13مئی کو الیکشن کمیشن نے کرناٹک کے ووٹرس کا جو فیصلہ سنایا اسے 11 مئی کے سپریم کورٹ کے دو فیصلوں سے جوڑ کر دیکھا جائے تو ایک ہی نتیجہ نکلتا ہے: ’’ناانصافی اور ظلم و زیادتی کی بنیاد پر قائم ہونے والی سلطنتوں کا انجام آخرکار مِٹ جانے کے سوا کچھ نہیں ہوتا‘‘۔ ایسا لگتا ہے کہ اس کا آغاز ہوچکا ہے۔
سپریم کورٹ کے پانچ ججوں کی آئینی بنچ نے جو دو بہت اہم فیصلے سنائے وہ دونوں فیصلے خود چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ نے ہی لکھے اور دونوں فیصلے اتفاق رائے سے لکھے گئے۔ پہلے فیصلہ میں دہلی کی منتخب حکومت کو وہ سارے اختیارات لوٹا دئے گئے جن پر لیفٹننٹ گورنر (ایل جی) کا تصرف تھا۔
دوسرا مقدمہ مہاراشٹر میں شوسینا کی قیادت والی اس حکومت سے متعلق تھا جسے شوسینا کے باغی ممبران اسمبلی نے بی جے پی کی مدد سے گرادیا تھا۔ ہرچند کہ یہ دونوں مقدمے دو الگ الگ ریاستوں سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے فیصلوں کی ظاہری نوعیت ’ریاستی‘ ہی ہے تاہم ان فیصلوں کے مختلف النوع سیاسی اثرات دہلی اور مہاراشٹرسے باہر نکل کر قومی سطح پر مرتب ہوسکتے ہیں۔
اس وقت ہندوستان میں 28 ریاستیں اور 8 یونین ٹیریٹریز ہیں۔ یونین ٹیریٹریز کو مرکز کے زیر انتظام خطے بھی کہا جاتا رہا ہے۔ صرف دو خطے دہلی اور پڈوچیری ایسے ہیں جہاں ان کی اپنی اسمبلیاں ہیں اور الیکشن ہوتے ہیں۔ اب ان میں جموں اور کشمیر کا بھی اضافہ ہوگیا ہے تاہم وہاں دفعہ 370 کے خاتمہ کے بعد ابھی تک الیکشن نہیں ہوئے ہیں۔
دہلی کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ وہ قومی راجدھانی میں واقع ہے۔ اسی لئے اسے نیشنل کیپٹل ٹیریٹری آف دہلی (این سی ٹی ڈی) کہا جاتا ہے۔یہاں آزادی کے بعد جب سے دوبارہ اسمبلی وجود میں آئی ہے تین محکموں کو چھوڑ کر باقی تمام اختیارات دہلی کی منتخب حکومت کے ہی پاس رہے ہیں۔ پولیس‘ لینڈ اور پبلک آرڈر لیفٹننٹ گورنر کے توسط سے مرکزی وزارت داخلہ کے پاس ہیں۔ یہاں ایک بار بی جے پی کی اور تین بار کانگریس کی حکومت رہی ہے۔اس کے بعد سے مسلسل عام آدمی پارٹی (آپ) کی حکومت چلی آرہی ہے۔
بی جے پی کے مدن لال کھرانا اور کانگریس کی شیلا دکشت کے زمانے میں کبھی وزیر اعلی اور لیفٹننٹ گورنر کے درمیان ایسی کوئی چشمک دیکھنے اور سننے میں نہیں آئی۔ اندرونی طور پر کچھ تو ہوتا ہوگا لیکن کبھی ایسا نہیں ہوا کہ وزیر اعلی اور ایل جی کی لڑائی پہلے ’سڑکوں‘ پر اور پھر عدالت تک پہنچ گئی ہو۔
یہاں تک کہ جب دہلی میں بی جے پی کی اور مرکز میں کانگریس کی حکومت تھی تو بی جے پی وعدہ کرتی تھی کہ اگر مرکز میں بھی ہماری حکومت آگئی تو ہم دہلی کو مکمل ریاست کا درجہ دیدیں گے۔ اسی طرح جب دہلی میں کانگریس کی اور مرکز میں بی جے پی کی حکومت تھی تو کانگریس نے وعدہ کیا کہ اگر مرکز میں بھی ہماری حکومت آگئی تو ہم دہلی کو مکمل ریاست کا درجہ دیدیں گے۔لیکن کسی نے بھی اپنا وعدہ پورا نہیں کیا۔اس وقت دہلی میں جو مسائل درپیش ہیں وہ اسی وجہ سے ہیں کہ دہلی کو مکمل ریاست کا درجہ نہیں دیا گیا۔
لیکن سپریم کورٹ نے اب واضح کردیا ہے کہ دوسرے خطوں سے الگ دہلی کا ایک اہم مقام ہے۔ اور یہ کہ لیفٹننٹ گورنر کو اپنی حدود میں رہ کر ہی کام کرنا چاہیے۔ ایل جی کو یہ ہدایت بھی دی گئی ہے کہ وہ دہلی کی منتخب حکومت کے ذریعہ بھیجی گئی تجاویز پر عمل کرانے کے پابند ہیں۔
عام آدمی پارٹی کی پہلی منتخب حکومت دسمبر 2013 میں بنی تھی جب اس نے پہلی بار الیکشن لڑکر 70 میں سے 28 سیٹیں جیت لی تھیں۔ کانگریس کے 8بممبران اسمبلی نے اسے باہر سے حمایت دی تھی لیکن 49 دنوں میں ہی حمایت واپس لے کر سرکار کو گرادیا تھا۔
اس کے بعد دوسری بار اس پارٹی کو 70 میں سے 67 سیٹیں حاصل ہوئیں اور فروری 2015 میں دوسری بار اروند کجریوال نے حلف لیا۔ انہیں ایسی حالت میں اتنی نشستیں حاصل ہوئیں کہ جب مرکز میں بھاری اکثریت کے ساتھ بی جے پی کی حکومت تھی۔ان کے خلاف بی جے پی کے تمام بڑے بڑے لیڈروں نے انتخابی مہم چلائی۔ یہاں تک کہ خود وزیر اعظم نریندر مودی نے دہلی میں چار بڑی ریلیاں کی تھیں۔ لیکن اس کے باوجود بی جے پی کو محض تین سیٹیں ہی حاصل ہوسکیں۔
اروند کجریوال نے بھاری اکثریت کے ساتھ حکومت تو بنالی تھی لیکن جس طرح انہوں نے بی جے پی اور اس کے لیڈروں سے لوہا لیا تھا اس کا کوئی اثر تو ہونا ہی تھا۔ دہلی میں ان کا پہلا واسطہ لیفٹننٹ گورنر نجیب جنگ سے پڑا۔ انہوں نے دہلی حکومت کی کئی اسکیموں کو ہری جھنڈی نہیں دکھائی۔ انہوں نے افسروں پر بھی براہ راست کنٹرول حاصل کرلیا۔ انہوں نے آئی اے ایس افسروں کو براہ راست اپنے ماتحت کرلیا۔
اس مفہوم کا ایک نوٹفکیشن مرکزی حکومت نے بھی جاری کردیا اور افسروں کے تقرر اور تبادلہ پر حکومت کا اختیار چھین لیا۔اس سے دہلی حکومت کا راستہ اور تنگ ہوگیا۔لیکن نجیب جنگ شاید اس رسہ کشی سے خوش نہیں تھے اور انہوں نے آخر کار استعفی دیدیا۔اس کے بعد دوسرے لیفٹننٹ گورنر انل بیجل کے ساتھ تو کجریوال کا مناقشہ کچھ اور زوروں پر ہوا۔ انہوں نے بھی حکومت کی متعدد فلاحی اسکیموں میں اڑچنیں ڈال کر وزیر اعلی کو پریشان کیا۔
موجودہ ایل جی ونے سکسینہ تیسرے ہیں جن سے کجریوال مسلسل الجھے رہے۔ان کے زمانے میں تو تمام حدیں پار ہوگئیں۔ دہلی حکومت کی نہ صرف مختلف فلاحی اسکیمیں بلکہ معمول کے پروجیکٹ بھی دونوں کے جھگڑوں کی نذرہوگئے۔ ایل جی نے شہریوں کے گھروں پر راشن کی ڈلیوری جیسی اسکیموں تک کو روک دیا۔تربیت حاصل کرنے کے مقصد سے سرکاری اسکولوں کے اساتذہ کو فن لینڈ جانے سے روک دیا۔ محلہ کلنک اور یو گا کلاسز کی اسکیموں میں بھی اڑچینیں ڈالی گئیں۔ 200 یونٹ تک بجلی کی مفت فراہمی پر بھی وہ خوش نہیں ہیں۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر کجریوال حکومت کو ایل جی نوٹس دینے لگے۔ سرکاری افسروں کے ساتھ ایل جی نے براہ راست میٹنگیں شروع کردیں۔ لہذا افسروں نے منتخب دہلی حکومت کاحکم ماننا تو دور کام کرنا ہی چھوڑدیا۔
اس کی ایک ادنی مثال یہ ہے کہ دہلی وقف بورڈ کےلیے حکومت کی منظور شدہ گرانٹ کو روک لیا گیا۔اسی گرانٹ کے سہارے امامو ں کی تنخواہوں میں اضافہ کیا گیا تھا۔وقف بورڈ سے آنے والی ہر فائل پر اعتراض لگادیا گیا۔اس کے نتیجہ میں دہلی وقف بورڈ کی مسجدوں کے اماموں اور موذنوں کی تنخواہیں رک گئیں۔ فتح پوری مدرسہ عالیہ کے مدرسین کو تو 28 مہینوں تک تنخواہیں نہیں ملیں۔امام اور موذن بھی ایک سال سے تنخواہوں سے محروم ہیں۔
اوقاف کے امور کی ضروری اور اہم فائلیں چھوٹے چھوٹے افسروں نے روک رکھی ہیں۔یہاں تک کہ وقف بورڈ کے سی ای او اور دہلی سرکار کے اسسٹنٹ اکاونٹ آفسر (دونوں مسلمان) ہر فائل کو روکنے لگے۔ سی ای او تو میٹنگ سے ہی غیر حاضر رہنے لگے۔ظاہر ہے کہ یہ سب وہ از خود نہیں کر رہے تھے۔
دہلی میں ایل جی اور سی ایم کی اس لڑائی کے منظر نامے اتنے کریہہ ہیں کہ ان کی اصل کیفیت کو بیان کرنے کےلیے کوئی مہذب اصطلاح نظر ہی نہیں آتی۔ شاید یہ کہہ کر صورتحال کی کیفیت کو کسی قدر واضح کیا جاسکتا ہے کہ ایسی لڑائی اوباش بھی نہ لڑتے ہوں گے۔ ایسے میں کجریوال دہلی والوں کیلئے جو کام بھی کرنے میں کامیاب ہوسکے اسے دنیا کا آٹھواں عجوبہ کہا جانا چاہئے۔
دہلی پر اختیارات کا مقدمہ سپریم کورٹ میں کافی عرصہ سے تھا۔ پہلے دو ججوں کی بنچ نے منقسم فیصلہ سنایا۔ اس کے بعد تین ججوں کی بنچ نے مقدمہ سنا اور معاملہ کی پیچیدہ نوعیت کے پیش نظر پانچ ججوں کی آئینی بنچ کو سونپ دیا۔ اس سے پہلے بھی پانچ ججوں کی ایک اور آئینی بنچ فیصلہ سناچکی تھی۔ اس کے تحت دہلی حکومت کے اختیارات کو تسلیم تو کیا گیا تھا لیکن بعض اہم اختیارات کے سلسلہ میں ابہام رہ گیاتھا۔ اسی ابہام کا فائدہ اٹھاکر ایل جی نے برتری حاصل کرلی تھی۔ اب 11مئی کو آنے والے فیصلہ نے بہت سے ابہامات کو بھی ختم کردیا۔
چیف جسٹس نے دہلی کے سلسلہ میں 105صفحات اور مہاراشٹر کے سلسلہ میں 140صفحات پر مشتمل فیصلہ لکھا ہے۔ اتنے تفصیلی فیصلوں کے مکمل مطالعہ اور تجزیہ کےلیے وقت درکار ہے۔ لیکن میرا ابتدائی تجزیہ یہ ہے کہ دہلی کے سلسلہ میں جو فیصلہ ٓایا ہے اس کا دور رس اثر پڑے گا۔عدالت نے واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ اگر افسروں کو جوابدہی کا احساس نہیں ہوگا اور یہ ڈر نہیں ہوگا کہ ان کی تقرری اور تبادلہ دہلی کی منتخب حکومت کے ہاتھ میں ہے تو وہ کام نہیں کریں گے۔
حکومتیں اور ان کے کام کاج افسر ہی چلاتے ہیں۔اب دہلی میں امید ہے کہ پچھلے 8 سال سے چلی آرہی رسہ کشی ختم ہوجائے گی اور حکومت تعمیری اور فلاحی منصوبوں پر آسانی اور تیزی کے ساتھ کام کو آگے بڑھا سکے گی۔ اس کا ایک بڑا سیاسی اثر یہ ہوگا کہ دوسرے صوبوں کے گورنر بھی اب محتاط ہوجائیں گے۔اس کا ایک اثر یہ بھی ہوگا کہ ریاستوں میں اپوزیشن کو مضبوط ہوکر ابھرنے کا موقع ملے گا۔
مہاراشٹر کا فیصلہ بہت پیچیدہ اور بظاہر ناقابل فہم ہے۔جب عدالت کی نظر میں شوسینا کے باغی گروپ کو حکومت سازی کےلیے بلانے کا مہاراشٹر کے گورنر کا ایکشن غیر آئینی تھا تو اس ایکشن کے نتیجہ میں انجام پانے والا کام بھی غیر آئینی قرار دے کر کالعدم کیا جانا چاہیے تھا۔ شو سینا کے باغی ایکناتھ شندے کی حکومت اگر غیر آئینی بنیادوں پر قائم ہوئی تھی تو اسی بنیاد پر اسے ختم کیا جانا چاہیے تھا۔ ٹھیک ہے کہ اودھو ٹھاکرے نے استعفی دے کر جو اخلاقی برتری حاصل کی تھی اس کی روشنی میں انہیں قانونی نفع نہیں مل سکا لیکن اتنا تو ہوسکتا تھا کہ ایک ناجائز اور غیر آئینی طور پر قائم سرکار کو فی الفور کالعدم کرکے الیکشن کرانے کا راستہ صاف کیا جاسکتا تھا۔
یہاں ایک نکتہ یہ ہے کہ مہاوکاس اگھاڑی (کانگریس‘سینا اور این سی پی اتحاد) نے اپنی رٹ پٹیشن میں اس طرح کا کوئی مطالبہ کیا بھی نہیں تھا۔ انہیں یقین تھا کہ عدالت اودھو ٹھاکرے کی حکومت کو بحال کردے گی۔ عدالتیں عام طور پر خود کو عرضی میں کئے گئے مطالبات تک ہی محدود رکھتی ہیں۔ لیکن بہرحال آئینی بنچ نے اب گورنروں کے پر کتر دئے ہیں۔حال ہی میں پنجاب اور تلنگانہ کے گورنروں کو بھی سپریم کورٹ میں سبکی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
اب کوئی گورنر اپنے سیاسی آقائوں کے اشارے پر ایسی کھلی بدعنوانی نہیں کرسکے گا۔ یہ صورتحال بھی اپوزیشن کی نہ صرف اخلاقی فتح ہوگی بلکہ مستقبل میں اس کی سیاسی حیثیت کو برتر رکھنے میں معاون ثابت ہوگی۔ یہ دونوں فیصلے ملکی سطح پر نہ صرف مرکزی حکومت کے آمرانہ تسلط پر قدغن لگائیں گے بلکہ سیاسی سطح پر بی جے پی کےلیے بھی نقصان رساں ثابت ہوں گے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)