( سابق مفتی اعظم مصر)
ترجمہ: آفتاب رشکِ مصباحی
بہار یونیورسٹی، مظفرپو
تصوف اس روحانی تربیت و سلوک کا نام ہے جس کے ذریعے ایک مسلمان مرتبۂ احسان پر فائز ہوتا ہے، جس کی وضاحت نبی کریم ﷺ نے یوں فرمائی:أن تعبد الله كأنك تراه، فإن لم تكن تراه فإنه يراك۔ (متفق علیہ ) تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا اسے دیکھ رہے ہو، اور اگر تم اسے نہیں دیکھ سکتے تو یہ یقین رہے کہ وہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔ دوسرے لفظوں میں تصوف ایک تربیتی نظام ہے جو انسان کے نفس کو ان تمام بیماریوں سے پاک کرتا ہے جو اسے اللہ سے دور کرتی ہیں۔ اور اللہ کے ساتھ، دوسرے لوگوں کے ساتھ اور خود اپنی ذات کے ساتھ تعلقات بنائے رکھنے میں جو نفسیاتی اور اخلاقی کمزوریاں ہوتی ہیں یہ نظام تصوف ان کو بھی دور کرنے پر توجہ دیتا ہے ۔تصوف وہ تربیت گاہ ہے جہاں نفس کو پاکیزہ اوراخلاق کو ستھرا کیاجاتا ہے، اور شیخ اس راہ میں طالب و مرید کا مربی و استاد ہوتاہے۔
انسانی نفس اکثر کئی قسم کی بیماریوں کا شکار ہو جاتا ہے،مثلاً: تکبر، خود پسندی، انانیت، بخل، حرص ، غضب، ریا ، کینہ اور دھوکہ وغیرہ۔ جیسا کہ اللہ تعالی نے حضرت یوسف علیہ السلام کا قول نقل کیا ہے: وَمَا أُبَرِّئُ نَفْسِي إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ إِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّي إِنَّ رَبِّي غَفُورٌ رَحِيمٌ۔(سورہ یوسف: ۵۳) میں اپنے نفس کو بری قرار نہیں دیتا ۔ بے شک نفس تو برائی ہی کا حکم دیتا ہے،مگر یہ کہ میرا رب کسی پر رحم فرمائے اور بے شک میرا رب بخشنے والا رحم فرمانے والا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلافِ کرام نے اخلاقی بیماریوں سے نفس کی تربیت و تطہیر کی ضرورت کو محسوس کیا تاکہ انسان معاشرے میں خوش اخلاقی سے رہتے ہوئے سیر الی اللہ کی منزلیں طے کر سکے۔
تصوف اور صوفیہ سے تعلق قائم کرنے والوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ چند چیزوں کا ہر لمحہ خیال رکھیں:
1- احکام و معمولات میں کتاب و سنت کی پابندی کہ صوفی کا طریقہ ہی کتاب و سنت کا پابند ہونا ہے اور جو کوئی کتاب و سنت کا پابند نہیں ہوتا اس کا تصوف اور صوفیہ سے کوئی تعلق بھی نہیں ہوتا ہے۔ کیوں کہ صوفیہ مخالف کتاب و سنت راہ کی نہ صرف تردید کرتے ہیں ، بلکہ اس طرز عمل سے اپنے مریدین کو روکتے اورمنع بھی کرتے ہیں۔
2- طریقت شریعت کا جوہر اور مغز ہے۔ لہذا، طریقت کی تعلیم شریعت سے جدا ہو کر نہیں پائی جائےگی۔ در اصل تصوف ان تین بنیادی مظاہر کا نام ہے جس کی ترغیب قرآن مقدس نے دی ہے۔
ان میں ایک نفس کی دیکھ بھال، اس کا محاسبہ اور تزکیہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشادہے: وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّاهَا، فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا، قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاهَا، وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسَّاهَا۔ (سورہ الشمس: ۷-۱۰) قسم ہے نفس کی اور اس کی جس نے اس کو درست کیا۔ پھر اس پر اس کی بدی اور نیکی کا الہام کیا ۔بے شک وہ کامیاب ہوا جس نے اپنے نفس کو پاک کیا۔اور بے شک وہ خائب و خاسر ہوا جس نے اس کو آلودہ و پراگندہ کیا۔
دوسرا: کثرت سے اللہ کا ذکر کرنا، جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا اذْكُرُوا اللَّهَ ذِكْرًا كَثِيرًا۔ (سورہ احزاب:۴۱ ) اے ایمان والو! کثرت سے اللہ کا ذکر کرو۔ اور نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ولا یزال لسانک رطباً من ذکر اللہ۔(سنن ابن ماجہ، ح: ۳۰۷۵) یعنی تمہاری زبان اللہ کے ذکر سے تر رہے۔
تیسرا: دنیا میں زہد اور لاتعلقی اختیار کرتے ہوئے آخرت کی رغبت رکھنا، جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا: وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا لَعِبٌ وَلَهْوٌ وَلَلدَّارُ الْآَخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ أَفَلَا تَعْقِلُونَ۔ (سورہ انعام: ۳۲) دنیوی زندگی محض کھیل اور تماشہ ہے، جبکہ آخرت کی زندگی اہل تقوی کے لیے سراپا خیر ہے تو کیا تم یہ بات نہیں سمجھتے ہو؟
تصوف کی راہ میں شیخ کا مقام و مرتبہ جو مریدین کو ذکر و اذکار کی تلقین کرتا ہے، نفوس کو برائی سے پاک کرنے اور دلوں کو بیماریوں سے شفا دینے میں ان کی مدد کرتا ہے، ایک ایسے استاد کی طرح ہوتا ہے جو ہر مرید و طالب کے لیے مناسب ترین طریقہ اختیار کرتا ہے۔ یہی نبی کریم ﷺ کا بھی طریقہ تھا کہ وہ ہر انسان کو اس کے نفس و مزاج کے مطابق وہی نصیحت فرماتے تھے جو اسے اللہ تعالی کے قریب کر دے۔ چناں چہ ایک شخص حضور ﷺ کے پاس آیا اور عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ ! مجھے کوئی ایسی بات بتائیں جو مجھے اللہ کے غضب سے دور کر دے، تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا:غصہ نہ کرو۔ دوسرا شخص آیا اور عرض کیا کہ مجھے کوئی ایسی بات بتائیں جسے میں مضبوطی سے تھام سکوں، تو اس سے فرمایا: تمہاری زبان اللہ کے ذکر سے تر رہے۔
ان ہی سب وجوہات سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے بعض رات کو قیام زیادہ کرتے، بعض قرآن کی تلاوت زیادہ کرتے، بعض جہاد میں پیش پیش رہتے، بعض ذکر میں زیادہ مصروف رہتے، اور بعض صدقہ میں آگے رہتے ۔ لیکن، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انسان ایک چیز میں مشغول ہو جائے اور دوسری تمام عبادتوں کو چھوڑ دے، بلکہ جملہ فرائض و واجبات کی پابندی کے ساتھ کوئی خاص عبادت ہوتی ہے جسے سالک اللہ کی طرف پہنچنے کے لیے زیادہ کرتا ہے، اور اسی عمل کے مطابق جنت کے دروازے بھی جدا جدا ہوتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: لكل أهل عمل باب من أبواب الجنة، يدعون بذلك العمل ولأهل الصيام باب يدعون منه يقال له الريان۔ (صحیح بخاری، ح: ۱۸۹۷) ہر عمل کرنے والے کے لیے جنت میں ایک دروازہ ہوگا، جس سے اسے بلایا جائے گا، اور روزے داروں کے لیے جو دروازہ ہوگا اسے ریان کہا جاتا ہے۔ٹھیک اسی طرح شیخ مرید کے احوال کے مطابق ان کے لیے الگ الگ طریقہ ٔکار منتخب کرتا ہے، کیوں کہ اس راہ کے اسالیب و مناہج جن کو اختیار کر کے بندہ واصل الی اللہ ہو سکتا ہے، متعدد ہیں۔ لہذا، شیخ کسی کو روزے کی تاکید کرتا ہے اور کسی کو تلاوت قرآن پر مامور کرتا ہے ، تو کسی کو دوسری عبادات میں مشغول رکھتا ہے۔ لیکن، سب کا مقصد ایک ہی ہوتا ہے یعنی اللہ تعالیٰ کہ وہی مقصود کل ہے ۔
اس مقام پر یہ باتیں بھی خصوصیت کے ساتھ یاد رکھنے کی ہیں کہ مذکورہ منہج اصلاح و تزکیہ (شیخ کا اپنے مریدوں کو الگ الگ چیزوں میں مشغول رکھنے والے طریقے )کا انطباق ان بیشتر مدعیان تصوف پر نہیں ہوتا جو تصوف کا دم تو بھرتے ہیں، لیکن ان کا طرز بود و باش تصوف کی شکل بگاڑے ہوئے ہے۔ جو نہ دین کے پابند ہیں نہ صالحیت کے حامل ہیں، جو میلوں ٹھیلوں میں ناچتے ہیں اور مجاذیب کی طرح نامناسب حرکتیں کرتے ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ ان سب چیزوں کا تصوف اور صوفی منہج رشد و ہدایت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ وہ تصوف جس کی ہم دعوت دیتے ہیں اس کا ان منفی مظاہر سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ اور نہ ہی ہمیں تصوف کی تعلیم اور اس کا طریقۂ کار ان جاہلوں(مستصوفین) سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔ بلکہ ، تصوف کے بارے میں جاننے کے لیے ہمیں ان علما کی طرف رجوع کرنا چاہیے جو علماً و عملاً/ قولاً و فعلاً تصوف کو پسند کرتے ہیں تاکہ ہمیں ان کی پسند کی وجہ بھی معلوم ہو سکے۔
یہاں پر ان لوگوں کی تردید بھی ضروری ہے جو کہتے ہیں کہ تطہیر نفس اور آداب سلوک کے لیے ہم براہ راست قرآن و سنت کو کافی سمجھتے ہیں ۔ ان کی یہ بات تو بظاہر بڑی بھلی معلوم ہوتی ہے، لیکن سچائی یہ ہے کہ اس میں بہت بڑا نقصان پوشیدہ ہے۔ کیوں کہ ہم نے نماز کے ارکان و سنن اور مکروہات وغیرہ براہ راست قرآن و سنت پڑھ کر نہیں سیکھے، بلکہ کتب فقہ اور فقہا سے سیکھے ہیں ، جو انھوں نے قرآن و سنت سے استنباط و استخراج کیے ہیں۔ایسے میں بھلا کوئی یہ کیسے کہہ سکتا ہے کہ ہم فقہ اور دین کے احکام کو براہ راست قرآن و سنت سے سیکھیں گے؟ یقین جانیے ! آپ کو کوئی ایک بھی عالم ایسا نہیں ملے گا جس کا یہ دعویٰ ہو کہ اس نے فقہ و مسائل کو براہ راست قرآن و سنت سے سیکھا ہے۔اسی طرح بہت سی ایسی چیزیں ہیں جو قرآن و سنت میں مذکور نہیں ہیں اور نہ ہی کسی ماہر استاد کی صحبت اختیار کیے بغیر محض کتاب و سنت سے سیکھی جا سکتی ہیں۔ جیسے: علم تجوید اور اس کے مصطلحات ، مثلاً: مد لازم کے چھ حرکات ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ کس نے اس مد کو لازم قرار دیا؟ اس کی دلیل کیا ہے ؟ اس کا ثبوت کیا ہے؟ جواب ہوگا کہ یہ علماے تجوید نے کیا ہے۔ اسی طرح علم تصوف بھی علماے تصوف نے وضع کیا ہے جس کا سلسلہ حضرت جنید بغدادی کے زمانے سے آج تک جاری ہے۔ ہاں! جب زمانہ خراب ہوا ، لوگوں کے اخلاق میں فساد آیا تو کچھ صوفی طریقے بھی خراب ہو گئے اور وہ دین کے مخالف مظاہر سے جڑ گئے، جس سے لوگوں نے یہ گمان کر لیا کہ یہی تصوف ہے۔ حالاں کہ اعتدال پسند لوگ جانتے ہیں کہ معاملہ ایسا نہیں ہے۔ اسی لیے میں کہتا ہوں کہ اللہ تعالی تصوف اور اس کے پیروکاروں کا دفاع کرے گا اور اپنی قدرت سے ان کی حفاظت فرمائےگا ۔ اللہ تعالی فرماتا ہے: إِنَّ اللَّهَ يُدَافِعُ عَنِ الَّذِينَ آَمَنُوا إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ خَوَّانٍ كَفُورٍ۔(سورہ حج: ۳۸) بے شک اللہ تعالی ایمان والوں سے دشمنوں کو دور کرےگا ، یقینا اللہ تعالی خیانت کرنے والے ناشکرے کو پسند نہیں فرماتا ۔