مستندومعتبرتاریخ اسلام کا زریں آغاز اگر کسی مقدس ہستی کے بابرکت تذکرہ سے ہوسکتا ہے تو بلاشبہ سرورکا ئنات ، فخر موجودات ، امام الانبیاء سرکاردوعالمﷺ کی انقلاب آفریں اور عہد ساز شخصیت ہی بجا طور پر اس بات کی اولین حقدار ہے ۔جن کے دم سے انسانیت کے خزاں رسیدہ چمن میں بہار نو آئی، جس ماہتاب کی ایک ہی کرن نے ظلمت کدہ گیتی کو مطلع انوا ر بنادیا اورجس نے ۲۳ ؍سالہ اس قلیل عرصہ میں حق وصداقت ،ر شد وہدایت اور تہذیب وثقافت کی ایسی قندیلیں روشن کی کہ قیامت تک آنے والی ساری انسانیت انہیں سے رہنمائی وروشنی حاصل کرتی رہے گی ۔
محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت سے لے کر وفات تک کے تمام احوال نیز آپﷺکی ذات مقدس وصفات عالیہ، عبادات ومعاملات، فضائل ومعجزات، احوال وارشادات وغیرہ کے جامع بیان کوسیرت کہتے ہیں۔آنحضرتﷺکی سیرت کی اہمیت کو جاننے سے پہلے انسانی دنیا کی نامور تاریخ ساز شخصیات کا ایک طائرانہ جائزہ لے لیاجائے توآپﷺکی سیرتِ پاک کی اہمیت اور اچھی طرح نکھرکر سامنے آسکتی ہے ۔
انسانی دنیا میں ویسے تولاکھوں، کروڑوں، اربوں، کھربوں انسان پیدا ہوئے اور گذرگئے ؛ لیکن کچھ لوگ ایسے بھی گذرے ہیں ،جن کی زندگی کے آئینہ میں بعد کے لوگ اپنے آپ کوسنوارنے وبنانے کی کوششیں کرتے رہتے ہیں اور اُس علم وفن میں انہیں اپنے لیے ایک آئیڈیل ونمونہ تسلیم کرتے ہیں ، جن میں شاہانِ دنیا، فاتحینِ عالم، سپہ سالار، حکماء، اطباء، فلاسفر، شعراء، امراء، قانون ساز، سائنٹس اورانجینئرس وغیرہ سرفہرست ہیں؛ لیکن ان میں سے کسی کی عملی زندگی میں ان کے متعلقہ علم وفن کے علاوہ دنیا کی پیدائش کا مقصد، انسانی فلاح وبہبود کا محور ، حسن معاشرت وحسنِ اخلاق وغیرہ کاادنی تصوربھی نہیں ملتا کہ جن کو لائقِ تقلید وقابل نمونہ بنایاجاسکے۔
ہاں! شاہانِ مملکت وفاتحینِ عالم نے اپنی بادشاہت وکامیابی کے خوب جلوے دکھائے ، پرشکوہ محلات ودربار سجائے اور اپنی بادشاہت ووجاہت کے دنیا پر خوب رعب ودبدبے جمائے ؛ لیکن انسانوں کواوہام پرستی وخیالاتِ فاسدہ کی قید وبند سے نہ چھڑاسکے اور نہ ان کوروحانی بیماری وناامیدی کے دلدل سے نکال کرروحانی صحت وامید کی صاف ستھری زمین پرلاکھڑا کرسکے ؛ اسی طرح فوج کے سپہ سالاروں نے، ملکوں ،خزانوں اور انسانی جسموں کوفتح کرنے کے خوب کارنامے انجام دیئے اور رہتی دنیا تک تاریخِ انسانی میں اپنا نام سنہری حرفوں سے رقم کروالیا ؛ لیکن روحانی سکون ا وراخلاقی اقدار کوفتح کرنے کے کارنامے انجام نہ دے سکے ؛ اسی طرح کئی ایک اطباء، حکماء اورفلاسفر بھی اِس دنیا میں گذرے ہیں ؛جنہوں نے اپنے فن وفلسفہ کی مددسے مرتے ہوئے کوبچالیا ، اپنی کمالِ عقل سے نظامِ عالم کے نقشے کوتبدیل کر دیا ، نیز عجائباتِ دنیاکے حیرت انگیز کارناموں ، نظیروں اورپیشین گوئیوں کو دنیا کے سامنے آشکارا کردیااور علمِ اخلاق کے وہ فلسفیانہ اسرار ورموز دنیائے انسانیت کے سامنے رکھ دیئے کہ دنیا اُن کوسن کر حیران وششدر رہ گئی؛ لیکن وہ اپنے علمِ طب وفلسفہ سے روحانی بیماریوں کی دواؤں کے نسخے ترتیب نہ دے سکے اور نہ عملی مثال ونمونہ پیش کرسکے ، جس کی بناء پرفلاسفہ کے وہ اخلاقی نظریات اور جملہ اسرار ورموز،،گفت وشنید ہی کی حد تک محدودرہ گئے ، اُس سے آگے نہ بڑھ سکے؛ اس لیے کہ اُن میں سے کسی نے اُن نظریات کی ترجمانی کرنے والی کوئی عملی شخصیت بطورِ نمونہ، عام انسانوں کے سامنے پیش نہیں کی کہ جس کو دیکھ کر لوگ فلسفیانہ اخلاقی اقدار اپنا سکیں؛ کیوں کہ انسانی زندگی میں اخلاقی اقدار صرف کانوں سے سن سن کرمنتقل نہیں ہوتے ؛ بلکہ کانوں سے سننے کے ساتھ ساتھ آنکھوں سے کسی کواُ س پر عمل کرتا دیکھنابھی ضروری ہوتاہے ؛ جس طرح اِن اطباء، حکماء اور فلاسفہ کی زندگیاں انسانی فلاح وبہبود کا کوئی عملی نمونہ پیش نہ کرسکیں ،اسی طرح شعرا، امراء اورقانون ساز وں کی زندگیاں بھی فلاحِ دارین کا کوئی نمونہ نہ دکھلاسکیں؛ جہاں تک شعراء کا تعلق ہے تووہ خیالی دنیا کے شہنشاہ ضرور ہیں جو زمین وآسمان کے خلاؤں کوملانے پر قدرت رکھتے ہیں؛ بلکہ خیالی دنیا میں توناممکن کوبھی ممکن بنادیتے ہیں؛ لیکن عملی زندگی میں پوری انسانیت کوسامنے رکھ کر کوئی کامیاب وکامران زندگی پیش نہیں کرسکتے کہ جس پر چل کر ایک عام آدمی دارین کی کامیاب زندگی گزارسکے ۔
اِسی طرح ایک طرف امراء اور دولتمندوں کی داستانیں ہیں جوہم کومال ودولت کمانے کے راز ہائے سربستہ توبتاتی ہیں؛ لیکن اُس صحیح زندگی کے گر کا پتہ نہیں بتاسکتیں جودنیاوآخرت کی کامیاب زندگی کی ضامن ہو اور دوسری طرف قانون سازوں کے قانون اور اُن کی عملی زندگیاں ہیں یہ بھی انسانی فلاح وکامیابی کی ضمانت نہیں دیتیں اس لیے کہ جوقانون وضع کیے گئے ہیں وہ صرف اِس دنیا کی حیات ہی کی حد تک محدود ہیں اور وہ بھی ناقص۔ جوآئے دن بدلتے رہتے ہیں؛ بلکہ وہ قوانین توحکمرانوں کی خوشنودی حاصل کرنے اور حکومت کی بقاواستحکام کے لیے وضع کیے جاتے ہیں؛ یہی وجہ ہے کہ ہرحکمران اپنے دورِ حکومت میں اپنی مرضی وپسند کے قوانین وضع کرواتا ہے اور سابقہ حکمرانوں کے قوانین کوحرفِ غلط کی طرح کاٹ دیتا ہے۔ آج بھی اِس مہذب دور میں بھی یہی صورتِ حال قائم ہے کہ آئے دن آئین ساز کمیٹی متعدد قوانین بناتی ہے اورانہیں بسا اوقات نفاذ سے پہلے ہی کالعدم کردیاجاتاہے۔
اسی طرح سائنسدانوں وانجینئروں نے اپنی تاریخی زندگی سے توستاروں وسیاروں سے لے کرذرات تک کی تحقیقات کو انسانیت کے سامنے رکھدیا اور اس کائنات کے پوشیدہ خزانوں کوکھول کر دکھادیا؛ لیکن ان کے یہ کارنامے حقیقی خدااور دائمی زندگی کا احساس نہ دلاسکے ۔
اِن میں سے ہرایک کی عملی زندگی اُن کے اپنے علم وفن کی حد تک توشایدلائقِ تقلید ہوسکتی ہے ؛ مگر بہ نظر غائر دیکھاجائے تو اندازہ ہوگاکہ اِن میں سے کسی کی عملی زندگی نہ اچھائیوں کے اقدار بتاسکی اور نہ برائیوں کے حدود قائم کرسکی، نہ انسانیت کواوہام پرستی وخیالاتِ فاسدہ کے دلدل سے نکال سکی اور نہ برادرانہ باہمی تعلقات کی گھتی سلجھاسکی کہ جس سے انسان کی معاشرت درست ہو اور وہ روحانی مایوسیوں اورناامیدیوں کا مداوا ثابت ہو؛جس سے نسلِ انسانی سے روحانی واُخروی مشکلات دُورہوں اور دلوں کی بستی میں امن وامان قائم ہو۔
مقدم الذکر تمام سرکردہ شخصیات نے کسی درجہ میں ملک کے ظاھری نظم ونسق کوتودرست کرلیا؛ لیکن روحوں کی مملکت اور دلوں کی دنیا کا نظم ونسق درست نہ کرسکے ،یہ کام اِن حضرات سے اس لیے بھی نہ ہوسکا کہ یہ اِن کا موضوع نہ تھا اور نہ وہ لوگ یہ کام کرسکتے تھے ، اس لیے کہ اس کام کے لیے اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی سے جماعتِ انبیاء علیہم السلام کا انتخاب فرمالیا تھااور اس سلسلہ کی آخری کڑی سرکار دوعالم ﷺ تھے۔
انقلاب آفریں شخصیت کا ظہور:
۹؍یا۱۲، ربیع الاول ،مطابق ۲۲، اپریل۵۷۰ء بہ روز دوشنبہ صبح صادق کے سہانے وقت اس شمع فروزاں، مہر درخشاں اور نیر تاباں کا ظہور مسعود ہوا؛ جس نے نظامہائے حیات کے مختلف گوشوں میں ایسے قابل قدر اور لائق تقلید ان مٹ نقوش چھوڑے کہ تاریخ اس کی نظیر پیش کرنے سے عاجز وقاصر ہے ،راقمِ آثم حیراں و سرگرداں ہے کہ اس ذات اقدس کی کتابِ زندگی کا کونسا ورق کھولے ، چمنستان سیرت کے کس گلدستہ کو پیش کرے ، گلشن حیات کے کس خیاباں کا تذکرہ کرے ، اخلاق واعمال کا باب کھولاجائے ، یا سیاست واقتدارکا، شجاعت وبہادری کی سرگذشت بیان کی جائے یا طہارت وپاکیزگی کی ، عدل وکرم گستری کے حالات بیان کئے جائیں یا سخاوت وغرباء پروری کے ، آپ کی سیرت وشخصیت اتنی جامع، ہمہ گیر اور ہمہ جہت ہے کہ جذبۂ عشق سے سرشار ایک عاشقِ رسول نے اس کی یوں نقشہ کشی کی ہے:
146146سلاطین کہتے ہیں شاہی دربار تھا کہ فوج تھی، علم تھا ،پولس تھی، جلاد تھے ، محتسب تھے ، گورنر تھے ، کلکٹر تھے ، منصف تھے ، ضبط تھا، قانون تھا۔ مولوی کہتے ہیں :مدرسہ تھا کہ درس تھا ،وعظ تھا ، قضا تھا تصنیف تھی، تالیف تھی ، محراب تھی ، منبر تھا ۔ صوفی کہتے ہیں خانقاہ تھی کہ دعا تھی ، جھاڑ تھا ، پھونک تھی ، ورد تھا ،و ظیفہ تھا ذکر تھا ،شغل تھا ، تخت (چلہ )تھا،گریہ تھا، بکاء تھی، وجد تھا ، حال تھا، کشف تھا، کرامت تھی ، فقر تھا ، فاقہ تھا، زہد تھا ، قناعت تھی ۔ مگر سچ تو یہ ہے کہ وہ سب کچھ تھا اس لئے کہ وہ سب کے لئے آیا تھا آئندہ جس کسی کو چلنا تھا جہاں کہیں چلنا تھا ، جس زمانہ میں چلنا تھا اسی روشنی میں چلنا تھا۔ (النبی الخاتم :مولانا مناظر احسن گیلانی )
بے شمار قلم کاروں ، سیرت نگاروں اور تاریخ نویسوں نے آپ ﷺکی حیات طیبہ کے مختلف گوشوں کو اجاگر کیا اور نہایت لطیف ، انوکھے اور اچھوتے پیرایۂ بیان میں ان کو اس طرح رقم کیا کہ آپ کی سیرت مبارکہ کا ایک ایک جز بلا کم وکاست صفحاتِ تاریخ میں ہمیشہ کے لئے محفوظ ہوگیا؛ مگر چونکہ عبادات وطاعات سے متعلق آپ کی سیرت طیبہ اورعاداتِ شریفہ پر برابر لکھا جاتا رہا ہے اور لکھا جاتار ہے گا اس لئے زیر نظر اس مختصر سی تحریر میں سیرت النبیﷺکے ان چند خاص گوشوں کو موضوع بنا گیا ہے جن کو عادتاً کم ہی بیان کیا جاتا ہے ۔
اخلا ق نبوی کی جامعیت :
انسانی فطرت کی رنگا رنگی، طبائع کا تنوع، مزاجوں کا تلون اور کسی بھی واقعہ یا حادثہ سے مثبت ومنفی اثر لینے کی کیفیات میں جو اختلاف وتعدد پایا جاتا ہے اس کا اقتضا یہی ہے کہ ہمارا اخلاقی نظام ایسا متوازن ومعتدل ہو کہ اس میں نرم وگرم اور جلال وجمال دونوں قسم کی قوتوں کا حسین امتزاج پایا جاتا ہو، نہ شروع سے آخر تک مسیحیت کی انفعالیت اور عاجزی ہو نہ شریعت موسوی کی قانونیت اور سختی ،اسلامی اخلاق کی سب سے بڑی خوبی جو اس کو دوسرے مکاتب اخلاق پر فوقیت دیتی ہے ،اس کے معلم کا وہ عظیم الشان اسلوب تعلیم ہے؛ جس کی مثال تاریخ کو لاکھ کھنگالنے پر بھی کہیں نہیں ملتی کیونکہ آپ نے قول کے ساتھ عمل اور گفتار کے ساتھ کردار کو ایسا ہم آہنگ اور مربوط فرمایا کہ خود آپ کی ذاتِ اقدس قرآن مجید کی جیتی جاگتی ، زندہ اور تابندہ تصویر بن گئی ،کیونکہ آپﷺکردار کے اعلیٰ ترین معیار پر فائز ، مکارم اخلاق کے متمم اور تحریکِ رحمت کے وہ عظیم الشان محرک ہیں کہ آپ ہی کی حسین وپرکشش شخصیت(جو ایمان کی جوہری توانائی سے موفور اور سوز محبتِ انسانی سے معمور ہے ) کے اثر ونفوذ سے رفقائے تحریک (صحابہؓ )کے دل میں بے مثال جوش وولولہ ، شخصیت میں جاذبیت ، عز م میں پختگی ، حوصلوں میں جوانی اور دعوت میں اثر انگیزی پیدا ہوئی ، مختصر الفاظ میں اگر آپﷺکی بے مثل شخصیت کا نقشہ کھینچا جائے تو بلا مبالغہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ: محبت جس کی بنیاد، ذکر جس کا انیس، غم جس کا رفیق، علم جس کا ہتھیار ، صبر جس کا لباس، عجز جس کا فخر، زہد جس کا پیشہ، یقین جس کی قوت، صدق جس کی طاقت، شوق جس کی سواری، اور عقل جس کی اساس ہے وہی نبی اکرم شفیع اعظم حضور ﷺ کی ذاتِ والا صفات ہے ۔
نبوی قیادت وسیادت:
کسی بھی انقلاب کی کامیابی کا دارومدار اس کے قائد ورہنما کی فطری صلاحیتوں ، انتھک محنتوں اور لازوال قربانیوں پر ہے ، نبی اکرم ﷺنے حق کی بلندی اور اس کی اشاعت وحفاظت کے لئے ہر قسم کی جدوجہد ، قربانی ، ایثار اور درگذر سے کام لیا اور ہر قسم کی فتنہ انگیزی اور شرپسندی کا قلع قمع کرتے ہوئے ، امن وآشتی ، اخوت وہمدردی اور محبت وبھائی چارگی کا ایسا نمونہ پیش کیا کہ اپنے تو اپنے اغیار بھی آپ کی رحمت ورافت کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوگئے ، آپ کی سیرت مبارکہ میں کوئی بھی واقعہ ایسانہیں ملتا جو دین کی جبراً اشاعت کی نظیر بن سکتا ہو ، ہاں اس کے برخلاف لطف وکرم ، ہمدردی وغم گساری اور عفو وچشم پوشی کے لاتعداد واقعات آپ کی صحیفہ حیات کے ورق ورق پر بکھرے پڑے ہیں جو پتھردلوں کو موم کردیتے ہیں ۔
ہجرت نبوی ﷺ:
جب مکہ کی سرزمین آپﷺ اور آپ کے صحابہؓ پر تنگ کردی گئی تو بحکم الٰہی آپ نے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی؛ جس سے یہ بات ثابت کرنی تھی کہ دعوت وعقیدہ کی خاطر ہر عزیز وقریب اور ہر مانوس ومرغوب چیز کو ترک کردینا ضروری ہے ؛کیونکہ یہی دونوں چیزیں دنیا وآخرت کا گراں قدر سرمایہ اور کامیابی وکامرانی کا حقیقی سرچشمہ ہے ، اکثر مغربی مصنفین نے ہجرت کے لئے فرار کا لفظ استعمال کیا ہے جس سے آپ کے میدان چھوڑ کر بھاگ نکلنے کا غلط تصور قائم ہوسکتا ہے جب کہ یہ بات قطعی طور پر غلط اور بے بنیاد ہے ؛کیونکہ مکۃ المکرمہ سے مسلمانوں کا ہٹ جانا ایک دفاعی اقدام تھا تاکہ مدینہ جاکر اپنی منتشر قوت کو مجتمع کیا جاسکے ، اور باقاعدہ کوئی مضبوط ومستحکم پلیٹ فارم تیار کیا جاسکے جس کے بعد دعوت وتبلیغ کے زمزمے بلند کئے جائیں اور احقاق حق وابطالِ باطل کا فریضہ بحسن وخوبی انجام دیا جائے ، ورنہ غور کیجئے ایک اولو العزم پیغمبر جس کی پشت پر تائیدِ الٰہی ہو ، جو خود دعوتِ حق پر مامور کیا گیا ہو ، کیا وہ دشمن کے خوف سے راہ فرار اختیار کرسکتا ہے ؟؟؟ معاذ اللہ ۔
عہد نبوی ﷺمیں تعلیمی نظام :
ہجرت سے قبل مکۃ المکرمہ میں تو کوئی مستقل تعلیمی مرکز نہیں تھا خو د سرکار دوعالمﷺ کی ذات اقدس ہی ایک متحرک دینی درسگا ہ تھی، ہر تشنہ لب اسی میخانہ سے اپنی تشنگی دور کرتا اور ہر پیاسا اسی چشمہ صافی سے سیرابی حاصل کرتا؛ مگر مدینہ طیبہ میں تعلیمی نظام کو منظم کیا گیا اور مسجد ہی کے ایک گوشہ کو اس کے کئے مختص کردیا گیا اس طرح صحابہؓ کی ایک ایک جماعت مستقل وہاں مقیم ہوگئی جن کی غرض صرف146146اقرأ145145 کے قرآنی پیغام پر عمل کرنا اور اس کو دوسروں تک پہونچانا تھا اس کے علاوہ بھی دور دراز مقامات سے مختلف قافلے بغرض تعلیم آپﷺکی خدمت میں حاضر ہوتے اور دین کا ضروری علم حاصل کرتے ۔
امت مرحومہ کی حالتِ زار :
آج ہماری زبانیں کہتی ہیں کہ رسولِ خدا کا طریقہ بر حق ہے ، ان کی زندگی بے مثال ہے ان کا حکم واجب الاطاعت ہے اور ساری دنیا کی فوز وفلاح ان ہی کی اتباع میں مضمر ؛ مگر ہمارا عمل کہتا ہے کہ ان کا بتا یا ہوا کوئی طریقہ ہمیں پسند نہیں ، ان کے کسی بھی حکم پر ہم رضامند نہیں ، نہ ہمیں ان کی تعلیم محبوب ہے نہ تبلیغ، نہ ان کے مشن سے دلچسپی ہے نہ زندگی سے ، بلکہ ہم دنیا کی نیرنگیوں میں مست اور کائنات کے بھول بھلیوں میں محو ہوچکے ہیں ؛اس لئے آج کے اس دور میں دردر کی ٹھوکریں کھائی ہوئی امت مرحومہ کے لئے اس محسن انسانیت کا اگر کچھ پیغام ہوسکتا ہے تو وہ صرف یہ کہ اپنے معمولات اور طرز حیات میں انہی کے طریقوں اور سنتوں کو زندہ کیا جائے ، ان جیسے اخلاق وکردار کو اپنا یا جائے اور ان کی متعین کردہ شاہِ راہ علم وعمل کو اختیار کیا جائے؛ جس سے ایک با ر پھر ہم زندگی کے مرجھائے ہوئے نقوش میں رنگ بھر سکتے ہیں ، دل کے تاریک گوشوں کو روشن کرسکتے ہیں اور مادیت سے متاثر مغرب زدہ انسانیت کو حیات نو بخش سکتے ہیں ۔
نفش قدم نبی کے ہیں جنت کے راستے
اللہ سے ملاتے ہیں سنت کے راستے