Home تجزیہ جمہوری نظام کا زوال:اسباب کیا ہیں؟-ڈاکٹر یوسف رامپوری

جمہوری نظام کا زوال:اسباب کیا ہیں؟-ڈاکٹر یوسف رامپوری

by قندیل

گزشتہ دنوں جمہوریت کے موضوع پرمنعقدہ دوروزہ عالمی ورچوئل کانفرنس میں واضح طورپر اس بات کا اعتراف کیا گیا ہے کہ اس وقت دنیابھر میں جمہوریت کو خطرات لاحق ہیںاور جمہوری اقدار کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔جمہوریت کے موضوع پرشرکائے کانفرنس کے مذکورہ خیالات کے بعد بھلے ہی اب پوری دنیا میںجمہوریت کے حوالے سے بحث ومباحثہ کا سلسلہ شروع ہوگیا ہو ،لیکن حقیقت یہ ہے کہ جمہوری نظام کے زوال کے آثار گزشتہ کئی دہائیوں سے ظاہرہورہے ہیں اور اس بات کے بھی اشارے مل رہے ہیں کہ دنیا میں جمہوری نظام بہت عرصے تک قائم رہنے والا نہیں ہے۔کیونکہ جس جمہوریت کا دنیا میں ڈھنڈورا پیٹا جاتا رہا ہے، وہ حقیقی معنوںمیں کہیں نظرنہیں آتی،یہاں تک کہ جمہوریت کے سب سے بڑے دعویدار مغربی ممالک بھی حقیقی جمہوریت کے حامل نہیں ہیں۔ جمہوریت کا تقاضہ ہے کہ تمام باشندوں کو مساویانہ حقوق حاصل ہوں اور سب کے ساتھ ایک جیسا سلوک ہو،لیکن کیا فی الواقع ایسا ہوتا ہے؟ کون نہیں جانتا کہ فرانس اور برطانیہ سمیت کئی مغربی ممالک میں برقعہ کو نشانہ بنایا جاتا ہے اور کئی جگہ مذہبی رسوم ا داکرنے پربھی روک لگانے کی کوشش کی جاتی ہے۔اتنا ہی نہیں بلکہ نسلی اورفرقہ وارانہ تشدد کے واقعات بھی جمہوری ممالک میںخوب پیش آتے ہیں۔
یہاں یہ سوال بہت اہمیت کا حا مل ہے کہ جس جمہوری نظام کی بہت سی خصوصیات بیان کی جاتی رہی ہیں ، وہ اتنی جلدی دم کیوں توڑ رہا ہے۔ملوکیت ، بادشاہت اور آمریت کے زوال کی تو وجوہات سمجھ میں آتی ہیں کہ ان میں تمام طبقات کو نمائندگی حاصل نہیں ہوتی، پورا سرکاری نظام چند لوگوںکی مٹھی میں ہوتا ہے اور باقی سب لوگ محکومیت کی زندگی گزارتے ہیں ، لیکن جس حکومت کو تمام لوگ مل کر بناتے ہیں اورآئین میں تمام لوگوںکے حقوق کو مساویانہ طورپر شامل کیا جاتاہے ،تووہ جمہوری نظام زوال پذیر کیوں ہوتا جارہا ہے؟اس کی کیاوجوہات ہیں؟
دراصل جن ممالک میں جمہوریت قائم ہے اور جمہوری طرز پر حکومت بھی تشکیل پاتی ہے ، ان پر گہرائی سے نگاہ ڈالنے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ وہاں جمہوریت ہونے کے باوجود جمہوری اقدار کا تحفظ نہیں کیاجاتا۔مثال کے طورپر جمہوری نظام کا تقاضہ ہے کہ حکومت میں تمام طبقات کی نمائندگی ہو، وزارت میںبھی ہر طبقے کی آبادی کے تناسب سے حصہ داری ہو۔لیکن عملاً ایسا نہیں ہوتا کیوںکہ انتخابات کے دوران اقلیتی طبقے کے امیدوار زیادہ سیٹیں اس لیے نہیں جیت پاتے کہ ان کے ووٹوں کی تعداد اکثریت طبقے کے مقابلے میں کم ہوتی ہے۔مثلاً اگر کسی سیٹ پر کسی ایک طبقے،برادری یا مذہب کے لوگوں کے بیس فیصد ووٹرس ہیں اور دوسرے طبقے کے 80 فیصد تو اقلیتی طبقے کا امید وار اس لیے نہیں جیت پاتا کہ اس کو اکثریتی طبقے کے ووٹرس کے ووٹ حاصل نہیں ہوپاتے اور اس کے اپنے طبقے کے ووٹوں کی تعداد کم ہوتی ہے۔چونکہ عام طورپرووٹرس اپنے ووٹوں کا استعمال برادری،مذہب اور نسل وذات کی بنیاد پر کرتے ہیں ،اس لیے اقلیتی طبقے کے لوگ اپنی آبادی کے تناسب سے سیٹیں حاصل نہیں کرپاتے ، کیونکہ ہر سیٹ پر ان کی آبادی کا فیصد کم ہوتا ہے، بہت کم سیٹیں ایسی ہوتی ہیں جہاں ان کی آبادی کا فیصد زیادہ ہو۔یہی وجہ ہے کہ اقلیتی طبقے کے لوگ پارلیمنٹ یا اسمبلی میں اپنی آبادی کی بہ نسبت بہت کم ہوتے ہیں اور حکومت میں بھی ان کی تعداد نہایت کم ہوتی ہے۔گویاکہ موجودہ جمہوری نظام میں حکومت سازی کے لیے ووٹ ڈالنے کا حق تو سب کو مساوی طورپر دیا جاتاہے ، مگر حکومت میںعملاً سب کی حصہ داری برابر نہیں ہوپاتی۔ایسی صورت میں حکومت میں اکثریتی طبقے کے لوگوںکی بہت بڑی تعداد ہونے کی وجہ سے ایسے بل کے منظور ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں جو اقلیت کے لیے نقصان دہ ہوںیا جن سے اقلیتی طبقے کے افراد اتفاق نہ رکھتے ہوں۔اس طرح جمہوری بنیادوںپر تشکیل پانے والی حکومت پوری طرح سے جمہوریت پر مبنی نہیں ہوتی۔
ووٹ ڈالنے کے عمل میں برادری واد، ذات پات اور مذہب ومسلک کا تصور نہ ہو ،اس کا التزام آج تک نہیں ہوپایا ہے، حالانکہ ان بنیادوںپر ووٹ کااستعمال نہ کرنے کے لیے بار بارکوششیں کی جاتی ہیں، لیکن ان کا کوئی نتیجہ نہیں نکل پاتا۔اس کی وجہ یا تویہ ہوتی ہے کہ یہ کوششیں اخلاص پر مبنی نہیں ہوتیں یا پھربرادری ، خاندان، مسلک اورمذہب کے تصورات کے سبب خالص جمہوری انداز میں ووٹوں کا استعمال ممکن ہی نہیں ۔حالانکہ یہ بات تقریباً طے ہے کہ جب تک خاندان، ذات برادری، اور مذہب ومسلک کی بنیاد پر الیکشن لڑے جاتے رہیں گے ، اس وقت تک جمہوریت کو مضبوطی حاصل نہ ہوگی ۔
گزشتہ چند دہائیوں کے دوران ایک اور بات دیکھنے میں آئی ہے کہ مختلف ممالک میںقوم پرستی کے رجحان کو زیادہ تقویت دینے کی کوشش کی گئی ہے ،جس کا تذکرہ مذکورہ کانفرنس میں بھی کیا گیا ۔چنانچہ جن ممالک میں قوم پرستی کے تصورمیں شدت دیکھی گئی وہاں کے باشندے دوسری قوم یا ملک کے لوگوںکے لیے وسیع النظرنہیں دیکھے جاتے۔اس کی بہت سی مثالیں ہم مغربی ممالک میں دیکھ سکتے ہیں جہاں دوسرے ممالک کے بہت سے لوگ بودوباش اختیار کیے ہوئے ہیں۔وہاں کے مقامی باشندے انھیں کوئی اہمیت نہیں دیتے ، بلکہ ان کے ذریعے حقارت آمیز اوربد سلوکی کے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں۔حیرت کی بات تو یہ ہے کہ بعض جمہوری ممالک میںقوم پرستی سے آگے فرقہ پرستی کو بھی خوب بڑھاوادیا جارہا ہے۔جس کے اثرات نے عملی طورپر جمہوریت کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔
گزشتہ چند دہائیوں کے دوران یہ بات بھی مشاہدے میں آئی ہے کہ بعض حکومتیں یا حکمراں جماعتیں اپنے مفادات کے لیے جمہوریت کی بنیادوں کو ہلانے سے بھی گریز نہیں کرتیں ۔ اس کی سب سے بڑی مثال’ میڈیا‘ کے ساتھ ہونے والا برتائوہے۔کون نہیں جانتا کہ آج بہت سی حکومتیںمیڈیا کو اپنے مطابق چلانے کی کوششیں کرتی ہیں،خواہ اس کے لیے میڈیا ہی کوکیوںنہ خریدنا پڑے یا پھر میڈیاسے وابستہ لوگوںکو دھمکیاں کیوںنہ دینی پڑیں ۔اس کے باوجود بھی اگر وہ حکومتوں کی کمزوریوں کو اجاگر کرتے ہیں توانھیں پابند سلاسل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔اس کا ثبوت حال ہی میں منظر عام پر آنے والی وہ رپورٹ ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ رواں سال میں بڑی تعداد میں صحافیوں کو جیل بھیجا گیا ہے۔اس رپورٹ کے مطابق سال 2021میں دنیا بھر میں 293صحافیوں کو پابند سلاسل کیا گیا ہے ۔صحافیوں کو سلاخوں کے پیچھے بھیجنے کا یہ عمل کسی ایک ملک میں نہیں کیاجارہاہے ، بلکہ بہت سے ان ملکوں میں بھی کیاجارہا ہے جو جمہوریت کے بڑے دعویدا رہیں۔چین ، برما، مصر، ویتنام، روس، ایران،ترکی، ایتھوپیا جیسے کئی ممالک میں صحافیوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔رواں سال 24صحافیوں کے قتل کی وارداتیں بھی سامنے آئی ہیں۔یہ تو وہ اعداد وشمار ہیں جو روشنی میں آگئے ، ورنہ حقیقی تعداد اس سے بھی زیادہ ہوسکتی ہے۔موجودہ عہد میںایک اور خطرناک صورت حال یہ سامنے آرہی ہے کہ اب میڈیا کو زیادہ کمانے کا ذریعہ سمجھاجانے لگا ہے ۔میڈیا کے ذریعے خطیر رقم کمانے کے رجحان نے میڈیا کی معتبریت کو خطرے میں ڈال دیا ہے اور غیر جانبداری کے تصور کو بھی سخت نقصان پہنچایا ہے۔ اسی لیے اب اخبارات اور چینل مخصوص پارٹیوں کی وکالت کرتے ہوئے نظرآرہے ہیں۔ غوروفکر کا مقام یہ ہے کہ جب حکمراں جماعتیں میڈیا کو اپنا پابند بنانے کی کوششیں کریں گی یا میڈیا سے وابستہ افراد’ میڈیا‘کو محض آمدنی کا ذریعہ سمجھنے لگیںگے تو پھر جمہوریت کہاںباقی رہ جائے گی؟ضرورت اس بات کی ہے کہ میڈیا کو غیر جانبدار بنایا جائے اورجمہوریت کے تمام تقاضوںکو بروئے کار لایا جائے، تاکہ حقیقی جمہوریت کا تحفظ کیا جاسکے ، ورنہ تو برعکس صورت میں جمہوریت کا نام بھلے ہی باقی رہ جائے،مگر حقیقت میں جمہوریت باقی نہیں رہے گی۔
گزشتہ صدی میں جب سرمایہ دارانہ نظام زوال پذیر ہورہا تھا اور جمہوری نظام کی ہوائیں چل رہی تھیں تو اقبال نے کہاتھا:
گیا دورِ سرمایہ داری گیا
تماشہ دکھاکر مداری گیا
لیکن اب کچھ اس طرح کی صورت حال جمہوریت کے ساتھ بھی نظرآنے لگی ہے۔جس کے تعلق سے متعدد خدشات کا اظہار عالمی کانفرنس میں کیا گیا ۔اگر عالمی سطح پر جمہوریت کے زوال کی یہی رفتا ررہی تو کہیں ایسا نہ ہوکہ شاعر کو یہ کہنا پڑے ’’گیا دورِ جمہوریّت بھی گیا‘‘۔چنانچہ اس سے پہلے کہ جمہوریت شدید خطرات کی زد میں آجائے ، اس میںتازگی پیداکرنے کے لیے انصاف، مساوات اور حقیقی جمہوری اقدار کو فروغ دیاجائے۔

You may also like