قسط (3)
(5) ڈاکٹر حلیمہ سعدیہ شگفتہ ، ہرپور: نسوانی جذبات و احساسات کی ممتاز شاعرہ
پہلے عورتوں کے لئے لکھنا پڑھنا اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا خاص طور پر لکھنا تو بالکل بھی نہیں کہ لکھنا سیکھ کر عاشقوں سے رابطہ قائم کریں گے اور معاشرے میں برائی و بے حیائی کی راہ ہموار ہوگی، بادشاہوں اور شریف گھرانے کی عورتیں صرف پڑھنا سیکھتی تھیں ، ہاں! زنانِ بازاری غزلیں سیکھنے اور گانے کے لیے لکھنا پڑھنا دونوں سیکھتی تھیں کہ موسیقی ہی ان کا ذریعہءمعاش تھی ۔ عام خواتین کے لیے شعر و شاعری صرف مذموم ہی نہیں بلکہ ناجائز اور حرام کے درجے میں تھی ؛ لیکن رفتہ رفتہ حالات بدل گئے ، خواتین زیور تعلیم سے آراستہ ہو کر دنیائے شعر و ادب میں اپنی موجودگی کا احساس دلانے لگیں ۔ نذر سجاد حیدر ، راحت آرا بیگم ، بیگم ریاض حسن اور صغریٰ ہمایوں مرزا وغیرہ نے اردو ناول اور افسانے لکھے ۔ ادا جعفری ، زہرہ نگاہ ، فہمیدہ ریاض ، کشورناہید ، پروین شاکر اور سارا شگفتہ شاعری کے افق پر نمودار ہوئیں اور اردو ادب میں حقوق نسواں کے لیے باقاعدہ منظم کوشش کا آغاز ہوا ،
یہ مختصر سی تمہید سپرد قرطاس کرنے کی وجہ یہ ہے کہ آج جس شخصیت کا تعارف پیش کرنا ہے وہ ایک خاتون ہے اور میری دانست میں ضلع مدھوبنی کی اکلوتی شاعرہ ہے جو کم عمری ہی میں شعری و ادبی دنیا میں اپنی الگ شناخت بنانے میں کامیاب ہوگئی ۔
نام حلیمہ سعدیہ ہے ، شگفتہ تخلص کرتی ہیں ، والد محترم کا نام سید حسن کمال ہے ، 16 اگست 1970ء میں ہر پور مدھوبنی کے آب و گل میں آنکھیں کھولیں ، ابتدائی تعلیم و تربیت گھر کے مذہبی ماحول میں ہوئی ، بعد ازاں جامعۃ الصالحات رامپور یوپی سے انھوں نے عالمیت اور فضیلت کی سند حاصل کیں ، پھر علی گڑھ یونیورسٹی سے ایم اے کرنے کے بعد جامعہ ہمدرد دہلی سے پی ایچ ڈی کیا ، نو مہینے اپنی مادر علمی جامعۃالصالحات میں شعبہ تدریس سے وابستہ رہیں ، اس کے بعد سے تا حال جامعہ ہمدرد کے مشہور پبلک اسکول میں اسلامیات اور اردو زبان و ادب کی تدریس کے فرائض انجام دے رہی ہیں ، انتظامی امور میں انہیں پختگی حاصل ہے ، بریں بنا جامعہ ہمدرد کے مبتدی درجوں کے سکشن کی نگرانی آپ سے متعلق ہے۔
شعر و سخن سے گہری اور فطری وابستگی کے سبب شروع ہی سے مضامین لکھتی اور شعر کہتی آرہی ہیں ، بہت دنوں تک ملک کے اخبار و رسائل میں شگفتہ جینی کے نام سے شائع ہوتی رہی ہیں۔
شگفتہ صاحبہ نے غزلیں اور نظمیں دونوں اچھی خاصی تعداد میں لکھی ہیں ؛ لیکن بنیادی طور پر غزل کی شاعرہ ہیں ، ان کی غزلوں میں نسائی حسیت ، محبوب کی بے وفائی اور اس کی ہرزہ سرائی اور نسوانی درد کرب جیسے موضوعات ملتے ہیں ۔ ان کی ذات اور شاعری میں ایک طرح کی دل آویز شگفتگی ، برجستگی اور سادگی و پرکاری پائی جاتی ہے۔اردو شاعری میں اپنی منفرد شناخت قائم کرنے والی پیش رو شاعرہ پروین شاکر سے بےحد متاثر ہیں ، ان کے یہاں دوسری شاعرات کا تتبع بھی ہے ۔
شگفتہ صاحبہ عہد حاضر کی اعلی تعلیم یافتہ خاتون ہیں اور مذہبی ماحول میں تربیت پائی ہیں ؛ اس لیے ان کی شاعری میں دینی ماحول کا اثر صاف نظر آتا ہے ، مشرقی خاتون کی اطاعت گزاری اور وفاشعاری کا جذبہ ان کی غزلوں اور نظموں میں کار فرما ہے ، وہ مغربی افکار کی حامل ضرور ہیں ؛ لیکن مغرب زدہ خواتین کی طرح آزادی کے نام پر بے حیائی کو فروغ نہیں دیتی ۔
ڈاکٹر شمیم حنفی "ایک نئی نسائی شعری حسیت کا اظہار” کے عنوان کے تحت رقم طراز ہیں:
” حلیمہ (شگفتہ) کو ادب کے مطالعے سے غیر معمولی دلچسپی ہے ، روایتی شعر و ادب کے ساتھ ساتھ انھوں نے اپنے زمانے کے ادبی منظر نامے کو بھی غور سے دیکھا ہے ، اس عہد کی ممتاز شاعرات کے ادبی کارناموں کا وہ گہرا شعور رکھتی ہیں اور ہر چند کے ان کی توجہ کا سب سے نمایاں مرکز پروین شاکر کی شاعری ہے ۔ ان کی غزلوں اور نظموں میں دوسری شاعرات کے رنگ بھی کہیں کہیں جھلک اٹھتے ہیں”۔
( غنچہ پھر لگاکھلنے۔ص:9)
2003ء میں اک شعری مجموعہ "غنچہ پھر لگا کھلنے” کے نام سے منصۂ شہود پر آکر شائقین شعروادب سے داد تحسین وصول کرچکا ہے ۔
نمونۂ کلام
یوں اپنی بے بسی پر آنسو بہا رہی ہوں
اپنی ہی داستاں میں خودکو سنارہی ہوں
اس خوف سے کہ چہرہ پڑھ لینا کوئی میرا
بے نام مشغلوں میں خود کو چھپا رہی ہوں
ایک جور و جبرِ یاراں، امید صبح فردا
یہ بھی نبھارہی ہوں ، وہ بھی نبھارہی ہوں
پہنے طلائی گہنے شادی کے سرخ جوڑے
اک ہاں کہی تھی میں نےجس کو نبھارہی ہوں
یارب! شبِِ الم کی کوئی تو صبح ہو گئی
اشکوں سے میں شگفتہ شمعیں جلا رہی ہو
وہ کون ہے فرصت سے مجھے یاد کرے ہے
دل غم سے ہو معمور تو وہ شاد کرے ہے
پھر دیجئے دیوانے کی ہمت کو ذرا داد
ویرانے کا ویرانہ جو آباد کرے ہے
سرمایہ محبت کا تیری جس نے ہے لوٹا
کیا دے گا وہ کیوں اس سے تو فریاد کرے ہے
اک شان سے کرتی ہوں گوارا اسے ہر دن
جو طرز ستم روز وہ ایجاد کرے ہے
وہ جس نے کبھی زخم کھلائے تھے شگفتہ
کیا سوچ کے پھر اس کو ہی تو یاد کرے ہے
( 6 ) سلطان شمسی برداہا ،وایا کمتول:قومی شاعر، تجزیہ نگار،سماجی خدمت گار
اصل نام سلطان احمد ، شمسی تخلص ، والد کا نام محمد یوسف مرحوم ، 3 مئی 1945ءمیں برداہا کمتول میں پیدا ہوئے ، مکتبی تعلیم گاؤں کے مدرسے میں ہوئی ، 1961ء میں میٹرک پاس کیا ، 1965ء میں ملت کالج (بہار یونیورسٹی) سے بی اے کیا ، ڈاکٹر عبدالمنان طرزی اور منیر فاروقی صاحبان ایسے صاحب علم و ادب کے ہم جماعت رہے ، 1966ء میں مڈل اسکول کمتول میں درس و تدریس کے پیشے سے وابستہ ہو گئے ، پرونچھا ہائی اسکول مظفرپور اور کمتول ہائی اسکول میں بھی اپنی تدریسی خدمات انجام دیں ، اس کے بعد 1970ء میں محکمہ ڈاک میں آ گئے ، مختلف مقامات پر تبادلہ ہوتا رہا ، آخر میں دربھنگہ آئے اور وہیں سے سبک دوش ہوئے ۔
شعری سفر کا آغاز کمتول ہائی اسکول سے کیا ، وہاں طلبہ کی ایک تنظیم "بزم سخن” کے نام سے قائم تھی ، اس سے جڑ گئے ، ملت کالج آئے تو "حلقۂ فکر و فن” سے رشتہ استوار کیا ، دوران ملازمت جہاں بھی رہے وہ وہاں کی علمی و ادبی سرگرمیوں میں حصہ لیتے رہے ، شعر و شاعری سے دلچسپی زمانہءطالب علمی ہی سے رہی ہے ، آپ کے کلام ملک کے مختلف اخبارات اور رسائل میں شائع ہوتے رہے ہیں ، آکاش وانی دربھنگہ سے برسوں ہفتہ واری جائزہ پیش کرتے رہے ہیں ، توصیفی اسناد اور کئی طرح کے اعزازات سے نوازے جا چکے ہیں ۔ 2008ء میں قومی شاعر کا درجہ ملا ۔
آپ کے نعتیہ کلام کا مسودہ "مدحت رسول” جو طباعت کے لیے تیار تھی 2008ء میں سیلاب کی نذر ہو گیا ، "ریت کا سفر” پہلا شعری مجموعہ ہے ، جس میں حمد و نعت و منقبت ، غزل اور قطعات شامل ہیں ، دوسرا مجموعہءکلام "انداز سخن” ہے جو حمد و نعت و منقبت ، غزل و نظم اور قطعات پر مشتمل ہے ، تیسرا اور چوتھا آیا ہی چاہتا ہے۔
مشہور عالم دین اور بہترین ادیب مفتی ثناء الہدی قاسمی دامت برکاتہم العالیہ نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ جھارکھنڈ ان کی شاعری پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
” ان اشعار کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ادب میں رائج گروپ بندی سے الگ ہیں ، ان کی فکر ، ان کی سوچ ، ان کا تخیل اور انداز سخن "مانگے کا اجالا” نہیں ہے ۔
سلطان شمسی کی شاعری میں عصری حسیت سے بھرپور اشعار کی تعداد بھی کم نہیں ہے ۔ ان کے یہاں سہل ممتنع کی بھی مثالیں ملتی ہیں ، ان میں ایسی روانی ہے جو سبک بھی ہے اور زبان پر آسان بھی”-
نمونہ کلام
جب قصۂ پارینہ کو ہم یاد کریں گے
پلکوں کی گھنی شاخ کو آباد کریں گے
مجروح کو جو کر ڈالے ہماری ہی انا کو
ہم ایسی نہ ہرگز کبھی فریاد کریں گے
بڑھتا ہوا ظلم ان کا مٹا دے گا خود ان کو
مظلوموں پہ بے وجہ جو بیداد کریں گے
ہر پھول پہ ہر شاخ پہ ہے یاس کاعالم
خاک ایسے گلستاں کو ہم آباد کریں گے
غم کی سیاہ رات بھی کتنی مہیب ہے
ہر گام جیسے منزل دار و صلیب ہے
یادوں کی ریت پر ہے اگی دھوپ اور پھر
رستے میں کوئی پیڑ نہ منزل قریب ہے
پتھر ہو آئینہ تو ہو آئینہ مثل سنگ
اس دل کی آرزو بھی عجیب و غریب ہے
شمسی غم حیات ہی سرمایہ ہے مرا
غم آشنا ہے جو وہ بڑا خوش نصیب ہے
(جاری)