انڈین ایکسپریس کے مطابق جموں وکشمیر کے تعلق سے دائر کشمیر ٹائمز کی ایگزیکٹو ایڈیٹر انورادھا بھسین کی رٹ پر گزشتہ 10 جنوری کو سپریم کورٹ نے حکومت کو دو ہدایات جاری کیں۔
1- انٹرنیٹ پر عاید پابندی فوراً اٹھائی جائے ۔
2- دفعہ 144 یا کوئی اور پابندی نافذ کرتے وقت اس کا سبب بھی عام کیا جائے ۔
جسٹس ایس وی رمانا کی سربراہی والی تین رکنی بنچ نے کہا کہ Freedom of speech کے تحت انٹر نیٹ بھی دستور کی دفعہ 19(1) A اور 19(1) G کی رو سے شہریوں کا محفوظ حق ہے۔۔۔ اس پر غیر متعینہ مدت تک پابندی کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔
دفعہ 144 کے بار بار نفاذ پر بھی عدلیہ نے ناگواری اور عدم اطمینان کا اظہار کیا اور جموں وکشمیر کی حکومتوں کو ہدایت دی کہ جب دفعہ 144 یا اس طرح کی دوسری پابندیاں نافذ کرتے وقت عوامی طور پر اس کے ٹھوس اسباب بھی بیان کئے جائیں’ تاکہ متاثر لوگ اس کے خلاف عدالت سے رجوع کرسکیں۔
سپریم کورٹ کی ان دو واضح ہدایات سے یہ تو واضح ہوگیا کہ مرکزی حکومت نے دستور کی دفعہ 19 کی دو شقوں کی کھلی خلاف ورزی کی اور شہریوں کے حقوق غصب کئے۔ اس کے علاوہ دفعہ 144 کا بے جا’ بارہا اور غیر آئینی استعمال کیا اور پابندیوں کے خلاف عدالت سے رجوع کرنے کے شہریوں کے حق پر بھی ڈاکہ ڈالا۔
سوال یہ ہے کہ 160 دنوں تک حکومت نے شہریوں کے ساتھ جو ظالمانہ سلوک کیا اس کی تلافی کیسے ہوگی۔ سوال یہ بھی ہے کہ خود عدالت نے اتنے اہم معاملہ کی سماعت میں اتنا وقت کیوں لگادیا۔ یہاں یہ ذکر بے محل نہ ہوگا کہ گزشتہ 15 دسمبر 2019 کو جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پُرامن طلبہ پر پولیس نے جو زیادتیاں کی تھیں ان کے خلاف سپریم کورٹ نے 16 دسمبر کو دائر رٹ پر سماعت نہیں کی۔ دو دن بعد جب مختصر سماعت کی تو یہ کہہ کر معاملہ کو موخر کردیا کہ پہلے تشدد تھمے تب سماعت ہوگی۔
تشدد کون کر رہا تھا؟ تشدد تو پولیس کر رہی تھی۔حکومت اسے روک نہیں رہی تھی۔اب سپریم کورٹ کے سوا کون تھا جو پولیس کو روک سکتا تھا۔ لیکن جب کچھ دنوں کے بعد سپریم کورٹ نے سماعت کی تو یہ کہہ کر معاملہ خارج کردیا کہ پہلے ہائی کورٹ جائیے۔ ہائی کورٹ پہنچے تو وہاں بھی مایوسی ہاتھ لگی۔ وہاں 4 فروری کی تاریخ دیدی گئی ۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے عارضہ قلب یاخطرناک ایکسیڈنٹ کے کسی serious مریض کا خون بہہ رہا ہو اور اسے فوری طور پر علاج اور آپریشن کی ضرورت ہو لیکن اسے ایک مہینہ کے بعد کی تاریخ دیدی جائے ۔۔
سپریم کورٹ نے اگر جموں وکشمیر اور جامعہ ملیہ کے معاملات میں سرسری ہی سہی فوری سماعت کرکے عارضی احکامات جاری کردیے ہوتے تو کشمیریوں پر 160 دن تک ظلم جاری نہ رہتا’ جامعہ کے طلبہ پر مزید ظلم نہ ہوتا اور جے این یو کا تشدد شاید وقوع پذیر ہی نہ ہوتا۔
دوسری خبر یہ ہے کہ دہلی میں سیماپوری کے علاقے میں مظاہرین پر جو تشدد ہواتھا اور اس میں جو لوگ گرفتار ہوئے تھے’ ان میں سے کچھ کی ضمانت ہوگئی ہے۔ اب ایڈیشنل جج صاحب نے زرِ ضمانت کے علاوہ ضمانت کی جو اہم شرط رکھی ہے وہ یہ ہے کہ ایک متعینہ دن اور وقت پر ضمانت پر رہا ہونے والے لوگ تھانہ سیما پوری میں حاضری دیں گے اور SHO صاحب CCA کے تعلق سے پائے جانے والے ان کے شکوک وشبہات پر انہیں لیکچر دیں گے۔
حیرت ہے کہ پولیس کب سے سیاسی مقرر کا کام انجام دینے لگی۔ یہ کام پولیس کا ہے ہی نہیں ۔ سچی بات یہ ہے کہ یہ کام عدالت کا بھی نہیں ہے کہ وہ اس شرط پر ضمانت دے کہ ملزمین تھانے جاکر تھانے دار صاحب سے سی اے اے کے تعلق سے اپنے شکوک وشبہات دور کریں ۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے عدالت کانگریسی نظریات رکھنے والوں کو اس پر مجبور کرے کہ وہ بی جے پی کے نظریات قبول کریں ۔ یا مہاتما گاندھی کے پیروکار ہٹلر کی پیروی کریں ۔
تیسری خبر گجرات سے ہے جہاں کے اسمبلی اسپیکر نے ایک مسلم ممبر اسمبلی کو یہ کہہ کر بالجبر بٹھادیا کہ یہ پاکستان نہیں ہے۔ گجرات اسمبلی میں CAA پر مودی حکومت کا ساتھ دینے کے سلسلے میں بحث ہورہی تھی۔اسی دوران کانگریس کے ممبر اسمبلی عمران بھائی نے اپنا نقطہ نظر پیش کرنے کے لئے مداخلت کی۔لیکن اسمبلی اسپیکر راجندر ترویدی نے انہیں بالجبر روکتے ہوئے کہا کہ یہ پاکستان نہیں ہے۔اس پر جب اسمبلی کے کانگریس لیڈر نے اعتراض کیا تو اسپیکر نے یہ جملہ دوبارہ ادا کیا۔ بی جے پی کے ہاؤس لیڈر نے اسپیکر کی حمایت کی اور کہا کہ اسپیکر نے کچھ غلط نہیں کہا۔
اسپیکر کا عہدہ غیر جانبدار ہوتا ہے۔ وہ کسی پارٹی کا نہیں ہوتا۔ بلکہ اپوزیشن کے حقوق کا تحفظ اس کی بنیادی آئینی ذمہ داری ہوتی ہے۔ لیکن جس ملک میں حکمرانوں کی نیت میں فتور آجائے اور جہاں متاثرین کے تئیں عدالتوں کا رویہ سرد ہوجائے وہاں اگر اسمبلی کا اسپیکر مسلم ممبر اسمبلی کو بالواسطہ طور پر پاکستانی قرار دیدے تو اس میں اسپیکر کا کیا قصور ہے۔ یہ تو اس کا احسان ہے کہ یہ ماننے کے باوجود کہ فلاں ممبر اسمبلی پاکستان نواز ہے’ اسے اسمبلی میں بیٹھنے دے رہا ہے۔ باہر نہیں پھینکوا رہا ہے۔