Home تجزیہ تیرا کیا ہوگا ارنب؟ ـ شکیل رشید

تیرا کیا ہوگا ارنب؟ ـ شکیل رشید

by قندیل

(ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز)

ٹی آر پی چوروں کو سزا تو ملنی ہی چاہیے لیکن یہ صرف ٹی آر پی کے چوروں کا ہی معاملہ نہیں ہے اور نہ ہی یہ صرف ٹی آر پی کی چوری کا ہی جرم ہے ۔ یہ اپنے دامن میں کئی اور طرح کے چوروں بلکہ مجرموں اور جرائم کو چھپائے ہوئے ہے، جیسے کہ جھوٹ اورفریب کا پرچار، فیک بیانیہ اور اس فیک بیانیہ کے ذریعے ملک کے دو بڑے مذہبی گروہوں کے درمیان نفرت کو شدید تر کرنے کا بیوپار، انتہائی گھناؤنی فرقہ وارانہ جانبداری کا اظہار، سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ بنانے کے لیے ثبوتوں کو گڑھنے اور خریدے ہوئے گواہوں سے حلف دلوانے کا مجرمانہ طریقہ کار، اور ان سب کی بنیاد پر ملک بھر میں ناانصافی کو فروغ دینے یا ناانصافی کو ہی انصاف کہنے کی زوردار تکرار اور گروہی تشدد اور فرقہ وارانہ فسادات کو ہوا دینے کے لیے حقائق کا انکار ۔ یہ سب مکروہ جرائم ٹی آر پی کے پیٹ ہی سے نکلے ہیں ۔ جو نیوز چینل، این ڈی ٹی وی جیسے چند ایک کو چھوڑ کر، خود کو سب سے بڑا قوم پرست، نیشنلسٹ یا باالفاظ دیگر سب سے کٹر ہندو منوا لے اور اس بنیاد پر سارے ملک کا سب سے مقبول چینل بن جائے، جگہ جگہ دیکھا جائے، یقینا اسی چینل کی ریٹنگ، مرتبہ یا رتبہ بلند ہوگا لہذا اسی کا ٹی آر پی بڑھے گا اور اسی کے اشتہارات کے ریٹ یعنی در زیادہ ہوں گے اور تقریباً 40000 کروڑ روپے کے اشتہارات کے کاروبار میں اس کا حصہ سب سے زیادہ ہوگا ۔ تو یہ نیوز چینل وہ گدھ اور کوٌے ہیں جو اتنے بڑے کاروبار میں سے اپنے حصے کے حصول کے لیے کسی خبر پر یوں ٹوٹتے ہیں جیسے مردہ خور لاشوں پر ٹوٹتے ہیں ۔ آور پھر یہ تمام اخلاقیات اور صحافتی اصولوں کو طاق پر رکھ کرکائیں کائیں کرتے رہتے ہیں ۔ یہ کائیں کائیں فیک اور نفرت سے بھرپور ہوتا ہے، اور اس کے لیے ان کے سروں پر وہ ہاتھ سایہ کیے رہتا ہے جو مذکورہ تمام جرائم کو اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے. …. حکمران اور افسران…. لہٰذا ٹی آر پی چور تو چور ہیں ہی لیکن ٹی آر پی بٹورنے کی دوڑ میں انہیں دوڑانے والا بااقتدار طبقہ ان سے کم قصوروار نہیں ہے ۔ ایک حمام میں سب ہی ننگے ہیں، لہٰذا ٹی آر پی چوروں کے ساتھ ان پر بھی شکنجہ کسنا چاہیے، لیکن سوال یہ ہے کہ یہ کرے گا کون؟ اس سوال کا ایک ہی جواب ہے، عوام ۔ جی ہاں شکنجہ اگر کوئی کس سکتا ہے تو وہ عوام ہی ہے ۔ لیکن پھر یہ سوال اٹھ جاتا ہے کہ کیا عوام اس کے لیے تیار ہے؟ فی الحال ایسا لگ تو نہیں رہا ہے، لیکن تبدیلی فطرت کے اصولوں میں سے ایک اصول ہے لہذا تبدیلی آج نہ سہی کل ہونا ہی ہے ۔
بات ٹی آر پی چوروں اور ان کے سرپرستوں کی چل رہی تھی ۔حالیہ معاملہ میں جے پی کے بھونپو ارنب گوسوامی اور ان کے ریپبلک نیوز چینل کا نام سرفہرست ہے، یعنی ممبئی پولیس کی مانی جائے تو ریپلک نیوز چینل سب سے بڑا چور ہے ۔ اس چینل نے یا یہ کہہ لیں کہ ارنب گوسوامی نے ٹی آر پی کی چوری سے پہلے اپنا اور اپنے چینل کا رتبہ بڑھانے کے لیے فیک بیانیے اور نفرت کی تبلیغ کا کاروبار شروع کیا ۔ اور سارا فیک بیانیہ وہی تھا جو حکمراں طبقہ چاہتا تھا، گویا یہ کہ کوٌا کوٌے کے ساتھ اڑ رہا تھا ۔ مثال تبلیغی جماعت کی لے لیں ۔ تبلیغی جماعت پر جب ملک بھر میں کورونا وائرس پھیلانے کے لیے ہندوتواوادی انگلیاں اٹھا رہے تھے تب ریپبلک نیوز چینل نے تبلیغی جماعت کو مجرم قرار دینے کے لیے کسی عدالتی فیصلے کا انتظار کرنے کی ضرورت تک نہیں سمجھی تھی ۔ دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ بھر سارے چینل، رویش کمار کے این ڈی ٹی وی کے پرائم ٹائم اور چند ایک کے علاوہ، کوٌے کی کائیں کائیں میں شامل ہو گئے تھے ۔ آج جو چینل ریپلک نیوز چینل کو ٹی آر پی چوروں کی صف میں کھڑا دیکھ کر اپنی بغلیں بجا رہے ہیں وہ سب کے سب اسی طرح فیک بیانیے اور نفرت کے پروپیگنڈے کا حصہ تھے جیسے کہ ریپبلک چینل، بلکہ اگر یہ کہا جائے تو شاید زیادہ درست ہوگا کہ وہ ارنب گوسوامی کے تحریرکردہ منظرنامے کے مہرے بن گئے تھے، ارنب گوسوامی کا چینل جس راہ پر چلتا وہ بھی اس راہ پر چلنے کو مجبور ہوتے تھے، اور آج بھی ریپبلک چینل کی راہ پر چلنے پر مجبور ہیں جیسے کہ سشانت سنگھ راجپوت معاملہ اوریا چکرورتی کا میڈیا ٹرائل ۔ اسے ارنب کی ایک بڑی کامیابی کہا جا سکتا ہے . آئیں ماضی قریب کے ان لمحوں کی طرف تھوڑی دیر کے لیے رخ کرلیں ۔

جب یہ خبر پھیلی کہ دہلی کے نظام الدین کے تبلیغی جماعت کے مرکز میں اجتماع کے بعد بھی بہت سے جماعتی، جن میں غیرملکی بھی شامل ہیں، اپنے اپنے ٹھکانوں پر واپس نہیں جا سکے ہیں تب ایک ہنگامہ اٹھ کھڑا ہوا ۔ مرکزی حکومت اور دہلی کی اروند کیجریوال سرکار نے تبلیغی جماعت پر کورونا پھیلانے کا الزام عائد کیا، بی جے پی کے لیڈروں کو مسلم فرقے کو نشانہ بنانے کا موقعہ حاصل ہوگیا، بس کیا تھا ارنب گوسوامی فیک بیانیہ کے ساتھ ریپبلک چینل پر کائیں کائیں کرنے لگا کہ یہ ان کے بھارت دیش میں کورونا پھیلانے کی سازش ہے ۔ انتہائی ڈرامائی انداز میں ارنب نے کورونا کی وباء کو جہاد سے جوڑ دیا اور سارے ملک میں کورونا جہادی کے نام پر مسلمان نشانے پر لے لیے گئے ۔ آج تک، نیوز 18، ٹائمز ناؤ، زی نیوز، اے پی پی نیوز غرضیکہ سارا الیکٹرانک میڈیا ارنب کی راہ پر چل پڑا ۔ یہ نیشنلسٹ کہلانے والے میڈیا کا انتہائی غلیظ چہرہ تھا ۔ نفرت کے پروپیگنڈے نے مسلمانوں کی جان عذاب میں ڈال دی، مسلمان سبزی فروش اگر دوسروں کے محلے میں گئے تو ان پر کورونا جہاد کا الزام لگا کر انہیں پیٹا گیا، معاشی ناکہ بندی کی گئی اور مآب لنچنگ میں جان سے مارا گیا ۔ یہ جو جانیں گئی ہیں ان کے خون سے ٹی آر پی) چور نیوز چینلوں کا دامن لال ہے، زعفرانیوں کا تو ہے ہی ۔ آج جبکہ سارے فیک بیانیے کی قلعی کھل گئی ہے اور ممبئی ہائی کورٹ سمیت ملک کی کئی عدالتوں اور سپریم کورٹ تک نے کورونا کو پھیلانے کے الزام سے تبلیغی جماعت کو بری قرار دیا ہے، ان چوروں کے پھیلائے ہوئے جھوٹ کو بہت بہت سے لوگ سچ ہی سمجھ رہے ہیں ۔ جمعیۃ علماء ہند (ارشد مدنی) نے اس تعلق سے ایک درخواست

سپریم کورٹ میں ڈال رکھی ہے، اتفاق سے جس روز ٹی آر پی گھوٹالہ اجاگر ہوا اسی روز سپریم کورٹ میں اس معاملے کی شنوائی تھی، حکومت ہند نے اپنا جو حلف نامہ عدالت عظمیٰ میں داخل کیا تھا اس نے چیف جسٹس ایس اے بوبڑے کو سخت طیش دلا دیا اور انہوں نے بہت ہی غصے سے حکومت کو لتاڑتے ہوئے کہا کہ حالیہ دنوں میں اظہاررائے کی آزادی کا بےدریغ غلط استعمال ہوا ہے اور یہ کہ جو حلف نامہ عدالت میں داخل کیا گیا ہے وہ نامکمل ہے اور حیلہ سازی و ڈھٹائی پر مبنی ہے ۔ اتنے سخت الفاظ حکومت کو اس لیے سننے پڑے کہ وہ تبلیغی جماعت کو بدنام کرنے والے شرپسند الیکٹرانک میڈیا کو بچانا چاہتی ہے ۔ اس کا کہنا ہے کہ کوئی غلط اور منفی رپورٹنگ ہوئی ہی نہیں ہے ۔ سپریم کورٹ نے سخت لہجہ میں یہ سوال پوچھا ہے کہ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ غلط اور منفی رپورٹنگ کا کوئی واقعہ ہوا ہی نہیں ! یہاں یوپی کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کا ذکر ضروری ہے کہ انہوں نے کورونا کے پھیلاؤ کا سارا الزام تبلیغی جماعت پر لگا کر کہا تھا کہ یہ قابل مذمت جرم ہے ۔
ہاتھرس گینگ ریپ معاملہ میں یوگی کا کردار ایک جانبدار وزیراعلیٰ کے طور پر خوب ابھرا ہے ۔ خیر یوگی غیر جانبدار تو کھی نہیں رہے مگر ہاتھرس معاملہ میں انہوں نے حد کردی ۔ دلت لڑکی کی لاش کا راتوں رات جلا دیا جانا تو ان کا اور ان کی پولیس کا کالا کارنامہ ہے ہی اس سے بھی بڑا کارنامہ سارے بیانیہ کو مسخ کرنا ہے ۔ پہلے تو ریپ ماننے سے انکار، پھر دلت لڑکی کو بدچلن ثابت کرنے کی کوشش، حزب اختلاف پر ذات پات کے نام پر تشدد پھیلانے کا الزام، معاملہ کا رخ موڑتے ہوئے اسے حزب اختلاف کی اور پھر عالمی سازش قرار دینے کی کوشش، کسی طرح سارے معاملے کو

ہندو۔مسلم بنانے کے لیے پاپولر فرنٹ آف انڈیا، اسلامی جماعتوں کے نام سامنے لانے کی کوشش، چار مسلمانوں کو گرفتار کر کے یہ بیان دے کر کہ یہ یوپی میں تشدد پھیلا کر ان کی سرکار کو غیر مستحکم کرنے کی سازش تھی، اپنی اور اپنی پولیس اور انتظامیہ کو بچانے کی کوشش، یہ سب پل پل بدلتا رنگ یوگی کے زعفرانی رنگ کو مزید گہرا کرتا گیا ہے ۔ اور اس معاملے میں، کچھ دنوں تک دلت لڑکی سے ہمدردی جتا کر یہ الیکٹرانک میڈیا، جسے گودی میڈیا بھی کہتے ہیں اور جو اب ٹی آر پی چور بھی کہلاتا ہے، پھر سے زعفرانیوں کی باتیں کرنے لگا ہے ۔ ارنب گوسوامی نے اپنے ریپبلک چینل پر ایک ڈیبیٹ میں یہ سوال کھڑا کر کے کہ کیا ہاتھرس کے نام پر نفرت اور بدامنی پھیلائی گئی؟ یوگی جی کو بچانے کی بھرپور کوشش کی تھی ۔ زی نیوز کے سمیر چودھری تو یوگی نے جس عالمی سازش کا ذکر کیا ہے اس کی ساری تفصیلات سامنے لے آئے ۔ دوسرے نیوز چینل بھی اب یوگی سرکار سے زیادہ حزب اختلاف پر سوالوں کی بوچھار کرنے لگے ہیں ۔ بیانیہ تبدیل ہو رہا ہے ۔ حالانکہ سچ صرف یہ ہے کہ ایک دلت لڑکی کا گینگ ریپ ہوا، اسے بری طرح سے مارا پیٹا گیا، اس کی زبان کاٹ دی گئی اور وہ دہلی کے صفدر جنگ اسپتال میں مر گئی ۔ اگر اس لڑکی کی اعلیٰ ذات کے لڑکوں سے دوستی تھی، یہ بات مان بھی لیں تو بھی کیا اس کا ریپ جائز ہو جائے گا، مارپیٹ اور زبان کا کاٹا جانا قانونی کہلائے گا؟ میڈیا یہ سوال نہیں پوچھ رہا ہے کہ ہاتھرس گینگ ریپ معاملے میں عالمی سازش کیوں رچی جائے گی؟ کیوں سازش کا نظریہ گڑھ کر ساری اپوزیشن اور حقوق انسانی کے کارکنان پر قانونی کارروائی کی جا رہی ہے اور کیوں ریپ کی اس واردات کے سارے ملزمین یوگی سرکار کے لیے اتنے اہم ہو گئے ہیں کہ سارے مظاہرین اور احتجاجی ان کی نظر میں دیش دروہی ٹہرے ہیں؟ چار مسلمان کیرالہ کے صحافی صدیق کپُن، مسعود احمد، عتیق الرحمن اور محمد عالم تو پکڑ ہی لیے گئے ہیں ۔ ان میں سے مسعود احمد سول سروس کے امتحان کی تیاری کر رہا تھا، اب اس پر دہشت گردی اور دیش دروہ کا الزام ہے، یعنی اس سے پہلے کہ وہ سول سروس کا امتحان دے کر کامیاب ہو، آئی اے ایس افسر بنے، اس کی راہ میں اتنی روکاٹیں ڈال دی جائیں گی کہ وہ مایوسی کا شکار ہو جائے گا، اللہ نہ کرے ۔ سدرشن ٹی وی یہی تو چاہتا ہے کہ کوئی مسلمان آئی اے ایس نہ بنے کیونکہ مسلمان جہادی ہوتا ہے ۔ عتیق الرحمن پی ایچ ڈی کر رہا تھا ۔ اور احمد عالم ایمبرائڈری سے ڈرائوری میں آیا تھا ۔ چاروں پر نسلی فساد پھیلانے یا کرانے کی منصوبہ بندی کا الزام لگایا گیا ہے ۔ یہ چاروں یقیناً بےقصور ثابت ہوں گے لیکن کیا کیا جائے کہ ٹی آر پی چوروں کی ٹولی نے انہیں دہشت گرد ثابت کرنے کی شروعات کر دی ہے، یوگی کی یہی خواہش ہے ۔ یوگی کہہ چکے ہیں کہ ہاتھرس معاملہ سے اسی طرح نمٹا جائے گا جیسے سی اے اے کے مظاہرین سے نمٹا گیا تھا ۔ آئیں ایک جھلک دیکھ لیتے ہیں کہ اُس وقت یوگی سرکار اور یوگی کی پولیس نے کیا کیا تھا ۔ سچ یہ ہے کہ یوگی راج میں یوپی کے مسلمانوں کے لئے 2020 اپنے دوصفروں کی ایک ذرا سی تبدیلی سے 2002 ثابت ہورہا ہے ۔ سی اے اے مخالف مظاہروں کے دوران یوگی نے ’بدلہ‘ اور ’ انتقام‘ کا نعرہ دیا تھا جو رنگ لایا تھا ۔ ایک مثال مظفر نگر کی لیں : مظفر نگر سے یوگی کی پولس کی درندگی کی جو کہانیاں سامنے آئی تھیں وہ دردناک تھیں ۔ مولانا اسد رضا ، سادات بارہہ کے سادات مدرسہ و یتیم خانہ کے ذمے داروں میں سے ایک ہیں ، 20دسمبر کے روز سی اے اے ، این آرسی اور این پی آر مخالف مظاہرہ کے دوران پولس مدرسہ اور یتیم خانہ میں گھس گئی تھی اور بچوں کو، یہ یتیم بچے ہیں، لاٹھی ڈنڈوں سے پیٹنا شروع کیا تھا۔ مولانا اسد رضا بچوں کو بچانے کے لئے جب پہنچے تو انہیں بری طرح سے پیٹا گیا ۔ پولس نے اسی پر بس نہیں کیا انہیں اور مدرسہ کے بچوں کو پکڑ لے گئی، مولانا اسد رضا کو سیول لائنز کے قید خانے میں مادرزاد ننگاکر دیا گیا اور پھر لاٹھی اور ڈنڈوں سے ان کی پٹائی شروع کی گئی۔ مدرسہ ویتیم خانہ سے نکلنے سے پہلے پولس نے وہاں کی تمام چیزوں کو ، جن میں مذہبی اور دینی کتابیں بھی تھیں ، تہس نہس کردیا۔ آج تک مولانا کی روح گھائل ہے ۔ پولس نے ان بچوں سے جو 14 سال سے لیکر 21 سال کی عمر کے تھے ’’ہرہرمہادیو‘ اور ’ جئے شری رام‘ کے نعرے بھی لگوائے تھے ۔۔۔ الزام بدفعلی کا بھی لگا ہے ۔ یوپی میں جہاں جہاں سی اے اے کے خلاف مظاہرے ہوئے وہاں وہاں یوگی کی پولس نے مسلمانوں کو خاص طور پر نشانہ بنایا ، پر ساتھ میں وہ برادرانِ وطن بھی زد پر آئے جو سی اے اے اور این آرسی کے خلاف مظاہروں میں مسلمانوں کے ساتھ کندھےسے کندھا ملا کر کھڑے ہوئے ہیں ۔ مثال سماجی کارکن ایکتا اور روی شیکھر کی لے لیں ۔ اس جوڑے کی سواسال کی بچی چمپک نے کھانا پیناتک چھوڑ دیا تھا۔ وارانسی میں ایک آٹھ سالہ بچہ اس وقت لوگوں کے پیروں تلے آکر روندا گیا تھا جب پولس نے مظاہرین پر ’لاٹھی چارج‘ کیا تھا۔ فیروز آباد میں تو پولس نے کمال کردیا، بنے خان کو مرے ہوئے چھ سال گذر چکے ہیں پر پولس نے انہیں ’’امن کےلئے خطرہ‘‘ قرار دے کر نوٹس بھیج دیا ! فیروز آباد میں یوگی کی پولس نے مظفر نگر سے کم ظلم نہیں ڈھایا ۔ مقامی پولس نے نشانہ بناکر لوگوں کے خلاف پر تشدد کارروائی کی ۔ 20 دسمبر کو فیروز آباد میں بھی سی اے اے کے خلاف زبردست مظاہرہ کیا گیا تھا۔ پولس کا الزام ہے کہ اس پر جگہ جگہ سے پتھراؤ کیا جارہا تھا۔ اس موقع کی ویڈیو میں پولس والوں کے ساتھ ’غیر پولس والوں‘ کو بھی دیکھا جاسکتا ہے ، یہ آزاد خان نامی ایک شخص کے گودام پر سنگباری کرتے اور پھر اسے جلانے کی کوشش کرتےہوئے دیکھے جاسکتے ہیں ۔۔ فیروز آباد میں چھ افراد پولس کی گولیوں کا نشانہ بنے تھے ۔ کچھ یہی حال پولس والوں نےمیرٹھ کا بھی کیا تھا ۔ اور بجنور کے نہٹور میں بھی ایسا ہی ہوا تھا، جہاں پولس کے ساتھ ’’پولس مِتر‘‘ بھی تھے ۔ میرٹھ ہی میں پولس ایس پی اکھلیش این سنگھ نے مسلمانوں کو پاکستان جانے کی ’’صلاح‘’ دی تھی۔۔۔ مظفر نگر سے لے کر کانپور ، اعظم گڑھ ، سنبھل ، علی گڑھ اور لکھنؤ تک میں یوگی کی پولیس نے گھروں کے اندر گھس کر توڑ پھوڑ کی ، لوگوں کو لاٹھی ڈنڈوں سے پیٹا، جبراً لوگوں سے ’عوامی املاک کی تباہی‘ کو ’بہانہ‘ بناکر ’جرمانہ‘ وصولا ۔ اور بڑی تعداد میں لوگوں کو سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا ۔ سارے ٹی آر پی چور اس ظلم کے خلاف خاموش تھے ۔ ظالموں کی حمایت کر رہے تھے ۔ اس لیے کہ سب ایک ہی تھیلی کے چٹٌے بٹُے ہیں ۔ یوں تو سارے ملک میں ایسا ہی ہو رہا ہے لیکن ہاتھرس خاص نشانہ ہے، اس لیے وہاں آنے جانے والوں پر خاص نظر ہے ۔ یوگی نے جو سی اے اے مظاہرین کے ساتھ کیا وہی سب اب اپوزیشن، حقوقِ انسانی کے کارندوں اور دلتوں کے ساتھ ہوگا ۔ اور مسلمانوں کے ساتھ بھی ۔ اور یہ ٹی آر پی چوروں کی ٹولی، یہ گودی میڈیا پھر ایک بار ظالموں کی آواز میں آواز ملا کر کائیں کائیں کر رہی ہو گی ۔ لیکن فی الحال تو ریپبلک چینل گھیرے میں ہے ، سوال اٹھ رہا ہے کہ کیا ہوگا تیرا ارنب ! سارے چینل انڈیا ٹوڈے اور آج تک بھی، جسے سشانت کے فیک ٹوئٹ پر ایک لاکھ روپے کا جرمانہ ہوا ہے، جیسا کہ کہا گیا ایک ہی حمام کے ننگے ہیں اس لیے ایک دوسرے کو بچانے کی کوشش کر سکتے ہیں ۔ اور ملک کے حکمران کہ سرپرست بنے ہوئے ہیں پوری کوشش کر سکتے ہیں کہ یہ چور سزا نہ پائیں ۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

You may also like

Leave a Comment