Home ستاروں کےدرمیاں عبید صدیقی کی یادمیں -معصوم مرادآبادی

عبید صدیقی کی یادمیں -معصوم مرادآبادی

by قندیل

آج مشہور براڈ کاسٹر اور شاعر عبید صدیقی کا یوم پیدائش ہے۔ ان کی ولادت 27/مئی1958 کو مغربی یوپی کے شہر میرٹھ میں ہوئی تھی۔میں نے ان کے انتقال پر ایک تفصیلی مضمون قلم بند کیا تھا، جس کے کچھ حصے نذر قارئین ہیں:

یہ9جنوری 2020کی ایک سرد دوپہر تھی۔میں نئی دہلی کے براڈ کاسٹنگ ہاؤس میں برادرم نعمان شوق کے ساتھ ’رفتار زمانہ‘پروگرام کی ریکارڈنگ میں مصروف تھا۔موبائل فلائٹ موڈ پرتھا۔ایک گھنٹہ بعدجب باہر نکلا توموبائل پر برادرم قربان علی کی کئی کالیں موجود تھیں۔میں نے انھیں فون ملا کر خیریت پوچھی تو انھوں نے رندھی ہوئی آواز میں بتایا کہ”ہمارے مشترکہ دوست عبید صدیقی نہیں رہے۔“

میرے لیے یہ خبر اتنی غیر متوقع تھی کہ اب تک اس پر یقین نہیں آرہاہے۔ حالانکہ میں خو د سیکڑوں لوگوں کے ساتھ انھیں جامعہ قبرستان میں سپرد خاک کرکے آیا ہوں۔ یہ درست ہے کہ وہ دل کے عارضے میں مبتلا تھے اور ان کے بدن میں جدید آلات نصب تھے جو ڈاکٹروں کو ان کی اندرونی کیفیت کا سراغ دیتے تھے۔لیکن ان کی اپنی شخصیت اور مزاج میں جو شور برپا تھا‘ اس کا پتہ لگانا ان آلات کے بس کا بھی روگ نہیں تھا۔

عبید صدیقی ایک بے چین روح کا نام تھا۔ وہ بہت’’زود رنج اور نازک مزاج“انسان تھے اور کہیں اطمینان سے نہیں بیٹھتے تھے۔ ان کے ساتھ دوستی نبھانا بھی آسان کام نہیں تھا، لیکن اس کے باوجود وہ ہمارے اچھے دوست تھے۔ اب جبکہ وہ ہمارے درمیان نہیں ہیں تو ان کی بہت سی باتیں یاد آرہی ہیں۔

ان سے اکثر ملا قاتیں ہوتی تھیں۔ابھی کچھ دن پہلے بھی ان سے تفصیلی ملاقات ہوئی تھی لیکن انھوں نے ذرا بھی احساس نہیں ہونے دیا کہ وہ اپنا بوریا بسترسمیٹ رہے ہیں۔ہاں ان کی طبیعت ایسی ضرور تھی کہ وہ کہیں زیادہ دنوں ٹکتے نہیں تھے۔دنیا تو ویسے بھی سرائے فانی ہے اور یہاں کسی کو زیادہ دنوں تک قرار نہیں ملتا۔عبید بھائی اپنے مزاج کی نزاکتوں اور طبیعت کی پیچیدگیوں کے سبب رشتوں کوبناتے اور بگاڑتے رہتے تھے۔ بی بی سی کے ان کے پرانے ساتھی یاور عباس نے ان کی زندگی کے بارے میں درست ہی کہا ہے کہ”وہ ایک ا سکاٹش ادیب رابرٹ لوئیس اسٹیونسن کے ناول ’ڈاکٹر جیکِل اینڈ ہائیڈ‘ کے کردار کی مانند تھے جو دوہری شخصیت اور لاابالی پن کی صفات کی وجہ سے کسی بھی وقت کچھ بھی کہہ سکتے تھے۔“

مجھے یاد نہیں کہ عبید بھائی سے پہلی ملاقات کب اور کہاں ہوئی تھی لیکن ہم دونوں برسوں سے ایک دوسرے کو جانتے تھے۔ وہ ریڈیو اور ٹی وی کے آدمی تھے اور میں اخبارات و رسائل کا۔ ہم دونو ں کے درمیان برادرانہ مراسم تھے۔ وہ مجھ سے عمر میں چار پانچ سال اور تجربے میں اس سے بھی بڑے تھے۔ لیکن انھوں نے کبھی اپنی سینئرٹی کا رعب نہیں دکھایا۔حالانکہ وہ پکے ’علیگ‘ تھے اور ان کی ذہنی تربیت علی گڑھ کے مخصوص ماحول میں ہوئی تھی۔

میرے ساتھ وہ ہمیشہ محبت سے پیش آئے۔ہاں جب کبھی اردو صحافت پر گفتگو ہوتی تھی تو وہ اچانک سنجیدہ ہوجاتے تھے اور کچھ ایسی باتیں ضرور کہتے تھے جنھیں سننا ہم جیسے اردو صحافیوں کو پسند نہیں ہے۔وہ اردو اخبارات سے خائف ضرور تھے لیکن ان کے دل میں ان اخبارات کے لیے نرم گوشہ بھی تھا اور کیوں نہ ہوتا کہ آخر اردو ہی ان کا اوڑھنا بچھونا تھی اور اسی نسبت نے انھیں بی بی سی کی اردو سروس تک لندن پہنچایا تھا۔

عبید صدیقی میرٹھ کے ایک روایتی مسلم خاندان میں پیدا ہوئے تھے، مگرمذہبی انسان نہیں تھے۔ لیکن مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ10 جنوری کی دوپہر جامعہ ملیہ اسلامیہ کی جامع مسجد میں نماز جمعہ کے بعد ان کے جنازے میں لگ بھگ ایک ہزار لوگوں کا مجمع تھا۔انھیں سپرد خاک کرنے والوں میں آل انڈیا ریڈیو، بی بی سی، جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ کے ساتھی موجود تھے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے مخصوص قبرستان میں ان کی تدفین پر کچھ افسروں کواعتراض تھا کیونکہ انھوں نے جامعہ سے اپنی معطلی کے خلاف مقدمہ دائر کیا تھا۔لیکن یہ اعتراض کارگر نہیں ہوسکا اور وہ اپنے دوست جاوید حبیب کے پہلو میں دفن ہوئے۔

عبید صدیقی نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی۔انہیں اپنے عہد کے اہم ادیبوں اور شاعروں کی صحبت میسر آئی،جن سے انہوں نے بہت کچھ سیکھا۔ انھوں نے آل انڈیا ریڈیو کے سری نگر اسٹیشن سے ایسے دور میں وابستگی اختیار کی جب ریڈیو کابڑا شہرہ تھا۔پھر وہ لندن جاکر بی بی سی کی اردو سروس جیسے باوقار ادارے سے وابستہ ہوگئے۔کوئی دس برس گذار کر جب دہلی آئے تو این ڈی ٹی وی میں چلے گئے۔ پھر جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ناک دار شعبے ایم سی آرسی(ماس کمیونی کیشن ریسرچ سینٹر)میں پروفیسر ہوگئے اور بعد کو وہ اس اہم ادارے کے ڈائر یکٹر بھی بنے۔لیکن اس درمیان یونیورسٹی کے وائس چانسلر سے ان کا ایسا ٹکراؤ ہوا کہ بات ان کی معطلی تک جا پہنچی۔ عبید بھائی ماننے والے کہاں تھے۔ انھوں نے اپنی معطلی کو عدالت میں چیلنج ہی نہیں کیا بلکہ وائس چانسلر پر جوابی الزامات بھی لگائے۔ وائس چانسلرطلعت احمد اپنی مدت پوری کرکے واپس چلے گئے لیکن عبید بھائی کا مقدمہ ابھی عدالت میں ہی تھا کہ وہ زندگی کا مقدمہ ہی ہار گئے۔یوں تو عبید بھائی نے اپنی زندگی میں کئی مقدمے لڑے لیکن ان کی زندگی سب سے اہم مقدمہ شعروشاعری کا مقدمہ ہے، جس کے بارے میں ان کے شاعری کے استاد اخلاق محمدخاں شہریارؔنے دلچسپ تبصرہ کیا ہے۔

”حقیقت چاہے جو بھی ہو شاعر اور ادیب آج بھی اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ وہ اپنی تخلیقات کے ذریعے اس دنیا کو بد صورت ہونے سے بچاسکتے ہیں اور سماج میں پائی جانے والی ناہمواریوں کو دور کرسکتے ہیں۔عبید صدیقی کی شاعری کا بڑا حصہ اسی خوش فہمی کا نتیجہ معلوم ہوتا ہے۔“

(’رنگ ہوا میں پھیل رہا ہے‘)

شاعری دراصل عبید صدیقی کی ایسی کمزوری تھی جس کو وہ نہ تو چھپانا چاہتے تھے اور نہ ہی کسی پر ظاہر کرنا چاہتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا مجموعہ کلام شاعری شروع کرنے کے پچیس برس بعد منظر عام پر آیا۔وہ علی گڑھ کی طالب علمی کے زمانے میں اپنے دور کے آزاد منش شاعروں کے ہم نوالہ اور ہم پیالہ تھے۔ان میں فرحت احساس اور مہتاب حیدرنقوی تو ان کی رگ جاں کے قریب تھے۔ لندن کے قیام کے دوران افتخارعارف‘ ساقی فاروقی اور رضا علی عابدی جیسے شاعروں اور ادیبوں کی صحبت نصیب ہوئی۔لیکن ان کی ابتدائی تربیت ہی حفیظ میرٹھی اورانجم جمالی جیسے شاعروں نے کی تھی جو ان کے وطن میرٹھ میں ابتدائی تعلیم کے دوران فیض عام انٹر کالج میں انھیں ملے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کی شاعری پر سب سے گہرا اثر شہریار کا تھا جنھیں وہ اپنا استاد کہتے تھے۔ انہوں نے شہر یار پر ایک دستاویزی فلم بھی بنائی۔ عبید بھائی مشاعرں کے شاعر نہیں تھے۔ وہ سنجیدہ اور اچھی شاعری کرتے تھے۔ انھوں نے شاعری کو مالی منفعت کا ذریعہ کبھی نہیں بنایا اور اپنا مجموعہ کلام بھی اپنی جیب خاص سے شائع کرایا۔ 2010 میں جب ان کا مجموعہ ”رنگ ہوا میں پھیل رہاہے“ شائع ہوا تو بڑی محبت سے اس کا ایک نسخہ اپنے دستخط کے ساتھ مجھے بھیجاتھا۔

عبیدصدیقی مغربی یو پی کے شہر میرٹھ میں 1958میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کی ابتدائی تعلیم میرٹھ کے مشہور فیض عام انٹر کالج میں ہوئی‘ جہاں سے انھوں نے بارہویں کلا س تک تعلیم حاصل کی۔مشہور شاعر حفیظ میرٹھی اسی کالج سے وابستہ تھے اور شعر وسخن کی دنیا میں ان کا سکہ چلتا تھا۔وہ شعر گوئی کے اسرار ورموز سے خوب واقف تھے۔ یہیں عبید صدیقی کو شعر گوئی کا شوق پیدا ہوا اور انھوں نے طویل عرصے تک حفیظ میرٹھی سے اصلاح لی۔ ان کی شاعری میں نیا موڑ اس وقت آیا جب انھوں نے 1975 میں گریجویشن کے لیے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔وہاں ان کا قیام وقار الملک ہال میں تھا جہاں وہ ہال کی میگزین ’وقار‘کے ایڈیٹر ہوئے اور پھر آگے چل کر ’علی گڑھ میگزین‘کی ادارت سنبھالی۔علی گڑھ میں نوجوان شاعروں اور ادیبوں کا بہت بڑا حلقہ موجود تھا۔یہ نوجوان شعروادب کی دنیا میں نئے تجربے کررہے تھے اور ایک مخصوص’بوم کلب‘کے ممبر کہلاتے تھے۔ان بیدار مغز نوجوانوں میں جاوید حبیب، فرحت احساس،آشفتہ چنگیزی، مہتاب حیدر نقوی، ابوالکلام قاسمی، عقیل احمد، غضنفر علی، اسعدبدایونی،سید محمد اشرف،طارق چھتاری‘اظہارندیم، نسیم احمد،پیغام آفاقی وغیرہ شامل تھے۔مگر علی گڑھ میں عبیدصدیقی کا پہلا تعارف فرحت احساس سے ہوا۔ فرحت احساس سے دوستی ہوجانے کے بعد ہی اس حلقے کے دوسرے نوجوانوں اور شہریار تک ان کی رسائی ہوئی۔

انھوں نے 1983میں جب آل انڈیا ریڈیو کی ملازمت اختیار کی تو پہلی تقرری انھیں سری نگر میں ملی۔1988میں آل انڈیا ریڈیو سے دوسال کی رخصت لے کرلندن گئے اور وہاں بی بی سی کی اردو سروس سے وابستہ ہوئے۔ 1997 تک وہاں رہے۔بی بی سی سے ان کی رخصتی بھی خوشگوار انداز میں نہیں ہوئی۔یہ شاید ان کی زندگی کا سب سے غلط فیصلہ تھا جس کا اعتراف انہوں نے 22برس بعد گذشتہ سال اپنے سینئر ساتھی رضا علی عابدی سے ان الفاظ میں کیا تھا۔”عابدی صاحب!بی بی سی کو چھوڑنا میری زندگی کی سب سے بڑی غلطی تھی۔“رضا علی عابدی نے ان کے انتقال پر روز نامہ ’جنگ‘(17جنوری2020)میں ’ایک روشن دماغ تھا‘نہ رہا‘کے عنوان سے جو تعزیتی مضمون قلم بند کیا ہے‘اس کا اقتباس ملاحظہ ہو:

”عبید صدیقی نے عجب مزاج پایا تھا۔ اپنی رائے قائم کرتے تھے تو اس رائے پر ڈٹ کر کھڑے ہوتے تھے۔ جو لوگ پسند تھے ان سے بہت قریب تھے لیکن جو لوگ اس سے مختلف ہوتے، ان سے فاصلہ رکھتے اور وہ بھی غضب کا فاصلہ۔ بے حد حسّاس، بہت زود رنج، نازک مزاج اور شکست تسلیم کرنے سے صاف انکار۔ بی بی سی سے خفا ہوئے تو استعفا دے مارا۔ احباب نے اور گھر والوں نے لاکھ سمجھایا، کسی کی ایک نہ سنی، ساقی فاروقی اور ارشد لطیف سے بہت قریب تھے لیکن اپنی رائے پر ان کو بھی اثر انداز نہیں ہونے دیتے تھے۔ جب نئے نئے لندن آئے تو ارشد لطیف کے ساتھ اپنے لیے مکان تلاش کرنے نکلے۔ انہوں نے مشرقی لندن کے پاکستانی علاقے میں ایک مکان دکھایا جہاں نہاری کی دیگیں کھنک رہی تھیں اور گرم جلیبیاں تلی جارہی تھیں، سخت برہم ہوئے اور بولے کہ اگر یہیں رہنا تھا تو دلّی میں کیا برے تھے۔“

رضا علی عابدی نے اس مضمون کے شروع میں لکھا ہے کہ:

”بی بی سی کی ملازمت کے دوران وہ ترقی کی راہ پر چل نکلے تھے اور انہیں اپنی لیاقت، قابلیت اور تجربے کی بنیاد پر دور تک جانا تھا کہ ایک روز جی میں جانے کیا آئی کہ استعفا دیا اور واپس ہندوستان چلے گئے۔ احباب نے سمجھایا، قرابت داروں نے منایا مگر پسپا ہونا انہیں آتا ہی نہ تھا۔ مجھے یاد ہے، ان کے جانے سے پہلے ان کے احباب نے ایک مشاعرے کا اہتمام کیا جس کی خاص بات یہ تھی کہ مشاعرے میں تنہا عبید پڑھیں گے۔ خدا جانے کیسا سماں بندھا تھا اور لوگوں پر کیا کیفیت طاری تھی، حاضرین نے ان کے ایک ایک مصرعے پر دل کھول کر داد دی اور تعریف و توصیف کا مسلسل اتنا شور ہوتا رہا کہ ایک بار خود عبید نے حیرت کا اظہار کیا۔ یہ شاید ان کے لیے شہر والوں کا الوداعی خراجِ تحسین تھا۔“

You may also like