علی گڑھ:’’امن کی علامت کے طور پر دنیا بھر میں مشہور مہاتما گاندھی ہندوستانی سیاست کی اخلاقیات کا پیمانہ تھے جو ترکی میں پیش آنے والے واقعات اور تحریک خلاف سے کافی متاثر تھے‘‘۔ ان خیالات کا اظہار نامور اسکالر اور مؤرخ پروفیسر ڈاکٹر ایچ ہلال شاہین (گرسن یونیورسٹی، ترکی) نے کیا۔ وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے زیر اہتمام مہاتما گاندھی کے فکر و فلسفہ کے تھیم پر ویب ٹاک سیریز کے تحت خطاب کررہی تھیں ۔ ان کے خطاب کا موضوع تھا: ترکی، ہندوستان اور مہاتما گاندھی: خلافت تحریک کا عکس۔ پروفیسر شاہین نے کہاہے کہ گاندھی جی کے عدم تعاون کے فلسفہ کو خلافت کمیٹی نے ممبئی میں مئی 1920میں اپنایا تھا اور گاندھی جی نے کانگریس کو اس میں شامل ہونے کی ترغیب دینے کے بعد خلافت تحریک میں لوگوں کو شامل کرنے کے لئے ہندوستان کا وسیع پیمانہ پر دورہ کیا ۔ انھوں نے کہاکہ ہندوستانی سیاست میں عثمانی کاز کی قدر و قیمت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس نے ہندوؤں اور مسلمانوں کو متحد کیا تاکہ ہندوستان میں برطانوی راج سے بے اطمینانی کا اظہار کیا جاسکے۔پروفیسر شاہین نے کہا ’’ینگ انڈیا کے ایک شمارہ میں گاندھی جی نے ہندوؤں اور مسلمانوں سے اپیل کی کہ وہ ترکی کو ٹکڑوں میں بانٹنے کے خلاف متحد ہوں۔ انھوں نے لکھا ’’ہندوستان آج تیار نہیں ہے لیکن اگر آج ہم ہر اس سازش کو ناکام بنانے کے لئے تیار ہوتے ہیں جو ترکی کو تباہ کرنے یا ہماری غلامی کو طویل کرنے کے لئے رچی جارہی ہے تو ہمیں جلد از جلد ایک روشن خیال عدم تشدد کا ماحول پیدا کرنا ہوگا اور یہ کمزوروں کے عدم تشدد کے برعکس طاقتور اور مضبوط لوگوں کا عدم تشدد ہوگا جو قاتل نہیں بنیں گے بلکہ سچائی کوثابت کرنے کے لئے مرجانا گوارہ کریں گے‘‘۔ پروفیسر شاہین نے مزیدکہاہے ’’مہاتما گاندھی کی خدمات میں صرف یہی نہیں شامل ہے کہ انھوں نے جنوبی افریقہ میں نسل پرستی کے خلاف اور ہندوستان میں آزادی کے لیے تحریک چلائی بلکہ ان کی خدمات ترکی کی جنگ آزادی یا انقلاب میں بھی بہت نمایاں رہی ہیں۔ جب فاتح اتحادی طاقتیں ترکی کو تقسیم کرنے پر کمربستہ تھیں تو گاندھی ، ترکی کاز کے ایک عظیم اخلاقی حامی کے طور پر ابھر کر سامنے آئے‘‘۔ ویب ٹاک سیریز کے اس آخری لیکچر کی صدارت کرتے ہوئے وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور نے کہا کہ برطانوی راج سے آزادی کی جدوجہد کے دوران خلافت تحریک ایک بہت اہم تحریک تھی اور اس میں ہندوؤں اور مسلمانوں کی مشترکہ کوششیں شامل تھیںاور یہ مشترکہ جدوجہد اور آگے بڑھی جب مہاتما گاندھی نے عدم تعاون تحریک کو خلافت تحریک سے جوڑااور برطانوی راج کے خلاف عوامی غصہ اورناراضگی کو ایک سمت عطا کی اور اسے مضبوط کیا ۔وائس چانسلر نے اس موقع پرپروفیسر شاہین کو اے ایم یوکی مولانا آزادلائبریری کا دورہ کرنے کی بھی دعوت دی ۔مہمان مقرر کا تعارف کراتے ہوئے پروفیسر ایم جے وارثی نے ہندوستان اور ترکی کے تاریخی رشتوں میں پروفیسر شاہین کی علمی خدمات کا خصوصیت سے ذکرکیا۔پروفیسرعبدالسلام نے خطبۂ استقبالیہ پیش کیا اور پروگرام کی نظامت کی جب کہ پروفیسر وسیم احمد نے اظہارتشکرکیاہے۔
ترکی،ہندوستان اور مہاتما گاندھی کے موضوع پر پروفیسر ایچ ہلال شاہین کاخطبہ
previous post