Home تجزیہ ترکی فیصلہ کن مرحلے میں داخل! – ڈاکٹر طارق ایوبی ندوی

ترکی فیصلہ کن مرحلے میں داخل! – ڈاکٹر طارق ایوبی ندوی

by قندیل

اردوغان کی سیاسی زندگی کا اس وقت سب سے بڑا امتحان ہے، اس مرتبہ اپوزیشن پورے طور پر ان کے خلاف متحد ہے کہ انھیں ہر حال میں اقتدار سے بے دخل کرنا ہے، وہ تقریبا دو دہائی سے زائد عرصہ سے ملک کی وزارت عظمی اور صدارت کے منصب پر قابض ہیں، مصطفی کمال کے بعد ترکوں کے سب سے بڑے اور موثر لیڈر کے طور پر اردوغان جانے جاتے ہیں، اربکان کی سربراہی میں اپنا سیاسی کیریئر شروع کرنے والے موجودہ صدر اپنی سیاسی بصیرت کے سبب نہ صرف چار مرتبہ اپنی پارٹی کو فتحیاب کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں بلکہ عالمی سیاست میں ترکی کی عظمت رفتہ بحال کی ہے اور تمام تر سازشوں اور مخالفتوں کے باوجود ملک کو استحکام اور مضبوط معیشت دی ہے۔ لیکن اس وقت انھیں اپنی سیاسی زندگی کا سب سے بڑا چیلنج درپیش ہے، حالیہ الیکشن کے نتائج نہ صرف ترکی کے مستقبل پر اثر انداز ہوں گے بلکہ عالمی سیاست میں ترکی اور مسلمانوں کے کردار کا بھی فیصلہ کریں گے ۔

اردوغان کی سیاسی بصیرت، انتخابی پالیسی اور آہنی عزم سے تو اچھی امید وابستہ ہے ہی تاہم اب عوام بھی لبرل نشہ سے آزاد ہو کر زمینی حقائق پر نظر رکھنے لگے ہیں۔ جس طرح لبرلزم قول و عمل کے واضح تضاد پر مشتمل ایک کھوکھلا نظریہ ہے، اسی طرح لبرلز کی سیاست محض الزامات اور پروپیگنڈوں پر کھڑی ہوتی ہے ، اس کے بالمقابل اردوغان کی تین دہائیوں پر مشتمل شفاف سیاسی زندگی اور مضبوط زمینی محنت ہے ، جو لبرلز کو بھی عین الیکشن سے قبل اپنے نظریہ کے خلاف ووٹ دینے پر مجبور کر دیتی ہے ۔ متحد اپوزیشن کے امیدوار کمال کلیجدار کو گولن کے حامی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے جن پر ریاست کے اندر متوازی ریاست بنانے کا الزام ہے اور جو ۲۰۱۶ کی ناکام فوجی بغاوت کے سلسلے میں بری طرح ایکسپوز ہو چکے ہیں۔ کلیجدار اوغلو کا یہ اعلان انھیں ڈبونے کے لیے کافی ہو گا کہ وہ انتخابات جیتنے کے فورا بعد شامی مہاجرین کو ترکی سے نکال دیں گے، مظلوموں کا رب مظلوموں کے حامی کا مددگار ہو گا ان شاءاللہ جس نے لاکھوں شامی مہاجرین کو نہ صرف ترکی کی سر زمین پر بسایا ہے بلکہ بہترین سہولیات مہیا کی ہیں، سازشیں، مخالفتیں،اور اپوزیشن کا اتحاد اپنی جگہ مگر سروے رپورٹس کے مطابق اردوغان انشاءاللہ ۵۰ سے ۵۳ فیصد ووٹ لے کر سرخرو ہوں گے ، اور معاہدہ لوزان کے اختتام کے بعد نئے ترکی کو متعارف کراتے ہوئے عالمی سیاست میں مسلم کردار کی مؤثر نمائندگی کریں گے ۔ اخوت اسلامی اور امت پنے کا تقاضا ہے کہ اہل قلم لبرلز کے پروپیگنڈوں پر نظر رکھیں اور اپنی خاص دعاؤں میں کلمہ اسلام کی لاج رکھنے والوں اور مظلوموں کی آواز بننے والوں کو یاد رکھیں۔

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

You may also like

Leave a Comment