Home اسلامیات علماء بہار کی قرآنی خدمات ۔سید محمد عادل فریدی

علماء بہار کی قرآنی خدمات ۔سید محمد عادل فریدی

by قندیل

صوبہ بہار کی مٹی علمی ، روحانی، فکری اور تحریکی معاملہ میں ہمیشہ سے زرخیز رہی ہے اور مختلف علوم وفنون میں بہار کے علماء کی خدمات قابل قدر رہی ہیں ۔ دیگر علوم وفنون کی طرح علماء بہار نے قرآنی علوم ، قرآن کریم کے تراجم و تفاسیر کے میدان میں بھی قابل قدر کارنامے انجام دیے ہیں۔ ذیل کی سطروں میں صرف علماء بہار کی قرآنی خدمات کا جائزہ لیا جارہا ہے۔

یہ قرآن کریم کا اعجاز ہے کہ دنیا کی شاید ہی کوئی لکھی جا سکنے والی زبان ایسی ہو جس میں قرآن کریم کا ترجمہ نہ ہوا ہو، آسٹریلین اسلامک لائبریری نے اپنی ویب سائٹ پر بانوے الگ الگ زبانوں میں قرآن کریم کا ترجمہ اپلوڈ کر رکھا ہے، بر صغیر ہند و پاک ہی نہیں بلکہ اب دنیا کے بیشتر ممالک میں بولی جانے والی زبان اردو میں بھی قرآن کریم کے متعدد تراجم و تفاسیر ہوئے، اعداد و شمار کے اعتبار سے دیکھا جائے تو قرآن کریم کے جتنے ترجمے اردو زبان میں کیے گئے ، دنیا کی دوسری زبانوں میں اس قدر ترجمے نہیں ہوئے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق اب تک تین سو سے زیادہ کلی یا جزوی ترجمے اردو زبان میں ہو چکے ہیں۔

اردو زبان میں اگر پہلے ترجمہ کی بات کریں تو قاضی محمد معظم سنبھلی نے ۱۷۱۹ء میں پہلا ترجمہ کیا، حالانکہ اس کو خالص اردو ترجمہ نہیں کہا جا سکتا ، بلکہ اردو کی ابتدائی شکل جو عربی اور فارسی سے ملی ہوئی تھی اور زیادہ تر الفاظ اور جملوں کی ساخت عربی زبان کے اعتبار سے تھی۔ یہ ترجمہ طبع نہیں ہو سکا۔ ایک ترجمہ اور تفسیر تفسیر مرتضوی کے نام سے غلام مرتضی فیض آبادی کی لکھی ہوئی ہے، یہ بھی زیور طبع سے آراستہ نہ ہو سکی۔

اردو کا سب سے پہلا ترجمہ جس کو اردو کا پہلا با محاورہ ترجمہ کہا جا سکتا ہے وہ شاہ عبد القادر دہلوی ؒ( وفات ۱۸۱۴ء) کا ہے، یہ ترجمہ’’ موضح القرآن ‘‘ کے نام سے آپ نے ۱۷۹۱ء میں مکمل کیا۔ یہ ہندوستان میں قرآن مجید کا پہلا با محاورہ اردوترجمہ مانا جاتا ہے اور بعدمیں ہونے والے بیشتر تراجم کی اساس اور بنیاد ہے، اس ترجمہ کی تکمیل شاہ صاحب نے چالیس سال کے عرصہ میں کی ۔

ڈپٹی نذیر احمد مرحوم کہتے ہیں کہ اردو زبان کے جتنے بھی تراجم ہیں سب کے سب شاہ عبدالقادر کے ترجمے کے مترجم ہیں ۔ مولانا عبدالحئی لکھنوی لکھتے ہیں : ’’ قرآن پاک کے ترجمے سے پہلے شاہ صاحب نے ایک خواب دیکھا کہ ان پر قرآن حکیم نازل ہوا ہے، انھوں نے اپنے برادر بزرگ، شاہ عبدالعزیز سے اس کا ذکر کیا ۔ شاہ عبدالعزیز نے کہا کہ بے شک یہ خواب صحیح ہے ، وحی کا سلسلہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد منقطع ہو چکا ہے لیکن اس خواب کی تعبیر یہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالی آپ کو قرآن عزیز کی خدمت کی ایسی توفیق عطا فرمائے گا جو اس سے پہلے کسی کے حصے میں نہیں آئی ۔ چنانچہ ان کے خواب کی تعبیر ان کے ترجمہ قرآن ’’موضح القرآن‘‘ کی صورت میں جلوہ گر ہوئی ۔‘‘

ترجمہ و تفسیر کے حوالہ سے قرآن کریم کی خدمت میں بہار کے علماء نے بھی قابل قدر خدمات انجام دی ہیں ۔ اگر اردو زبان کی بات کی جائے تو ہندوستان میں قرآن کریم کے اردو تراجم و تفاسیر کی روایت قائم ہونے کے ابتدائی زمانے سے ہی بہار کے علماء بھی اس سعادت سے بہرہ ور ہونے لگے تھے۔ ابتدائی ادوار کی بات کریں تو ۱۳۰۷ ھ مطابق ۱۸۸۹ء میں حافظ ابو محمد ابراہیم بن الحکیم عبد العلی آروی ( پیدائش ۱۲۶۴ھ مطابق ۱۸۴۸ء، وفات ۱۳۱۹ھ مطابق ۱۹۰۲ء) نے ’’تفسیر خلیلی‘‘ کے نام سے قرآن کریم کے چند پاروں کا ترجمہ اور تفسیر لکھی ہے، جس کی طباعت مطبع خلیلی آرہ سے ہوئی تھی ۔ ( قرآن کریم کے اردو تراجم مصنفہ ڈاکٹر صالحہ عبدالحکیم )

حافظ ابومحمد ابراہیم ( بانی مدرسہ احمدیہ سلفیہ آرہ) کا شمار مشہور اہل حدیث عالم سید نذیر حسین دہلوی کے خاص تلامذہ میں ہوتا ہے، ان کی پیدائش ۱۲۶۴ء میں صوبہ بہار کے ضلع بھوج پور کے ہیڈ کوارٹر آرہ کے ملکی محلّہ کے ایک معزز گھرانے میں ہوئی تھی، آپ کے والد ماجد جناب ناظر عبدالعلی بن رحیم بخش آروی بہت بڑے طبیب اور خطاط تھے ۔ آپ نے ابتدائی کتا بیں مولوی حکیم ناصر علی صاحب مرحوم ، قاضی مولوی محمد کریم مرحوم ، مولوی نور الحسن (آردی) اور مولا نا الہی بخش خان صاحب بہاری سے اخذ کیں ، جب کہ متوسطا ت اور معقولات کی بڑی کتا میں مولانا لطف اللہ علی گڑھی سے پڑھیں۔ جب کہ درس نظامی کی تکمیل مولانا سعادت حسین بہاری سے کی اور انہیں سے سند فراغت حاصل کی۔ آپ نے شروع سے ہی مطالعہ کا عمد و ذوق پایا تھا، تفسیر، حدیث، فقہ، ادب و انشاء کا گہرا علم رکھتے تھے، ماہر خطاط تھے اور عربی ، اردو و فارسی زبان پر یکساں قدرت رکھتے تھے۔ ساتھ تقویٰ و پاکبازی میں بھی ممتاز تھے ۔ آپ نے اپنی ذاتی لائبریری قائم کر رکھی تھی ، جس میں مختلف علوم وفنون کی نا در کتا بیں جمع کی تھیں ،مولانا عبد الملک آروی کہتے ہیں کہ ان کے ذاتی کتب خانہ سے علامہ شبلیؒ اور مولا نا ذکاء اللہ جیسے ادباء روز گار مہینوں آکر استفادہ کرتے تھے۔ تفسیر خلیلی میں آپ نے پارہ الف لام میم، سیقول ، تبارک الذی اورعم پارہ کی تفسیر سہل اردو میں محدثانہ نقطہ نظر سے کی ہے، زبان سلیس اور بامحاورہ ہے۔ یہ تفسیر دو جلدوں پر مشتمل ہے، پہلی جلد میں پارہ آلٓمٓ، تبارك الذي اور پارہ عم کی تفسیر ہے جبکہ دوسری جلد میں پارہ سیقول کی تفسیر ہے۔

تفسیر خلیلی کے علاوہ آپ نے عربی فارسی ادبیات پر بہت سی کتابیں لکھیں۔ عربی صرف ونحو پر چار رسالے تالیف کئے ،مشکوٰۃ شریف کے ہر باب کی فصل اول ( جو کہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی احادیث پر مشتمل ہے ) کا ترجمہ کر کے ’’طریق النجاة “ کے نام سے شائع کیا۔ (نزہۃ الخواطر، الاعتصام : علماء اہلحدیث بہار؛ ۲۵ دسمبر ۱۹۷۰ء)

اس کے علاوہ آپ نے تفسیر ابن کثیر کا اردو ترجمہ بھی شروع کیا تھا، لیکن یہ کام مکمل نہ ہو سکا ، صرف پہلے پارہ کا ترجمہ ہی طبع ہو پایا ۔ ( تذکرہ علماء بہار مولفه تنزیل الصدیقی الحسینی ، غیر مطبوعہ )

انیسویں صدی میں مولانا امین اللہ عظیم آبادی ( وفات ۱۸۱۸ء مطابق ۱۲۳۳ھ) نے بھی ایک رسالہ قرآن کریم کی آیت ولکم فی القصاص حياة کی تفسیر پر تحریرفرمایا ہے۔ ( بحوالہ تذکرہ علماء بہار مصنفہ مولانا ابوالکلام قاسمی شمسی صفحه ۲۶-۲۷)

اسی دور میں مولا نا رحم علی پھلواروی ( ولادت ۱۷۷۰ ء ، وفات ۱۸۱۳ء) نے ایک مبسوط تفسیر احکام القرآن میں تفسیر احمدی کے طرز پرگیارہ جلدوں میں لکھی ہے، نہایت ہی عمدہ اور بہتر تفسیر ہے ۔ ( ایضاً صفحہ ۹۵)

مولا نا احمد علی صوفی ( وفات ۱۸۹۰ ء مطابق ۱۳۱۳ھ ) نے بھی قرآن کریم کا اردو ترجمہ شروع کیا تھا لیکن صرف پانچ پارے کا ترجمہ مکمل ہوا کہ آپ کا انتقال ہو گیا اور اس طرح یہ کام ادھورا رہ گیا ۔ (ایضاً صفحہ ۳۸)

بیسویں صدی کے اوائل میں ۱۹۱۲ ء مطابق ۱۳۳۱ ھ میں مولوی سید علی حسن ڈپٹی مجسٹریٹ کلکٹر محلہ میر داد، بہار ضلع پٹنہ نے مطالب القرآن کے نام سے قرآن کریم کی تفسیر لکھی ہے۔ یہ تفسیر تین حصوں پر مشتمل ہے، ہر حصہ میں دس پارے ہیں ، سورتوں کی فہرست تین طرح سے دی گئی ہے، (۱) با عتبار ترتیب قرآنی (۲) با اعتبار ترتیب نزول (۳) با اعتبار حروف تہجی۔

اس کے علاوہ شرعی اصطلاحات کی تشریح، نزول قرآن کے مقاصد اور فضائل و معارف، ہر رکوع کے بعد رکوع کا خلاصہ، شان نزول ، اس سے کیا نتیجہ اخذ ہوا ، اس میں کیا فقہی مسائل بیان کیے گئے ہیں ، ان کی عام فہم الفاظ میں وضاحت ،تفسیر مطالب القرآن کی خصوصیات میں سے ہیں ۔ آخر میں مضامین قرآن کی فہرست بھی حروف تہجی کے اعتبار سے دی گئی ہے ۔ (بحوالہ علماء بہار کی دینی و علمی خدمات کا تحقیقی مطالعه مولفه مهر النساء صفحه ۲۰۵ ، شعبه علوم اسلامی کلیه معارف اسلامیہ کراچی )

اس تفسیر کی عبارت با محاورہ ،سلیس اور عام فہم ہے۔ انداز تالیف سے ایسا لگتا ہے کہ بچوں اور مستورات کی تعلیم کو ذہن میں رکھتے ہوئے یہ تفسیر لکھی گئی ہے، زبان ایسی استعمال کی گئی ہے، جو عام طور پر گھروں میں بولی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر مقدمہ سے درج ذیل اقتباس ملاحظہ کیجیے؛

پیارے لڑکو اور نیک بی بیو! تمہیں معلوم ہے کہ قرآن شریف کونسی کتاب ہے ؟ ام الکتاب اور مقدس کلام ربانی ہے۔ یہ کتاب لوح محفوظ میں لکھی گئی ہے۔ پوری کتاب لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر شب قدر میں لائی گئی ، اس کے بعد حسب ضرورت بتدریج پیغمبر علیہ السلام پر نازل ہوتی رہی ۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا سن شریف جب چالیس برس کا ہوا تو آپ کو خلعت رسالت اور منصب نبوت عطا ہوا۔ ان ایام میں حضور پر نورصلی اللہ علیہ وسلم کی عادت با برکت یوں جاری تھی کہ اکثر اوقات غار حرا میں جو مکہ معظمہ کی ایک چھوٹی سی پہاڑی کے دامن میں واقع تھا ، تشریف لے جا کر ذکر الہی میں خلوت گزین رہتے تھے ۔ اسی عالم مشغولیت اور کیفیت محویت میں فیضان ربانی اور نزول بابرکات رحمانی کا آغاز ہوا۔ اس مبارک زمانہ میں سب سے پہلے سورہ اقراء کی پہلی تین آیتیں جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئیں……………….. (بحوالہ بالا )

اس تفسیر کے تعلق سے حضرت تھانوی نے اپنے ایک مکتوب میں لکھا ہے: ’’ میں نے متفرق مقامات سے آپ کا رسالہ دیکھا جو مقصود آپ نے اس کی تالیف سے پیش نظر رکھا ہے، اس کی تکمیل کے لیے یہ طرز موجود میرے خیال میں کافی و وافی ہے ۔ اگر کوئی دقیق فروگزاشت ہوئی ہوگی ، امید ہے کہ نظر ثانی میں خود آپ اس کو درست فرمالیں گے ۔ مجھ کو زیادہ فرصت نہ ہونے سے معذوری ہوئی ۔ اللہ تعالٰی اس کو مقبول و نافع فرمادے اور آپ کو جزائے خیر بخشے ۔ (مقدمہ مطالب القرآن صفحہ ۱؎)

تفسیر مطالب القرآن کی خصوصیات کا تذکرہ کرتے ہوئے حضرت شاہ سلیمان پھلواروی رحمہ اللہ نے لکھا ہے ؟ ہر مسلمان کو قرآن پڑھنا ضرور ہے، مگر افسوس پڑھتے ہیں تو طوطے کی طرح پڑھتے ہیں، مطالب سے بالکل نا واقف ، مضامین سے بالکل نا آشنا، الحمد للہ اب اس طرف توجہ ہوتی جاتی ہے اور انگریزی تعلیم یافتہ مسلمان خاص کر قرآنی مطالب و مضامین کے سمجھنے کے بے حد شائق پائے جاتے ہیں لیکن کوئی ایسی کتاب اردو زبان میں ، جو مطالب قرآن کو کافی طور سے ادا کرے، میری نظر سے نہیں گزری تھی ۔ یہ کتاب ’’مطالب القرآن‘‘ پہلی کتاب ہے جو اس وقت میرے پیش نظر ہے۔ میں نے کچھ تو مسلسل باقی جابجا سے اس کو پڑھا ہے۔ اس کو مطالب قرآن کہیے یا ترجمہ بتائیےیا تفسیر سمجھئے سب زیبا ہے، کوئی بات اپنی طرف سے نہیں پیدا کی ہے، مفسرین کے اقوال اور انہیں کی تشریح کو اردو زبان میں واضح کر دیا ہے اور طرفہ یہ ہے کہ ہر مذاق کی تفسیروں سے التقاط کیا گیا ہے۔ فقہی مسائل بھی اس میں ہیں، آداب اخلاق بھی ہیں ، تصوف کےر موز و نکات بھی ہیں : ہاں تنقید روایات واقوال کی طرف زیادہ توجہ نہیں دی گئی ہے اور یہ علماء متبحرین کے ذمہ چھوڑ دیا گیا ہے ۔ میں امید کرتا ہوں کہ آئندہ ایڈیشن میں مؤلف صاحب اس کی کو پورا کریں گے ۔ (مقدمہ مطالب القرآن صفحه ۲)

بیسویں صدی کے خدام قرآن کی فہرست میں دارالعلوم دیو بند کے سابق مفتی اور فتاویٰ دار العلوم کے مرتب حضرت مولانا مفتی ظفیرالدین مفتاحی کا نام بھی قابل ذکر ہے۔ خدمت قرآن کے باب میں آپ کا سب سے بڑا کارنامہ ’’تفسیر درس قرآن ‘‘ہے ، جو دس جلدوں پر مشتمل ہے، اس میں پورے قرآن کی سہل ، عام فہم زبان اور دل نشیں پیرایے میں تفسیر کی گئی ہے۔ لمبی بحثوں کے بجائے مختصر الفاظ میں آیات قرآنی کی ایسی تشریح کی گئی ہے کہ قاری آسانی کے ساتھ مراد تک پہونچ جاتا ہے۔ اس تفسیر کا تعارف خود مفتی صاحب نے اپنے الفاظ میں اس طرح کیا ہے :

’’ درس قرآن پورے قرآن پاک کی عام فہم اور سلیس و شگفتہ تفسیر ہے، اس کے منظر عام پر آنے کی صورت یہ رہی کہ ہر پارہ کی الگ الگ تفسیر لکھی جاتی رہی اور چھپتی رہی ……………قرآن کریم کی خدمت جس پہلو سے بھی ہو مبارک ہے، موجودہ دور میں جب کہ بے دینی شباب پر ہے ، ضرورت ہے کہ مسلمانوں میں قرآن سے شغف پیدا کیا جائے اور ان کو کلام الہی سے روشناس کرایا جائے ، اس کی جو بھی عمدہ سے عمدہ تدبیر ہو عمل میں لائی جائے ۔ درس قرآن کی پہلی جلد آپ کے ہاتھوں میں ہے، اسے پڑھ کر آپ یقینا پسند فرمائیں گے…………….. اس کی ترتیب اس طرح رکھی گئی ہے کہ آیات قرآنی کے تحت عنوان او پر لکھا گیا ہے، ان آیات کے نیچے پہلے ہر ہر لفظ کے معنی الگ الگ دیے گئے ، تا کہ غیر عربی خواں ایک نظر میں یہ معلوم کر لیں کہ کس لفظ کے کیا معنی ہیں ۔‘‘ (مقدمہ درس قرآن )

بیسویں صدی میں علماء بہار کی قرآنی خدمات میں علامہ سید مناظر احسن گیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی تالیف کردہ’’ تذکیر بسورۃ الکہف ‘‘بھی بہت اہم تصنیف ہے۔ کتاب کا تعارف مؤلف خود اپنے الفاظ میں اس طرح کرتے ہیں :

’’دجالی فتنہ جس میں قدرتی قوانین پر غیر معمولی اقتدار حاصل کر کے بنی آدم کو دین و مذہب سے اس اقتدار کے آثار و نتائج دکھا دکھا کر باغی بنانے کی کوشش کی جائیگی، اسی فتنہ سے حفاظت کی ضمانت ارشاد نبوی کے مطابق قرآن کی جس سورہ میں بتائی گئی ہے، اس سورہ کے مضامین و مشتملات اسی فتنے کے آثار کو پیش نظر رکھ کر اس کتاب میں واضح کیے گئے ہیں۔ ایمانی زندگی کے ساتھ جو جینا چاہتے ہیں اور اس پر مرنا چاہتےہیں ان کے لیے اس کتاب میں طمانیت و سکینیت کا کافی سرمایہ جمع کر دیا گیا ہے ۔‘‘ (دیباچہ تذکیر بسورة الکہف )

اس کتاب کا نام تفسیر سورۃ کہف کے بجائے تذکیر سورہ کہف رکھنے کی وجہ بتاتے ہوئے مصنف علیہ الرحمہ رقم طراز ہیں :

” ازالہ اشتباہ کے لیے اپنی اس ناچیز خدمت کا نام بجائے تفسیر و تاویل رکھنے کے احتیاطا ًخاکسار نے تذکیر بالقرآن رکھ دیا ہے، گویا تفسیر و تاویل کے مقابلہ میں تذکیر قرآنی خدمت کی ایک نئی قسم یا نئے پہلو سے آپ روشناس ہو رہے ہیں ۔‘‘( دیا چہ تذکیر بسورة الکہف )

دیباچه پر ۲۳ /اگست ۱۹۵۲ء کی تاریخ درج ہے۔ مولانا کی زندگی میں یہ تفسیر ماہنامہ الفرقان میں قسط وار شائع ہوئی ، پہلی قسط ذی الحجہ ۱۳۶۸ھ میں شائع ہوئی اور ۲۱ قسطوں میں ۲۶۰ صفحات پر جمادی الاخری ۱۳۷۱ھ میں مکمل ہوئی ۔ (الفرقان افادات گیلانی نمبر صفحه ۹)

مولانا گیلانی کے انتقال کے بعد ۱۹۵۷ء میں الفرقان کے گیلانی نمبر ( شوال ، ذیقعدہ ، ذی الحجہ ۱۳۷۶ھ مطابق مئی تا جولائی ۱۹۵۷ء) میں پہلی بار مکمل شائع ہوئی ۔ بعد میں کتابی شکل میں بھی اس کی اشاعت ہوئی ۔ مرتب الفرقان مولانا عتیق الرحمن سنبھلی اس تفسیر کے بارے میں لکھتے ہیں :

’’مولانا نے اس مضمون میں سورہ کہف کی تفسیر ایک نئے انداز سے کی ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ اس سورت پر انھوں نے ایک خاص نقطہ نظر سے مدتوں غور کیا تھا اوراسی غور و فکر کے سرمایہ کو اس مضمون میں پیش کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ مضمون تدبر قرآن کی ایک نئی راہ کھولتا ہے اور چاہے مولانا کے نتائج فکر سے پورا اتفاق نہ کیا جائے ،مگر زمانہ کے نت نئے حالات و مسائل میں قرآن سے ایک زندہ کتاب کی طرح استفادہ کرنے کا ڈھنگ ضرور ان کے مطالعہ سے ہاتھ آتا ہے۔‘‘ (ماہنامہ الفرقان افادات گیانی نمبر صفحہ ۱۳)

شمالی بہارکی مشہور علمی و روحانی شخصیت قطب الارشاد عارف باللہ حضرت مولانا شاہ محمد عارف صاحب ہر سنگھ پوری کے خلف حضرت مولانا حکیم عبد المنان صدیقی ( پیدائش ۱۹۲۷ ء وفات ۱۹۷۹ء) کی تفسیر سورۃ الکہف کو بھی اس فہرست میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ تلاش کےباوجود اس کا کوئی نسخہ حاصل نہیں ہو سکا ( بحوالہ حیات عارف )

بیسویں صدی کے جزوی تراجم وتفاسیر میں علامہ تمنا عمادی مجیبی ( پیدائش: ۱۴/جون ۱۸۸۸ء وفات : ۲۷ رنومبر ۱۹۷۲ء) کی تفسیر سورہ فاتحہ شامل ہے، جو ۱۳۸۴ ھ مطابق ۱۹۶۴ء میں کراچی پاکستان سے شائع ہوئی ہے ۔ ( قرآن حکیم کے اردو تراجم صفحه ۱۴۰)

اس ضمن میں علامہ سید سلیمان ندوی کی ’’تاریخ ارض القرآن ‘‘کا نام بھی قابل ذکر ہے ۔ ارض قرآن سے مراد و و سرز مین مبارکہ ہے جس میں سید الانبیاء امام الانبیاء سیدنا محمد ﷺ پیدا ہوئے اور جس سرزمین پر اللہ تعالیٰ نے آخری کتاب قرآن مجید نازل کیا، جسے قرآن مجید نے وادی غیر ذی زرع کا خطاب دیا ہے لیکن جس کی روحانی سیر حاصلی کی فروانی کا یہ عالم ہے کہ آج دنیا میں جہاں بھی روحانی کھیتی کا کوئی سرسبز قطعہ موجود ہے تو وہ اسی کشت زاد الہی کے آخری کسان کی تخم ریزی و آب سیری کا نتیجہ ہے۔ تاریخ ارض القرآن دو جلدوں پر مشتمل ہے ۔ جلد اول قرآن مجید کی تاریخی آیات کی تفسیر، سرز مین قرآن (عرب) کا جغرافیہ، اور قرآن میں جن عرب اقوام و قبائل کا ذکر ہے ان کی تاریخی اور اثری تحقیق اور جلد دوم بنوابراہیم کی تاریخ اور عربوں کی قبل اسلام تجارت ،زبان اور مذہب پر حسب بیان قرآن مجید و تطبیق آثار و تو راۃ و تاریخ یونان و روم کی تحقیقات و مباحث پر مشتمل ہے ۔ ( بحوالہ کتاب وسنت محدث لائبریری )

اس فہرست میں مولانا عبد الصمد رحمانی سابق نائب امیر شریعت بہار، اڈیشہ وجھارکھنڈ ( پیدائش ۱۸۹۰ء ، وفات ۱۹۷۳ء) کی ’’تیسیر القرآن ‘‘اور ’’قرآن محکم‘‘ اہم تصانیف ہیں ۔ حضرت مولانا اپنی کتاب ”تیسیر القرآن‘‘ کے بارے میں خود تحریر فرماتے ہیں:’’ قرآن مجید کے جملہ الفاظ اپنی تعداد میں ۷۷۹۳۴ / ہیں جن میں سے ۶۹۰۲۰ / الفاظ مکرر ہیں ، باقی ۸۹۱۴ الفاظ ہیں جو قرآن مجید میں غیر مکرر ہیں، میں نے ان غیر مکر الفاظ کو چھانٹا اور ان سے یہ رسالہ تیار کیا ، جس کے پڑھ لینے اور جس پر حاوی ہو جانے کے معنی قرآن مجید کے جملہ لغات پر حاوی ہو جانے کے ہوں گے ( مقدمہ تیسیر القرآن صفحہ۱۱ )

اکیسویں صدی میں حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب دامت برکاتہم اور حضرت مولانا ابوالکلام قاسمی شمسی کے تفسیری کارنامے بھی اردو تفسیر کی فہرست میں بیش بہا اضافہ ہیں۔ حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب کی تفسیر ’’آسان تفسیر قرآن مجید‘‘ دو جلدوں پر مشتمل ہے، جلد اول سورہ فاتحہ سے سورہ کہف تک اور دوسری جلد سورہ مریم سے سورہ ناس تک ہے۔ تفسیر کے تعارف میں خود مصنف کتاب کے سرورق پر لکھتے ہیں :

’’ آسان و سلیس اردو زبان میں قرآن مجید کا ترجمہ اور مختصر تشریح ، جس میں مستند احادیث کی روشنی میں قرآنی تعلیمات کو واضح کیا گیا ہے، انبیاء اور ان کی اقوام سے متعلق واقعات کے ذیل میں دعوتی نکات اور سبق آموز پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے، قرآن مجید سے ، مستنبط ہونے والے شرعی احکام اور خاص کر جدید مسائل پر توجہ دی گئی ہے ، اہل مغرب کی جانب سے پھیلائی جانے والی غلط فہمیوں کو دور کیا گیا ہے اور عصر حاضر کے غیر اسلامی اور نادرست افکار و نظریات کے بارے میں قرآن مجید کے موقف کی وضاحت کی گئی ہے۔ ( آسان تفسیر قرآن مجید )

آسان تفسیر قرآن کی خصوصیات اور انداز تحریر کے بارے میں حصہ اول کے مقدمہ میں حضرت مولانا سالم قاسمی صاحبؒ تحریرفرماتے ہیں:

مولا نا خالد سیف اللہ صاحب رحمانی اپنی دینی تحقیقی اور تصنیفی اہم خدمات کی وجہ سے ملت کے ارباب علم میں اپنی ایک قابل اعتماد پہچان پیدا فرما چکے ہیں ، اس کے پیش نظر ترجمہ و تفسیر قرآن کریم میں مولانا موصوف نے اپنی اس علمی وقیع پہچان کو مکمل دیانت و امانت کے ساتھ برقرار رکھنے کے لئے جس قدر احتیاط کوملحوظ رکھا ہوگا ، وہ ان کے مسلم علم و دیانت کے تحت کسی تحقیق و تفتیش کی ضرورت مند نہیں ہے ۔ مولانا نے جس پرداز پر آیات قرآنی کی تشریح فرمائی ہے، اس میں تفسیر کے درج ذیل اساسی اصولوں کو بحمد اللہ بطور خاص پیش نظر رکھا ہے، جس نے کتاب کو تمام تر شبہات سے مبرا کر کے مکمل طور پر قابل اعتماد اور لائق استفادہ بنادیا ہے۔

۱۔ تفسیر قرآن مجید میں اصل اول یہ ہے کہ ترجمہ میں قرآن کریم کے ہر لفظ کے حقیقی معنی لیے جائیں لیکن اگر کسی اہم شرعی وجہ سےیہ ممکن نہ ہو تو اس صورت میں تو سعاً مجاز متعارف معنی بھی لیے جاسکتے ہیں۔

۲۔ دوسرا اصول یہ ہے کہ مفہوم کلام کو شاہدین وحی صحابہ کرام کے اقوال سے تائید بھی حاصل ہو۔

۳۔ تیسرا اصول یہ ہے کہ ترجمہ و تشریح میں کوئی چیز نصوص ظاہرہ شرعیہ کے قطعاً بر خلاف نہ ہو ۔

ان تینوں اصولوں میں سے اگر اصل سوم کہیں ملحوظ نہ رہے تو وہ تاویل تاویل قریب ہوگی اور اگر اصل اول و دوم کی رعایت نہ ہو تو وہ تاویل تاویل بعید ہوگی ، یہ دونوں تاویلات مفہوم و مراد کے اعتبار کو ساقط نہیں کریں گی ؛ البتہ اگر تینوں ہی اُصولوں سے تعبیر منحرف ہو تو وہ تفسیر نہیں ؛ بلکہ تحریف قرار دی جائے گی۔ پس ان تینوں اُصولوں کی رعایت رکھنے کی صورت میں تفسیر و تشریح قرآن کریم صحیح ،معتبر و معتمد اور مستند قرار دی جائے گی، پیش نظر ترجمہ و تشریح کے تفصیلی اور مکمل مطالعہ کا موقع تو بہ تقاضائے عمر و غیر معمولی ضعف اور تسلسل علالت کی وجہ سے مکمل میسر نہ آسکا لیکن جہاں تک بھی مطالعہ ممکن ہوا ، اس میں ان ہی مذکورہ اصول ثلاثہ کی پوری رعایت ملحوظ نظر آئی ۔ (تقدیم آسان تفسیر قرآن )

مولانا ابوالکلام شمسی کی ’’تسہیل القرآن ( آسان ترجمہ قرآن ومختصر تفسر )‘‘ بھی اس باب کی اہم تصنیف ہے، جدید اور عام فہم زبان میں با محاورہ ترجمہ اور مختصر تشریح کی گئی ہے۔ زبان آسان اور شگفتہ ہے۔ تسہیل القرآن پر تبصرہ کرتے ہوئے آل انڈیا ملی کونسل کے قومی نائب صدر اور فتاوی علماء ہند کے مرتب حضرت مولانا انیس الرحمن قاسمی صاحب فرماتے ہیں: ” قرآن کریم کا ترجمہ کسی زبان میں بھی کما حقہ ادا نہیں کیا جا سکتا ہے ، عربی زبان کا دامن نہایت وسیع ہے، قرآن کا ترجمہ و تفسیر بیان کرنے کے لیے پندرہ علوم کا جاننا ضروری ہے، ترجمہ کا فن نازک بھی ہے اور پیچیدہ بھی ،قرآن کے ترجمہ میں بہت احتیاط سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ مولانا ابوالکلام قاسمی شمسی صاحب نے اس فن کی نزاکت کا پورا خیال رکھتے ہوئے قرآن پاک کا عمدہ ترجمہ کیا ہے، یہ ترجمہ دراصل آسان اردو میں قرآن کریم کی ترجمانی ہے ۔‘‘

مولانا خود اپنے ترجمہ کے بارے میں کہتے ہیں:’’ اللہ کے کلام کا ترجمہ کوئی نہیں کر سکتا میں نے بھی ترجمانی کی کوشش کی ہے، کافی محنت اور غور فکر کے بعد میں نے یہ کام انجام دیا ہے، ترجمہ میں اپنی جانب سے کچھ نہیں کیا ہے بلکہ مطالعہ اور تحقیق کی روشنی میں جو مناسب ترجمہ ہو سکتا ہے وہ کیا ہے، یہ ترجمہ زیادہ پڑھے لکھے لوگوں کے لیے نہیں ہے بلکہ میں نے اسے عام فہم زبان و اسلوب میں عام لوگوں کے لیے کیا ہے ۔‘‘

مندرجہ بالا سطور سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ قرآن کریم کے ترجمے اور تفسیر کے میدان میں بہار کے علماء نے گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔ اس مختصر مضمون میں سب کے احاطہ کی گنجائش نہیں ہے، یہ فہرست آخری نہیں ہے، جہاں تک میری رسائی ہو سکی ہے، اس کی صرف ایک مختصر جھلک ہے۔ ضرورت ہے کہ علماء بہار کی تفسیری خدمات پر تحقیق اور ریسرچ کی جائے ، امید ہے کہ ہمارے نو جوان محققین میں سے کسی کے دل میں یہ داعیہ پیدا ہو گا اور اس سلسلہ میں کوئی دستاویزی چیز سامنے آئے گی۔

You may also like