Home مباحثہ ٹی وی ڈیبیٹ میں مسلم "دھرم گرو”: لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں۔ مسعود جاوید

ٹی وی ڈیبیٹ میں مسلم "دھرم گرو”: لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں۔ مسعود جاوید

by قندیل

 

آپ ایک آزاد شہری ہیں آپ کو ہم ٹی وی ڈیبیٹ میں شریک ہونے سے روک نہیں سکتے لیکن عوامی مقامات پر آپ کی انفرادی شخصیت کے ساتھ ساتھ ایک اجتماعی شخصیت بھی ہوتی ہے جس سے یہی تاثر لیا جاتا ہے کہ آپ ہندوستانی مسلمانوں کے نمائندے اور دھرم گرو ہیں! ہمیں آپ کی شرکت سے اسی لئے تکلیف ہوتی ہے ۔

ٹی وی والے تاریخ ، اسلام اور مسلمانوں کے مسائل کے ماہرین کو مدعو کرنے کی بجائے کسی بھی شخص کو بلا کر بطور دھرم گرو پیش کرتے ہیں ۔

ٹی وی ڈیبیٹ آج کے دور کا مناظرہ ہے اور مناظرہ ایک فن ہے ۔ بڑے بڑے عالم دین جو فن مناظرہ میں مہارت نہیں رکھتے ہیں وہ فریق مخالف کے سامنے پست ہو جاتے ہیں ۔ موضوع مناظرہ پر گہرا مطالعہ ، حاضر دماغی اور الزامی جواب دے کر مقابل کو لاجواب کرنا ضروری ہوتا ہے۔ احقاق حق سے کہیں زیادہ مقابل کو خاموش کرنا فتح و شکست کا پیمانہ ہوتا ہے۔ میں یہ تو نہیں کہتا کہ ٹی وی ڈیبیٹ میں شریک ہونے والے جاہل ہیں لیکن یہ کہنا شاید غلط نہ ہو کہ ان کی اکثریت نہ صرف فن مناظرہ سے نابلد ہوتی ہے بلکہ موضوع ڈیبیٹ پر ہوم ورک کر کے بھی نہیں جاتی ۔
مناظر کے لئے ادیان کا تقابلی مطالعہ ، دستور ہند پر دسترس اور ہندوستانی اور بین الاقوامی سیاست سے اچھی واقفیت کا ہونا لازمی ہے۔ ان دنوں ڈیبیٹ میں شریک ہونے والوں کی علمی اور عملی صلاحیتوں کے بارے میں چھان بین کریں گے تو حقیقت سامنے آئے گی کہ مذکورہ شرائط ان کے اندر قطعاً نہیں پائی جاتی ہیں۔
گرچہ یہ عیب ہے پھر بھی ہم ہر مسلمان سے یہ توقع نہیں کرتے کہ وہ اپنے دین اسلام سے مکمل طور پر واقف ہو۔ اور جب عام مسلمان دین اسلام سے واقف نہیں ہے تو مناظرہ اور ڈیبیٹ میں وہ اسلام اور مسلمانوں کا دفاع کس طرح کرے گا!
ڈیبیٹ میں شریک ہونے والے خواہ شیروانی ٹوپی اور داڑھی والے "مولوی” یا مولوی نما ہوں یا کوٹ پینٹ اور ٹائی والے "دانشور”، گرچہ وہ ہماری نمائندگی نہیں کرتے مگر ٹی وی والے ان کا تعارف ” مسلم دھرم گرو” "اسلامی اسکالر” اور "مسلم فریق کے نمائندے” کی حیثیت سے کراتے ہیں۔‌ اور اس طرح ان کی کم علمی کی وجہ سے ملت اسلامیہ ہند ذلیل و خوار ہوتی ہے۔

اسلام اور دیگر مذاہب، دستور ہند، مسلمانوں کے حقوق اور واجبات ، سیاسی منظر نامے ، حالات حاضرہ اور دنیا بھر میں اقلیتوں کے مسائل اور اس کے تئیں بین الاقوامی اداروں کے رویے ، یقین دہانیاں اور بیانات سے واقف شخص ہی مدلل اور مسکت جواب دے سکتا ہے۔
اس لئے جو اہل نہیں ہیں وہ ڈیبیٹ میں حصہ نہ لے کر ہم مسلمانوں پر رحم کریں ۔

عوام کے روز مرہ کے ضروری اور بنیادی مسائل؛ مہنگائی، بے روزگاری اور امن عامہ کی بگڑتی ہوئی صورتحال سے توجہ ہٹانے کے لئے چینلز والے ہندو مسلم منافرت، اور مسلمانوں کو نشانہ بنانے والے بے سر پیر کے موضوعات پر ڈیبیٹ کرا رہے ہیں۔
” سابق مسلمان ” ! اگر کوئی مرتد ہوتا ہے یا ہوتی ہے تو یہ اس کا دستوری حق ہے اس پر ڈیبیٹ کرانا چہ معنی دارد!

” ہندو پورب کی طرف رخ کر کے عبادت کرتے ہیں تو مسلمان پچھم کی طرف کیوں” !
اب یا تو اسے چینل والوں کی جہالت کہیں یا دانستہ شرارت ! جہالت اس لئے کہ نماز ادا کرنے کے لئے پچھم رخ شرط نہیں ہے قبلہ رخ شرط ہے . خانہ کعبہ ہندوستان پچھم جانب ہے اس لئے پچھم رخ نماز ادا کرتے ہیں لیکن جن ممالک سے دوسرے سمت میں ہے وہاں کے مسلمان پچھم کی بجائے اس سمت رخ کر کے نماز ادا کرتے ہیں۔ دانستہ شرارت اس لئے کہ ہماری عبادت کس ہیئت میں کس رخ پر ہو گی اس سے دوسرے مذاہب والوں کو کیا لینا دینا ہے‌ ! دوسرے مذاہب والوں نے کبھی اعتراض بھی نہیں کیا ۔ یہ ٹی وی چینلز والے شرارتی طور پر ہندوؤں کے ذہن میں ڈال رہے ہیں کہ مسلمان تمہارے ضد میں تمہارے پورب کے برعکس جہت یعنی پچھم رو ہو کر عبادت کرتے ہیں۔‌

جامع مسجد کے نیچے جمنا دیوی کا مندر ہے، تاج محل دراصل تیجو مہالایہ ہے ، قطب مینار در اصل شیو لنگ تھا اور لال قلعہ ہندو آثار قدیمہ ہے اس لئے کہ اگر یہ عمارتیں مسلم آثار قدیمہ ہوتیں تو ان میں بھگوا رنگ کے پتھروں کا استعمال کیا جاتا۔ مغل دور کی تاریخی عمارتوں میں بھگوا رنگ کے پتھروں کے استعمال سے پتہ چلتا ہے کہ یہ ہندو آثار قدیمہ ہیں جنہیں تاریخ کو مسخ کر کے مسلم آثار قدیمہ کے طور پر ریکارڈ کیا گیا ہے۔ اس طرح کی جہالت سے پر باتوں کا جواب دینا کیچڑ میں پتھر پھینکنا ہوگا۔

اس طرح کے بے شمار مسائل ہیں جس کے مسکت اور مدلل جواب دیۓ جا سکتے ہیں لیکن ہمارے "دھرم گرو” دائیں بائیں جھانک کر یا مظلومیت کا رونا رو کر ہماری ذلت کا سبب بنتے ہیں۔
اسلام اور مسلمانوں سے متعلق مسائل پر ان کی عدم شرکت سے مسلمانوں کو فائدہ ہی ہو گا نقصان نہیں اس لئے کہ کم علمی کے باعث کمزور دلیل، غیر منطقی بحث اور موضوع سے ہٹ کر بات بات پر یہ کہنا کہ بی جے پی کی حکومت مسلمانوں کو نشانہ بنا رہی ہے، ظاہر کرتا ہے کہ مسلمانوں کا موقف کمزور ہے۔ یہ ڈیبیٹ آن ایر کروڑوں لوگوں تک پہنچتا ہے اور ان کروڑوں کی اکثریت اسے سچ اور حقیقت پر مبنی سمجھتی ہے۔
اگر مسلمان "دھرم گرو” شریک نہیں ہوں گے تو اسلام غیر محفوظ اور مسلمان مٹ نہیں جائیں گے۔

You may also like

Leave a Comment