ہماری چند لوگوں سے بات چیت میں یہ عجیب سا انکشاف ہوا کہ اردو والے ہوکر بھی اردو زبان جس رسم الخط میں لکھی جاتی ہے اس کا وہ نام نہیں جانتے۔ ہمیں حیرت ہوئی۔ کچھ لوگوں نے سادہ طور پر یہ ضرور کہا کہ اسے ’’اردو‘‘ میں یا پھر ’’کتابت‘‘ میں لکھا جاتا ہے۔ ہمیں اس عدم توجہی پر رونا بھی آیا۔ اصل میں بہت سے تہذیبی و ثقافتی عوامل کے زیرِ اثر ہم لوگ اتنی دور تک سفر کرچکے ہیں کہ اردو کی اپنی روایات ہم سے میلوں پیچھے چھوٹ گئی ہیں۔ اسی میں خوش خطی بھی شامل ہے۔ جب اس کا رواج تھا تو اکثر لوگ جانتے تھے کہ اردو کے رسم الخط کا نام ’’نستعلیق‘‘ ہے۔
ہم انھی گم گشتہ روایات کے ڈھیر سے خطِ نستعلیق کا تعارف اور تاریخ پیش کرنا چاہتے ہیں تاکہ اپنی زبان کے تئیں ہم یہ حقیر خدمت کر سکیں۔ ہم یہاں یہ بھی ضرور عرض کرنا چاہیں گے کہ دنیا کی اکثر اقوام اپنی زبان اور رسم الخط سے بے پناہ پیار کرتے ہیں جس کی بیشتر مثالیں دی جاسکتی ہیں۔ جیسے انگریزی والے ’رومن‘، ایرانی ’فارسی نستعلیق‘، سنسکرت یا ہندی و مراٹھی وغیرہ ’ناگری‘، چینی و جاپانی اور روسی و عربی کے علاوہ چھوٹی بڑی ہر زبان کے پاسدار اپنے اپنے رسوم الخط کے تحفظ و بقا کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں، وہ انھیں اپنی اپنی شناخت مانتے ہیں، ان کے یہاں کیلی گرافی یا خوشخطی و خوشنویسی کے کورس بھی یونیورسٹیوں میں داخل ہیں مگر افسوس کہ ہم اردو والے اس جانب سے کسی قدر بے اعتنائی برتنے میں مبتلا ہیں۔
رسم الخط، طرزِ تحریر، لکھاوٹ،لیپی اور اسکرپٹ کے ایک ہی معنی ہیں۔ دنیا میں ہر زبان کا رسم الخط بھی ہو یہ ضروری نہیں۔ بہت سی زبانیں محض بولیوں میں شمار ہوتی ہیں؛ لکھی نہیں جاتیں، اور متعدد زبانوں کا رسم الخط معمولی تبدیلیوں کے ساتھ مشترک ہے۔کچھ زبانوں کا رسم الخط تو ایک ہی ہے لیکن ان کا طرز و انداز کئی قسم کا ملتا ہے۔ یہ جدا جدا انداز خط کہلاتے ہیں۔تمام رسوم الخط کے اپنے بنیادی حروفِ تہجی ہوا کرتے ہیں جن کی ترکیب سے لفظ بن جاتا ہے۔الفاظ سے کلمہ بنتا ہے اور کلمات یا جملوں سے شعر و نثر وجود پاتے ہیں۔ اردو کا رسم الخط یقیناً فارسی سے مستعار ’نستعلیق‘ ہے لیکن چند وجوہات کی بنا پر اس باب میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہندوستان میں جنم لینے والی زبان اردو کا رسم الخط ایک امتیازی اور جدا شان کا حامل ہے۔ اس پر کوئی گفتگو کرنے سے قبل آئیے کچھ تاریخی و مستند حوالے بھی دیکھیں۔
رام بابو سکسینہ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں: ’’عام طور پر لوگ اردو کو فارسی کی ایک شاخ خیال کرتے ہیں۔اس وجہ سے کہ اس کی ابتدا مسلمان حملہ آوروں کی فوج میں اور مسلمان سلاطین ِ ہند کی دارالسلطنتوں میں پڑتی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔اردو کو فارسی نژاد ہونے کی غلطی عام لوگوں کو تو اس وجہ سے بھی محسوس ہوتی ہے کہ اس میں فارسی الفاظ بکثرت ہیں اور اس کی شاعری کی بحریں اور اس کا رسم الخط بھی مثلِ فارسی کے ہے۔اردو کے حروفِ تہجی بالکل وہی ہیں جو فارسی اور عربی کے ہیں۔ البتہ بعض مخصوص حروف جن سے ہندوستانی زبان کی خاص خاص آوازیں ظاہر ہوتی ہیں، جو فارسی اور عربی میں نہیں پائی جاتیںاضافہ کردی گئی ہیں۔ مثلاً ٹ، ٹھ، ڈ، ڈھ، ڑ، ڑھ۔ ان حروف کے لکھنے کا طریقہ یہ ہے کہ ت، د، ر پر یا تو چھوٹی سی (ط) بنا دیتے ہیں یا چار نقطے دے دیتے ہیں‘‘۔ (تاریخِ ادب اردو)
ڈاکٹر سیدہ جعفر بیان کرتی ہیں کہ: ’’بعض ادیبوں نے اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ انگریز بنگالی، ہندی اور اردو کو مخصوص جغرافیائی خطوں میں نشوونما کا موقع دے کر رسم الخط کی بنیاد پر ان میں اختلاف پیدا کرنا چاہتے تھے، اردو اور فارسی رسم الخط میں مشابہت کی بنا پر اسے مسلمانوں سے وابستہ کر دیا گیا‘‘۔ (تاریخِ ادب اردو، جلد دوم، ۲۰۰۰، ہاشم لنگر، حیدرآباد)
کسی بھی طرز اور رسمِ خط کی بنیاد میں باقاعدہ اصول موجود ہوتے ہیں جو حرف و لفظ یا اس کے جز کو لکھتے ہوئے برتنا اس کے حسن و صورت کو قائم رکھنے کا ذمہ دار ہوتا ہے۔
عتیق احمد صدیقی نے رقم کیا ہے کہ ’’ہندوستان میں اگر رسم الخط یا تحریر (اسکرپٹ) کی تاریخ تلاش کی جائے تو۔۔۔ اس کا باقاعدہ مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ وادیِ سندھ کی تہذیب میں پروردہ لوگوں نے بھی ہڑپا اور موہنجو ڈارو جیسے شہروں میں کچھ تحریروں کے نقوش پتھروں پر بنائے تھے، جن کے یقیناً کوئی معنی اور مطلب نکلتے ہوں گے۔ مگر اب تک کی تحقیق اور ریسرچ کے مطابق اس کا قطعی طور پر پتہ نہیں لگایا جاسکا ہے کہ اُن کے معنیٰ کیا تھے یا وہ کس طرح پڑھی جاتی تھی؟‘‘(ہندستانی تاریخ و ثقافت اور فنونِ لطیفہ، صفحہ۲۴۹)
رشید حسن خان نے بیان کیا ہے کہ ’’رسمِ خط کسی زبان کو لکھنے کی معیاری صورت کا نام ہے اور رسمِ خط کے مطابق صحّت سے لکھنے کا نام اِملا ہے۔ بہت سی بحثیں ایسی ہوئیں کہ جو دراصل اِملا کے مسائل سے تعلق رکھتی تھیں، مگر وہ رسمِ خط کے عنوان سے شروع ہوئیں اور اس کے برعکس بھی ہوا۔اس خلطِ مبحث نے بھی املا کے مسائل کی واقعی اہمیت کو نمایاں نہیں ہونے دیا۔ کس لفظ کو کن حروف سے مرکب ہونا چاہیے، یا لفظ میں ان کی ترتیب کیا ہونا چاہیے، یہ مسئلہ رسمِ خط کا نہیں ہے۔ یا یہ کہ کون سے حروفِ تہجی ختم کردیئے جائیں، یا کسی خاص آواز کے لیے کسی نئی علامت کا اضافہ کیا جائے، یہ بھی املا کے متعلقات ہیں۔فرض کر لیجیے کہ آپ نے اردو کے حروفِ تہجی میں سے آٹھ حرف نکال دیئے،یا پانچ نئے حرف یا چار نئی علامتیں بڑھا دیں؛ مگر اس سے رسمِ خط کی صورت تو نہیں بدلی! لفظوں کو لکھنے میں یا پڑھنے میں کبھی کوئی مشکل پیش آئی تو یہ کہا گیا کہ اردو کے رسمِ خط میں اصلاح کی ضرورت ہے، اور اس بنیادی بات کو فراموش کر دیا گیا کہ اصلاح املا میں ہوسکتی ہے، رسمِ خط میں نہیں۔ وہ یا تو رہے گا یا نہیں رہے گا۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ رسمِ خط میں تغیر ہوسکتا ہے، اصلاح نہیں ہوتی۔رسمِ خط میں صورت اور روش کی بنیادی حیثیت ہے، جن ان میں کلیتاً تبدیلی ہوجائے گی، تب یہ کہا جائے گا کہ رسمِ خط بدل گیا۔ اردو کی عبارت کو اس کے معروف رسمِ خط میں لکھنے کے بجائے رومن اسکرپٹ میں لکھیے تو کہا جائے گا کہ اردو ایک دوسرے رسمِ خط میں لکھی گئی ہے۔ ترکی میں (چونکہ) رومن اندازِ تحریر کو اختیار کر لیا گیا ہے؛ تو اب یہ کہا جاسکتا ہے کہ ترکی زبان کا رسم الخط بدل گیا ہے۔ سندھی زبان عربی رسمِ خط میں لکھی جاتی رہی ہے۔ اُس کو ناگری لیپی میں (اب) لکھیں گے تو کہا جائے گا کہ سندھی کا رسمِ خط بدل گیا۔ اس کے برخلاف، بعض علامتوں یا شکلوں میں کسی طرح کی اصلاح کیجیے تو وہ اس زبان کے املا میں اصلاح مانی جائے گی، نہ کہ رسمِ خط میں۔ ’’( اردو املا، NCPUL، صفحات ۱۲،۱۳)
امیر حسن نورانی اپنے تحقیقی مقالہ میں رقمطراز ہیں کہ ’’قدیم ایران کا رسم الخط جو بھی رہا ہو لیکن فارسی زبان کے لیے عربی رسم الخط استعمال کیا گیا۔دیلمی حکمرانوں کے علمی و فنی ذوق و شوق کی بدولت آذربائیجان کا علاقہ علمی سرگرمیوں کا مرکز بن گی۔ اس علاقے میں پہلے پہل خطِ نسخ نے فنی وضع اختیار کی اور فنِ تحریر نے خطاطی کی حدوں سے آگے بڑھ کر نقاشی کے میدن میں قدم بڑھایا، اور اس خط میں مصورانہ نزاکتیں پیدا ہونے لگیں۔ایرانیوں کے ذوقِ جمال اور ان کی نفاست پسندی نے انھیں اس بات آمادہ کیا کہ عربی کے خط نسخ میں ردّوبدل کرکے کوئی نیا خوبصورت خط ایجاد کیا جائے کیونکہ خط نسخ لکھنے میں قلم ہر لفظ اور حروف میں یکساں رہتا ہے۔ آٹھویں صدی ہجری میں امیر تیمور کے عہد میں میر علی تبریزی نے خط نسخ اور تعلیق کی آمیزش سے آٹھواں خط ایجاد کیا جو حسن و نفاست میںسابقہ خطوں سے زیادہ مقبول ہوا۔ اسی کا نام ’نستعلیق‘ ہے۔ ابوالفضل نے آئینِ اکبری میں اس بات سے اختلاف کیا ہے کہ نستعلیق کی ایجاد میر علی تبریزی نے کی۔ انھوں نے لکھا کہ امیر تیمور سے قبل یہ خط وجود میں آچکا تھا۔ (اس کے لیے ابوالفضل نے کوئی حوالہ بھی دیا ہو اس کا ذکر نہیں ملتا)۔ اگر ابوالفضل کی تحقیق کو درست تسلیم کیا جائے تب بھی اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ تبریزی نے خطِ نستعلیق کو ترقی دینے میں بہت کوشش کی اور اس کے شاگردوں نے اس کو ایران، ترکستان اور ہندوستان میں پھیلایا۔ نستعلیق کو خوبصورت اور دلکش بنانے میں میر علی کے بیٹے میر عبداللہ تبریزی نے بہت محنت کی۔ اس کے بعد سلطان علی مشہدی نے اس کو مکمل کرنے کی جدوجہد کی اور وہ اس خط کا استادِ کامل بن گیا۔خطِ نستعلیق کے اصول و ضوابط خواجہ قمرالدین کے شاگرد میر علی ہروی نے مرتب کیے جو مشہور اور ماہر نستعلیق نگار تھے۔ ان کے بعد میر عماد حسین قزوینی نے اس خط کو مزید دلکش بنایا۔‘‘ (منتخبہ اقتباسات، منشی نول کشور؛ ان کے خطاط اور خوشنویس، ترقی اردو بیورو،نئی دہلی ۱۹۹۴ء۔صفحات۳۶،۳۷،۳۸)
امیر حسن نورانی مزید تحریر کرتے ہیں کہ ’’مغلیہ دور میں نسخ اور نستعلیق دونوں خط رائج تھے لیکن نستعلیق اپنی زیبائی اور دلکشی کے باعث مقبولِ عام تھا۔ اس فن کو حکومت کی سرپرستی حاصل تھی۔خطاطی اور خوشنویسی کو عہدِ شاہجہاں میں بہت فروغ حاصل ہوا۔اس کے زمانے میں میر عماد قزوینی کے شاگرد عبدالرشید دیلمی نے خطِ نستعلیق کو نکھارا اور اس میں ایک امتیازی شان پیدا کی‘‘۔ ’(ایضاً، صفحہ ۴۲)
خوشنویسی کی تاریخ شاہد ہے کہ اس کا کمال و زوال اسلامی سلطنتوں کے عروج و انحطاط سے وابستہ رہا ہے۔ چنانچہ ہندوستان و ایران میں جو عروج اس کو حاصل ہوا وہ محتاجِ بیان نہیں ہے۔ یہاں سلطنتِ مغلیہ کا زمانۂ عروج اس کے شباب کا زمانہ تھا۔ خود شاہانِ وقت بڑے پایہ کے خوش نویس و مبصر ہوئے۔ انھوں نے بڑے اہتمام سے اپنی اولاد کو بھی یہ فن سکھلایا۔ چنانچہ شاہزادوں کے علاوہ متعدد بادشاہ زادیاں اور بیگمات تک خوشنویس تھیں۔ مثلاً گلبدن بیگم، جہاں آرا، نورجہاں اور زیب النسا، اورنگ زیب، بہادر شاہ ظفر، داراشکوہ وغیرہ۔ تصویر کی طرح خوشنویسی سے تزئینِ طاق و محراب کا کام لیا جاتا تھا۔ اردو نے ایسے زمانے میںآنکھ کھولی اور ہوش سنبھالا کہ جب خوشنویسی کا دائرہ عالمگیر ہو چکا تھا اور اس کی کشش اہلِ علم و فن اور سلاطینِ زمن کو اپنی جانب کھینچ چکی تھی۔ خوشنویسوں کے قلم اپنی شاہجہانی کے علم گاڑ چکے تھے۔ (صحیفۂ خوشنویسان: مولوی شاغل عثمانی)
یہی وہ دور تھا جب ہندوستان میں نستعلیق کا باقاعدہ داخلہ اور رواج و فروغ ہوتا ہے اور یہی ’امتیازی شان پیدا کی‘ وہ نکتہ ہے جہاں سے ہندوستان میں نستعلیق کی الگ پہچان اور خالص ہندوستانیت کا رچاؤ شروع ہوتا ہے جو ہماری اردو زبان کے لیے اصلی یا اوریجنل بن جاتا ہے۔
رفتہ رفتہ عبدالرشید دیلمی کے (ہادشاہوں، شاہزادوں اور شاہزادیوں سمیت ہزاروں) شاگردوں نے ہندوستانی مزاج کے مطابق بھی قلم اور روش کے انداز تبدیل کردیے۔ اس دور میں فارسی کا رواج تھا لیکن عوامی کھڑی بولی کے روپ میں اردو بھی جنم لینے کے مراحل میں تھی۔ اسی لیے اردو کا رسم الخط گوکہ فارسی سے مستعار ہے مگر اس نے ہندوستان میں اپنا الگ رنگ وروپ اپنایا۔ اس کی زلفوں کی مشاطگی کرنے والوں نے اس کے آہنگ و نقوش میں بدلاؤ داخل کردیا۔ یہی سبب ہے کہ برصغیر میں مروّجہ خطِ نستعلیق میں فارسی زبان میں کچھ تحریر کردیا جائے تو اہلِ فارس اسے ویسی تحسین سے نہیں نوازتے جیسی وہ فارسی (طرزِ ایرانی) نستعلیق میں فارسی کے لکھ دینے سے کیا کرتے ہیں۔
غیرمنقسم ہندوستان میں ہی ہندوستانی نستعلیق کے تین اہم مکاتب وجود پاچکے تھے جو تقسیمِ وطن کے بعد بھی وہی ہیں۔ یہ مکتب یا اسکول خطِ نستعلیق کے دائروں، دامن اور روشوں میں معمولی تغیرات اور خصوصیات و حسن سے معنون ہیں۔ انھیں لکھنوی، دہلوی اور لاہوری اسکول کہا جاتا ہے۔ لکھنوی نستعلیق کے لیے منشی شمس الدین اعجاز رقم صاحب کو بلاشرکتِ غیرے استاد و موجد کہا جاتا ہے۔آپ نے متعدد کتابیں اس کے قواعد کی تحریر کرکے تعلیمِ خط کو عام کیا اور خوب داد پائی۔ دوسرا خط دہلوی اپنے آپ میں بھی بہت متغیر ہے۔ اس کے قواعد کی کوئی بھی کتاب شہروں شہروں تلاشِ بسیار کے باوجود علم میں نہیں آسکی۔ اسی سے یہ نتیجہ نکال کر یہ گستاخانہ رائے دینا پڑ رہی ہے کہ جو خط لکھنوی یا لاہوری اسکول کا نہیں ملتا اسے سب ’دہلوی‘ کہتے ہیں۔تیسرا خطِ نستعلیق لاہوری کہلاتا ہے۔ اس خط کی عمر تینوں میں سب سے کم ہے۔ کوئی ۸۰ برس ہی ہوئے ہوں گے۔ اسے لاہور میں منشی عبدالمجید پرویں رقم نے ایجاد و اختراع کیا۔ ان کے بعد تاج الدین زرّیں رقم اور ان کے بیشتر شاگردوں نے اس میں فن پارے بھی پیش کیے اور معمولی اصلاحات کے ساتھ امتیازی شان بھی پیدا کرتے رہے لیکن اس کا باقاعدہ ایک اسکول قائم ہے جس کے پاس اپنی کتابِ قواعد بھی ہے اور کثیر تعداد میں ہے۔
اردو کا رسم الخط ہی اس کا چہرہ ہے۔ نستعلیق سا نستعلیق۔ آپ نستعلیق کے بغیر اردو کا تصور نہیں کرسکتے۔دوسرے رسمِ خط میں اسے قبول نہیں کیا جاتا۔اسے تبدیل کرنے کی جتنی کوششیں ہوئیں اتنا ہی یہ مستحکم ہوا۔ قبلِ آزادی و بعدِ آزادیٔ ہند کے ادوار کی تبدیلی نے اردو کی وطنی اور ملک گیر حیثیت کو بھی یقیناً متاثر کیا لیکن اس کا چہرہ باقی رہا۔ ہنوز املا اور جملہ صحیح ہونے کے باوجود ہندوستان ہی نہیں عالمگیر سطح پراردو کو نستعلیق کے سوا دوسرے رسم الخط میں اکثریت قبول نہیں کرتی۔
نئے علوم و فنون کی ایجادات و اشاعت کا دور بہت زیادہ پرانا نہیں ہے لیکن کئی گوشوں سے رہ رہ کر یہ آواز بھی اٹھتی رہتی ہے کہ اردو کا رسم الخط تبدیل کردینا چاہیے۔ خصوصاً کمپیوٹر ٹکنالوجی کی آمد اور اس پر اردو کے کاموں میں سہولت پیدا ہونے سے قبل تک یہ بہت سے اُن حیلوں کے ساتھ بھی سامنے آتی تھی کہ جدید علوم کو اس میں منتقل ہونے اور اس کی کلاسیکیت و جدیدیت کو دوسروں میں ترسیل کے لیے اس کا رسمِ خط ہی مانع ہے۔یہ موضوع ایک طویل بحث کے ساتھ ہی دلائلِ کثیرہ کا متقاضی ہے اس لیے ہم اس پر کسی وقت اور باتیں کریں گے۔ سرِ دست ڈاکٹر امیراللہ شاہین سے استفادہ کرتے ہوئے کہنا چاہیں گے کہ ’’رہی ملکی حالات کی بات تو پورے ملک کا ایک رسم الخط محض خوش آئند تصور ہے جس کے ڈانڈے دیوانے کے خواب سے جاملتے ہیں۔ ہندوستان میں زبانوں کے چار بڑے خاندان ہیں ان سب کے اپنے اپنے علاقے بٹے ہوئے ہیں۔ہر تیس میل کے فاصلے پر لب ولہجہ میں فرق آجاتا ہے۔ سیکڑوں بولیوں کو یکجا کرنا قطعاً ناممکن ہے۔اس سلسلے کی ہر کوشش توانائیوں کوضائع کرنے کے سواکچھ نہیں۔ یوں بھی ایسی کوئی روایت کسی دوسرے ملک میں بھی موجود نہیں ہے۔ باوجودیکہ ان میں سے کچھ ممالک کے پاس زبردست عسکری تنظیم اور فکری وحدت موجود ہے۔ اس لیے یہ یہاں اور بھی قابلِ عمل نہیںہے۔ اس قسم کی ہر کوشش سے منافرت اور مغائرت کو ہوا ملے گی۔ اس لیے دانشمندی کا تقاضہ یہی ہے کہ اس گلستاں میں ہزاروں طرح کے پھولوں کو اپنی اپنی مخصوص بو، باس اور اپنے خاص آب و رنگ کے ساتھ پھلنے، پھولنے اور پھیلنے کے مواقع دیئے جائیں کہ یہی وقت کی آواز ہے اور یہی اس مسئلہ کا بہترین حل ہے۔ فی الواقع یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے، ایک سیدھی سادی حقیقت کو مسئلہ بنا دیا گیا ہے‘‘۔ (جدید اردو لسانیات، چغتائی پبلشرز، میرٹھ، ۱۹۸۳ء، صفحہ۱۳۸)
ہندوستان آنے کے بعد دورِ مغلیہ میں ایرانی طرزِ خط کو مقبولیت حاصل رہی البتہ مطابع قائم ہونے کے بعد یہاں کے کاتبوں نے اس میں حسبِ ضرورت کچھ ترمیم کر لی۔ منشی دیبی پرشاد نے ’’ارژنگِ چین‘‘ لکھ کر اوّلین رہنما کتاب پیش کی۔ منشی شمس الدین اعجازؔرقم نے اپنے کمالات کا استعمال کرتے ہوئے ایرانی طرز میں کچھ ترامیم کر کے نئے اصول وضع کیے جسے لکھنوی طرز کہا گیا۔ آپ نے ان اصولوں کی رہنمائی کے لیے نظمِ پروین، مرقعِ نگارین اور اعجاز رقم جیسی کتب مرتب فرمائی۔ اسی کے مقابل دہلی اسکول میں بھی بیشتر تبدیل شدہ اصول اپنانے کی کوشش کی گئی مگر باوجود اختراعات کے باقاعدہ قواعد کی کوئی کتاب دستیاب نہیں ہے جو طلبہ کو اس خط کی تحصیل میں معاون ہو سکے۔ اس طرح فارسی کے بعد لکھنوی و دہلوی خطوط کا اجرا عمل میں آیا جنھیں نستعلیق کی دوسری نسل (جنریشن) کہا جا سکتا ہے۔
غیر منقسم ہندوستان میں لاہور کے منشی عبدالمجید پرویں رقم کی جدت انگیز طبیعت نے ایرانی طرز کو لے کر اس میں ایسی خوبصورت ترامیم کیں کہ۱۹۳۰ء کے آس پاس ’’طرزِ پروینی‘‘ کے سامنے دوسروں کا چراغ جلنا مشکل ہو گیا تھا۔ حتیٰ کہ شاعرِ مشرق علامہ اقبالؔ نے اپنے جملہ کلام کی کتابت خود اپنی نگرانی میں پرویں رقم سے کروائی۔ بعد میں اسی طرزِ پروینیؔ کو ’خطِ لاہوری‘ کہا گیا۔ نستعلیق کی یہ تیسری جنریشن ہے۔
علامہ اقبال طرزِ لاہوری کے ایسے والا و شیدا تھے کہ ان الفاظ میں خراج پیش کیا کہ ’’اگر منشی پرویں رقم خطاطی چھوڑ دیں گے تو میں بھی شاعری ترک کردوں گا۔‘‘
منشی عبدالمجید پرویں رقم کے شاگرد و جانشین تاج الدین زریّں رقم نے اس خط کو اتنا دیدہ زیب کر کے پیش کیا کہ اس کا شہرہ چہاردانگِ عالم میں ہوا۔ فیض مجدّد لاہوری انھیں دونوں اصحاب کے شاگردِرشید تھے اور جواں عمری میں ہی ممبئی آ بسے تھے۔ پھر پوری عمر یہیں بسرکی۔ تاج الدین زرّیں رقم کو پاکستان میں ’خطاط الملک‘ کا مرتبہ حاصل تھا اور یہاں فیض صاحب کو بھی بجا طور سے ’خطاط الہند‘ کا درجہ و مقام ملا ہوا تھا۔
اسی دور میں بعض اصحاب کے یہاں امتزاجی خطوط بھی مشاہدہ میں آتے ہیں جن میں راجستھان کے خلیق ٹونکی نے اپنے حسنِ خط سے ایک پورے دور کو متاثر رکھا اور خوب داد پائی۔ہر مکتب کے خطاطوں اور خوش نویسوں نے ان کی آبیاری و پرورش میں اپنا خونِ جگر صرف کیا ہے، اصول و قواعد مرتب کیے ہیں، انھیں تفصیل سے سمجھنے میں اردو زبان و ادب کے ارتقا کی تاریخ بھی مضمر ہے۔ کیونکہ اردو کی ترقی و مقبولیت کے لیے خوشنویس و کاتب حضرات کا اپنا کرداروکارکردگی بھی اہم ہے۔ جتنے باکمال خوشنویس تھے ان کی تحریروں کو پڑھنے سے دلچسپی رکھنے والے قارئین کی تعداد بھی ہزاروں سے لاکھوں تک پہنچ جاتی تھی۔
دورِ جدید کمپیوٹر کا دور ہے۔ اردو میں یہ کچھ چالیس برسوں پر محیط ہے۔ ان چالیس برسوں سے قبل اردو کے خوش نویس و قاعدہ دان کاتب حضرات رفتہ رفتہ کم سے کم ہوتے گئے۔جدید تکنیکوں کے ساتھ طباعتی مراحل کی تکمیل اور دیگر زبانوں سے مسابقت کا دور ایک سیلاب کی مانند آیا۔ کاتب حضرات اس کا سامنا نہیں کرسکتے تھے۔ پھر زمانے کے تقاضے اور چھپائی کی تکنیک میں تبدیلیوں کے تقاضے چکی کے دوپاٹ ثابت ہوئے جن کے بیچ قلم و دوات بے حد ناتوانی کے عالم میں پس گئے۔
اردو کے لیے وقت آن پڑا کہ وہ نستعلیق کے اپنے پیکر کو برقیاتی ترقیات کے حوالے کردے اور اپنی بقا کا سامان کرلے۔ اس ضرورت کے پیشِ نظر بیشتر کوششیں ہوئی۔ کئی نستعلیق فونٹ کتابت کے بعد اسکین کرکے Bitmapبنائے گئے یا انھیں True Type فارم میں تبدیل کیا گیا، کچھ بالراست ڈیزائننگ سافٹ ویئر کورل ڈرا (CorelDRAW) میں ڈیجیٹل کتابت کیے گئے۔ جدید کمپیوٹر تکنیک کا تقاضہ ہے کہ فونٹس کو ہر قسم کے پلیٹ فارم پر آسانی کے ساتھ چلایا جاسکے۔ اس لیے انھیں یونیکوڈ unicode زبان میں تیار کیا جائے۔ اس سلسلے میں پیش رفت کرتے ہوئے نوری نستعلیق اور فیض نستعلیق کو بھی یونیکوڈ میں تبدیل کردیا گیا جو اب نئے ورژن ’اِن پیج ۳‘ میں شامل ہیں۔ اس پلیٹ فارم پر پبلشنگ اب مزید آسان اور جدید تکنیک کے مطابق ہوچکی ہے۔
ایجاد و اختراع کی منازل سے گذرتے ہوئے جدید تکنیک سے ہم آہنگی کے لیے یونیکوڈ میں کئی نستعلیق فونٹ لانچ کیے گئے ہیں لیکن طباعتی دنیا کے تقاضے صرف نوری نستعلیق اور فیض نستعلیق ہی پورے کرتے ہیں اور آج بیحد کامیاب ہیں۔ ان کا متبادل نہیں ہے۔ ان کی کامیابیوں نے اب قدیم کلاسک نستعلیق اسکولوں کے فونٹس کے ساتھ ہی جدید تقاضوں کو پورا کرنے والے ضروریاتی نستعلیق فونٹس کی ڈیزائن کے لیے دروازے کھول دیئے ہیں۔ اردو اب اپنے منفرد چہرہ کے ساتھ برقیاتی ترقی کے ہر دور میں زندہ رہے گی اور فروغ بھی پائے گی۔