راحت اندوری کی شاعری مصلحت پسندی سے پاک: ڈاکٹر مشتاق احمد
کڑوروں دلوں پر حکومت کرنا راحت کی شاعری کا امتیاز:ڈاکٹر ماجد دیوبندی
نئی دہلی (پریس ریلیز)
ڈاکٹر راحت اندوری اردو غزل کی تہذیب کے پاس دار تھے۔ ہماری غزلیہ روایت میں محبت،احتجاج اور مذہب ِ انسان کے موضوعات کی ہمیشہ اہمیت رہی ہے۔ راحت کی ابتدائی شاعری میں رومانی اثرات ضرور پائے جاتے ہیں مگر گزرتے وقت کے ساتھ انھوں نے اپنے لہجے میں انقلاب واحتجاج اور مذہب انسان کے موضوعات کو شامل کرلیا۔ تسخیر فاؤنڈیشن دہلی اور دی ونگس فاؤنڈیشن دہلی کے زیر اہتمام منعقد ہونے والے آن لائن پروگرام”راحت کی بات“ میں صدارتی خطبہ پیش کرتے ہوئے ادیب وصحافی ڈاکٹر مشتاق احمد:پرنسپل سی ایم کالج دربھنگہ نے اس خیال کا اظہار کیا۔انھوں نے مزیدکہا کہ انسانی تقاضوں سے ان کی شاعری کبھی منحرف نہیں ہوئی اورانھوں نے کبھی بھی مصلحت پسندی کے کشکول میں اپنی شاعری پیش نہیں کی۔ جب کہ مہمان خصوصی کی حیثیت سے گفتگو کرتے ہوئے عالمی شہرت یافتہ شاعر ڈاکٹر ماجد دیوبندی نے کہا کہ راحت کی آواز پر جہاں ایوانِ حکومت میں بیٹھے لوگ غور وفکر کرتے ہیں وہیں وہ اپنی شاعری کے ذریعے کڑوروں دلوں پر حکومت کرتے تھے۔ ایک فن کار لیے یہ اعجاز کی بات ہے۔ ڈاکٹر دیوبندی نے راحت کی دیگر خصوصیات اور ذاتی تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان کے اندر احترامِ آدمیت اور چھوٹوں سے شفقت کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ساتھ ہی انھوں نے اعلان کیا کہ ہم راحت اندوری پر ایک کتاب ترتیب دیں گے۔ اس لیے ادب دوست افراد ہمیں mail@majiddeobandi.in پرمقالہ ارسال کریں۔ اندور سے تعلق رکھنے والے خطیب وشاعر مسعود بیگ نے کہا کہ راحت کی شاعری میں عوامی، مزاحمتی اور رومانی معاملات گھل مل گئے تھے۔ ساتھ ہی انھوں نے عصری حسیت کو ا پنی شاعری میں شامل رکھا۔ دی نیو کالج چنئی کے ڈاکٹر طیب خرادی نے کہا کہ راحت اندوری معاملاتِ زندگی میں انتہائی محتاط تھے اور عشق نبی کا جذبہ بھی ان کے اندر موجزن تھا۔ جب کہ مدراس یونی ورسٹی کے ڈاکٹر امان اللہ بی نے کہا کہ عصری معاملات سے ان کی شاعری لبریز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں احتجاج وابال اور مزاحمت کی فضا پائی جاتی ہے۔ اس پروگرام کی نظامت کے فرائض مولانا عبدالواجد چترویدی(جھارکھنڈ) اور ساجد حسین ندوی (چنئی) نے مشترکہ طور پر اداکئے۔ان مقررین کے علاوہ ڈاکٹر صالحہ صدیقی (الہ آباد)، ڈاکٹر شمشاد علی (راجستھان)، سید بشارت اللہ بختیاری (آندھرا پردیش)وغیرہ نے بھی راحت اندوری کی زندگی کے دیگر واقعات اور ان کے فن پر سیر حاصل گفتگو کی۔ اس پروگرام میں خصوصی طور پر تسخیر فاؤنڈیشن کے جنرل سکریٹری گلاب ربانی، ڈاکٹرسمیع احمد (جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی)، ڈاکٹر وصی اللہ بختیاری (آندھرا پردیش)، مولانا اخلاق ندوی (پورنیہ)شہزاد حسین، عبدالعزیز محمد ادریس،شیخ ذبیح، سید رشید، محمد صالح، جنید انصاری،مُحبہ ونمٹوری، عائشہ صدیقہ،مبینہ قاضی کے سمیت سینکڑوں افراد شریک پروگرام رہے۔
