دار العلوم دیوبند کے مایۂ ناز استاذ الاساتذہ، فن ہیئت و فلکیات کے ماہر، جامع المعقول والمنقول، دار العلوم دیوبند میں تقریباً پینسٹھ سال تدریسی خدمات انجام دینے والے عالم دین سابق شیخ الحدیث دار العلوم دیوبند مولانا نصیر احمد خان بلند شہریؒ کی حیات و خدمات آج میرا موضوع تحریر ہے، ان کے بارے میں مندرجۂ ذیل کتابوں میں مواد موجود ہیں: (1) مجلہ الداعی؛ 2010ء کے مختلف شمارے، (2) ماہنامہ دار العلوم؛ 2010 – 11ء کے مختلف شمارے، (3) ”نقوش حیات“ و ”قافلۂ علم و کمال“ از مولانا خلیل الرحمن قاسمی برنی، (4) ”خدا رحمت کند“ و ”بے مثال شخصیت باکمال استاذ“ از مولانا ندیم الواجدی، (5) ”تاریخ دار العلوم“ جلد دوم از مولانا سید محبوب رضویؒ، (6) ”دار العلوم دیوبند کی جامع و مختصر تاریخ“ از مولانا محمد اللّٰہ خلیلی قاسمی، (7) ”وہ کوہ کَن کی بات“ از مولانا نور عالم خلیل امینیؒ، (8) ”ذکر رفتگاں“ جلد دوم از مفتی محمد سلمان منصورپوری۔ راقم تحریر نے اس مضمون میں مولانا ندیم الواجدی کی تحریر سے، مولانا خلیل الرحمن برنی قاسمی برنی کی کتاب نقوشِ حیات سے اور مولانا محمد اللّٰہ خلیلی قاسمی کی دار العلوم دیوبند کی جامع و مختصر تاریخ سے بہت استفادہ کیا ہے اور بعض باتوں کی تحقیق ان کی اولاد سے بھی کی ہے۔
ولادت و خاندان
شیخ نصیر احمد خاں 21 ربیع الاول 1337ھ بہ مطابق 23 دسمبر 1918ء کو بَسِی، ضلع بلند شہر، صوبجات متحدہ آگرہ و اودھ (موجودہ اترپردیش)، برطانوی ہند میں پیدا ہوئے تھے (نقوش حیات میں شامل قاری شفیق الرحمن قاسمی و مولانا عبد الرؤوف غزنوی کی تحریروں سے پتہ چلا کہ شیخ کی سن ولادت دراصل 1335ھ بہ مطابق 1916ء ہے، جو بعض دفعہ ان حضرات نے شیخ سے بھی سنا تھا؛ دار العلوم دیوبند کے داخلہ فارم اور سرکاری دستاویزات کے مطابق وہی مشہور سن ہے)۔ ان کا خاندانی تعلق افغانستان کے بازیدخیل داؤد زئی قبیلہ سے تھا، ان کے اجداد میں سے شہباز خان وہ مورث اعلیٰ تھے، جو سب سے پہلے افغانستان سے ہندوستان آکر موضع بَسِی (ضلع بلند شہر، اترپردیش) میں آباد ہوئے۔ بلند شہر سے شمالی جانب تقریبا 45 کلومیٹر کی دوری پر پٹھان برادریوں پر مشتمل پر چند آبادیاں ”بارہ بستی“ کے نام سے موسوم ہیں، ”بَسِی“ انھیں میں سے ایک ہے، جس کے آباد کرنے والوں میں شیخ کے اجداد میں سے شہباز خان کا نام بھی آتا ہے۔ ان کے والد ماجد عبد الشکور خان انگریزی دور میں اعلیٰ سرکاری ملازم تھے؛ مگر دیندار اور علماء کے قدردان تھے، مولانا خلیل احمد انبیٹھویؒ کے مرید تھے۔ انھوں نے جب سنا کہ شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ نے ”تحریک ترکِ موالات“ شروع کی ہے تو انگریزی ملازمت سے مستعفی ہو کر کاشتکاری کے ذریعے روزگاری میں مشغول ہوگئے۔
تعلیم و تربیت
شیخ نصیر احمد ابھی چار پانچ سال ہی کے تھے کہ ان کے والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا اور شیخ اپنے بڑے بھائی مولانا بشیر احمد خان بلند شہریؒ کے زیر کفالت و تربیت آ گئے۔ مولانا بشیر احمد خاں ان دنوں مدرسہ منبع العلوم گلاؤٹھی، ضلع بلند شہر میں مدرس تھے تو اپنے چھوٹے بھائی کو بھی وہیں داخل کروادیا اور اس طرح شیخ نصیر احمد خاں نے وہیں رہ کر میزان سے بخاری تک کی کتابیں پڑھیں۔ 1362ھ بہ مطابق 1942ء میں جب مولانا بشیر احمد خاں دار العلوم میں بحیثیت مدرس تشریف لائے تو ساتھ میں شیخ نصیر احمد بھی دیوبند تشریف لائے اور دورۂ حدیث میں داخلہ لے کر دوبارہ دار العلوم سے دورۂ حدیث کی تکمیل کی، اس وقت شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی چوں کہ نینی الہ آباد کے جیل میں نظر بند تھے تو شیخ نے جامع ترمذی و صحیح بخاری شیخ الادب والفقہ مولانا اعزاز علی امروہویؒ سے پڑھی۔ 1363ھ بہ مطابق 1943ء میں جب شیخ الاسلام جیل سے رہا ہوکر تشریف لائے تو شیخ نصیر احمد خاں سہ بارہ شیخ الاسلام کے صحیح بخاری و جامع ترمذی کے اسباق میں شریک ہوئے، دیگر کتابوں کے اسباق میں بھی شرکت کی، اگلے دو سال بھی دار العلوم دیوبند میں رہ کر تجوید و قرات کی بہت سی کتابیں پڑھیں (جن میں سبعہ و عشرہ کی بھی کئی کتابیں شامل تھیں)، طب اور معقولات کی کئی کتابوں کے دروس میں بھی حاضر رہے اور ہدایہ آخرین، سراجی، تفسیر بیضاوی، دیوان متنبی، توضیح تلویح، مسلم الثبوت سمیت دیگر کئی کتابوں کے اسباق میں بھی شریک رہے۔
دار العلوم دیوبند میں شیخ کے اساتذہ
شیخ کے اساتذۂ دار العلوم میں شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنیؒ، شیخ الادب والفقہ مولانا اعزاز علی امروہویؒ، مولانا بشیر احمد خان بلند شہریؒ، مولانا عبد الخالق ملتانیؒ، مولانا عبد الحق اکوڑویؒ، قاری محمد طیب قاسمیؒ، قاضی شمس الدین گجرانوالہؒ، مولانا حافظ عبد الرحمن امروہویؒ، قاری حفظ الرحمن پرتاب گڑھیؒ اور حکیم محمد عمر دیوبندیؒ قابل ذکر ہیں۔
تدریس و دیگر خدمات
فراغت کے بعد ملتان کے ایک بڑے مدرسے میں صدر القراء کی حیثیت سے تقرر عمل میں آیا؛ مگر بڑے بھائی نے اتنے دور بھیجنا گوارہ نہ کیا، پھر 1365ھ بہ مطابق 1946ء میں بحیثیت اعزای مدرس دار العلوم دیوبند میں شیخ کا تقرر ہوا، اولا دو سال عارضی پھر 28 صفر 1367ھ کو مستقل استاذ مقرر ہوئے۔ شیخ نصیر احمد خاں نے 1365ھ بہ مطابق 1946ء سے 1429ھ بہ مطابق 2008ء تک قمری سال کے لحاظ سے تقریباً پینسٹھ سال اور شمسی سال کے اعتبار سے تقریباً تریسٹھ سال دار العلوم دیوبند میں تدریسی خدمات انجام دیں، میزان سے بخاری تک کی کتابیں پڑھانے کا شرف شیخ کو حاصل ہوا۔ 1391ھ بہ مطابق 1971ء سے 1397ھ بہ مطابق 1977ء کے درمیان حدیث کی تین کتابیں: شرح معانی الآثار (طحاوی شریف)، مسلم شریف جلد ثانی اور مؤطا امام مالک شیخ سے متعلق رہیں۔ 1397ھ بہ مطابق 1977ء میں دار العلوم میں مدرس بننے کے تقریباً بتیس سال بعد دار العلوم دیوبند کے اس وقت کے شیخ الحدیث مولانا شریف حسن دیوبندیؒ کی وفات کے بعد صحیح بخاری کا درس شیخ نصیر احمد خاں سے متعلق ہوا، ایک سال مکمل بخاری شریف کا درس دیا، پھر اخیر تک جلد اول ہی کا درس شیخ سے متعلق رہا۔ 1429ھ بہ مطابق 2008ء تک تقریباً بتیس سال شیخ نے بخاری کا درس دیا اور ان کا درس بخاری بے حد مقبول تھا، ان سے صرف صحیح بخاری پڑھنے والے طلبہ کی تعداد کم و بیش پچیس ہزار لکھی ہوئی ہے۔ 1391ھ بہ مطابق 1971ء سے 1414ھ بہ مطابق 1994ء تک تقریباً تئیس سال شیخ نے دار العلوم دیوبند کی نیابت اہتمام کے فرائض بھی انجام دیے۔ نیز 1412ھ بہ مطابق 1991ء سے 1429ھ بہ مطابق 2008ء تک تقریباً اٹھارہ سال شیخ؛ دار العلوم دیوبند کی صدارت تدریس کے منصب پر فائز رہے۔ 1429ھ بہ مطابق 2008ء میں شیخ نے پیرانہ سالی اور مختلف جسمانی عوارض کی وجہ سے دار العلوم دیوبند کی ذمہ داریوں سے معذرت کی تحریر پیش کی، مجلس تعلیمی (منعقدہ: ربیع الاول 1429ھ) میں شیخ کی تحریر پیش کی گئی، مجلس شوریٰ نے شیخ کی معذرت قبول کرتے ہوئے مفتی سعید احمد پالن پوریؒ کو شیخ کی جگہ پر ترقی دیتے ہوئے انھیں شیخ الحدیث مقرر کیا، پھر مجلس عاملہ (منعقدہ: یکم جمادی الثانی 1429ھ) نے شیخ کی طویل تدریسی و انتظامی خدمات کے اعتراف میں ان کے لیے پندرہ ہزار ماہانہ وظیفہ جاری کرتے ہوئے مفوضہ ذمہ داریوں سے انھیں سبکدوش کر دیا۔
تلامذہ
شیخ نصیر احمد خاںؒ کے تلامذہ کی تعداد ہزاروں میں ہے، دار العلوم دیوبند میں اکثر اساتذہ ان کے شاگرد ہیں، ان کے مشہور تلامذہ میں مولانا وحید الزماں کیرانویؒ، قاضی مجاہد الاسلام قاسمی دربھنگویؒ، مولانا خورشید عالم دیوبندیؒ، مفتی سعید احمد پالن پوریؒ، مولانا سید ارشد مدنی، مفتی ابو القاسم نعمانی، قاری محمد عثمان منصورپوریؒ، مولانا ریاست علی ظفر بجنوریؒ، مولانا عبد الخالق مدراسی، مولانا عبد الخالق سنبھلیؒ، علامہ قمر الدین گورکھپوری، مولانا نور عالم خلیل امینیؒ، مفتی محمد امین پالن پوری اور مولانا مجیب اللّٰہ گونڈوی، مولانا عبد العلی فاروقی، مفتی عبد الرزاق بھوپالیؒ، مفتی محمد سلمان منصورپوری، مولانا واجد حسین دیوبندیؒ، مولانا نسیم اختر شاہ قیصر، مولانا واصف حسین ندیم الواجدی، مولانا عبد الرؤوف خان غزنوی، مفتی یاسر ندیم الواجدی وغیرہم بھی شامل ہیں، ان کے علاوہ ملک و بیرون ملک کے بہت سے نامور علماء بھی ان کے تلامذہ کے زمرہ میں شمار کیے جاتے ہیں۔
فن ہیئت و فلکیات
فن ہیئت کے وہ ماہر تھے اور من جانب اللّٰہ انھیں اس فن میں بھی خصوصی درک و گیرائی حاصل تھی، جس کا اعتراف ان کے معاصرین کو بھی تھا، دار العلوم میں اس فن کی مشہور کتاب ”التصریح“ سالہا سال ان کے زیر درس رہی، اس فن میں انھوں نے ایک رسالہ بھی لکھا تھا، نیز ایک معروف کتاب ”فتحیہ“ پر شیخ نے حواشی بھی لکھے تھے، جو مکتبہ دار العلوم سے چھپا تھی۔ اس فن میں ان سے استفادہ کرنے والے تلامذہ بھی ملک و بیرون ملک میں پھیلے ہوئے ہیں، جن میں ایک نام مولانا ثمیر الدین قاسمی مقیم حال مانچسٹر، انگلینڈ بھی ہیں، جو اس وقت فن ہیئت و فلکیات کے ماہر عالم دین شمار کیے جاتے ہیں اور خصوصیت سے رؤیت ہلال کے سلسلے میں ان سے رائے لی جاتی ہے، ان کی اس فن میں لکھی ہوئی کتابوں میں ”ثمرۃ الفلکیات“، ”رویت ہلال علم فلکیات کی روشنی میں“ اور ”ثمیری کیلنڈر“ بھی شامل ہیں۔
بیعت و خلافت
شیخ نصیر احمد خاں کا اصلاحی تعلق شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنیؒ سے رہا، پھر اکثر تحریروں کے مطابق شیخ کا تعلق حکیم الاسلام قاری محمد طیب قاسمیؒ سے قائم ہوا اور ان کی طرف سے خلافت سے بھی نوازے گئے اور بندہ کی تحقیق کے مطابق شیخ الاسلام نے شیخ کو اپنے خلیفہ قاری اصغر علی سہسپوریؒ سے منسلک کر دیا تھا، شیخ نصیر احمد کو؛ قاری اصغر علی صاحب نے خلافت سے بھی نوازا تھا؛ مگر بہر دو صورت شیخ انتہائی تواضع کی بنا پر اس تعلق کو لوگوں سے مخفی رکھتے تھے اور بیعت وغیرہ نہیں کیا کرتے تھے۔
خدمت و تفسیر قرآن
شیخ نے 1350ھ سے 1414ھ تک تقریباً پینسٹھ سال تراویح میں قرآن سنایا۔ تمل ناڈو کے کوئمبتور شہر کی مختلف مساجد میں شیخ نے تقریباً 27 سال تک تروایح میں قرآن سنایا اور وہاں شیخ تفسیر قرآن بھی کیا کرتے تھے اور مختلف جگہوں پر شیخ کے اصلاحی مواعظ بھی ہوا کرتے تھے، جس سے اس علاقے کے لوگوں میں عقائد و اعمال میں خاصا سدھار آیا اور خاصے لوگوں نے اپنے بچوں کو دینی تعلیم دے کر انھیں عالم دیں بنایا؛ یہاں تک کہ انھیں طلبہ میں سے ایک مولانا محمد الیاس قاسمی نے کوئمبتور میں شیخ کی یاد میں ”دار العلوم نصیریہ“ کے نام سے ایک مدرسہ بھی قائم کیا ہے، جہاں ناظرہ و حفظ، دینیات اور ابتدائی عربی کی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔
اوصاف و کمالات
شیخ نیک صالح، حلیم و بردبار، نرم خو و خوش اخلاق انسان تھے، نماز باجماعت کے پابند تھے، بزرگوں اور اسلاف کی یادگار تھے، انتہائی متواضع اور منکسر المزاج تھے، بشاشت وخندہ پیشانی سے ملنے والوں کا استقبال کیا کرتے تھے، بڑوں کے ساتھ چھوٹوں کا بھی احترام کیا کرتے تھے، بلا امتیازِ عمر اہل علم کے نہایت قدرداں تھے، اعلیٰ ظرف و کریم النفس شخصیت کے حامل تھے اور طلبہ میں بھی بے حد محبوب و مقبول تھے۔
پسماندگان
شیخ کی وفات کے وقت ان کے بقید حیات پسماندگان میں پانچ بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں۔ بیٹوں میں ضمیر احمد خان، رفیع احمد خان، عزيز احمد خان، شكيل احمد خان، عقيل احمد خان شامل ہیں اور ماشاء اللّٰہ سبھی حفظ قرآن کی دولت سے مالا مال ہیں، جن میں سے اب تک حافظ عزیز احمد خاں اللّٰہ کو پیارے ہو چکے ہیں۔
وفات
شیخ نصیر احمد خاںؒ کا انتقال 19 صفر 1431ھ بہ مطابق 4 فروری 2010ء کو جمعرات کی شب میں؛ مشہور قول کے مطابق ہجری تقویم کے لحاظ سے تقریباً 95 اور شمسی تقویم کے اعتبار سے تقریباً 92 سال کی عمر میں شہر دیوبند میں ہوا۔ نماز جنازہ احاطۂ مولسری دار العلوم دیوبند میں ہزاروں کے مجمع نے قاری محمد عثمان منصورپوریؒ کی اقتدا میں ادا کی اور قاسمی قبرستان میں تدفین عمل میں آئی۔