ینبع، مدینہ طیبہ
گذشتہ ماہ یعنی صفر المظفر 1442 ھ کا دوسرا اور آخری نصف عشرہ (اکتوبر 2020ء کا ابتدائی نصف مہینہ) اس حقیر کا متحدہ عرب امارات کے سفر میں گذرا ہے، اس سفر کے کچھ تجربات اور وہاں سے متعلق بعض مفید معلومات قارئین کی خدمت میں پیش ہیں۔
دبئی آمد
متحدہ عرب امارات کے وقت کے مطابق دوپہر کے ڈیڑھ بجے 29 ستمبر، روز منگل کو میں امارات ائرلائن کے طیارہ سے دبئی کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر اترا، دبئی کا یہ ایرپورٹ اپنی صفائی ستھرائی، حسن انتظام ، مسافروں کو ہر ممکنہ سہولت بہم پہنچانے میں دنیا بھر کے ایرپورٹ میں اپنا ایک نمایاں مقام رکھتا ہے، اس کے ساتھ یہاں سے دنیا کے اکثر ملکوں کے لئے براہ راست پروازیں بھی ملتی ہیں، یہی وجہ کے ایشیائی ممالک کے باشندے کو کسی ایسے ملک میں جانا ہو، جہاں کے لئے اس کے ملک سے پروازیں دستیاب نہیں ہیں، تو ایسے مسافر دبئی کا رخ کرتے ہیں اور یہاں سے انہیں ان کی منزل مقصود کے لئے اکثر براہ راست یا بالواسطہ پرواز مل جاتی ہے؛ اسی لئے یہاں ٹرانزٹ والے مسافروں کا بھی بڑا ہجوم رہتا ہے، کئی بار مجھے بھی یہاں ٹرانزٹ کا اتفاق ہو چکا ہے، اور اِس سفر سے پہلے ایک دو بار بہت کم وقت کے لئے ویزا لے کر ملک میں داخل ہونے کا اتفاق بھی ہوا ہے، پچھلے تجربات کی روشنی میں اندازہ تھا کہ امیگریشن وغیرہ کے مراحل آسانی سے گذر جائیں گے؛ لیکن کورونا کی وجہ سے یہ بات بھی علم میں آئی تھی کہ ایرپورٹ پر کورونا کا ٹیسٹ دبئی وزارت صحت کی طرف سے ہوگا، طیارہ سے اترنے کے بعد سب سے پہلے اسی مرحلہ سے گزرنا پڑا؛ لیکن حسن انتظام کی وجہ سے بہ مشکل پندرہ منٹ میں اس کام سے فارغ ہوگیا، ٹیسٹ کے لئے معلومات کا اندراج کرتے ہوئے وزارت صحت کے لوگوں نے یہ تاکید کی کہ چوبیس گھنٹے کے اندر جب تک آپ کو یہ پیغام نہ مل جائے کہ آپ کورونا سے محفوظ ہیں، اپنی قیام گاہ پر ہی رہیں گے، ٹیسٹ کے بعد چند منٹوں میں امیگریشن اور بیلٹ سے سامان لینے کے مرحلے سے فارغ ہوگیا، ایرپورٹ سے باہر نکلتے ہی اپنے میزبان جناب جاوید اقبال عثمانی علیگ صاحب سے ملاقات ہوگئی، ان کی گاڑی میں سوار ہوکر دوپہر کا کھانا کھاتے ہوئے ان کی رہائش گاہ پر جو سیلیکون اوسیس نامی علاقہ میں ہے، پہنچ گیا ۔
جاوید اقبال عثمانی علیگ صاحب
میرے رشتے کے ماموں اور میری اہلیہ "ثریا” کے اپنے سگے ماموں ہیں، جناب مرحوم عثمان احمد صاحب (گلاب بابو) پاکٹولہ، دربھنگہ (جو باعزت ، نہایت ہی شریف، رشتوں کی پاسداری کرنے والے، اور عوام و خواص میں مقبول زمیندار تھے) کے سب سے چھوٹے فرزند ہیں، جاوید اقبال صاحب نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی ہے، اور دس سال سے زیادہ عرصے سے دبئی میں مقیم ہیں اور المشرق بینک میں ایڈمنسٹریٹو پوزیشن پر بہ حیثیت اسسٹنٹ فیسیلیٹی مینیجر کے کام کر رہے ہیں، محبتی، اچھے اخلاق کے حامل مہمان نواز، کھانے پینے میں خوش ذوق، اور متواضع شخص ہیں، تقریباًدو ہفتوں کا ساتھ رہا اور بہت ہی خوب رہا، وقت تو گذر گیا؛ لیکن اس وقت سے جڑی خوبصورت یادیں دل کے نہاں خانوں میں ہمیشہ رہیں گی۔
متحدہ عرب امارات Unite Arab Emirates– مختصر تاریخ و تعارف
آثار قدیمہ کے ماہرین کے مطابق متحدہ عرب امارات کے ایک جزیرہ دلما Dalma میں سات ہزار سال قبل مسیح زندگی کے آثار ملے ہیں، گویا کہ موجودہ متحدہ عرب امارات کے بعض حصے ہزاروں سال پہلے سے آباد ہیں۔ متحدہ عرب امارات UAE ایشیا براعظم کے مغربی حصہ میں اور جزیرہ نمائے عرب کے جنوب مشرقی ساحل پر خلیج فارس (یعنی پرشین گلف کو خلیج عربی بھی کہتے ہیں) کے کنارے واقع ملک ہے۔ اس کی خشکی کی سرحدیں سعودی عرب اور عمان سے ملتی ہیں، اور پانی کی سرحدیں قطر، سعودی عرب اور عمان تینوں سے ملتی ہیں۔
متحدہ عرب امارات 1971 ء سے قبل ریاستہائے ساحل متصالح (The trucial states) کہلاتا تھا، پرانی تاریخ کی کتابوں کے مطابق یہ عمان کی ایک ریاست ہوا کرتا تھا، 1971 ء میں سات ریاستوں کے ملنے سے متحدہ عرب امارات وجود میں آیا۔ وہ ساتوں ریاستیں یہ ہیں: ابو ظہبی، دبئی، شارجہ، الفجیرہ، عجمان، رأس الخیمہ اور ام القوین۔یہ سات ایسے ملک یا ریاستیں ہیں، جن ساتوں کے حکمران الگ الگ اور اکثر معاملات میں خود مختار ہیں، ابوظہبی ان ساتوں ریاستوں کا مشترکہ دارالحکومت ہے، رقبہ کے اعتبار سے بھی ابوظہبی سب سے بڑا ہے، تیل اور گیس کے ذخائر بھی ابوظہبی میں سب سے زیادہ ہیں، پوری دنیا میں تیل اور گیس کے ذخائر کے اعتبار سے متحدہ عرب امارات ساتویں نمبر پر ہے۔
ابوظہبی ان ساری ریاستوں میں سب سے زیادہ مال دار ہے؛ لیکن تجارت اور دنیا کے عجائب و غرائب کے اعتبار سے دبئی کا زیادہ نمایاں مقام ہے، اور ان ریاستوں میں اسلامی تہذیب و کلچر کا سب سے نمایاں عکس شارجہ میں دکھائی دیتا ہے۔ برصغیر میں تو ان ساتوں ریاستوں کے الگ الگ ہونے اور مشترکہ دارالحکومت ابوظہبی ہونے کے باوجود، عام طور سے ان ساری ریاستوں کو دبئی ہی کے نام سے زیادہ تر جانا پہچانا جاتا ہے ۔
متحدہ عرب امارات کے لوگوں کا صنعتی انقلاب کے اثر کے پہنچنے، تیل اور گیس کے ذخائر کے دستیاب ہونے سے پہلے ماہی گیری اور ہیرے نکالنے کا کام بنیادی ذریعۂمعاش تھا۔
متحدہ عرب امارات کی کل آبادی مختلف اعداد و شمار کے مطابق نو سے دس ملین کے درمیان ہے، آبادی کا تناسب کچھ اس طرح ہے: کل آبادی کا 38 فی صد سے زیادہ ہندوستان کے لوگ ہیں، 12 فی صد کے آس پاس خود اصل باشندے یعنی اماراتی ہیں، 11 فی صد مصری ، دس دس فیصد پاکستانی اور بنگلہ دیشی ، 6 فی صد فلپینی اور باقی تیرہ 14 فی صد دنیا کے اور دوسرے ملکوں کے لوگ ہیں۔ مذہبی اعتبار سے 62 فیصد مسلمان، 21 فی صد ہندو ، 9 فی صد عیسائی اور 8 فی صد دیگر مذاہب کے ماننے والے ہیں۔
دبئی پر ایک طائرانہ نظر
وزرات صحت کی تاکید کی وجہ سے آج رہائش گاہ پر ہی رہنے کا ارادہ تھا، پھر جاوید اقبال صاحب نے یہ طے کیا کہ وزارت صحت کی طرف سے عائد بندش کی رعایت کرتے ہوئے بھی دبئی پر ایک طائرانہ نظر ڈالا جا سکتا ہے، وہ اس طرح کہ گاڑی میں بیٹھے بیٹھے دبئی کے مرکزی حصوں کا چکر لگا لیا جائے، مناسب تجویز تھی، چنانچہ ان کی آرام دہ گاڑی میں ہم عشاء کے بعد نکل پڑے، شیخ زائد روڈ سے ہوتے ہوئے سب سے پہلے "بزنس بِے” میں واقع ماریوٹ ہوٹل کے پاس خلیج فارس سے نکالی گئی مصنوعی کینال (نہر) کے پاس جا کر ٹہرے، یہ کینال ایک طرف سے قدرتی طور پر نکلی تھی، دوسری طرف سے مصنوعی طور بناکر اسے باہم اور سمندر سےجوڑ دیا گیا،ہمارے دائیں ہاتھ پر ماریوٹ ہوٹل تھا، اس کے بالمقابل کینال پر ایک خوبصورت سا پل بنا ہے، جس پر ٹریفک پورے زور شور سے رواں دواں تھی، اس پل سے مصنوعی آبشار کینال میں گر رہا تھا، روشنی کے خصوصی امتزاج نے ایک سحر انگیز ماحول فراہم کر رکھا تھا، اچانک آبشار تھم سا گیا، کیا دیکھتا ہوں کہ پل کے نیچے سے ایک چھوٹی سی موٹر بوٹ نکل کے اُس رخ پر آرہی ہے، جدھر ہم کھڑے تھے، جاوید اقبال صاحب نے اس معمہ کو حل کیا اور بتایا کہ اس آبشار میں سینسر لگا ہے، جب بھی کوئی بوٹ یا کشتی اس سے قریب پہنچتی ہے، پانی گرنے کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے، پھر اس کے گذرنے کے بعد دوبارہ اس مصنوعی جھرنے سے پانی گرنے لگتا ہے۔
الحبتور سیٹی سے گذرتے ہوئے "لا پرلے” La Parle کو باہر سے دیکھا، یہاں شوز ہوتے ہیں، اور اس کا معیار بتانے والوں کے مطابق سیون ڈی سے بھی اوپر کا ہے، پھر تھوڑی دیر ہم ٹریڈ سینٹر کے پاس رکے، یہ اپنے وقت کی دبئی کی اونچی بلڈنگ تھی، پھر دبئی فریم کے پاس سے گذرے۔
دبئی فریم ایک چوکور فریم کی شکل کی بلڈنگ ہے، آپ اسے دور سے دیکھیں گے، تو ایسا محسوس ہوگا کہ وہ بس ایک فریم ہے اور کچھ نہیں، لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے، وہ مکمل سہولتوں سے لیس بلڈنگ ہے، جب آپ اس میں ٹکٹ لے کر داخل ہوں گے، تو نیچے کی منزل پر آپ کو پرانا دبئی یا پرانا امارات اور اس کی تہذیبی اور تمدنی جھلکیاں اتنی واضح طور پر دکھائی دیں گی کہ آپ کئی دہائیوں پیچھے کے دبئی میں اپنے آپ کو محسوس کرنے لگیں گے، پھر جب اوپر کی منزل پر چڑھیں گے، تو وہاں سے تقریباً موجودہ پورا دبئی دکھائی دے گا، جس سے آپ کے سامنے یہ واضح ہوگا کہ ابھی دبئی کیسا ہے، جب آپ اس سے دوسری طرف نیچے اتریں گے، تو آپ کے سامنے ماڈل اور خاکوں کی صورت میں یہ ہوگا کہ مستقبل میں دبئی کو کیسا بنانے کا ارادہ ہے۔ گویا کہ کہ دبئی فریم سے دبئی کے ماضی، حال اور مستقبل کی جھلکیاں آپ کو مل جاتی ہیں۔
وہاں سے گذر کر ہم ایمیریٹس ٹوئین ٹاور کے پاس سے گذرتے ہوئے دبئی فیوچر میوزیم کے پاس پہنچے، یہ بیضوی شکل کی نہایت ہی خوبصورت تعمیر ہے، جسے دور تو کیا، قریب سے دیکھ کر بھی نہیں لگتا ہے کہ یہ کوئی اتنی بڑی بلڈنگ ہے؛ بلکہ ایسا لگتا ہے کہ خوبصورتی کے لئے اسٹیل سے کچھ بنایا گیا ہے، جس پر عربی عبارتیں لکھی ہیں، لیکن حقیقت میں دبئی کا مستقبل قریب میں کھلنے والا ایک بڑا میوزیم ہے، ابھی دبئی کے اخبارات کے مطابق زیر تزئین و آرائش ہے، چند ماہ میں اس کا کھلنا متوقع ہے، اس میں کیا خاص ہے، یہ تو کھلنے کے بعد ہی پتا چلے گا، البتہ انڈے کی شکل کی بلڈنگ تو خوش نمائی کے اعتبار سے اب بھی بہت خاص اور جاذب نظر ہے۔
وہاں سے دبئی مال کے پاس سے گذرتے ہوئے دنیا کی سب سے بلند عمارت برج خلیفہ کے صدر دروازہ تک گئے، یہاں کی چند بڑی تعمیراتی کمپنی میں سے ایک "اعمار” نے اسے تعمیر کیا ہے، پھر برج خلیفہ سے ہوتے ہوئے ڈاؤن ٹاون گئے، پھر وہاں سے حاکم دبئی شیخ محمد بن راشد المکتوم کے زعبیل نامی علاقہ میں بنے ہوئے پیلس کو دیکھا، پتا چلا کہ عام طور سے حاکم دبئی دنیا بھر سے آنے والے سرکاری مہمانوں سے اسی پیلس میں ملتے ہیں، زعبیل پیلس سے قریب حکمران خاندان کے بعض اہم افراد کے بھی محلات ہیں، اور وہیں ایک خوبصورت سی مسجد بھی ہے، جس سے متصل ہیلی پیڈ بھی ہے، معلوم ہوا کہ چند سال قبل شیخ عبد الرحمن سدیس نے ایک رات اس مسجد میں تراویح پڑھائی تھی، اور اسی ہیلی پیڈ پر ان کے ہیلی کاپٹر کو اتارا گیا تھا۔
رات خاصی ہوگئی تھی، ہم دیرہ سیٹی سینٹر سے ہوتے ہوئے، واپس سیلیکون اوسیس اپنی رہائش گاہ پر آگئے۔ اس طرح چند گھنٹوں میں پورے دبئی پر ایک طائرانہ نظر ڈال لیا۔
آن لائن تدریس
میں امار تِ مدینہ منورہ کے ایک شہر ینبع کے ایک تعلیمی ادارہ سے جڑا ہوں، اور مولانا گیلانی رحمہ اللہ کے بقول "معلم الصبیانی” کی خدمت سے وابستہ ہوں، سعودی وزارت تعلیم کے احکامات کے مطابق اگست 2020 کے وسط سے شروع ہونے والے تعلیمی سال کے پہلے پورے سمسٹر میں ۔ جو دسمبر 2020 تک ممتد ہے۔ آن لائن ذریعہ تعلیم ہی اختیار کرکے طلبہ کو پڑھانا ہے۔ آن لائن تعلیم میں بہت ساری دشواریوں کے ساتھ اس حقیر کے ساتھ خیر کا یہ پہلو رہا کہ اگست کے وسط سے ستمبر کے اخیر تک ہندوستان میں رہنے کے باوجود ڈیوٹی پر تھا، اور اکتوبر میں متحدہ عرب امارات کا یہ سفر بھی ڈیوٹی پر رہتے ہوئے ممکن ہو سکا۔ اس ساری تفصیل کا مقصد یہ ہے کہ ڈیوٹی پر ہونے کی وجہ سے دن میں تین گھنٹے مختلف اوقات میں پڑھانا ہوتا ہے، اس کے لئے تیاری بھی کرنی ہوتی ہے، گویا کہ دن کا تقریبا پورا ہی وقت تدریسی مصروفیات سے گھرا ہے، متحدہ عرب امارات کو دیکھنے اور لوگوں سے ملنے کے لئے پوری مدت قیام میں میرے پاس رات کے اوقات اور چھٹی کے دو دن جمعہ اور ہفتہ تھے۔
ہمدم دیرینہ کا ملنا (شاداب احمد سے ملاقات)
30 ستمبر بدھ کا دن تھا، صبح سے سہ پہر تک اپنی تدریسی اور پڑھنے لکھنے کی مشغولیت میں رہا، صبح جناب شاداب احمد صاحب کو واٹس ایپ پر پیغام بھیج دیا تھا کہ میں دبئی میں ہوں اور فلاں جگہ مقیم ہوں، واپس پیغام آیا تھا کہ ان شاء اللہ عزوجل جلد ہی ملاقات ہوتی ہے۔
شام ساڑھے چار، پانچ بجے کا وقت ہوگا کہ دروازہ کی گھنٹی بجی، دروازہ کھولا تو جناب شاداب احمد کو اپنے سامنے پایا، ان کے دروازہ سے اندر آتے ہی ہم ایک دوسرے سے بغل گیر ہوگئے، دونوں کا چہرا خوشی سے تمتما رہا تھا، پلکوں کے گوشوں میں کہیں نمی بھی تھی، کیوں نہ ہو، ایک مدت دراز کے بعد جو یہ ملاقات ہوئی تھی۔
شاداب احمد میرے رشتہ دار ہیں، رشتہ دار ہی نہیں قریبی رشتہ دار ہیں، میرے سگے ماموں زاد بھائی، اور میری اہلیہ کے اپنے چچازاد بھائی ہیں،اور اس سب کے ساتھ وہ میرے بچپن کے عزیز ترین دوست ہیں، عمر میں مجھ سے صرف بارہ گھنٹے بڑے ہیں۔ شاداب رام گڑھ جو رانچی سے قریب ایک چھوٹا سا ٹاؤن ہے، وہیں اپنے والدین کے ساتھ رہا کرتے تھے (اور اب وہاں اپنا گھر بنا لیا ہے،) سال میں ایک دو بار گھریلو خوشی یا غمی کی تقریب میں آتے تھے، اور تب میں بھی اس تقریب میں شرکت کے لئے ننہیال میں ہوا کرتا تھا یہ 1994ء سے 2004 ء کے درمیان کی بات ہے۔
یادش بخیر! وہ زمانہ فون اور کسی کسی کے گھر میں ٹیلیویژن کا تھا، موبائل اور انٹرنیٹ عام لوگوں کی دسترس سے دور اور ہم بچوں کی پہنچ اور فہم دونوں سے بہت دور کی بات تھی، چند دن جو ساتھ گذرتے تھے، کس قدر خوبصورت اور پر لطف ہوا کرتے تھے، اس وقت تو ہم نے انہیں جیا اور محسوس کیا ہے، اب بھی وہ حسین ترین یادیں لوح دل پر ثبت ہیں، اور تھکے تھکے لمحوں میں ہونٹوں پر مسکان لاتی ہیں۔
ساتھ کبڈی کھیلتے تھے، تالاب پر ملاحوں سے مچھلیاں نکلوانے جاتے تھے، آم کے باغات میں دوڑتے بھاگتے تھے، لیچی کے باغ میں گلابی گلابی لیچیاں توڑتے اور کھاتے تھے، وہ اپنے اسکول، وہاں کے دوستوں کے قصے سناتے، میرے پاس مدرسہ اور یہاں کی خبروں کا انبار رہتا، یوں ہی چند دن ہنستے کھیلتے گذرتے تھے، پھر وہ رام گڑھ اور میں اپنے مدرسہ یا گھر خوبصورت یادیں لئے ہوئےواپس چلا جاتا تھا اور پھر ہم اگلی ملاقات کا انتظار کرتے تھے۔
شاداب سے میری آخری ملاقات 2007 ء میں میری بڑی ہمشیرہ کے نکاح میں ہوئی تھی، تب میں دارالعلوم دیوبند میں دورۂ حدیث شریف کا طالب علم تھا، اور وہ بی بی اے کررہے تھے، پھر 2007 ء کے بعد میں حیدرآباد، کرناٹک، کیرالا اور قطر سے ہوتے ہوئے سعودی عرب پہنچا، اور 2015 ء سے ینبع، مدینہ طیبہ میں مقیم ہوں، شاداب نے اس عرصہ میں پونے سے ایم بی اے کرنے کے بعد وہیں ملازمت کی، 2015 ء سے دبئی میں مقیم ہیں اور ان دنوں المشرق بینک میں ” فراڈ انویسٹی گیشن ڈپارٹمنٹ” میں کام کر رہے ہیں۔
عزیز ترین بے تکلف دوست اور رشتہ دار، ہمارے بیچ یہ دونوں رشتے ہیں۔ گھر ، گاؤں، تعلیم، متاہلانہ زندگی، ملازمت ، عملی زندگی کے تجربات، زمانہ کے دیئے ہوئے زخم، اللہ عزوجل کی نعمتیں اور نہ جانے کس کس موضوع پر باتیں آئیں، اور میرے دو ہفتے کے قیام میں اس ملاقات کے بعد بھی کئی بار ملاقاتیں ہوئیں، اورہم نے ان موضوعات پر کھل کر باتیں کیں اور خوشی و درد میں ایک دوسرے کو شریک کیا۔
مطعم الیومي (Daily restaurant)
بچپن میں تو اندازہ نہیں تھا؛ لیکن اس ملاقات میں پتا چلا کہ شاداب کھانے پینے کے معاملے میں خاصے خوش ذوق ہیں اور دبئی کے لذیذ کھانے سَرو کرنے والے اکثر ریسٹورینٹ سے واقف ہیں، ہماری گفتگو کے بیچ جاوید اقبال صاحب واپس آچکے تھے، عشاء کے بعد قُصَیص کے علاقہ میں واقع مطعم الیومي (Daily restaurant) میں بِہاری کباب، اور نہاری سے کام و دہن کو لذت فراہم کی۔ پھر "مَمزر بیچ” سے ہوتے ہوئے فیلی کیفے پہنچے۔
فیلی کیفے Filli Cafe
رفِیہ فيلي نامی ایک جوان نے 2004 ء میں چائے کا ایک برانڈ فیلی کے نام سے متعارف کرایا، رفتہ رفتہ یہ برانڈ اپنی لذت کی وجہ سے متحدہ عرب امارات کی اکثر ریاستوں میں پھیل گیا، اب دوسرے ملکوں میں بھی اس کی برانچیں کھل رہی ہیں، اس کیفے کی مختلف طرح کی چائے میں ایک زعفرانی چائے ہے، جو خاصی مشہور و مقبول ہے، جاوید اقبال صاحب بھی خاندانی طور پر کھانے پینے میں خوش ذوق ہیں، وہ فیلی کی زعفرانی چائے کی لذت سے آشنا کرنے کے لئے ہمیں یہاں لے کر آئے، اور واقعی زعفرانی چائے نے بہت ہی لطف دیا، فیلی کی یہ مَمزر والی برانچ اس اعتبار سے بھی خاص ہے کہ یہ اس کی سب سے پہلی برانچ ہے۔ پھر ہم شندغہ سرنگ کے راستے سے واپس قیام گاہ کے لئے روانہ ہوئے۔
شَندَغہ سرنگ
خُور دبئی کا سمندری حصہ جو نہر کے مشابہ ہے، دبئی سیٹی کو” بَر دبئی اور دِیرہ "دو حصوں میں تقسیم کرتا ہے، اسی خور دبئی کے پانی کے نیچے نفق شندغہ (شندغہ سرنگ) بنی ہے، اور دبئی سیٹی کے دونوں حصوں کو ملاتی ہے، یہ سرنگ 560 میٹر لمبی ہے، گویا آدھے کیلومیٹر سے زیادہ لمبی سمندر کے نیچے بنی ہوئی یہ سرنگ ہے، 1975 ء میں یہ بن کر تیار ہوئی تھی۔ اور جس نے دبئی سیٹی کے دونوں حصوں کی مسافت کو کم اور سفر کو آسان کردیا ہے۔
بالٹی بریانی
جمعرات کے دن دو ڈھائی بجے تک اپنی تدریسی مشغولیت میں رہا، دس بجے کے آس پاس شاداب کی کال آئی کہ دوپہر کا کھانا نہیں کھانا، میرا انتظار کرنا، تین بجے کے آس پاس شاداب دو بالٹی بریانی لے کر وارد ہوئے، آپ حیران نہ ہوں، ایک بالشت اونچی، چھ انگلی کے برابر گولائی لئے ہوئے اگر بالکل بالٹی کی شکل کا ڈبہ ہو، تو اسے بالٹی تو کہا ہی جا سکتا ہے، مستزاد یہ کہ ریسٹورنٹ والے نے بھی اس کا نام Bucket Biryani (بالٹی بریانی) ہی رکھا تھا۔ خیر ہم لوگوں نے ظہرانہ کھا کر آرام کیا۔
بھائی عامر انور سے ملاقات
دس بجے کے ہی آس پاس ایک کال بھائی عامر انور کی بھی آئی تھی کہ شام میں – ان شاء اللہ – ملنے کے لئے آؤں گا، پھر ساتھ ہی کہیں چلیں گے۔ عامر انور میرے محترم دوست جناب طارق انور صاحب (جو میرے ساتھ ینبع میں رہتے ہیں، اور ہمارے ادارہ میں سنٹرل لائبریری کے لائبریرین کی حیثیت سے کام کرتے ہیں) کے چھوٹے بھائی ہیں، جناب عامر انور اپنے بڑے بھائی ہی کی طرح خوش اخلاق، مہمان نواز، متواضع اور محبتی ہیں، ان دونوں بھائیوں کا تعلق بہار کے مدھے پورہ ضلع سے ہے۔
جناب عامر انور نے آنکھوں سے متعلق کوئی کورس رانچی سے کر رکھا ہے، کئی سالوں سے دبئی کے مشہور ہاسپیٹل "زلیخا ہاسپیٹل” میں آنکھوں کے شعبہ میں کام کرتے ہیں، غائبانہ تو جناب عامر انور سے تین چار سالوں سے واقفیت تھی، میرے اہل خانہ کا تجربہ یہ ہے کہ آنکھوں سے متعلق ان کی تشخیص اور دواؤں کی تجویز بہت ہی مناسب ہوتی ہے، کئی بار کیفیت بتا کر افراد خانہ کے لئے ان کی مجوزہ دوائیں لیں، جن سے بفضل الہی بہت فائدہ ہوا ۔
ان سے پہلی ملاقات سال گذشتہ ہوئی تھی، جب وہ عمرہ کے لئے آئے تھے، ساتھ میں عمرہ کرنے کا اتفاق ہوا تھا، اور اُس سفر میں خاصا وقت ساتھ گذرا تھا، پہلے سے ان کے بارے میں جو خاکہ تھا، اس سے بہتر پایا، اور دبئی کے اِس سفر میں تو ان کی محبت کا رنگ دل میں اور گہرا ہوگیا۔
جمیرا بیچ کی سیر
پانچ بجے عامر انور آگئے، پھر ہم تینوں(عامر، شاداب اور میں) عامر انور صاحب کی گاڑی سے شہر کا ایک چکر لگاتے ہوئے جمیرا بیچ کے لئے نکلے، عشاء تک ساحل پر ٹہلتے رہے، ہمارے ینبع کے ساحل ہی کی طرح صاف ستھرا ساحل ہے، پائنیچے اٹھا کر کچھ دور تک پانی میں بھی گیا، ہلکی ہلکی لہریں جب ہچکولے کھا کر پاؤں میں لگتی ہیں، تو ایک سکون کا احساس ہوتا ہے، ماحول پر سکون تھا، اور کورونا کی وجہ سے سیاحوں کے کم ہونے کی وجہ سے طوفان بدتمیزی بھی نہ کے برابر تھی، جمیرا بیچ دبئی کے چند مشہور ساحلوں میں ہے۔ دو تین دنوں سے دبئی شہر کی بھاگ دوڑ کے بعد ساحل پر گذرنے والے اس وقت نے بڑے سکون کا احساس دلایا۔ پھر کافی کا ایک ایک مگ پی کر ہم لؤلؤ مال روانہ ہوگئے۔
آئیکونیک آپٹیکلس
لؤلؤ گروپ ہندوستان کے ایک مسلم تاجر یوسف صاحب کا ہے، اس کے بہت سے مال Malls اور سوپر مارکیٹ خلیجی ممالک، افریقہ اور ہندوستان میں ہیں، ہمیں لؤلؤ میں خریدی نہیں کرنی تھی؛ بلکہ بھائی عامر انور اور ان کے ایک دوست کی مشترکہ چشمہ کی دوکان "آئیکونیک آپٹیکلس”، جولؤلؤ ام سُقَیم اسٹریٹ کے دوسرے فلور پر ہے، اسے دیکھنا تھا، شاداب کو ایک چشمہ بنواناتھا اور مجھے ان کے ٹیسٹ کے سیکشن میں اپنی ایک آنکھ ٹیسٹ کروانی تھی، جو پچھلے کئی دنوں سے سرخ ہورہی تھی، اور اس میں سوزش بھی محسوس کر رہا تھا۔
دبئی تجارت کے اعتبار سے کھلا شہر ہے، اللہ تعالی نے آپ کو کشادہ رزق دیا ہے، توآپ بہت آسانی سے وہاں تجارت کرسکتے ہیں،بلکہ وہاں سے بیٹھ کر دنیا کے مختلف ملکوں تک اپنی چیزیں پہنچا سکتے ہیں، ساتھ ہی وہاں باہر کے لوگ -وہاں کے اعتبار سے – کم پیسوں میں بھی تجارت کر سکتے ہیں، بھائی عامر انور اور ان کے دوست کی آپٹیکلس شاپ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی، دعا ہے کہ اللہ تعالی ان کو صحیح خطوط پر تجارت کی توفیق دے، اور ان کی اس تجارت میں خوب برکت دے۔
یہاں سے فارغ ہوکر لؤلؤکے ہی فوڈ کورٹ میں بروسٹ(کھانے کی ایک قسم) کھاکر واپس اپنی اپنی رہائش گاہ پر آگئے۔
مظلوم نماز جمعہ
جاوید اقبال عثمانی صاحب سے یہ پتہ چل چکا تھا کہ کورونا کی وجہ سے امارات میں جو مسجدیں بند ہوئی تھیں، وہ پنج وقتہ نمازوں کے لئے تو لازمی احتیاطی تدابیر کے ساتھ کھل گئی ہیں، البتہ جمعہ کی نماز کی اجازت اب تک نہیں ہے۔
جمعہ کا دن میری چھٹی کا دن ہوتا ہے، صبح سے تو کچھ پڑھنے لکھنے کا کام کرتا رہا، لیکن جیسے جیسے جمعہ کی نماز کا وقت قریب آتا گیا، دل میں ایک اداسی سی اترنے لگی، سوچنے لگا کہ پتا نہیں ارباب اقتدار کی کیا منطق ہے کہ احتیاطی تدابیر کے ساتھ ساحل، مال، شاپنگ سینٹر سب کے سب کھول دیئے گئے ہیں؛ لیکن جمعہ کی نماز کی کیوں نہیں اجازت دی گئی؟ کیوں اب تک جمعہ کے خطبوں سے مساجد کو سُونا رکھا گیا ہے؟ بوجھل دل کے ساتھ ظاہری چمک دمک اور ہماہمی والے اس شہر میں جمعہ کے دن ہم نے گھر پر ظہر کی نماز ادا کی۔
اللہ عزوجل سے دعا ہے کہ ارباب اقتدار کو یہ احساس دے کہ نماز جمعہ پر یہ بے جا بندش نہ جانے کتنی نحوستوں اور مصیبتوں کا پیش خیمہ بن جائے گی ۔ العیاذ باللہ
مسجد بِدیہ کی زیارت
جمعہ کو عصر سے کچھ پہلے مسجد بدیہ اور خورفَکان شہر کے ارادہ سے نکلے، امارات روڈ کے ذریعے شارجہ ریاست میں آئے، پھر خورفکان روڈ کے ذریعے خورفکان شہر پہنچے، پھر رُغیلات روڈ سے مسجد بدیہ کے پاس پہنچے۔
ریاست فجیرہ کا ایک قصبہ بدیہ نامی ہے، خورفکان جو ریاست شارجہ کا ایک شہر ہے، اس سے متصل بدیہ قصبہ ہے، مسجد بدیہ اسی قصبہ کی قدیم تاریخی مسجد ہے، لوگوں کے درمیان تو یہ بات مشہور ہے کہ مسجد بدیہ صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مبارک ہاتھوں سے بنی ہے؛ لیکن فجیرہ گورنمنٹ کی وضاحت کے مطابق موجودہ تعمیر پندرھویں صدی عیسوی کی ہے، گویا کہ یہ مسجدتقریباً پانچ سو سال قدیم ہے، اندر سے چار موٹے ستونوں پر اس کی عمارت کھڑی ہے، الحمدللہ اس میں پنج وقتہ نماز ہوتی ہے اور زائرین تحیۃالمسجد بھی پڑھتے ہیں۔
حقیقت تو اللہ بہتر جانتا ہے، میرے دل میں یہ بات آتی ہے کہ شاید مسجد تو صحابۂکرام کے عہد ہی کی ہوگی؛ لیکن موجودہ تعمیر پندرھویں صدی عیسوی کی ہے، بہر حال اس پر تو سب کا اتفاق ہے کہ مسجد بدیہ متحدہ عرب امارات کی سب سے قدیم مسجد ہے۔
پہاڑی کے دامن میں ماضی سے وابستہ اس چھوٹی سی مسجد کو دیکھ کر بڑا اچھا محسوس ہوا اور اللہ عزوجل کا شکر بھی ادا کیا کہ فجیرہ گورنمنٹ نے اس کی دیکھ ریکھ کا اچھا انتظام کیا ہے اور زائرین کے لئے اس کو مکمل طور پر مسجد ہی کے طور پر کھول رکھا ہے، گھومنے پھرنے کی جگہ اور پکنک اسپاٹ بنا کر نہیں۔
خورفکان بیچ پر
خورفکان ریاست شارجہ کا ایک شہر ہے اور پورے امارات کا سب سے خوبصورت ساحلی شہر ہے، ایک طرف خوبصورت سمندر ہے، تو دوسری طرف سے شہر کو پہاڑوں نے گھیر رکھا ہے۔
2018 ء سے قبل دبئی یا شارجہ سے خورفکان آنا اتنا آسان نہیں تھا، ایک لمبا چکر لگا کر عمان کی سرحد سے لگے لگے یہاں آنا پڑتا تھا، لیکن 2018 ء میں پانچ بڑی سرنگوں والی خورفکان روڈ بن کر تیار ہوگئی، جس سے مسافت بہت کم ہوگئی ہے، اب اس روڈ کی وجہ سے دبئی سے خورفکان کی مسافت تقریبا سوا سو کیلومیٹر کے آس پاس ہے۔ مسجد بدیہ سے واپس آکر خورفکان کے ساحل پر ہم ٹہرے، ہمارے آج کے اس سفر میں مامون صاحب بھی ساتھ تھے، یہ جاوید اقبال صاحب کے برادر نسبتی ہیں اور حضرت قاضی مجاہد الاسلام قاسمی رحمہ اللہ کے سسرالی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ خوش مزاج اور دینی ذہن رکھنے والے نوجوان ہیں۔
ساحل ہی پر سبز گھاس پر ہم لوگوں نے نماز عصر ادا کی، پھر کچھ دیر سمندر کی ہلکی ہلکی اٹھنے والی لہروں سے لطف لیتے رہے۔ جاوید اقبال صاحب نے بتایا کہ خورفکان کے ساحل پر پہلے سے بہت زیادہ انتظام اِدھر ایک دو سال کے عرصے میں کیا گیا ہے، اور بنے ہوئے حصے میں بھی خاصی توسیع ہوئی ہے، اردگرد عمارتیں بھی خاصی بنتی ہوئی دکھائی دیں، جاوید اقبال صاحب نے بتایا کہ چونکہ پہلے دبئی سے خورفکان پہنچنا اچھا بھلا دشوار تھا، اس کی وجہ سے خورفکان اپنی خوبصورتی کے باوجود اتنا بزنس نہیں کر پارہا تھا، لیکن اب خورفکان روڈ کی وجہ سے دبئی اور شارجہ دونوں جگہ سے یہاں پہنچنا بہت آسان ہوگیا ہے، لہذا مقیم اور سیاح دونوں کا ہجوم اس طرف بھی آئے گا، یہ تعمیرات، ساحل کی توسیع اور انتظام و انصرام بڑھانا در حقیقت اسی کی تیاری ہے۔ خورفکان بیچ کے بعد شہر کا ایک چکر لگایا، یونیورسٹی کے چوراہے پر خوبصورت سا پارک ہے اور بیٹھنے کا اچھا انتظام ہے، سورج ڈھل رہا تھا، ایسے میں وہ منظر اور حسین محسوس ہو رہا تھا۔
رَفیصہ ڈیم
خورفکان روڈ پر رفیصہ ڈیم ہے، آتے ہوئے ہم ادھر سے گذرے تھے؛ لیکن یہ طے پایا تھا کہ پہلے مسجد بدیہ کی زیارت کرنی ہے اور خورفکان بیچ پر ٹھہرنا ہے، پھر واپسی میں رفیصہ ڈیم دیکھا جائے گا، یہ 1980 ء میں بنایا گیا ہے، یہاں پر ایک چھوٹی سی جھیل ہے، جس میں بوٹنگ کی سہولت موجود ہے، پارک ہے، بچوں کے کھیلنے کا ایریا ہے، مسجد اور سوپر مارکیٹ ہے، اور جھیل کے کنارے بنے کچھ ریسٹورنٹ ہیں۔ واپسی میں ہم تھوڑی دیر یہاں ٹھہرے اور پارکنگ نہ ملنے کی وجہ سے اوپر سے ہی دیکھ کر اگلی منزل کے لئے روانہ ہوگئے۔
جنت کا ٹکڑا "وادئ شیص” میں
دبئی یا شارجہ سے خورفکان جاتے ہوئے خورفکان روڈ پر پہلے سرنگ "رَوغ” کے بعد دائیں طرف سے وادئ شیص جانے کا راستہ ہے، خورفکان روڈ سے چند کیلومیٹر کی مسافت ہے، لیکن راستہ تنگ اور بہت ہی زیادہ پر پیچ اور نشیب و فراز والا ہے۔
خورفکان روڈ سے نیچے اترتے ہی دو چار کیلومیٹر بعد پہاڑ سے متصل پارک زیر تعمیر ہے، (تازہ اطلاعات کے مطابق 15 اکتوبر 2020 ء کو یہ پارک زائرین کے لئے کھل گیا ہے)، اس سے کچھ آگے جانے پر پہاڑ میں کچھ اندر میٹھے پانی کا چشمہ ہے، سڑک سے لگا ہوا پہاڑ کا وہ حصہ بھی ہے، جہاں پتھروں سے شفاف پانی رستا ہے، وہ پانی اتنا شفاف ہے کہ شارجہ گورنمنٹ کا بورڈ لگا ہے کہ یہ پانی میٹھا اور پینے کے لائق ہے۔ اسی بل کھاتی پُر پیچ سڑک پر ایک دو کیلومیٹراور آگے چلیں، تو ایک راستہ اوپر کو جاتا دکھائی دیتا ہے، جس پر آگے چل کر اسپتال کے ہونے کا اشارہ ہے اور یہ بھی لکھا ہے کہ یہ خاص راستہ ہے، وہ راستہ شیص بستی میں آپ کو لے جائے گا، جو بستی تین طرف سے مکمل طور پر پہاڑوں کے بیچ ایسی گھری ہے کہ وہاں سے چاروں طرف دیکھنے پر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم پیالہ نما وادی میں ہیں۔ یہی ہماری منزل تھی۔ دوسرا راستہ جو نیچے سے گذرتا ہے، وہ آپ کو تھوڑی مسافت کے بعد وادئ شیص میں پہنچا دےگا، جو وادی اکثر طرف سے عمان کے علاقوں سے گھری ہے۔
قاری افضل اللہ صاحب کی شیص بستی
2012ء سے 2015 ء کے اوائل تک میں دوحہ ، قطر میں تھا، میرے ایک نہایت ہی محترم دوست قاری احمد اللہ صاحب وہاں کی ایک مسجد میں وزارت اوقاف کی طرف سے مقرر کردہ امام تھے اور اب بھی ہیں، نہایت ہی خوش الحان ہیں، آواز میں سوز ان کی تلاوت کے لطف کو اور دو بالا کر دیتا ہے، دو ڈھائی سالہ قطر کے دورانِ قیام میرا اُن کے ساتھ خوب گھومنا پھرنا ہوا اور ان کی میزبانی کا بھی خوب لطف اٹھایا۔
مجھے کئی سال قبل پتا چلا تھا کہ ان کے چھوٹے بھائی قاری افضل اللہ صاحب متحدہ عرب امارات کی کسی مسجد میں حکومت کی طرف سے امام نامزد کئے گئے ہیں، دبئی آمد کے بعد خیال ہوا کہ ان سے ملاقات ہونی چاہئے، چنانچہ قاری احمد اللہ صاحب سے ان کا نمبر لے کر اپنے دبئی میں قیام کی اطلاع دی، انہوں نے کہا کہ ملاقات تو ان شاء اللہ عزوجل ہوگی؛ لیکن کیا ہی بہتر ہوتا کہ آپ ہی ہماری طرف آتے۔
خورفکان کے لئے نکلتے ہوئے جب ان سے رابطہ ہوا، تو وہ اپنی فطری محبت کی وجہ سے مچل گئے کہ میرا گھر راستے ہی میں ہے، واپسی پر ضرور آنا ہے، اور رات کا کھانا ساتھ کھانا ہے، جاوید اقبال صاحب سے بھی ان کی بات ہوئی، پھر پتا چلا کہ وہ علاقہ تو جاوید اقبال صاحب کا دیکھا بھالا ہے، آخرش طے پایا کہ واپسی میں ان کے یہاں حاضری ہوگی اور عشائیہ بھی۔
جب ہم وادئ شیص کی اس بستی میں پہنچے تو دیکھا کہ ایک چھوٹی سی خوبصورت سی مسجد سے قاری افضل اللہ صاحب نکل رہے ہیں، غائبانہ تو ہم ایک دوسرے سے خوب واقف تھے؛ لیکن یہ بالمشافہ ہماری پہلی ملاقات تھی، محبت سے لپٹ گئے، پھر سب سے پہلے ہمارے لئے نماز مغرب کی ادائیگی کا انتظام کیا۔
میں یہ سمجھ رہا تھا کہ جیسے خلیجی ملکوں کا محلہ ہوتا ہے، ویسا ہی محلہ ہوگا، محلہ میں کہیں نہ کہیں سوپر مارکیٹ ہوگی، جہاں سے ان کے بچوں کے لئے کچھ تحفہ لے لوں گا۔ لیکن راستہ میں ایسا کچھ نظر نہیں آیا، نماز کے بعد باتوں باتوں میں پوچھا کہ کوئی سوپر مارکیٹ نہیں ہے؟ تو انہوں نے بتایا کہ یہ وادی کی ایک چھوٹی سی بستی ہے، یہاں کل آٹھ دس گھر ہیں، ایک گورنمنٹ کا سوپر مارکیٹ، ایک اسپتال، ایک پارک اور ایک چھوٹی سی مسجد ہے۔ خیر ہم سوپر مارکیٹ گئے اور بچیوں کے لئے کچھ تحفہ لیا۔
ہم لوگوں نے چائے پی، پھر عشاء کی اذان ہو گئی، خوبصورت سی وادی میں چھوٹی سی مسجد میں قاری افضل اللہ صاحب کی عمدہ تلاوت نے ایک سماں باندھ دیا، ایسا لگ رہا تھا، جیسے وقت ٹہر سا گیا ہو۔
عشاء کی نماز کے بعد قاری افضل اللہ صاحب کی تینوں چھوٹی بچیوں کے ساتھ سامنے والے پارک میں ہم جا بیٹھے، بچیاں جھولے وغیرہ پر کھیلنے لگیں اور ہم اس پیالہ نما وادی میں پوری آب و تاب سے چمکنے والے چاند کو دیکھنے لگے، ہوا اتنی فرحت بخش چل رہی تھی کہ لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں ۔
تصور کیجئے، چاروں طرف سے پہاڑ وں سے گھری پیالہ نما وادی، آپ کے ارد گرد چند گھر، اسپتال اور مسجد، آپ خود باغ میں، آسمان پر روشن چاند، ٹھنڈی ٹھنڈی مخمور کر دینے والی ہوائیں۔ سبحان اللہ! اتنی طمانینت اور سکون کا احساس ہو رہا تھا، جو بیان سے باہر ہے۔
قاری افضل اللہ صاحب نے بتایا کہ یہاں کے پر سکون ماحول کی وجہ سے بہت سارے لوگ کوشاں رہتے ہیں کہ مجھے شہر میں منتقل کر کے خود یہاں آجائیں؛ لیکن اب مجھے اس پرسکون ماحول اور یہاں کے اچھے لوگوں سے ایسا انس ہو گیا ہے کہ شارجہ وغیرہ منتقل ہونے کا خیال بھی نہیں آتا ہے، ویسے بھی بنیادی ساری سہولتیں یہاں ہیں اور خورفکان بڑا شہر زیادہ فاصلہ پر نہیں ہے۔
آدھے گھنٹے بعد پر تکلف عشائیہ تناول کیا، لذیذ کھانے کی تیاری پر قاری صاحب کی اہلیہ کا شکریہ ادا کیا، اس مختصر سے وقفے میں ان کی بچیاں ہم سے ایسے گھل مل گئی تھیں، جیسے کہ عرصہ سے شناسائی ہو، تھوڑی دیر مختلف موضوعات پر بات ہوتی رہی، پھر ہم قاری صاحب کی پرخلوص محبت، اس وادی میں گذارے ہوئے پرسکون لمحات کی یادوں کے ساتھ دبئی واپس روانہ ہو گئے۔ ہم دبئی پہنچ کر پام جمیرا دیکھنے گئے۔
پام جُمیرا
پام جمیرا مصنوعی جزیرہ ہے، جسے ” النخیل” نامی کمپنی نے دبئی سے متصل خلیج فارس میں بنایا ہے، یہ جزیرہ کھجور کی شکل کا ہے، جسے پانی کے دباؤ سے بچانے کے لئے ہلالی باندھ کے ذریعے گھیرا گیا ہے، دبئی سے ایک پُل کے ذریعے اس جزیرہ کو جوڑا گیا ہے، اور جزیرہ کو ہلالی باندھ سے زیر آب سرنگ کے ذریعے جوڑا گیا ہے، جڑ کی طرف سے "مُونُو ریل” چلتی ہے، جو بیچوں بیچ ہلالی باندھ کے درمیانی حصہ تک جاتی ہے، اس سے اگر آپ سفر کریں، تو بلندی کی وجہ سے صاف معلوم ہوگا کہ آپ کھجور کے درخت کی جڑ سے اس کی شاخ کی طرف جارہے ہیں اور بیچ میں ٹہنیاں ہیں۔
ٹہنیوں پر زیادہ تررہائشی عمارتیں ہیں، ہلالی باندھ پر سات بڑے ہوٹل ہیں، بالکل درمیان میں جہاں تک مونو ریل جاتی ہے اِٹلانٹس (Atlantis) ہوٹل ہے، جس میں پندرہ سو سے زیادہ رہائشی کمرے ہیں، یہ مشرق وسطی کا سب سے بڑا ہوٹل ہے، اس ہوٹل کا ایکیویریم اور لاس چیمبر Loss Chamber مشہور زمانہ چیزوں کی فہرست میں آتے ہیں اور قابل دید ہیں۔ ہم پام جمیرا دیکھنے کے بعد برج العرب ہوٹل کے صدر دروازہ کے پاس سے ہوتے ہوئے اپنی رہائش گاہ سیلیکون اوسیس واپس آگئے۔
برج العرب
خلیج فارس میں مصنوعی جزیرہ میں بنا ہوا ہے، جسے ایک پل کے ذریعے دبئی سے ملایا گیا ہے، یہ ہوٹل دنیا کے گنے چنے بلند ترین ہوٹلوں میں ایک ہے، اسے اس کی سروسز کے اعتبار سے سیون اسٹار ہوٹل کہا جاتا ہے، ایک عجیب بات یہ ہے کہ ایک طرف سے دیکھنے پر اس کی تعمیر صلیب کے جیسی لگتی ہے، جو بات دل میں چبھتی ہے۔ جاوید اقبال صاحب نے بتایا کہ کہیں سنا یا پڑھا تھا کہ اس کے عیسائی انجینئر نے تعمیر کے عرصہ بعد یہ بیان دیا تھا کہ عرب کے دل میں ہم نے صلیب کو گاڑ دیا ہے۔
وادی حُلو
ہفتہ کا دن بھی میری چھٹی کا دن تھا، دوپہر کے قریب جاوید اقبال عثمانی صاحب کے ساتھ نکل پڑے، پہلی منزل وادئ حلو تھی، شارجہ کی ریاست میں پہاڑی سلسلہ کے بیچ یہ چھوٹی سی خوبصورت وادی ہے، وادی میں ضروریات زندگی سے متعلق کچھ دوکانیں ہیں اور اسی کے سامنے اوپر پہاڑی پر چند مکانوں اور ایک مسجد پر مشتمل چھوٹا سا محلہ ہے، پہاڑی کے کنارے والے حصہ پر ایک مختصر سا پارک بنا ہوا ہے، پارک میں درخت کے سائے میں بیٹھ کر نیچے وادی کا منظر اور دور تک پھیلا ہوا پہاڑی سلسلہ نگاہوں کو بھلا معلوم ہوتا ہے ۔
کلباء
وادئ حلو سے ہم کلباء گئے، یہ شارجہ ریاست کا ایک شہر ہے، تعمیراتی کاموں سے یہ اندازہ ہوا کہ مستقبل قریب میں یہاں بھی سیاحتی نقطہ نظر سے بہت کچھ بن جائے گا۔
فجیرہ مسجد
کلباء کے بعد ہم متحدہ عرب امارات کی ریاست فجیرہ کے صدر مقام فجیرہ سیٹی گئے، دبئی کے مقابلے میں فجیرہ دبئی کا ایک حصہ جیسا محسوس ہو رہا تھا؛ البتہ وہاں کی ایک جامع مسجد جو چند سال ہوئے تعمیر ہوئی ہے، فن تعمیر کا شاہکار ہے، ترکی کی تاریخی مسجدوں کے طرز پر اسے بنایا گیا ہے؛ لیکن کورونا کی وجہ سے مسجد اپنی اصل رونق یعنی نمازیوں کے ہجوم کے نہ ہونے کا گلہ کر رہی تھی، نیز ایک افسوسناک بات یہ بھی دیکھنے میں آئی کے مسجد کی باؤنڈری کے اندر سیکیوریٹی، پارکنگ اور باہر کے حصہ کی دیکھ ریکھ اور باغبانی وغیرہ کے کاموں میں غیر مسلم افراد بھی تھے، مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مسجد کے احاطہ میں روزمرہ کی خدمات کے لئے مسلمان افراد ہی رکھا جاتا تو صحیح ہوتا۔
دبئی مال The Dubai Mall
فجیرہ شہر اور مسجد دیکھ کر ہم واپس دبئی آگئے، پھر دبئی مال دیکھنے گئے۔ یہ دنیا کی سب سے اونچی بلڈنگ برج خلیفہ سے متصل ہے۔
سیاحتی نقطہ نظر سے دبئی مال کو بھی دبئی کی خاص جگہوں میں شمار کیا جاتا ہے، یہ دنیا کے چند بڑے مالز میں آتا ہے، یہاں دنیا بھر کے مشہور برانڈز کی دوکانیں ہیں، دنیا بھر کے اور خاص کر ایشیاء کے متمول لوگوں کے لئے بہت سا پیسہ خرچ کرنے کا ایک اچھا پوائنٹ اور مرکز ہے۔
جاوید اقبال عثمانی صاحب سے میرا سوال تھا کہ ٹھیک ہے یہ بہت بڑا اور مشہور برانڈز کی دوکانوں والا مال ہے؛ ان دونوں باتوں کے علاوہ اور کیا خصوصیات اس کو دنیا کے، اور خاص کر خلیجی ممالک کے دوسرے مالز سے ممتاز کرتی ہے؟
انہوں نے بتایا کہ ایک تو یہ کہ اس میں صدر دروازہ کے سامنے ہی ایک ایکیویریم ہے، جس میں شارک اور دوسرے انواع و اقسام کی مچھلیاں ہیں، یہ دنیا کے سب سے بڑے ایکیویریم میں سے ایک ہے۔
دوسری یہ کہ اس مال میں مصنوعی برف کا ایک گراؤنڈ بنایا گیا ہے، جس میں دبئی جیسے گرم ملک میں اسکیٹنگ کا لطف اٹھایا جا سکتا ہے۔
تیسری یہ کہ ایک جگہ پر پچاس فٹ سے زیادہ چوڑائی میں مصنوعی آبشار بنایا گیا ، جس میں خاصے بلندی سے پانی نیچے گرتا ہے، اور انسانی مصنوعی ڈھانچوں کو اس آبشار کے ساتھ اس طرح جوڑا گیا ہے کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کہ لوگ اس آبشار میں چھلانگ لگا کر نیچے کی طرف آرہے ہیں۔
چوتھی خاص بات یہ ہے کہ مال کے ایک اندرونی ہال میں ایک سو پچاس پچپن ملین سال پرانا ڈائیناسور کا حقیقی ڈھانچہ رکھا ہوا ہے، جس کی دریافت 2008ء میں ہوئی تھی۔ پانچویں خاص بات یہ ہے کہ اس کے بیرونی صحن ۔ جو برج خلیفہ کا پیچھے والا حصہ ہے ۔ میں دنیا کا سب سے بڑا اور اونچا میوزیکل فاونٹین شو کا سیٹ اپ ہے، اور شام میں 6 بجے سے رات 11 بجے تک ہرآدھے گھنٹے کے وقفے پر پانچ سات منٹ کا یہ شو ہوتا ہے، جس میں گانوں کی دھنوں پر 250 میٹر سے زیادہ بلندی تک پانی کا رقص ہوتا ہے، جسے چند فٹ کے فاصلے سے کھڑے ہو کر دیکھا جا سکتا ہے۔
چھٹی خاص بات یہ ہے کہ میوزیکل فاونٹین والا صحن برج خلیفہ کے پچھلے حصے میں ہے، وہاں سے برج خلیفہ پر رات میں وقفہ وقفہ سے ہونے والے لائٹ شو کا نظارہ بہت ہی دیدہ زیب ہوتا ہے۔
ہم نے اِن چھ خاص چیزوں کو دیکھا اور ساتھ ہی ہم نے مال کا ایک چکر لگایا، کورونا کے اس دور میں بھی دنیوی حقیر مال و متاع کے خریدنے والوں کا ہجوم تھا، کاش ہم اس رغبت سے آخرت کے سودے کی خریدی پر لگ جائیں، تو اللہ عزوجل کی مائل بہ کرم ذات کیوں کر ہماری طرف نہ متوجہ ہو اور کیسے ہمیں اصلی کامیابی و کامرانی نہ عطا کرے۔
باربی کیو نیشن Barbeque nation البرشاء میں
اتوار کا دن ہمارے لئے ہفتہ کا پہلا تعلیمی دن ہوتا ہے، صبح سے سہ پہر تک اپنی تدریسی اور پڑھنے لکھنے کی مشغولیت میں رہا، ظہرانہ کھا کر کچھ دیر آرام کیا، شام کے چھ بجے شاداب ، جناب عامر انور کے ساتھ میری قیام گاہ پر پہنچے، پھر پہلے سے طے شدہ پروگرام کے مطابق البرشاء علاقہ میں واقع مشہور ریسٹورنٹ باربی کیو نیشن ہم لوگ پہنچے۔
یہ ایک خاص قسم کا ریسٹورینٹ ہے، جس کی دبئی میں کئی برانچیں ہیں، اس میں دو باتیں خاص ہیں: ایک تو یہ کہ کھانا کا افتتاحیہ Starter کوئلے پر ہلکے مصالحہ جات کے ساتھ بھنی ہوئی چیزیں ہوتی ہیں، سَرو کرنے کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ ٹیبل جو آپ نے آن لائن ریزرو کرا رکھا ہوتا ہے، اس کے درمیان میں دہکتا کوئلہ رکھا ہوا سیخ دان رکھا جاتا ہے، پھر بیرے آپ کے حسب خواہش کوئلے پر سیخ میں لگا کر بھنے مرغ، مچھلی، جھینگے، آلو، اناناس وغیرہ کے سیخ لا لا کر آپ کے ٹیبل پر رکھے سیخ دان میں لگاتے جاتے ہیں، آپ مختلف طرح کی چٹنیوں سے لگا کر کھاتے جائیں۔
پھر اصل کھانا Main course یعنی روٹی چاول، سبزیاں، گوشت، بریانی، سلاد، اچار وغیرہ جو بوفے سسٹم کے مطابق لگا ہوا ہوتا ہے، سے آپ حسب خواہش(اگر خواہش رہ جائے) تو خود سے لے کر کھالیں، آخری مرحلہ میٹھے، مٹھائی اور آئس کریم کا ہوتا ہے، ان میں سے بھی حسب خواہش لے کر کھا سکتے ہیں۔ دوسری خاص بات یہ ہے کہ ایک آدمی کا تقریبا اسّی درہم طے ہے، جو آپ کو ادا کرنا ہے، باقی اوپر مذکور انواع و اقسام کے کھانوں میں کوئی بھی آئٹم اپنی مرضی سے جتنا چاہیں، کھائیں۔
کوئلے پر بھنے ہوئے معمولی مصالحہ والے کھانے مجھے بہت مرغوب ہیں، اور واقعی یہاں بہت لذیذ بنے تھے، چنانچہ افتتاحیہ ہی میرے لئے اختتامیہ ثابت ہوا، بس شاداب کے کہنے پر دو چار لقمے بریانی چکھ لی، ہاں، میٹھے میں فالودہ نے کام و دہن کو بڑی لذت فراہم کی۔
کھانا تو لذیذ تھا ہی؛ لیکن خاص یہ بات بھی تھی کہ اسی بہانے پھر سے بچپن کے دو دوستوں کو ساتھ بیٹھنے اور گفتگو کا موقع ملا۔ ڈیڑھ گھنٹے ریسٹورینٹ میں کھاتے اور ساتھ بیٹھ کر گفتگو کرتے ہم نے گذارا، پھر ہم سب لوگ اپنی اپنی رہائش گاہوں پر واپس لوٹ گئے۔
برادر محترم ظفر عابدین ندوی سے ملاقات
کئی دن پہلے سے یہ طے تھا کہ 5 اکتوبر 2020ء، روز سوموار کو برادر محترم ظفر عابدین ندوی صاحب سے ملاقات ہونی ہے، اور عشائیہ بھی ان کے ساتھ تناول کرنا ہے۔ ظفر عابدین ندوی صاحب میرے مخدوم استاذ و مربی حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی زید مجدہ کے فرزند ارجمند ہیں،میرے لئے ان سے محبت کے لئے یہ نسبت ہی کافی تھی کہ وہ میرے مخدوم زادہ ہیں؛ لیکن اس کے ساتھ ساتھ اللہ عزوجل نے انہیں لائق و فائق بنایا ہے اور ذاتی جوہر سے بھی نوازا ہے۔
ظفر عابدین ندوی صاحب دار العلوم ندوة العلماء لکھنو کے فیض یافتہ ہیں، المعہد العالی الاسلامی حیدرآباد سے تکمیل افتاء کا کورس کیا ہے، پھر انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی ملیشیا سے اسلامک فائنانس میں ایم اے کر رکھا ہے، ایوفی سے سند یافتہ شریعہ ایڈوائزر ہیں، اور تقریباً پانچ سالوں سے دبئی اسلامک بینک میں شریعہ ریسرچ اینڈ سپورٹ ڈپارٹمنٹ میں سینئر آفیسر کے طور پر کام کر رہے ہیں، دعا ہے کہ اللہ عزوجل بڑے مشن "حرام طریقے سے مالی معاملات کو پھیر کر حلال طریقے سے کرنے پر پوری انسانیت اور خاص کر مسلمانوں کو لانے کی سعی” میں ان سے بڑا کام لے۔
المعہد العالی الاسلامی حیدرآباد میں 2007 کے کسی مہینہ سے 2010 تک میں تھا، اس پورے تین سالہ مدت میں حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی زید مجدہ کی خدمت میں رہنے کا اور سیکھنے کا بہت موقع ملا، اسی درمیان میں ظفر عابدین ندوی صاحب سے بھی خوب ملاقاتیں رہیں۔ اور اس وقت سے ہی ان سے انسیت تھی، تقریباً دس سالوں کے بعد اس ملاقات نے بہت ساری پرانی یادیں تازہ کر دیں۔
ان کے گھر پر عشائیہ کے بعد مَمزر بیچ والے فیلی کیفے میں زعفرانی چائے پی، اس بیچ اسلامی فائنانس کے مختلف پہلوؤں پر ان سے باتیں ہوتی رہیں، لوگوں کے اسلامی فائنانس کے مروجہ طریقوں پر کئے جانے والے اعتراضات پر بھی خوب گفتگو رہی، دو تین گھنٹے ساتھ گذار کر اور اسلامی فائنانس اور بینکاری پر ان سے کسی قدر مفصل گفتگو کر کے بڑا اچھا لگا۔
مخدومی حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی زید مجدہ سے ادھر کئی سالوں سے ملاقات نہیں ہوئی ہے، برادر محترم ظفر عابدین ندوی صاحب سے اور ان کی دونوں ننھی پریوں(اللہ ان کو اپنے حفظ و امان میں رکھے اور دنیا وآخرت کی کامیابی نصیب کرے) سے مل کر اُن میں استاذ محترم کی خوشبو محسوس ہوئی۔
حضرت مفتی ثمین اشرف زید مجدہ کے یہاں حاضری
دبئی آکرحضرت مفتی ثمین اشرف زید مجدہ سے ملاقات کیسے نہیں کرتا، ان کے خاندان سے ہماری پرانی شناسائی ہے، خود ان کی تصانیف خاص کر” تجلیات قدسیہ” سے استفادہ کیا ہے، نیز یہ کہ والد محترم حضرت مولانا محمد صفی الرحمن قاسمی دامت برکاتہم نے بھی تاکید کی تھی کہ یوں بھی ان سے ملنا چاہیے؛ لیکن ان کے بڑے بھائی اور ادارہ دعوة الحق کے مہتمم حضرت مولانا امین اشرف صاحب رحمہ اللہ کی حالیہ وفات پر میری طرف سے تعزیت کے لئے ضرور مل لینا، استاذ محترم مولانا انوار اللہ فلک صاحب نے بھی ان سے ملاقات کی تاکید کی تھی۔
حضرت مفتی ثمین اشرف صاحب ایک علمی خانوادہ کے فرد ہیں، مادھو پور سلطان پور ضلع مظفرپور سے ان کا تعلق ہے، دار العلوم دیوبند کے نوّے کے دہائی کے فاضل ہیں، اکابر سے تعلق رکھنے والے اور بڑے بڑے اللہ والوں سے وابستگی رکھنے والے ہیں، عرصہ دراز سے بَرجَمان دبئی میں "مصلی الحبتور "کے امام ہیں۔ کئی کتابوں کے مصنف و مؤلف ہیں۔
محترم دوست انجینئر محمدجامی صاحب(مقیم ینبع، مدینہ طیبہ) جو مولانا ثمین اشرف صاحب زید مجدہ کے بھانجہ ہیں، سے میری 6 اکتوبر 2020ء، روز منگل کو واٹس ایپ پیغامات کے ذریعے بات ہوئی اور ان سے کہا کہ اپنے ماموں محترم حضرت مولانا ثمین اشرف صاحب زید مجدہ کا موبائل نمبر ارسال فرما دیں؛ تاکہ ان سے رابطہ کر کے مل لوں، جامی بھائی نے نمبر مجھے ارسال کرنے کے ساتھ مولانا سے میری حاضری کی خواہش کے بارے میں بتا بھی دیا، 7 اکتوبر 2020ء، روز بدھ کو علی الصباح میں نے رابطہ کیا، حکم ہوا کہ عشائیہ پر میں حاضر ہو جاؤں۔
جاوید اقبال عثمانی صاحب کے ساتھ بَرجَمان میں واقع ان کے گھر پر پہنچا، ارادہ تھا کہ نماز عشاء ان کی امامت میں ادا کریں گے؛ لیکن ٹریفک نے تاخیر کرادیا۔ ملاقات ہوتے ہی پہلے فرمایا کہ سب سے پہلے نماز عشاء ادا کریں، تب تک میں کچھ کھانے کا انتظام کرتا ہوں، اہل خانہ بھائی صاحب کی وفات پر ہندوستان گئے ہیں، میں نے اپنے ہاتھوں سے کچھ بنایا ہے، کچھ باقی چیزیں بھی بنا لیتا ہوں۔ ہم لوگوں نے اصرار کیا کہ آپ زحمت نہ کریں، کچھ ریسٹورینٹ سے لے آتے ہیں؛ لیکن انہوں نے فرمایا کہ ناگزیر مجبوری کے بغیر میں ریسٹورینٹ سے کھانا لینا پسند نہیں کرتا ہوں، ان دنوں اپنے لئے بناتا ہی ہوں، آپ لوگوں کے لئے اسی میں تھوڑا اضافہ کر لیا ہے اور بس۔
خیر ہم لوگوں نے نماز ادا کی، پھر دسترخوان لگا، نہایت ہی لذیذ دال اور بکرے کے گوشت سے میزبانی کی۔ کھانے پر مختلف علمی موضوعات پر گفتگو ہوتی رہی، کھانے کے بعد بھی تقریباً گھنٹہ بھر لکھنے پڑھنے اور تصنیف و تالیف کے حوالے سے گفتگو ہوتی رہی، بعض کاموں کی طرف رہنمائی فرمائی کہ یہ پہلو تشنہ ہے، اس پر کام کریں، اپنی مطبوعات کو دکھایا، ان کی کئی کتابوں کو حضرت پیر ذوالفقار نقشبندی زید مجدہ نے چھاپا ہے، اس کے نسخے دکھائے، ختم نبوت پر جو تصنیفی کام اِن دنوں کررہے ہیں، اس کے خُطّہ کے بارے میں بتایا۔
جب صرف ڈیڑھ دو گھنٹے کی ملاقات کے بعد ان کے پاس سے آیا، تو سوچنے لگا کہ بہت کچھ انہوں نے بتایا، بعض کاموں کی طرف رہنمائی کی، بعض باتوں پر میری رائے جانی، یہ محسوس ہوا کہ واقعی صاحب تقوی اہل علم کے ساتھ مختصر نشست سے انسان تھوڑی ہی دیر میں جتنا کچھ، جان، سمجھ اور سیکھ لیتا ہے، اس کے خود سے حصول میں زمانہ لگ جاتا ہے۔
درخشاں فاطمہ ا پّی سے ملاقات
درخشاں فاطمہ اپی میری ماموں زاد بہن ہیں اور میرے عزیز بھائی اور دوست شاداب احمد کی بڑی بہن ہیں، شاداب سے تو اس سفر سے پہلے 2007 ء میں میری ملاقات ہوئی تھی؛ لیکن درخشاں اپی سے اس سے بھی ایک دو سال پہلے میری آخری ملاقات ہوئی تھی، 2007 ء میں شاداب اور اس کے امی ابو تو میری اپی ذکیہ صباح کی شادی میں آئے تھے، درخشاں اپی نہیں آسکی تھیں؛ کیوں کہ ایک ہفتہ بعد خود ان کی اپنی شادی تھی۔
میرے دبئی میں ہونے کی اطلاع انہیں شاداب کے ذریعے ہو چکی تھی، اور شاداب کو انہوں نے کہا تھا کہ مجھے لے کر ضرور ان کے گھر آئے۔ ساری مشغولیتوں کو دیکھتے ہوئے یہ طے پایا کہ 8 اکتوبر جمعرات کی شام ہم ان کے گھر جائیں اور عشائیہ کے بعد رات دیر گئے واپس ہوں۔
مغرب کے بعد ہم ان کے گھر پہنچے، درخشاں اپی مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوئیں، پندرہ سولہ سالوں کے بعد ملاقات ہوئی تھی۔ ان کے شوہر سمیع بھائی سے بھی ملاقات ہوئی، مظفرپور کے رہنے والے ہیں، اٹھارہ بیس سال سے ہوٹل مینجمنٹ سے متعلق دبئی کی ایک کمپنی میں ذمہ دار عہدے پر کام کر رہے ہیں، سنجیدہ اور سلجھے ہوئے انسان محسوس ہوئے۔
درخشاں اپی کی بیٹی لبنی اور بیٹے ابراہیم سے بھی خوب ملاقات رہی، وقت کیسے گذرتا ہے لبنی کو دیکھ کر اندازہ ہوا کہ میری پچھلی ملاقات میں درخشاں اپی کالج میں پڑھ رہیں تھیں اور اس پندرہ سال بعد کی ملاقات میں ان کی بیٹی ان کے قد کو پہنچ چکی ہے، ابراہیم میاں خوب بے تکلف ہیں، انہوں نے بہت کچھ بتایا اور سنایا۔
ناشتہ چائے، اور پھر خوب پر تکلف کھانا ہوا، اس بیچ میں اور کھانے کے بعد خاصی دیر تک میں، شاداب، درخشاں اپی، لبنی و ابراہیم، اور سمیع بھائی بیٹھے رہے، درخشاں اپی کی چچازاد بہن جو پچھلی ملاقات میں چھوٹی تھی، اب میری اہلیہ ہو چکی ہے، اس کے بارے میں، میرے بچوں کے بارے میں، گھر کے دوسرے اور بہت سارے لوگوں کے بارے میں اور اپنے اپنے بارے میں طرح طرح کی باتیں ہوتی رہیں، پھر رات دیر گئے وہ پوری فیملی کے ساتھ مجھے میری قیام گاہ پر چھوڑنے آئیں۔
بہن تو بس بہن ہوتی ہے، بھائیوں سے بے حد پیار کرنے والی اور بھائیوں کے لئے ہر خیر و برکت چاہنے والی، یہ چند گھنٹے درخشاں اپی ، ان کے شوہر اور بچوں کے ساتھ بہت اچھا گذرا اور یہ ملاقات ایک خوشگوار یاد بن کر حافظہ میں محفوظ ہوگئی، جس کی ایک ہلکی سی جھلک اس تحریر میں آگئی ہے۔
جبل جیس(بغیر نقطے کی سین کے ساتھ) پر
9 اکتوبر 2020ء جمعہ کا دن تھا، اس اعتبار سے تو یقینا بہت اداس دن تھا کہ اتنے بھرے پرے اور ہر طرف گہما گہمی والے شہر میں جمعہ کی نماز سے محرومی رہی، جمعہ تک اپنے پڑھنے لکھنے کے کاموں میں رہا، پھر بھاری دل کے ساتھ گھر ہی پر نماز ظہر ادا کی ۔
عصر سے کچھ پہلے جاوید اقبال عثمانی صاحب اور ان کے برادر نسبتی مامون صاحب کے ساتھ ہم متحدہ عرب امارات کے سب سے بلند پہاڑ جبل جیس کی چوٹی سر کرنے نکل پڑے، یہ راس الخیمہ ریاست میں ہے، اور اس پہاڑی سلسلہ کا حصہ ہے، جو مُسَندَم عمان تک پھیلا ہوا ہے، یہ پہاڑ متحدہ عرب امارات کا سب سے اونچا پہاڑ ہے، سطح سمندر سے اس کی بلندی 1900 میٹر سے کچھ زیادہ یعنی دو کیلومیٹر کے قریب ہے۔
دبئی سے نکل کر پہاڑ کے نیچے تک پہنچنے میں ایک سوا گھنٹہ لگتا ہے؛ لیکن نیچے سے اوپر چوٹی تک جانے میں پینتالیس منٹ سے زیادہ ہی لگتا ہے، چونکہ پہاڑ پر جانے والی سڑکیں پر پیچ ، بہت زیادہ گھماو لئے ہوئے ہوتی ہیں، ہم بالکل اوپر کی چوٹی سے ایک پڑاؤ نیچے تک گئے، بالکل اوپر جانے کے لئے بکنگ وغیرہ کی ضرورت ہوتی ہے، جو ہماری نہیں تھی، اوپر کا موسم بہت سہانا تھا، سرد ہوائیں جسم کو گدگدا رہی تھیں، دبئی کی گرمی اور رطوبت والے موسم سے نکل کر آنے کی وجہ سے اور بھی اچھا محسوس ہو رہا تھا۔ آدھے گھنٹے کے قریب یہاں ٹہر کر ہم شارجہ کی طرف نکل پڑے۔
جبل جیس کی کئی خاص باتیں ہیں: ایک تو یہ کہ متحدہ عرب امارات کا سب سے اونچا پہاڑ ہے، جس کی وجہ سے دبئی وغیرہ کے مقابلے میں جبل جیس کے اوپر کا درجۂ حرارت 10 ڈگری کم رہتا ہے، اور ٹھنڈک میں یہاں 5 ڈگری تک درجۂ حرارت درج کیا گیا ہے۔ لہذا یہاں مقیم لوگوں کے لئے چھٹی کے دن پرسکون لمحات گذارنے کے لئے یہ ایک اچھا مقام ہے۔ دوسری خاص بات یہ ہے کہ اوپر بلندی سے نیچے سے اوپر بل کھاتی ہوئی آنے والی سڑک کا نظارہ دلفریب محسوس ہوتا ہے، اسی طرح ارد گرد پھیلا ہوا پہاڑی سلسلہ بھی نہایت ہی خوبصورت منظر پیش کرتا ہے۔
تیسری بات یہ ہے کہ اس پر دنیا کی سب سے لمبی "زِپ لائن” ہے، یعنی وہ مخصوص میٹیریل سے بنی رسی جس پر مخصوص قسم کے ہُک لگا کر انسان اس ہک کے سہارے لٹک کر پھسلتے ہوئے جاتا ہے، 2832 میٹر کی زپ لائن ہے، جو پہاڑ کی چوٹی سے نیچے کی طرف اتنی مسافت پر بندھی ہے۔ تعمیرات کا کام جبل جیس پر خوب ہو رہا ہے، جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ مستقبل قریب میں یہاں ہوٹل، ریسٹورینٹ وغیرہ کی بھرمار ہوگی اور سیاحوں کو متوجہ کرنے والی اور نہ جانے کیا کیا چیزیں ہوں گی۔
مسجد شارجہ میں
جبل جیس کی طرف سے واپسی کے راستے میں دبئی کے حدود سے پہلے شارجہ میں نئی تعمیر شدہ نہایت ہی خوبصورت مسجدِ شارجہ ہے، مسجد کی اصل عمارت جتنے رقبے میں بنی ہے، اس کا صحن اس سے دس گنے زیادہ رقبے میں بناہے، جس میں آبشار ، بیٹھنے کی جگہ، پانی کے مصنوعی نالے وغیرہ ہیں، صحن اور مسجد کی بالکل باہر کی باؤنڈری کے درمیان بھی خاصی جگہ ہے۔
ہمارے یہاں پہنچنے سے چند منٹ قبل ہی نماز عشاء ہو چکی تھی، لہذا ہمیں نہ تو اندر ہی جانے دیا گیا اور نہ نماز ہی ادا کرنے دی گئی، سرسری طور پر مسجد کو باہر سے دیکھ کر ہم شارجہ شہر روانہ ہو گئے۔
شارجہ شہر میں
شارجہ شہر دبئی کے مقابلے میں خاص کر رہائش کے معاملے میں خاصا سستا ہے؛ اس لئے ہزاروں کی تعداد میں ایسے لوگ ہیں، جو کام دبئی میں کرتے ہیں اور رہتے شارجہ میں ہیں، اسی لئے صبح کے وقت شارجہ سے دبئی آنے کے راستہ میں اور شام کے وقت دبئی سے شارجہ جانے کے راستہ میں بہت ازدحام اور ٹریفک رہتا ہے۔
شارجہ کا ماحول بھی دبئی کے مقابلے میں زیادہ دینی اور اسلامی تہذیب و ثقافت لئے ہوئے ہے، چنانچہ بچوں کی تربیت کے نقطۂ نظر سے بھی سہولت کے باوجود بہت سے لوگ شارجہ میں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
بُحیرہ کورنیش پر
ایک چھوٹے سے لیکن صاف ستھرے ریسٹورینٹ میں "حمص اور فلافل مشکل” عشائیہ میں کھایا، کھانا سادہ لیکن بہت ہی لذیذ تھا، پھر شارجہ کے بحیرہ کورنیش پر ہم ٹہلے، قلب شہر میں واقع اس کورنیش پر بہت بھیڑ تھی، بڑی تعداد میں فیملیاں اور بچے بھی تھے، موسم میں رطوبت تھی اور جبل جیس جیسے پر فضا مقام سے آنے کی وجہ سے گرمی اور گھٹن کا احساس زیادہ ہی ہو رہا تھا، چنانچہ تھوڑی دیر ٹہل کر اور کورنیش پر بنی سفید براق مسجد کو دیکھ کر ہم گاڑی میں سوار ہوگئے اور مسجد فیصل کی طرف روانہ ہوئے۔
مسجد فیصل
کئی دہائی پہلے سعودی عرب نے شارجہ میں یہ مسجد تعمیر کرائی تھی، جس کا نام تو مسجد فیصل ہے؛ لیکن عوام میں سعودی مسجد کے نام سے بھی یہ مشہور ہے، کسی زمانہ میں یہ مسجد شارجہ کی سب سے بڑی مسجد تھی، اب بھی شارجہ کی چند بڑی مسجدوں میں اس کا شمار ہے، اس مسجد کی زیارت کے بعد ہم دبئی اپنی قیام گاہ سلیکون اوسیس روانہ ہوگئے۔
مولانا ہاشم ندوی صاحب اور مرکز جمعہ ماجد للثقافہ و التراث
10 اکتوبر 2020ء کو ہفتہ کا دن تھا، جو کہ میرے ہفتہ واری تعطیل کا دوسرا دن ہوتا ہے، بعض ناگزیر ضرورتوں کے پیش نظر کئی بار پروگرام میں تبدیلی کے بعد یہ متوقع تھا کہ آج صبح نو بجے مرکز جمعہ ماجد للثقافہ و التراث حاضری ہوگی، پھر مولانا ہاشم ندوی صاحب کے گھر حاضری ہوگی؛ لیکن انٹرنیٹ کنکشن کی خرابی کی وجہ سے بروقت مولانا ہاشم ندوی صاحب سے رابطہ نہیں ہوسکا تو ان سے ملاقات کا پروگرام رہ گیا، جس کا مجھے بہت قلق ہے۔
مولانا ہاشم ندوی صاحب ہندوستان کے زرخیز ساحلی شہر بھٹکل کے رہنے والے ہیں، میں نے اپنے دوست برادر محترم شافع ندوی بھٹکلی سے اور بھٹکل اور اس کے اطراف کے اپنے کئی عزیز شاگردوں سے مولانا کی خوب تعریف سنی ہے، ملاقات ہوتی تو اور جوہر کھلتے، اللہ عزوجل مولانا ہاشم ندوی صاحب کو اور بھی مقبول بنائے اور وہ یوں ہی لوگوں کے دل میں بستے رہیں، میں نے "مولانا ہاشم ندوی صاحب اور مرکز جمعہ ماجد للثقافہ و التراث” کا عنوان بالقصد اس لئے لگایا ہے کہ اپنے جاننے والے جس کسی سے بھی میں نے یہ بات کی کہ مرکز جمعہ ماجد للثقافہ و التراث کو دیکھنا چاہتا ہوں، اس بابت تعاون اور بہتر رہنمائی کن سے مل سکے گی، جواب میں سب نے مولانا ہاشم ندوی صاحب کا نام اور رابطہ نمبر بھیج دیا۔
مرکز جمعہ ماجد للثقافہ و التراث کو سادہ سے انداز میں ایسے سمجھا جا سکتا ہے کہ یہ دبئی میں جدید سہولتوں سے لیس ایک بہت ہی عمدہ لائبریری ہے، جہاں مستند مآخذ و مراجع کی اچھی تعداد ہے، اور ان سے استفادہ کی بھی مکمل سہولت فراہم ہے، جو علم و تحقیق سے وابستہ افراد کے لئے ہفت اقلیم کی دولت سے کسی طرح کم نہیں۔ جمعہ ماجد بہت بڑا تجارتی گروپ ہے، اللہ عزوجل نے اس گروپ کو میرے علم کے مطابق دو بڑی علمی خدمت کی سعادت بھی نصیب کر رکھی ہے: ایک مرکز جمعہ ماجد للثقافہ و التراث کی صورت میں اور دوسری کلیة الدراسات الإسلامية واللغة العربية کی شکل میں ۔
مولانا عبد المتین منیری صاحب
دبئی میں جب بھٹکل اور اہل بھٹکل کا ذکر آئے اور مولانا عبد المتین منیری صاحب کا ذکر نہ آئے، ایسا ممکن نہیں ہے، مولانا با ذوق عالم ہیں، علم و تحقیق ہی اوڑھنا بچھونا ہے، اکابر کے علمی ورثہ کو ڈیجیٹل طور پر محفوظ کرنا اور ہم طالب علموں تک اس کو پہنچانے کی انتھک کوشش کرنا ان کا محبوب ترین مشغلہ ہے، جب میں جامعہ اسلامیہ کیرالا میں فقہ و اصول فقہ کے استاذ مساعد اور صدر شعبہ کے طور پر 2011 ، 2012 ء میں خدمت انجام دے رہا تھا، تب مولانا منیری صاحب برادر محترم شافع ندوی بھٹکلی کی کوششوں سے تشریف لائے تھے اور اپنے محبوب ترین مشغلہ سے متعلق بڑا ہی پر مغز توسیعی خطبہ دیا تھا ۔
مولانا منیری صاحب سے بھی دبئی کے دوران قیام رابطہ کیا تھا کہ آپ جب فرمائیں آفس یا گھر پر آدھے گھنٹے کے لئے ہی سہی حاضر ہوجاؤں۔ مولانا نے فرمایا کہ آپ جب ظفر عابدین ندوی صاحب کے یہاں آئیں، تو مجھے آگاہ کریں، میں خود آجاؤں گا، پھر کچھ ایسی صورت حال پیدا ہوتی رہی کہ مولانا منیری صاحب سے ملاقات نہ ہو سکی، دبئی کے اس سفر میں ان سے بھی ملاقات نہ ہونے کا بڑا قلق ہے۔
زُہیر ازہر اعظمی صاحب کی تشریف آوری
آج خوشی کی بات یہ ہوئی کہ زہیر بھائی مجھ سے ملنے کو میری قیام گاہ پر تشریف لائے، وہ میرے نہایت ہی محترم دوست ہیں، علم دوست،متواضع، مہمان نواز اور نرم طبیعت کے انسان ہیں، دارالعلوم دیوبند کے 2005ء کے فاضل ہیں، محدث کبیر حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمی رحمہ اللہ کے پَڑ پوتے ہیں، شارجہ میں مقیم ہیں، دبئی میں ایک تعلیمی ادارہ سے وابستہ ہیں، دو تین گھنٹے ساتھ رہے، مختلف امور پر بات چیت رہی، 2003 ء کے بعد ان سے اس ملاقات پر اور ان کی محبتوں پر بہت اچھا لگا۔
قرآنی پارک (حديقة قرآنية)
نماز عصر کے بعد آج ہم قرآنی پارک گئے، دبئی میں جن چیزوں کو دیکھنے کا خصوصی اشتیاق تھا، ان میں نمایاں قرآنی پارک تھا۔
قرآنی پارک کے پیچھے نظریہ یہ ہے کہ قرآن کریم میں جن جن نباتات ، پھلوں، پھولوں اور درختوں کا ذکر آیا ہے، ان سب کو ایک بڑا باغ بنا کر اس میں حقیقی اور زندہ صورت میں جمع کردیا جائے۔ یہ ایک نہایت ہی اچھا خیال تھا، جو فطری طور پر عام مسلمانوں کے لئے بھی دلچسپی کی چیز ہوتی، اور علوم اسلامی خاص کر قرآنیات سے شغف رکھنےوالوں کے لئے نہایت ہی خوبصورت تحفہ ہوتا؛ لیکن یہ بھی ملحوظ رہے کہ یہ کام آسان نہیں تھا؛ کیوں کہ مختلف طرح کے نباتات، پھل، پھول اور درختوں کے لئے مختلف طرح کی آب و ہوا اور مٹی کی ضرورت ہوتی ہے؛ لیکن دبئی حکومت نے اس چیلنج کو بہ حسن و خوبی پورا کیا اور ہر پھل، پھول ، اور درخت کے لئے اس کے مناسب مٹی فراہم کی اور مناسب درجہ حرارت وغیرہ کے لئے بھی مصنوعی انتظام کیا، کئی سالوں کی محنت سے ماشاءاللہ یہ پراجیکٹ پورا ہوا، اور آج ہمارے سامنے قرآنی پارک کے نام سے ایک ایسا باغ ہے، جس میں قرآن کریم کے ساتھ احادیث میں ذکر شدہ نباتات، پھل ، پھول اور درخت حقیقی صورت میں موجود ہیں۔
قرآنی پارک کے تین حصے ہیں:
پہلا حصہ وسیع و عریض کئی ایکڑ پر پھیلا ہوا کھلا پارک ہے، جس کے بیچ جدید تیکنیک سے بنے راستے ہیں، آپ ان راستوں سے پارک کے ہر طرف جا سکتے ہیں، درمیان میں جگہ جگہ بیٹھنے کے بھی انتظامات ہیں، اس وسیع و عریض کھلے پارک میں آپ کو راستے کے کنارے تختیاں لگی ہوئی ملیں گی، جو آپ کو بتائیں گی کہ اس ایریا میں قرآن و سنت میں مذکور کون سے پودے اور درخت لگائے گئے ہیں، اگر آپ توجہ سے پورے باغ کا چکر لگائیں، تو مختلف ایریا میں آپ کو قرآن و سنت میں موجود پھل، پھول، درخت اور پودے زندہ اور حقیقی حالت میں دکھائی دیں گے۔
دوسرا حصہ شیشے سے بنا ایک گھر ہے، جس کا نام بھی "البيت الزجاجي” یعنی شیشہ کا گھر ہے، یہ تقریباً چالیس پچاس فٹ چوڑا اور ڈیڑھ سو فٹ لمبا ہوگا، اس مختصر سی جگہ میں قرآن و سنت میں مذکور سارے پودے، پھل اور درخت جو وسیع و عریض کھلے پارک میں ہیں، کو بطور نمونہ کے لگایا گیا ہے، یہاں بھی سارے پودے، درخت اور پھل پھول حقیقی ہیں، اس میں جانے کا چھ سات درہم کا ٹکٹ ہے۔
تیسرا حصہ مصنوعی کہف یعنی غار کا ہے، باہر سے ہی محسوس ہوتا ہے کہ یہ غاروں والا پہاڑ ہے، ٹکٹ لے کر اندر جائیں، تو مصنوعی پہاڑ و غار حقیقی محسوس ہوتے ہیں، اور اندر پراجیکٹر کی مدد سے انبیاء علیہم السلام کے بعض معجزوں دکھایا جاتا ہے۔
قرآنی پارک میں ایک اور دلچسپ چیز ہے، وہ حضرت موسی علیہ الصلوۃ والسلام اور ان کی قوم کے لئے حکم خداوندی سے سمندر کے راستہ دے دینے کی جھلک ہے، پارک کے درمیان میں دکھائی دیا کہ دو بڑے بڑے حوض پہلو بہ پہلو بنے ہیں اور بیچ میں تین چار فٹ چوڑا خشک حصہ ہے، جس میں بھی کنارے کنارے حوض کے اوپر کی طرف سے پانی چھلکتا رہتا ہے، جاوید اقبال عثمانی صاحب سے میں نے پوچھا کہ یہ کیا ہے، کہنے لگے بیچ کے خشک حصہ میں چلتے ہیں، پھر شاید آپ سمجھ جائیں، واقعی جب ہم اس خشک حصہ سے گذر رہے تھے، تو دونوں طرف دیکھنے پر احساس ہوا کہ ایسا لگ رہا ہے کہ ہم پانی کے بیچوں بیچ چل رہے ہیں، پھر باہر نکل کر حوض کے ایک کنارے کی طرف کھڑے ہوکر لوگوں کو درمیان سے آتے جاتے دیکھا تو واقعی ایک خاکہ بننے لگا کہ کیسے حضرت موسی علیہ الصلوۃ والسلام اپنی قوم کو بحرقلزم سے لے کر نکلے ہوں گے۔
الحمد للہ قرآنی پارک کی اس سیاحت نے دل کو باغ باغ کردیا، اور قرآن میں ذکر اشیاء کو دیکھ کر بہت اچھا لگا۔
ابن بطوطہ مال کی سیر
ابن بطوطہ مشہور سیاح گذرے ہیں، دبئی کے آخری سرے پر ایک نہایت ہی خوبصورت سا مال ان کے نام پر بنا ہے، کسی خیال یا نظریہ پر مبنی (Theme based) دنیا کے چند بڑے گنے چنے مال میں سے ایک ہے، اس میں ہندوستان، چین، ایران، مصر، تیونس اور اندلس کے نام سے مختلف حصے ہیں، چونکہ ابن بطوطہ نے ان سارے ممالک کی سیاحت کی تھی، جس نام سے جو حصہ ہے، اس میں اس ملک کے کلچر، تہذیب اور وہاں کا تعمیری رنگ و آہنگ نمایاں طور پر محسوس ہوتا ہے، ہندوستان کے حصہ میں آئیں، تو ایسا لگے گا کہ آپ مغلوں کے دور کے ہندوستان میں ہیں، مصر کے حصہ میں جائیں ، تو اپنے آپ کو فراعنہ کے دور میں محسوس کریں گے، ایسے ہی اور بھی حصے ہیں، پھر ہر حصے میں اس ملک کی کوئی خاص ایجاد ہو، تو اس کا پرانا سے پرانا ماڈل وہاں رکھا گیا ہے، جس کے ساتھ پوری تفصیلات بھی لکھی ہیں، چنانچہ کہیں آپ کو ہوائی جہاز کے ابتدائی ماڈل کے ساتھ عباس بن فرناناس لٹکے ہوئے ملیں گے، تو کہیں بہت ہی خاص قسم کی گھڑی دکھائی دے گی، تو کہیں ابتدائی آلات ہندسہ۔
بہ حیثیت مجموعی یہ کہا جا سکتا ہے کہ ابن بطوطہ مال کی سیر سے آپ ایک گھنٹہ میں کئی کلچر کی جھلک دیکھ لیں گے، نیز بہت ساری مفید معلومات بھی آپ کو حاصل ہو جائے گی۔
زلیخا ہاسپیٹل
14 اکتوبر 2020ء کو شام میں میری سعودی عرب روانگی تھی، جس کے لئے کوویڈ-19 کا آر ٹی پی سی آر (مخصوص قسم کا ٹیسٹ) کرانا لازمی تھا، اور جس کا نتیجہ عام طور سے چوبیس گھنٹوں میں ملتا ہے، چنانچہ اس مقصد سے 13 اکتوبر 2020ء کو نو بجے صبح بھائی عامر انور کے ساتھ ان کے ہاسپیٹل ” زلیخا ہاسپیٹل” گئے، ریسپشن پر موجود خاتون نے پوچھا کہ آپ پہلی مرتبہ اس ہاسپیٹل میں آئے ہیں؟ میں نے کہا: جی، ایک فارم انہوں نے بھرنے کو دیا ، اسے بھر کر دینے کے بعد جھٹ پٹ انہوں نے کارڈ بنا دیا اور کہنے لگی کہ آئندہ کبھی آنا ہو، تو بس کارڈ دکھائیں گے، میں نے کہا: ایک تو یہ کہ میں متحدہ عرب امارات میں نہیں رہتا ہوں، دوسرے یہ کہ اللہ نہ کرے کہ کبھی بھی آپ کے اس اسپتال میں یا کہیں اور جانا پڑے، اللہ عزوجل صحت و عافیت کے ساتھ رکھے اور ہر مرض اور بیماری سے محفوظ رکھے۔
خیر، ٹیسٹ کی رقم جمع کرا کر ٹیسٹ کے سیکشن میں گئے، بھائی عامر انور کی وجہ سے پندرہ منٹ میں اس مرحلہ سے فارغ ہوئے، پھر قریب ہی کی بلڈنگ میں واقع ان کی رہائش گاہ پر گئے، وہیں بیٹھ کر ایک آن لائن کلاس لی، پھر ان کے ساتھ ایک ہندوستانی ریسٹورینٹ میں سادہ مگر لذیذ کھانا کھایا، پھر اپنی رہائش گاہ پر واپس آگیا۔
غضیبو ریسٹورینٹ(Gazebo Restaurant)
آج 13 اکتوبر 2020ء، روز منگل دبئی میں میرا آخری دن تھا، شاداب احمد کا اصرار تھا کہ ہماری یہ ملاقات 13 سالوں کے بعد ہوئی ہے، دعا ہے کہ اب جلدی جلدی ملاقات ہوتی رہے؛ لیکن پتا نہیں کہ اگلی ملاقات کب ہو، لہذا آج رات مردیف سیٹی سینٹر میں موجود مشہور ریسٹورینٹ "غضیبو” میں ساتھ کھانا کھائیں گے، وہاں کا ماحول بھی پرسکون ہے، ساتھ کچھ دیر بیٹھیں گے، ان کے محبت بھرے اصرار کو میں ٹھکرا نہیں سکا، عشاء کے بعد جاوید اقبال عثمانی صاحب کے ساتھ ہم دونوں غضیبو پہنچے، واقعی صاف ستھرا اور پر سکون ماحول تھا، شاداب احمد نے تکا، قورمہ، لہسنی روٹی اور بریانی سے ہماری تواضع کی۔
اس بیچ مختلف موضوعات پر گفتگو ہوتی رہی، شاداب احمد اور جاوید اقبال عثمانی صاحب کو میں نے کہا کہ میں ایسی جگہ (ریاست مدینہ میں ) مقیم ہوں، جہاں پہنچنا ہر مسلمان کی آرزو ہوتی ہے، میری طرف سے آپ دونوں حضرات کو دعوت ہے، جاوید اقبال صاحب نے کہا کہ ان شاء اللہ عزوجل جلد ہی حاضری ہوگی، شاداب احمد نے کہا کہ ان شاء اللہ عزوجل جنوری 2021ء میں حاضری کی پوری کوشش رہے گی، تاکہ عمرہ اور روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر حاضری کی سعادت نصیب ہو جائے، میں نے وضاحت کی کہ میرے شہر ینبع میں دبئی اور شارجہ سے براہ راست پروازیں آتی ہیں اور عمرہ کے ویزے پر بھی ینبع آیا جا سکتا ہے؛ کیوں کہ وہ ریاست مدینہ کا شہر ہے، اللہ کرے کہ تب تک کورونا کے معاملات قابو میں آجائیں، شاداب احمد آئے اور ساتھ میں عمرہ اور مدینہ منورہ زیارت کی سعادت نصیب ہو۔
دنیا کی ملاقات تو بچھڑنے ہی کے لئے ہوتی ہے، ریسٹورینٹ سے نکلنے کے بعد دیر تک گاڑی میں ساتھ بیٹھے رہے، پھر ایک دوسرے سے گلے ملے اور یہ سوچتے ہوئے بچھڑ گئے کہ پتا نہیں پھر کب ملاقات ہو، شاداب! میرے بھائی ، اللہ عزوجل آپ کو ہمیشہ خوش رکھے، دنیا و وآخرت کی کامیابی نصیب کرے۔
متحدہ عرب امارات سے روانگی
14 اکتوبر 2020ء کو صبح سے سہ پہر تک حسب معمول تدریسی اور پڑھنے لکھنے کی مشغولیت میں رہا، اسی بیچ بھائی عامر انور نے کوویڈ-19 کے ٹیسٹ کی رپورٹ لا کر دی، جو ماشاءاللہ منفی تھی، پھر سفر کی تیاری کی، نماز مغرب کے بعد دبئی انٹرنیشنل ایرپورٹ کے لئے جاوید اقبال عثمانی صاحب کے ساتھ روانہ ہوگیا، اتنے عرصہ ساتھ رہنے کی وجہ سے فطری طور پر باہم انس بڑھ گیا تھا، جاوید اقبال صاحب اپنی فطری تواضع کی وجہ سے بار بار یہ کہہ رہے تھے کہ آفس کی مشغولیت کی وجہ سے اکرام اور ضیافت دونوں کا حق ادا نہیں ہو سکا، میں بار بار عرض کر رہا تھا کہ ایسا نہیں ہے، جو محبت کے انمٹ نقوش اور خوبصورت یادیں اپنے سینے میں لے کر جارہا ہوں، وہ ہمیشہ لوح دل پر رہیں گی۔
پینتالیس منٹ کی مسافت طے کر کے ہم ایرپورٹ پہنچے، ایک دوسرے سے دعاؤں کی درخواست کی اور اپنی اپنی منزل کی طرف چل پڑے۔
اس سفر میں متحدہ عرب امارات کی تمام ریاستوں میں جانے اور ان کو دیکھنے کا اتفاق ہوا، صرف ابوظہبی سیٹی جانے کا اتفاق نہیں ہوا، اس کی سب سے بنیادی وجہ یہ تھی کہ کورونا کی وجہ سے ان دنوں وہاں آمد و رفت پر خاصی سختی ہے، کوویڈ- 19 کا ٹیسٹ خاص وہاں کے سفر کے لئے کرانا ہوتا ہے، سفر کے پندرہ بیس دنوں میں کئی بار کوویڈ ٹیسٹ کرا چکا تھا، طبیعت آمادہ ہی نہیں ہوئی کہ محض وہاں جانے کے لئے پھر سے کرائیں اور ناک یا منہ میں پائپ ڈالنے کے کسی قدر تکلیف دہ عمل سے گذریں۔ اللہ نے چاہا تو پھر کسی اور موقع پر یہاں آنا ہوگا تو متحدہ عرب میں امارات میں جن لوگوں سے ملاقات نہیں ہو پائی، ان سے ملاقات ہوگی ، ابوظہبی دیکھ لیں گے، اس کے علاوہ اور بھی دیکھنے والی چیزوں کو دیکھ لیں گے۔
جدہ میں انس عباد صاحب اور نوشاد صاحب
دبئی سے ریاض، پھر ریاض سے دوسری فلائٹ سے 15 اکتوبر 2020ء، روز جمعرات کی صبح ہم جدہ پہنچے، مولانا انس عباد صاحب اور مولانا نوشاد صاحب جدہ ایرپورٹ پر موجود تھے۔ یہ دونوں حضرات مدرسہ اسلامیہ شکرپور بھروارہ کے میرے ساتھی ہیں، مجھ سے ایک دو سال سینئر تھے، کسب حلال کی جستجو نے انہیں جدہ پہنچا دیا ہے، دونوں متحرک و فعال ہیں، مجھ سے بڑی محبت اور شفقت کا معاملہ فرماتے ہیں، میں بھی ان حضرات کے تئیں اپنے دل میں بہت ہی محبت و احترام پاتا ہوں، چناچہ جدہ حاضری پر ان دونوں حضرات کو زحمت دیتا رہتا ہوں اور وہ خندہ پیشانی سے برداشت کرتے ہیں۔
ان دونوں حضرات کے ساتھ ناشتہ کر کے میں انس عباد صاحب کی رہائش گاہ پر آگیا، سہ پہر تک طلبہ کو پڑھایا اور بیچ کے وقفہ میں کچھ آرام کیا، پھر عصر کے وقت نوشاد صاحب بھی آگئے ، پھر ہم لوگ باہر نکلے، ساتھ رہے، عشاء کے قریب میں ینبع کے لئے روانہ ہوگیا، بارہ ساڑھے بارہ بجے بفضل الہی خیریت و عافیت سے ینبع اپنی رہائش گاہ پر پہنچ گیا ۔ الحمد لله على سلامۃ الوصول. اس طرح تقریباً دو ہفتوں کا متحدہ عرب امارات کا سفر، لوگوں کے ساتھ ملاقاتوں اور بہت سارے تجربات و مشاہدات کے ساتھ مکمل ہوا۔ فالحمد لله اولا و آخرا. وصلى الله على سيدنا ونبينا محمد وعلى آله وصحبه وسلم.