Home تجزیہ ٹی وی چینل ،مسلمان اوراخراجات-مشرّف عالم ذوقی

ٹی وی چینل ،مسلمان اوراخراجات-مشرّف عالم ذوقی

by قندیل

سب سے پہلے یہ آواز میں نے بلند کی تھی کہ ہمارے پاس اپنا میڈیا چینل ہونا چاہیے،مسرت کی بات ہے کہ اب یہ آواز چاروں طرف سے اٹھ رہی ہیں کہ چینل چاہئے،مگر ہمارے درمیان اب بھی ایسے لوگ ہیں جو اس بات سے واقف نہیں کہ چینل کی ضرورت تیس کروڑ کی آبادی کو کیوں ہے ؟ کچھ ایسے بھی ہیں جن کا تعلق راجیہ سبھا سے رہا ہے اور وہ چینل لانے کی دوڑ میں پیش پیش ہیں، اچھی بات ہے ، ایک دو نہیں دس چینل لے آئیے مگر پہلے واضح کیجئے کہ آپ کے ذہن میں کیا ہے ؟ ایک بات جان لیجئے کہ اگر چینل مسلمانوں سے وابستہ ہے تو سب سے پہلے مسئلہ رجسٹریشن کا آئے گاـ مسلمانوں کا چینل مسلمان بھی دیکھنا نہیں پسند کریں گے،غیر مسلموں کی بات ہی چھوڑ دیجئےـ ابھی حال میں پروفیسراخترالواسع بھائی نے میڈیا چینل کے تعلق سے بہت اہم باتیں لکھی ہیں،ان کے مطابق ،ہم یہ سمجھتے ہیں کہ مسلمان جس معاشی ادبار کا شکار ہے اس میں گھر پھونک کر تماشہ دیکھنے کا یہ وقت نہیں ہے۔ہمیں اگر بہ حیثیت ایک سماجی گروہ کے اپنے وجود کا احساس ہی کرانا ہے تو اس کے لیے سب سے بہتر اور مناسب طریقہ یہ ہے کہ ہم یو ٹیوب پر جو نوجوان اپنے اپنے چینل پر ویڈیواپ لوڈ کر کے چلا رہے ہیں اور وہ خاصے مؤثر بھی ہیں اور کامیاب بھی، ان کا ساتھ دینا چاہیے۔ مثال کے طور پر اس میں سب سے نمایاں نام سیاست ڈاٹ کام حیدرآباد کا ہےـ
یہ بات بہت حد تک درست ہے مگر کیا یہ بھی سچائی نہیں کہ ملی پروگراموں میں کروڑوں روپے پھونک دیے جاتے ہیں اور کوئی ایک بھی ملی تنظیم اپنے وجود پر چینل کھڑا کر سکتی ہے، مگر آزادی کے ستر برسوں میں یہ ممکن نہیں ہوا، دوسری بات پروفیسراخترالواسع بھائی نے یو ٹیوب چینل کے فروغ پر زور دیاـ مشورہ بہتر ہے مگر سوال ہےکہ یو ٹیوب چینل دیکھنے والوں کی تعداد کتنی ہے ؟ دی وائر، دی کوئنٹ جیسے چینل بھی زیادہ تر انٹلکچول ہی دیکھتے ہیں، یہ چینل عام لوگوں کی دسترس سے باہر ہیں، اس میں شک نہیں کہ آج کی تاریخ میں یو ٹیوب چینل بھی ہماری بڑی ضرورت ہے لیکن قومی سطح کے چینل کی ضرورت اب بھی ہے، سیاست ڈاٹ کام کتنے لوگ دیکھتے ہیں؟
پروفیسراخترالواسع بھائی نے جو بات بھی کہی ہے ، دل سے کہی ہےـ وہ آگے لکھتے ہیں "جو مشہور میڈیا گھرانے ہیں ان کے ساتھ ایک طویل مدتی منصوبہ بندی کے تحت ایسی منصوبہ بندی کریں کہ وہ ایسے اسپانسرڈ پروگرام پیش کریں جن سے ہندوستان کے مسلمانوں کی صحیح صورتحال، ان کی پسماندگی، ان کے ساتھ ناانصافی اور ان کی مجموعی ترقی کے امکانات پر روشنی پڑ سکے”۔اب جواب سنئے ، ایسے چینل جن کو براہ راست حکومت سے فنڈ ملتا ہو کیا وہ مسلمانوں سے اسپانسر شپ لے کر اپنی دوکان بند کرائیں گے، یہ سننے میں اچھا لگ سکتا ہے لیکن یہ پریکٹیکل اپروچ نہیں ہےـوہ آگے لکھتے ہیں”ہندوستان کے مسلم تاجروں اور بڑی کمپنیوں کے مالکان کو مسلمانوں کے ساتھ مثبت سوچ رکھنے والے ٹی وی چینلس، انگریزی ہندی اور اردو کے اخبارات اور یوٹیوبرس کو اشتہارات کے ذریعے مدد کرنا چاہیے”۔
کیا زی نیوز ، انڈیا ٹی وی چینل مسلم تاجروں کو ہاتھ بھی رکھنے دیں گے؟ اس مغالطہ میں رہنے کی ضرورت نہیں ہےـ پروفیسراخترالواسع کے مطابق اگر ایسا ہوتا ہے تو ایسے پروگراموں کو دوسرے ٹی وی چینل بھی اہمیت دیں گے اور دوسرے میڈیا ہاوسز بھی مسلمانوں کے مسائل اٹھانے یا مسلمانوں کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو کاؤنٹر کرنے کے لیے مجبور ہوں گے۔مالی تعاون کرنے والے لوگ ملت کے اجتماعی مفاد کو پیش نظر رکھیں نیز اپنی ذاتی انا اور خود مشتہری کو الگ رکھیں۔
اصل مسلہ یہ ہے کہ ٢٠١٤ سے ٹی وی چینل والوں کو مسلم دشمنی کے لئے تیار کیا گیا ہے، آج اینکر کروڑوں کے بادشاہ ہیں ، مالکان کی بات تو چھوڑ دیجئے، ٹی وی چینل والے کسی بھی مسلم تاجر کی خدمات نہیں لیں گے اور نہ ہی مسلم دشمنی کو کاؤنٹر کریں گے اور اسی لئے ایک ایسے چینل کی ضرورت ہے جو مسلمانوں کا ہو کر بھی مسلمانوں کا نہ ہوـ یہ سمجھنا ہوگا کہ ہم بیحد برے دور سے گزر رہے ہیں اور اس ماحول میں چینل لانا کوئی آسان کام اس وقت تک نہیں ہے جب تک ہم چینل کو ہندوستانی رنگ نہ دیں ـ میں نے پچھلی دفعہ دس نکات سامنے رکھے تھےـ دوبارہ پڑھئے اور غور کیجئے
بجٹ – ٥٠ کروڑ
ریاستی سطح کا چینل – بجٹ ١٠ سے بیس کروڑ
چینل کا نام : چینل کا نام ہندی یا انگریزی میں ہوگاـ مثال کے لئے دی سورس ، چینل ٢٠٠ ، دی رپورٹ یا کوئی بھی نام ، جس سے ظاہر نہ ہو کہ یہ مسلمانوں کی ترجمانی کر رہا ہے ـ
٢ – چینل میں ونود دوا ، ابھیسار شرما ، پرسون باجپئی جیسی فکر کے لوگ ہوں ـ ابھیسار اور پرسون کو لایا جا سکتا ہے کیونکہ یہ لوگ کہیں نہیں ہیں ـ
٣ – رپورٹنگ کرنے والے ایسے لوگ ہوں جو معیاری رپورٹنگ کر سکیں اور ہندو مسلم تنازع سے بچتے ہوئے اپنی بات کہنے کا حوصلہ رکھیں، دلیلیں مضبوط ہوں ـ پریزنٹیشن ایسا ہو کہ پہلے دن سے ہی چینل لوگوں کی نگاہ میں آ جائےـ
٤ – کچھ دن یا دو ایک ماہ چینل عام چینلوں کی طرح ہی رپورٹ کرے، یعنی کوئی خطرہ مول لینے کی ضرورت نہیں ـ
٥ – پھر چینل ١٥ سے ٢٠% ان موضوعات پر کام کرے ، جم سے نفرتیں دور ہوں،مسلمانوں کا سچ اجاگر ہوـ مثال کے لئے ٢٥ منٹ کا ایک پروگرام — قسط وار — جن پر فرضی دہشت گردی کے الزامات لگے بعد میں الزام غلط پایا گیا، ان مسلمانوں کی کہانیاں جنہوں نے ملک کے لئے قربانیاں دیں،ان میں غیر مسلم جانبازوں کو بھی شامل کریں تاکہ توازن برقرار رہےـ
٧ – میڈیا چینل کی فرضی خبروں کی کاٹ ـ مثال کے لئے ہتھنی کا واقعہ ، تبلیغی جماعت کا حادثہ، ایسے بہت سے حادثےـ
٧ – زبان ہندوستانی ہو، اردو کی چھاپ نہ ہوـ
٨ – چینل میں غیر ضروری طور پر مداخلت کرنے والے نہ ہوں،اس سے مزاج نہیں بن پائے گاـ
٩ – حکومت سے ٹکرانے والی بات نہیں ہوگی ـ یاد رکھیے ، چینل کے ذریعے ہم حکومت سے ٹکر نہیں لیں گے ، سمجھ داری سے مسلمانوں کی بات رکھیں گے جو مضبوط دلائل کی روشنی میں ہوگی ـ

١٠ . چھ سے آٹھ لوگوں پر مشتمل ایک گروپ ہوگا ، جو صلاح اور مشورہ دیں گے، ان میں وکیل بھی ہونگے ، آی اے ایس افسران بھی، سماجی تنظیموں سے تعلق رکھنے والے بھی ـ
اب کچھ اخراجات / بجٹ پر بھی بات کر لیں:
صرف چینل لائسنس (جس میں غیر نیوز چینل کے لئے 5cr) کے لئے 20cr کی مجموعی قیمت کے ساتھ ہی درخواست دی جا سکتی ہے۔
لائسنس فیس 50،000 کے لگ بھگ ہے اور اس کی خریداری میں 90 دن لگیں گے۔
ایک دفتر کیلئے 100 پکس اور دو اسٹوڈیو کی ضرورت جو تقریبا 4000 مربع فٹ ہوں ـ ملازمین کے لئے پارکنگ کی جگہ ـ
تکنیکی:
پی سی آر / ایم سی آر / کار کمرے کے ساز و سامان – 3 سی آر سے 3.5 سی آر
اسٹوڈیو sound ساؤنڈ پروفنگ اور اس طرح کے دیگر اخراجات بھی شامل ہیں) – 76 لاکھ سے 1 کروڑ۔
شوٹ / ایڈیٹنگ کا سامان اور سافٹ ویئر + گرافک ہارڈویئر اور سوفٹ ویئر کے لئے کیمرا اور لائٹس – 80 سے 90 لاکھ
وائس اوور اور دوسرے چھوٹے اخراجات کےلئے Equipment ضروری سامان۔ 5 لاکھ
عملے کے لئے کمپیوٹر۔ 80 لاکھ
ویب سائٹ اور موبائل ایپ – 8 لاکھ + سالانہ دیکھ بھال
براہ راست ٹیلی کاسٹ کا سامان – 3 سے 6 لاکھ (مشینوں کی کوالٹی اور تعداد پر منحصر ہے)
ٹیلی کاسٹ فیس:
I&B فیس – سالانہ 7lakhs
اپلنکنگ اور ڈاونلنکنگ فیس – 5 – 6 لاکھ سالانہ
ٹاٹا اسکائی (اگر نیوز چینل ہے) – سالانہ 2cr سے زیادہ
ایرلیٹ ​​(اگر نیوز چینل) – سالانہ 1.5cr سے زیادہ
کمپنی کی پالیسی پر منحصر دوسرے ڈی ٹی ایچ پلیٹ فارم

خبروں کی خریداری کی خدمات – ہر سال 20 لاکھ
عملے کی تنخواہ ابتدائی طور پر ایک کروڑ سے اسی لاکھ (ہر ماہ)
3 ماہ کے بعد اصلاح کریں گے اور دوبارہ نظر ڈالیں گے۔
بیورو آفس:
اخراجات اس بات پر منحصر ہے کہ ہمیں کتنے دفاتر کی ضرورت ہے
دوسرے اخراجات:
کاریں / وینیں – 5 (کم از کم)
اور اخراجات
تخمینہ شدہ انکم (اگر ٹاٹا اسکائی ، ایرٹیل اور دیگر LCNs جیسے تمام پلیٹ فارمز پر ٹیلی کاسٹ کر رہے ہوں:
پہلا مہینہ – nil
2 سے 5 ماہ۔ 10 سے 15 لاکھ
6 سے 8 ماہ – 20 لاکھ
1 سال – 30 سے ​​40 لاکھ
مذکورہ بالا تمام اعدادوشمار مکمل طور پر ابتدائی منصوبہ بندی پر منحصر ہیں ـ
ہم اس وقت بھی سیاست کے بازار میں روٹیاں سینک رہے ہیں، تیس کروڑ کی آبادی کے پاس نہ علم ہے ، نہ چنیل ـ نہ اچھے اسپتال ہیں نہ میڈیکل کالج اور انجینیرنگ کالج، کچھ بھی تو نہیں ـ
جب چینل کی بات اٹھتی ہے ، کچھ ایسے لوگ سامنے آ جاتے ہیں جو اس بات سے بھی واقف نہیں کہ اگر چینل چاہیے تو کیسا چاہیے ـ

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

You may also like

Leave a Comment