Home تجزیہ تشدد کے بعد سنبھل میں خوف وہراس کا ماحول – محمد اویس سنبھلی

تشدد کے بعد سنبھل میں خوف وہراس کا ماحول – محمد اویس سنبھلی

by قندیل

سنبھل ایک تاریخی شہرہے اور اس شہر کی تاریخ کے عنوانات میں ایک نمایاں عنوان یہاں کی شاہی جامع مسجد ہے ،جو اس وقت قومی اور عالمی میڈیا کی سرخیوں میں ہے۔لیکن یہاں ہمارا مقصد اس مسجد کی تاریخ بیان کرنا نہیں ہے بلکہ اس تنازعہ کا آنکھوں دیکھا حال بیان کرنا ہے جس کی وجہ سے سنبھل میں اس وقت خوف وہراس کا ماحول ہے۔ اسی ماحول میں ہم نے پچھلے چندروزسنبھل میں گزارے اور جو کچھ محسوس کیا ، اسے جوں کا توں آپ کی خدمت میں پیش کررہے ہیں۔ گذشتہ تین چار دنوں میں عبدالمعید سنبھلی کی کتاب’’ تاریخ سنبھل ‘‘کے حوالے سے مختلف قلم کاروں نے خوب خامہ فرسائی کی ہے۔ بند کمروں میں بیٹھ کر حکومت کو کوسنے کے علاوہ اس کی نااہلی کے خلاف بیان بازی بھی کی گئی۔ اخبارات نے ان بے حیثیت بیانات کو قابل اشاعت جانا لیکن افسوس ان میں سے کسی نے بھی سنبھل پہنچ کر حالات کا جائزہ لینے کی کوشش نہیں کی۔ کوئی آتا بھی تو کیوں؟ جب اس شہر کی ملی، سماجی، مذہبی اور سیاسی قیادت ہی ایسے نازک موقع پر غائب تھی۔ کوئی نرم گدوں پر پُرسکون نیند کے آغوش میں تھا تو کوئی پارلیمنٹ شروع ہونے کے انتظار میں۔ الیکشن آتے ہی نہ جانے کتنے نام لیڈر بننے کی خواہش میں سامنے آجاتے ہیں لیکن جب پڑا وقت گلستاں پہ تو سب غائب تھے۔
23؍نومبر کی شام ہم سنبھل پہنچے تو فضا انتہائی پرسکون تھی۔ دیر رات تک دوست احباب کے ساتھ بیٹھے مختلف موضوعات پر بات چیت کرتے رہے۔ ایک مرتبہ بھی 19؍نومبر کو ہونے والے جامع مسجد کے سروے کے متعلق بات نہیں ہوئی۔ایک بجے کے قریب گھر میں داخل ہوئے۔صبح فجر کے کچھ دیر بعد موبائل ہاتھ میں لیا ہی تھا کہ واٹس ایپ پر میسج ملا ’’صبح ساڑھے چھ بجے سے جامع مسجد کا سروے چل رہا ہے، آپ تمام حضرات دعا کریں اور امن قائم رکھیں‘‘۔حکومت کے ذمہ داران کی جانب سے رات میں ساڑھے گیارہ بجے کے قریب مسجد کمیٹی کے ذمہ داران کو فون پر اس سروے کی اطلاع دی گئی۔ کمیٹی کے صدر ظفر علی ایڈوکیٹ کو جب علی الصبح وہاں حاضر رہنے کو کہا گیا تو انھوں نے اپنی طبیعت کی ناسازی کا ذکر کیا اور کہا کہ دس بجے کے بعد کوئی وقت رکھ لیں لیکن سروے ٹیم کا اصرار تھا کہ ہمارے ایک ساتھی آفیسر کے گھر شادی ہے جس کے سبب انھیں جلد فارغ ہوکر وہاں پہونچنا ہے۔ سوشل میڈیا پر اس سروے کی خبر اتنی تیزی سے پھیلی کہ کچھ ہی دیر میں پُرسکون فضا کی سانسیں بوجھل ہونے لگیں۔ عوام کا جم غفیر مسجد کے ارد گرد اکٹھا ہونے لگا۔ مسجد کے سروے کو لے کر عوام میں شدید غصہ تھا۔ دراصل جس طرح کے زہریلے نعروں کے ساتھ ایڈمنسٹریشن کی قیادت میں سروے ٹیم مسجد میں داخل ہوئی تھی وہ ہرگز ہرگز مناسب نہیں تھا۔ لیکن یہ سب کچھ ایک پلانگ کے تحت تھا۔ ہر لحظہ عوام کے جذبات کو بھڑکانے کی حتی الامکان کوشش کی جارہی تھی۔ احتجاج پُرامن انداز میں جاری تھا۔ جیسے جیسے وقت گزر رہا تھا لوگوں کی تعداد بڑھتی جارہی تھی۔ عوام ایڈمنسٹریشن سے یہ مطالبہ کررہی تھی کہ جس طرح ایک خاص طبقے کے عام لوگ سروے ٹیم کے ساتھ مسجد کے اندر گئے ہیں، ہمارے بھی کچھ لوگ اندر بھیجے جائیں۔ ایڈمنسٹریشن اس پر راضی نہیں تھا، اسی درمیان اطلاع ملی کہ سروے کرنے والی ٹیم حوض خالی کرنے کی ضد کررہی ہے، یہ سن کر عوام کا غصہ ساتویں آسمان پر پہنچ گیا۔ دراصل لوگوں کے ذہنوں میں اس وقت گیان ویاپی مسجد کا سروے گھومنے لگا۔ اسی کے پیش نظر عوام اور ایڈمنسٹریشن میں جھڑپ شروع ہوئی۔ ایڈمنسڑیشن تو اسی موقع کی تاک میں تھا۔ کمانڈنگ آفیسر نے مورچہ سنبھالا اور بھیڑ کو منتشر کرنے کے لیے لاٹھی چارج کا حکم دے دیا۔ لوگ ادھر اُدھر دوڑنے لگے اور کچھ پیچھے ہٹ کر دوبارہ ڈٹ کر کھڑے ہوگئے۔ اب بھیڑ کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کے گولے بھی داغے گئے، اس پر عوام کا غصہ پھٹ پڑا اور پولیس کی اس حرکت کے جواب میں جو کچھ ہاتھ آیا پولیس کی جانب پھینکنے لگے۔ اس پتھراؤ کے نتیجے میں پولیس کی بربریت بڑھتی گئی۔ ایسے نازک حالات میں بنا کسی پرمیشن کے پولیس افسر نے گولی چلانے کا حکم اس انداز میں جاری کیا ’’چلاؤ بے گولی، سب گولی چلاؤ ‘‘۔ہندی اخبار جن ستّا کی ویب سائٹ پر بھی یہی جملے لکھے ہیں نیز ان تمام واقعات کی سیکڑوں ویڈیو آپ نے خود دیکھی ہوں گی۔ کئی اراکین پارلیمنٹ نے بھی اپنے ٹیوٹر اکاؤنٹ پر ان ویڈیوز کو پوسٹ کیا۔ ان ویڈیوز میں پتھراؤ کے دوران اکثر پولیس والے فائرنگ کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ جبکہ حالات بالکل ایسے نہیں تھے۔ حالات پر قابو پایا جاسکتا تھا لیکن جب خاص پلاننگ کے تحت حالات کو خراب کرنے اور اسلحوں کا استعمال کرکے مسلمانوں کو ڈرانا مقصود ہو تو حالات کو بگڑنے سے کون روک سکتا ہے۔
کچھ دانشوروں کا خیال ہے کہ اس موقع پرعوام کو اپنے جذبات پر قابو رکھنا چاہیے تھا، جذبات پر قابو نہ رکھنے کے نتیجے میں یہ سانحہ پیش آیا لیکن اس سلسلہ میں میرا صرف یہ کہنا ہے کہ اگر آپ موقع واردات پر موجود ہوں اور آپ کے سامنے کوئی آپ کی مسجد پر بری نظر ڈالے یا آپ کی مسجد کو آپ سے چھیننے کی کوشش کرے تو کیا آپ اپنے جذبات پر قابو رکھ سکیں گے؟۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ قانون کو اپنا کام کرنے دیا جانا چاہیے ۔ لیکن کیا سروے ٹیم قانون کے دائرے میں اپنا کام کررہی تھی؟ البتہ اُس جگہ پر جس چیز کی کمی سب سے زیادہ محسوس کی گئی وہ تھی ملی، سماجی، مذہبی اور سیاسی قیادت کی غیر حاضری۔ عوام کو مشتعل ہونے سے روکنے اور ان کی راہ نمائی کرنے والا کوئی نہیں تھا جس کے عوض پانچ مسلم نوجوانوں کو اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کرنا پڑا۔
یہاں تک تو بات24؍نومبر کے واقعہ کی ہے لیکن اس کے بعد کیاہوا؟۔ عوام پر جو گزرنی تھی گزر گئی۔ جو نوجوان شہید ہوئے وقت کے ساتھ ان کے گھر والوں کو بھی صبر آہی جائے گا۔ اللہ بہترین کفالت کرنے والا ہے۔ لیکن اس حادثے کے بعد جو خوف کا عالم دیکھنے کو ملا وہ بیان سے باہر ہے۔ جس علاقے میں مسجد واقع ہے، اس کے ارد گرد نوجوان اپنا گھر بار چھوڑ کر بھاگے ہوئے ہیں، پولیس دن رات ان گھروں میں بنا اجازت داخل ہورہی ہے۔ کیا بوڑھے، کیا جوان، بچے اور عورتیں سبھی گرفتار کیے جارہے ہیں۔ پورا محلہ خالی ہے۔ تقریباً ڈھائی ہزار لوگوں کی بے نام ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔ قصور ڈھونڈ ڈھونڈ کے پیدا کیے جارہے ہیں۔ ایسے حالات میں جس کو چاہتی ہے پولیس اُٹھا کر بند کردیتی ہے۔ بے قصوروں کو قصوار بتایا جارہا ہے۔ ہم نے خود اپنے محلہ میں محسوس کیا کہ رات کو10؍بجے کے بعد تمام گھروں کی لائٹیں بند ہوجاتی ہیں، لوگوں نے اسٹریٹ لائٹ کے کنیکشن کاٹ دیے ہیں تاکہ پوری طرح اندھیرا چھایا رہے۔ رات میں پولیس کی گاڑیاں سائرن اور گشت سے خوف پیدا کرنے کی کوشش کررہی ہیں۔
عدالت کوئی بھی فیصلہ سنائے لیکن جس طرح کے حالات سنبھل میں پیدا کردیے گئے، جس طرح کا جانی اور مالی نقصان ہوا، اس سب سے باہر نکلنے میں وقت لگے گا۔ وقت سب سے بڑا مرہم ہے لیکن وقت کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ ؎
وقت ہر ظلم تمہارا تمہیں لوٹا دے گا
وقت کے پاس کہاں رحم و کرم ہوتا ہے
ایڈمنسٹریشن نے حالات خراب کیے، گولی چلائی، پانچ لوگوں کو موت کی نیند سلا دیا اور حالات کی کشیدگی کا سارا قصور رکن اسمبلی اور رکن پارلیمنٹ کی پرانی دشمنی کو بتایا گیا۔ ترک اور پٹھان کی آپسی لڑائی دکھائی جارہی ہے جبکہ بے چارے یہ تک نہیں جانتے ایک اگر ترک ہے تو دوسرا پٹھان نہیں بلکہ انصاری ہے۔ اور اس سے بڑھ کر یہ کہ اس دشمنی کی اب کوئی حقیقت ہی نہیں ہے۔ ڈاکٹر شفیق الرحمن برق کے انتقال کے بعد اس دشمنی نے حالات کے سبب ایک دوسرے کو گلے لگا لیا اور افسوس ایسے گلے لگایا کہ دونوں ہی اس واقعہ میں عوام سے دور رہے۔ جب کہ سب سے زیادہ ضرورت ان دونوں ہی کی تھی۔ البتہ ایک شکایت ان لوگوں سے بھی ہے جو اس حادثے کے دو روز بعد امن کمیٹی کے نام پر ایڈمنسٹریشن کی چائے پیتے نظر آئے لیکن ان میں سے کسی ایک نے بھی ڈی ایم سنبھل سے یہ سوال نہیں کیا کہ آخر گولی چلانے میں عجلت کیوں کی گئی؟ یہی جبہ و دستار والے عام دنوں میں اپنے پیچھے ہزاروں کا مجمع دیکھنا پسند کرتے ہیں لیکن جب عوام کو ان کی ضرورت تھی تو یہ سب اپنے اپنے گھروں میں بند دعائیں کررہے تھے ۔
سنبھل کے حالات خراب ہیں۔ گذشتہ پانچ دن سے تمام کاروبار بند ہیں۔ مالی نقصان سب کا ہوا لیکن جانی نقصان صرف مسلمانوں کا ہوا ہے۔ ان شاء اللہ ان کی یہ قربانی رائیگاں نہیں جائے گی بلکہ اس سے مقامی لوگوں کو مزید تقویت ملے گی۔ پُرسہ دینے کا ایک سلسلہ شروع ہوگا۔ سب گھڑیالی آنسو بہائیں گے اور جذبات سے کھلواڑ کریں گے۔ ضرورت ہے ایسے مگرمچھوں سے ہوشیار رہنے کی جو وقت پر آپ کے شانہ بشانہ نہیں کھڑے تھے۔ جو قوم جان گنوانے کا حوصلہ رکھتی ہے اس کے اندر قیادت کی بھی بھرپور صلاحیت ہے۔ حوصلے کے آگے بڑی بڑی سپر پاور طاقتیں بھی زیر ہوجاتی ہیں اور وقت بدلتے دیر نہیں لگتی۔ اطمینان کی بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے سنبھل جامع مسجد کے سروے پر روک لگادی ہے۔ سروے ٹیم نے سپریم کورٹ کا رخ بھانپ کر اپنی رپورٹ نامکمل ہونے کا بہانہ تراشا ہے۔ اس کے ساتھ ہی سپریم کورٹ نے یوگی سرکار کو اس کا ’راج دھرم ‘ بھی یاد دلایا۔

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

You may also like