آموز دانا کے لیے
دعوت نظارہ ہے تو چشم بینا کے لیے

ظاہر ہے خانہ بدوش کا کوئی مستقل ٹھکانہ نہیں ہوتا، اسے عارضی مکانوں میں زندگی بسر کرنے کی گویا عادت سی ہوتی ہے، رہائش کی تبدیلی میںجن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس سے آج کرایے کے مکان میں رہنے والا ہر کوئی واقف ہے ،متکلم خود بھی اس تکلیف دہ عمل سے واقف ہے باوجود اس کے خانہ بدوش کی زندگی کی یہ حرکت اسے پسند بھی آتی ہے لہذا وہ اس عمل پیہم کو زندگی کا راز بتاتے ہوئے کہتا ہے کہ تیری رہ گزر بحر و بر یعنی زمین کے ہر مقام پر ہوتی ہے اور ایک میری زندگی ہے جو پابند ہے اور یہ پابندی ظاہر ہر متکلم کو قید سے کم نہیں لگتی۔متکلم اس حقیقت سے واقف ہے کہ زندگی کی حقیقت اور قدرت کے خزانے کا علم ایک مقام پر قید ہوکر رہ جانے سے حاصل نہیں ہوسکتا، متکلم واضح طور پر کہتا ہے کہ اے خانہ بدوش تیرے بھٹکنے کی اس صفت سے سبق لینے کی ضرورت ہے کیوں کہ تیری اسی روش نے تجھے قدرت سے قریب کردیا ہے :
مسافر! تجھ کو شان بے نیازی کی قسم
فقر و فاقہ کی قسم،خانہ بدوشی کی قسم
اپنا راز کامرانی مجھ کو بتلا دے ذرا
یہ متاع بے نیازی کس طرح حاصل کیا
تو غم مال و متاع سے کس طرح آزاد ہے؟
فاقہ مستی میں بھی تیرا کس طرح دل شاد ہے؟
کیا تو اپنی ہجرت پیہم سے گھبراتا نہیں؟
راس تجھ کو کیوں مکان خشت و گِل آتا نہیں؟
کس طرح سیماب پائی میں تو پاتا ہے سکوں
کس طرح سرمایۂ حکمت بنا تیرا جنوں
متکلم نے خانہ بدوش کے لیے ’مسافر‘ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ متکلم کی نظر میں خانہ بدوش کی زندگی قابل رشک اور کامیاب معلوم ہوتی ہے وہ اس سے اس قدر متاثر نظر آتا ہے کہ وہ خانہ بدوش سے سوال کرتا ہے کہ اے مسافر تجھے اس ذات کی قسم جو ہر چیز سے بے نیاز ہے،بتا کہ آخر تیری اس کامیابی کا راز کیا ہے ؟تو نے کس طرح خود کو مال و دولت کی دل فریبی سے آزاد رکھا کہ فاقہ کے باجود تیرا دل اور تو شاد اور خوش نظر آتے ہیں؟متکلم کو اس بات کی حیرت بھی ہے کہ خانہ بدوش اپنی ہجرت والی فطرت سے کیوں نہیں گھبراتا؟وہ اس سے سوال کرتا ہے کہ اے خانہ بدوش آخر کیا وجہ ہے کہ تو اپنی ہجرت پیہم سے گھبراتا نہیں؟متکلم خانہ بدوش سے سوال کرتا ہے کہ آخرتیری دیوانگی تیرا سرمایہ زندگی بن گئے آخر تو اس تبدیلیٔ مقام میں کیسے سکون پاتا ہے؟متکلم کے اس سوال کا جواب خانہ بدوش یوں دیتا ہے:
تجھ کو حیرت ہے میرے حال پر کیوں فلسفی
عین فطرت کے مطابق ہے ہماری زندگی
کوئی شئے بھی اس جہاں کی دائم و قائم نہیں
پھر مکانِ خشت و گل میں کیوں رہوںہو کر مکیں
ذرّہ ذرّہ اس جہاں کا ہے سوئے منزل رواں
جا رہا ہے اس کے نقش پا پہ میرا کارواں
خانہ بدوش دو ٹوک انداز میں متکلم کو جواب دیتا ہے کہ اے فلسفی تجھ کو میری زندگی اور میری طرز حیات پر اتنی حیرت کیوں ہے میری زندگی فطرت کے عین مطابق ہے کیونکہ دنیا کی کوئی شئے ایسی نہیں جس پر زوال نہ آئے یا اس میں یکسانیت ہو، بھلا میں مٹی کے مکان میں خود کو کیوں قید کرلوں؟
تبدیلی دراصل زندگی کا دوسرا نام بھی ہے۔مذہبی نقطۂ نظر سے بھی دیکھا جائے تودنیا کی ہر شئے فانی معلوم ہو گی ـ ایک حدیث ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا دنیا میں ایسے رہو جیسے کہ تم مسافر ہو، یعنی مال و اسباب کی فکر میں مبتلا رہنے کے بجائے اپنے مال و اسباب کو ضرورت مند وں پر خرچ کرنے کا سبق بھی اس حدیث سے ملتا ہے۔زندگی کی حقیقت عارضی ہے تو پھر اس کی فکر کرنا بھی بے وقوفی ہے۔ قرآن پاک کی ایک آیت کا مفہوم ہے: ہر نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔خانہ بدوش کا اشارہ اسی جانب ہے کہ جب ہر چیز پر زوال آتا ہے تو پھر کسی خاص مقام پر مقید رہ کر زندگی گزارنے کا کیا فائدہ؟یہاں کی ہر شئے مجھے اپنے سفر کو جاری رکھنے کی تحریک دیتی ہے۔ گویا’ سفر ہے دین یہاں کفر ہے قیام یہاں‘۔
ہے میرا ایمان کامل کاتبِ تقدیر پر
اور یہ تیرا بھروسہ دانش و تدبیر پر
زندگی ہے سادہ میری کم ہے میری احتجاج
چاہتا ہے گر سکوں تو فقیرانہ مزاج
فکر مال و ملک دنیا دل سے اپنے تو نکال
دور کر اس کی محبت جس کا فانی ہے مآل
یاد رکھّو ہے عمل ہی زندگی کا مدعا
تو جو کہتا ہے اسے دنیا کو کرکے بھی دیکھا
خانہ بدوش اپنی زندگی کی حقیقت اور طرز حیات کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ میرا ایمان اللہ پر کامل ہے مگر شاید تو اس کے وعدوں پر یقین نہیں رکھتا۔خانہ بدوش کہتا ہے کہ اگر تو زندگی میں خوشی اور سکون کی چاہت رکھتا ہے تو اپنی ضرورتوں کو کم کر دے، کیوں کہ مال و اسباب کی لالچ ہی دراصل انسانی مشکلات کی اصل وجہ ہے۔
عمیر ثاقب کی اس نظم کی قرأت کرتے ہوئے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ وہ مقصدی ادب کے قائل تھے،گرچہ ان کے یہاں ترقی پسندوں والی مقصدیت نظر نہیں آتی مگر کہیں کہیں وہ اقبال کے اصلاحی فکر بلکہ اسلوبیاتی طور پر بھی قریب اور کافی متاثر نظر آتے ہیں۔اس نظم کے ذریعے عمیر ثاقب نے خانہ بدوش کی زندگی کی خوبیوں کے ساتھ یہ بھی بتانے کی کوشش کی ہے کہ انسان کو اس دنیا میں مال و دولت کی لالچ اور فکر کے بجائے مسافر کی طرح زندگی گزارنا چاہیے ،کیوں کہ ہر چیزپر زوال آنا طے ہے۔ یہ خاص اسلامی فکر ہے، جسے عمیر ثاقب نے اپنی نظم میں پیش کیا ہے۔
حیرت کی بات ہے کہ اتنی اچھی نظموں کے خالق کو زمانے نے کیسے نظر انداز کردیا۔عمیر ثاقب کے یہاں اقبال اور راشد جیسی فکر اورموضوع آسانی سے ہمیں نظر آجاتی ہیں۔عمیر ثاقب نے اپنے ایک خاص اسلوب کے سہارے ان موضوعات میں ایک تازگی پیدا کردی ہے۔عمیر ثاقب نے زندگی اور اس سے متعلق موضوعات کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا ، ان کی بعض نظموں میں جہاں خاص علاقے اور وہاں کی تہذیب و تمدن کا پتا چلتا ہے وہیں دوسری جانب چند نظمیں ایسی ہیں جن کا براہ راست ہماری زندگی سے تعلق ہے۔

You may also like

Leave a Comment