(کیتھ میڈوکروفٹ کے مقالہ کے تعارفی باب کا خلاصہ)
ایک مدت سے ہندو مہاسبھا کے "عروج و زوال” کی ایک نا تمام کہانی پڑھنے کا تجسس تھا۔ رچرڈ گورڈن کا مضمون (1975) اور پربھو باپو کی کتاب (2017) مہاسبھا کے ابتدائی عہد کی کہانی ہے جس میں کانگریسی و مہاسبھائی نیتاؤں میں convergence اور overlap کی بات بتانے پر زیادہ زور ہے۔ میرے ایک شاگرد بلال ماجد نے کیتھ میڈوکروفٹ کا ذکر کیا، لیکن میرے ذہن میں بات رہی نہیں۔ پھر میڈوکروفٹ کا ایک مضمون (2006)، مونجے و امبیڈکر معاہدہ (1936ء) کے تعلق سے پڑھا۔ (اس جانب میرے شاگرد سجاد حسن خاں نے توجہ دلائی؛ ملاحظہ فرمائیں، 3 فروری 2023، قندیل آن لائن) اور تب میری نظر پڑی ان کے حوالوں پر جس میں ان کے پی ایچ ڈی مقالہ (2003) اور ایم اے مقالہ (1995) کا ذکر ہے۔ ان کے پی ایچ ڈی مقالہ کے کچھ ابواب پڑھ سکا ہوں۔ اس مقالہ کا تعارفی باب ہندو مہاسبھا اور برطانوی حکومت کے آخری دس برس سے متعلق تاریخ نگاری (ہسٹوریوگرافی) پر نہایت اہم ہے۔ اس کا خلاصہ یہاں شئیر کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔
ہندوستان کو صرف ہندوؤں کی بالادستی والا ملک بنانے کی مہم میں سنہ 1930ء کی دہائی سے ہی، یہی ہندو مہاسبھا لگی ہوئی تھی اور کانگریس کے اس نظریہ کی کہ کثیرالمذاہب ملک میں سبھی شہریوں کو برابر کے حقوق و اختیارات ملے، مخالفت میں کھڑی تھی ۔ اندر پرکاش نام کے ایک کارکن نے اپنی کتاب (1952ء؛ ترمیم شدہ ایڈیشن، 1966ء) میں واضح طور پر بیرون ملک میں جنمے مذاہب کے ماننے والوں کو دوسرے درجے کی شہریت تک محدود رکھنے کی بات کہی ہے۔ برطانوی حکومت نے بھی دوسری جنگ عظیم کے آغاز ہی میں ہندو مہاسبھا کو تیسری سب سے بڑی پارٹی کا درجہ دے دیا اور سنہ 1942ء میں انہیں وائسرائے کونسل میں بھی نمائندگی فراہم کر دی۔ ہندو مہاسبھا نے بھی 1941ء سے 1945ء کے درمیان کم از کم تین صوبوں میں مسلم لیگ سے اتحاد قائم کرکے انگریزی حکومت کی پشت پناہی حاصل کرتے ہوئے حکومت چلائی۔ (بنگال کے تعلق سے ثنا ائیر کے مضمون، 2008، نے اس کی وضاحت کی ہے؛ دیگر صوبوں میں لیگ و مہاسبھا اتحاد کی حکومت کو برطانوی پشت پناہی کا انکشاف کرنے والی تحقیقات سے ابھی میں زیادہ واقف نہیں ہوں؛ میڈوکروفٹ نے بھی ان پہلوؤں کی تفصیل سے گریز کیا ہے)۔
سنہ 1946ء و 1947ء میں، کانگریس نے مہاسبھا کے اتحاد سے عنان حکومت سنبھالنے کی کوشش کی، لیکن آزادی کے بعد یہ ممکن نہ ہو سکا کیوں کہ مہاسبھا نے ہندو راشٹر قائم کر کے پاکستان کو ضم کرنے کی بات کرنی شروع کردی۔ "ہندو خطرے میں ہے” کی بات یو۔ این۔ مکھرجی نے 1910ء میں، سوامی شردھانند نے 1926ء میں، اور سنہ 1939ء میں گولوالکر نے اپنی تصنیفوں میں کی تھی۔ ساورکر ( صدر، مہاسبھا، 1938 سے 1944) کے درمیان کی تحریروں اور تقریروں میں تو باضابطہ تصور پیش کیا گیا۔ لالہ لاجپت رائے (1928-1865) کی تحریروں میں بھی ایسے سیاسی تصورات پائے جاتے ہیں، بالخصوص پنجاب ہندو سبھا کے صدارتی خطبہ (1909ء) میں۔
حالاں کہ، پہلی جنگ عظیم کے دوران لاجپت نے ہندو مسلم اتحاد پر بھی زور ڈالا۔ بعد کو 1922ء سے 1924ء کی تحریروں میں "ہندو خطرے میں ہے” کی بات کرنے لگے۔ یہ وہ وقت تھا جب خلافت کی اتحاد اسلامی تحریک اور موپلا تشدد والے فسادات نے لاجپت رائے کو خائف کر رکھا تھا۔ اس کی توجیہ اور توضیح انتظار حسین نے اپنی کتاب اجمل اعظم (1999) میں کی ہے۔
کیتھ میڈوکروفٹ بتاتے ہیں کہ سنہ 1937ء کے صوبائی انتخابات میں کانگریس کی کامیابی سے زمیندار طبقہ، سرمایہ دار اور ریاستی رجواڑے خائف ہو گئے تھے اور اسی کے بعد برطانوی پشت پناہی پا کر ہندو مہاسبھا اور مسلم لیگ تیزی سے طاقت ور ہوتی چلی گئی۔ یعنی مقابلہ جاتی فرقہ پرست سیاست کو توانائی ملنے لگی۔ ورنہ مہاسبھا کے قیام (1915) سے 1922 تک اور 1922 سے 1927 تک مہاسبھا ایک ہندو سیاسی تنظیم اور مخصوص نظام اقتدار کے تصور کے طور پر خود کو زیادہ واضح طور پر پیش نہیں کر سکی تھی۔ ساورکر نے اسے ہندو دھرم سبھا کے بجائے ہندو راشٹر سبھا بنانے کی بات 1937ء میں کی۔ سنہ 1922 سے 1937 کے درمیان اس کی صدارت مالویہ (1866-1946)، مونجے (1872-1948) اور بھائی پرمانند (1876-1947) نے کی اور ان تینوں میں سے ہر ایک اپنے سابق صدر سے زیادہ تشدد پسند پائےگئے۔ مالویہ تو شدھی، گؤکشی پرپابندی، اور ہندو دفاع و اتحاد کے لئے ملٹری ٹریننگ وغیرہ پر aggressive ہوتے چلے گئے۔ مالویہ نے ہندو مہاسبھا کا استعمال کانگریس کے اندر موتی لال نہرو کے خلاف اپنے گروہ کی پکڑ بنانے کے لئے کیا۔ سنہ 1926ء کے انتخابات میں فرقہ وارانہ خطوط پر انتخابی مہم چلائی۔ مونجے نے 1927 سے 1933 تک مہاسبھا کی صدارت کی۔ بال گنگا دھر تلک کے یہ شاگرد خاص، سنٹرل پراونسز اور ناگ پور میں کانگریس کے اہم ترین لیڈر تھے، لیکن کانگریس سے دور ہوکر مہاسبھا کو ملٹرائز کرنے میں ان کا اہم رول تھا۔ آرایس ایس کے ہیڈگیوار اسی مونجے کے شاگرد تھے، ہیڈگیوار کئی برس تک مونجے ہی کے مکان میں رہے تھے۔ ہیڈگیوار اور مونجے کے علاوہ تین اور لوگ تھے جو آر ایس ایس کے بانی کی حیثیت رکھتے ہیں۔
مونجے ہی نے ہندو مسلم ایکتا کی رسمی بات سے بھی انکار کر دیا۔ وہ مسلمانوں کو ہندوؤں کے قدموں پر ناک رگڑنے کے لئے مجبور کرنے کے قائل تھے۔ پرما نند اور مالویہ کے باہمی تصادم میں مونجے کی حمایت سے پرمانند کامیاب رہے اور ساورکر نے مکمل ہندو راشٹر کا نصب العین دے دیا۔ اس سے قبل 1915 سے 1926 تک کانگریس کے کئی گرم دل والے لیڈر (تلک کے چیلے) مہا سبھا میں بھی تھے۔ مثلا مونجے (ناگ پور)، این سی کیلکر (پونا)، ایم ایس آنے (برار) ایم آر جیکر (بمبئی)۔ رچرڈ گورڈن کے مضمون (1975) میں اس کی وضاحت کی گئی ہے۔
اتر پردیش کے بڑے زمینداروں کی انھیں حمایت حاصل تھی اور مہاسبھا کا الزام کانگریس کے خلاف یہ تھا کہ یہ مسلم تشٹی کرن کرتی ہے۔ یعنی برطانوی حکومت سے مراعات حاصل کرنے میں کانگریس ہندو مفادات کا خیال نہیں رکھتی اور کونسل کی ممبری، نوکری وغیرہ میں ہندو نمائندگی بہت کم رکھی جاتی ہے۔ خلافت تو مسلمانوں، اور بیرون ملک کے مسلمانوں کا مسئلہ ہے۔ کانگریس اس کے لئے کیوں لڑ رہی ہے؟ اور یہ بھی کہ عوام کو سول نافرمانی کیوں سکھائی جا رہی ہے؟ تلک کے معتقدین اور لاجپت کے معتقدین ان کی موت کے بعد کانگریس سے دور بھاگ رہے تھے۔
حالاں کہ کانگریس اور مہا سبھا کے درمیان بڑھتی خلیج سے یہ بھی ہورہا تھا کہ کئی مہا سبھا سے علیحدہ ہو کر مکمل طور پر کانگریس کے ہو رہے تھے۔ اس لئے بھی کہ بہ قول جگت نرائن لال (مکتوب بنام مالویہ، بتاریخ 29 جون 1936) کونسل کی ممبری کانگریس کی معرفت ہی حاصل ہو سکتی تھی۔ سنہ 1937ء کے بعد انگریزی حکومت کی پشت پناہی پا کر مسلم لیگ اور ہندو مہاسبھا کی طاقت میں شدید اضافہ ہوتا چلا گیا۔ دونوں پارٹیوں نے مسلمانوں کو مختلف اور alien نیشن بتلانا شروع کر دیا اور اونچے طبقہ کے ایک بڑے حصے کے لئے اور دیسی ریاستوں کے لئے یہ پارٹیاں بڑی پناہ گاہ بنتی گئیں،کیوں کہ کانگریس دن بہ دن کسانوں، مزدوروں، اچھوتوں، آدی باسیوں اور دیگر محروم طبقوں کی حمایت میں آگے بڑھتی جا رہی تھی اور انگریزی حکومت کے لئے کانگریس ہی بڑا چیلنج تھی۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران برطانوی راج نے مسلم لیگ اور ہندو مہاسبھا کی پشت پناہی خوب کی۔ اینگلو ہندو اتحاد کی اس داستان کو مقالے کا دوسرا حصہ تفصیل سے واضح کرتا ہے۔ پرائمری مآخذ پر مبنی یہ تحقیق بہت ہی اہم ہے۔
میڈوکروفٹ ولفریڈ سی اسمتھ (1946، ص 172) کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ فرقہ واریت ایک نشہ آور ڈرگ ہے، جتنی خوراک دیتے جائیے اتنی زیادہ کی طلب بڑھتی جاتی ہے۔ لارڈ برکن ہڈ اور چرچل ہندو مسلم تفرقہ کو ہی برطانوی استحکام کی ضمانت بتاتے رہے۔ میڈوکروفٹ اپنی تحقیق کے اسکوپ کی حدیں بھی واضح کرتے ہیں۔ ان کی تحقیق مہاسبھا کی سیاسی تاریخ ہے، اس کے تنظیمی ڈھانچہ، ذیلی شاخوں کی سوشل خدمات، ہندو مہیلا سبھا کی تفصیلات، سوشل کمپوزیشن وغیرہ پر زیادہ تفصیل پیش نہیں کی ہے۔ مہاراشٹر اور بنگال کے مہاسبھا کے درمیان واضح فرق تھا۔ پنجاب اور اتر پردیش میں مہاسبھا کافی توانا تھی۔ گوالیار سمیت سینٹرل بھارت اور مغربی بھارت کی دیسی ریاستوں میں بھی مہاسبھا کافی مضبوط تھی۔ الور اور بھرت پور میں بھی اس کی مقبولیت زیادہ تھی۔ یہ اہم مقالہ کتابی شکل میں شائع ہوجانا چاہئے تھا، پی ڈی ایف کی شکل میں آن لائن دستیاب ہے اور اسے پڑھنے لائق ہے۔