Home سفرنامہ گودھرا میں علما کی تنظیم-ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

گودھرا میں علما کی تنظیم-ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

by قندیل

ریاستِ گجرات کے شہر ‘گودھرا’ سے ملک کا ہر مسلمان ، بلکہ ہر شہری اچھی طرح واقف ہے، اس لیے کہ 2002 میں یہاں بڑے پیمانے پر فرقہ وارانہ فساد ہوا تھا ، جس میں مسلمانوں کا بڑا جانی و مالی نقصان ہوا تھا ؛ لیکن اس وقت وہاں انجام دی جانے والی ایک ایسی سرگرمی کا تذکرہ کرنا چاہتا ہوں جو بڑی قابلِ تحسین اور ہر شہر کے علما کے لیے لائقِ تقلید ہے، وہ ہے اصلاحِ معاشرہ کے لیے علماء کی اجتماعی جدّو جہد۔

گجرات کے مختلف شہروں میں وہاں کے بڑے دینی مدارس کا دورہ ، وہاں کے ذمے داروں سے ملاقات اور اساتذہ اور سینیر طلبہ سے خطاب کرتا ہوا میں گودھرا پہنچا تو جماعت اسلامی ہند کے ریاستی ذمے داروں نے بتایا کہ یہاں علماء کی ایک مضبوط تنظیم ہے ، جس کے وابستگان سے آپ کو خطاب کرنا ہے ۔ یہ پروگرام مسجد دار السلام میں طے کیا گیا تھا ۔ ہم وقتِ مقرّر پر پہنچے تو بہت سے علماء تشریف لا چکے تھے اور تنظیم کے ذمے داران ہمارے منتظر تھے۔

مسجد دار السلام سے مُلحق کمرے کو تنظیم کے صدر دفتر کی حیثیت سے استعمال کیا جاتا ہے ۔ یہاں ایک دار الإفتاء بھی قائم ہے _ مجھے بتایا گیا کہ تنظیم سے چار سو (400) سے زائد علماء وابستہ ہیں ۔ ہر پندرہ دن پر یہ جمع ہوتے ہیں۔ باہم مشاورت ہوتی ہے کہ معاشرہ میں کن برائیوں کی اصلاح کی ضرورت ہے؟ کوئی ایک موضوع طے کیا جاتا ہے _ اس پر تحریری مواد تیار کیا جاتا ہے۔ اسے تمام علماء میں تقسیم کیا جاتا ہے ، تاکہ وہ اس کی روشنی میں جمعہ کے خطبے دیں ۔ بچوں کے مکاتب چلائے جاتے ہیں ، جن میں انہیں دین کی بنیادی تعلیم دی جاتی ہے۔ بچیوں اور خواتین کی تعلیم و تربیت اور دینی رہ نمائی کے لیے بھی خصوصی پروگراموں کا انعقاد کیا جاتا ہے ۔کوئی معروف دینی شخصیت باہر سے آتی ہے تو اس سے استفادہ کے لیے بھی یہ علماء جمع ہوتے ہیں۔ چنانچہ انہیں میری گودھرا آمد کی اطلاع ملی تو انھوں نے میرا پروگرام طے کیا اور تنظیم کے لیٹر پیڈ پر دعوت نامہ تیار کرکے اس کی تشہیر کی اور اپنے وابستگان کو مدعو کیا۔ انھوں نے ایک التزام یہ کیا ہے تنظیم کا صدر وہ اپنے میں سے کسی عالم کو صرف چار ماہ کے لیے بناتے ہیں ۔ اس کے بعد یہ ذمے داری کسی اور کے حوالے کرتے ہیں۔ آج کل مولانا مزّمّل صاحب اس کے صدر ہیں ۔ ابتدائی تعارف ہوا تو یہ جان کر خوشی ہوئی کہ ان علماء حضرات کے مطالعے میں میری متعدد طبع زاد کتابیں اور تراجم آچکے ہیں اور سوشل میڈیا پر میری تحریریں بھی ان کی نظر سے گزرتی رہتی ہیں ۔

میں نے ‘ملک کے موجودہ حالات میں علماء کی ذمے داریاں’ کے عنوان پر خطاب کیا _ میں نے عرض کیا کہ جس طرح کسی جگہ آگ لگ جائے تو اسے بجھانے کی کوشش ہر کوئی کرتا ہے ، لیکن فائر بریگیڈ کے عملہ کا اہم اور اصل کردار ہوتا ہے ، اس لیے کہ اس کے پاس تجربہ کار عملہ ہوتا ہے اور کافی وسائل بھی ، اسی طرح سماج کی اصلاح اور مشکل حالات کے تدارک کی کوشش یوں تو تمام سنجیدہ اور دردمند افراد کرتے ہیں ، لیکن اس اہم کام کو ماہرانہ طریقے سے علماء ہی انجام دے سکتے ہیں _ میں نے عرض کیا کہ ہمارا کام یہ ہے کہ ہم نئی نسل کے ایمان کو پختہ تر کرنے کی کوشش کریں ، اس کی دینی تربیت کا انتظام کریں ، ملک کی فضا کو پُر امن بنائے رکھنے کی کوشش کریں اور دیگر مذاہب کے ماننے والوں تک اسلام کا پیغام پہنچانے کی منصوبہ بندی کریں ۔ میں نے اس جانب بھی توجہ دلائی کہ ہم جوڑنے والے بنیں ، توڑنے والے نہ بنیں _ فقہی مسالک کے درمیان فرق حق اور باطل کا نہیں ، بلکہ محض افضل اور غیر افضل ہے ، اس لیے مسالک کے اختلاف کو منافرت اور مخالفت کا ذریعہ نہیں بنانا چاہیے۔

میری گفتگو کو علما نے بہت غور سے سنا ۔ آخر میں میں نے جماعت اسلامی کی خدمات کا تعارف کرایا ، اس ضمن میں دیگر اہلِ مذاہب کے درمیان اسلام کے تعارف کے کام کا تذکرہ کیا تو انھوں نے اس کی تفصیلات جاننے کی خواہش کی۔

تنظیم کی طرف سے تمام علماء کے ظہرانہ کا انتظام کیا گیا تھا _ ہم لوگوں کو بھی انھوں نے شریکِ طعام کرنا چاہا _ ہماری خواہش بھی ان کے درمیان میں کچھ اور وقت گزارنے کی تھی؛ لیکن اگلے پروگرام کی وجہ سے معذرت کرنی پڑی _ رخصت ہوتے وقت مصافحہ کرنے کے لیے علماء کا ہجوم مجھ سے ، بلکہ ہر عالمِ دین سے ان کی محبت اور عقیدت پر دلالت کررہا تھا۔

گودھرا کے علما  کی یہ پیش رفت اور عملی اقدامات قابلِ رشک ہیں _ دیگر شہروں کے علما کو ان کی تقلید کرنی چاہیے اور اپنے علاقے میں مسلم عوام کی اصلاح کے لیے اسی طرح اجتماعی جدّوجہد کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ان کی کوششوں کو شرفِ قبولیت سے نوازے ، آمین ، یا رب العالمین!

You may also like

Leave a Comment