ترنم ریاض کی شناخت ہمارے یہاں ایک نظم گو شاعرہ کے طور پر رہی ہے اور ایک کامیاب فکشن نگارکے طور پر بھی۔ شاعری اور فکشن کے علاوہ انھوں نے کچھ تنقیدی مضامین بھی لکھے ہیںاور تراجم میں بھی طبع آزمائی کی ہے ۔ان سب کے باوجود بحیثیت افسانہ نگار وہ اپنا ایک منفرد مقام رکھتی ہیں ۔وہ بطور تخلیق کار موجودہ دور میں اس حیثیت سے ایک ممتاز مقام رکھتی ہیں کہ وہ فن کے بنیادی اصولوں کو پیش نظر رکھ کر اپنی کہانی کا تانا بانا بنتی ہیں اور ہنرمندی سے اپنے افسانے تخلیق کرتی ہیں ۔ان کی تخلیقات پڑھنے سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ زندگی کو دیکھنے کا ان کا اپناایک الگ ہی زاویہ تھا ۔ترنم ریاض کے یہاں ماحول اور حالات کا عکس صاف صاف دیکھا جاسکتا ہے اور خاص کر کشمیر کے سیاسی پس منظر کو لے کر کافی حساس بھی ۔وہ اپنے اس انداز میں بڑی بے باک اور نڈر بھی ہیں اور یہی بے باکی ان کو اپنے ہم عصروں میں امتیاز عطا کرتی ہے جو ان کا سب سے بڑا ہنر ہے ۔
ڈاکٹر ترنم ریاض کا اصل نام فریدہ ترنم تھا۔9/ اگست1963کو سری نگر (کشمیر )میں پیدا ہوئیں ۔ ابتدائی تعلیم سری نگر میں ہی ہوئی۔ اس کے بعد ایجوکیشن میں M.A کی ڈگری حاصل کی اور ایجوکیشن سے ہی کشمیر یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی تعلیم مکمل کی ۔ترنم ریاض کی پوری زندگی درس و تدریس اور تصنیف و تالیف میں گزری۔ اس کے علاوہ وہ آل انڈیا ریڈیو سے بھی وابستہ رہیں۔ انھوں نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز1973 میں کیا۔ 1975 میں پہلی کہانی لکھی جو روز نامہ ’آفتاب‘ میں شائع ہوئی۔ 1983 میں انھوں نے ریاض پنجابی سے شادی کرکے فریدہ ترنم سے ترنم ریاض بن گئیں ۔
ترنم ریاض نے مختلف سماجی مسائل کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایاہے، اس لیے ان کے افسانوں میں ایک خاص کیفیت کی عصری حسیت کو بآسانی محسوس کیا جا سکتا ہے۔ انھوں نے اپنی فکر کو بڑی بے باکی کے ساتھ مختلف کرداروں میں ڈھال کر پیش کیاہے ۔اپنی کہانیوں میں انھوں نے مختلف کرداروں کی نفسیات اور ان کے جذبات کی عکاسی کرنے کی کامیاب سعی کی ہے۔ وہ روز مرہ کی زندگی سے چھوٹے بڑے مسائل کو فنی چابکدستی کے ساتھ اخذ کرتی ہیں اور انہیں مختلف کرداروں میں سمو کر مجبور وبے کس انسانوں کی آواز بنادیتی ہیں۔ انھوں نے کئی ایسے افسانے تخلیق کئےجنھیں اعلیٰ درجے میں شمار کیا جا سکتا ہے ۔ان افسانوں میں” مٹی “،”اچھی صورت بھی کیا“،”برآمدہ“، ”شہر“، ”برف گرنے والی ہے“، ”ناخدا“اور”کمرشیل ایریا“ کو بطور مثال پیش کیا جا سکتا ہے۔ ان کا افسانہ ’مٹی‘ مظلوم و بےکس انسانوں کے درد کوبیان کرتا ایک شاہکار افسانہ ہے ۔ ایک شخص جو اپنی مٹی سے پیار بھی کرتا ہے اور ظلم کی وجہ سے اسے چھوڑ کر جانے پر مجبور بھی ۔ لیکن حالات ایسے ہیں کہ وہ اپنا سارا اثاثہ تج دینے پربھی راضی ہے۔ اس کے باوجود ظلم کا شکار ہونے سے بچ نہیں پاتا۔ افسانے میں منظرکشی بڑی جاذب نظر طریقے سے کی گئی ہے جس سے قاری مظلوم افراد سے ہمدردی محسوس کرنے لگتا ہے۔ اسی پس منظر کا ایک اقتباس ملاحظہ ہو، دیکھیے کس خوبصورت طریقے سے انھوں نے حالات کو الفاظ کا جامہ پہنایا ہے:
’اندر گھروں کی تلاشی ہو رہی تھی،تلاشیاں لینے والے ایک گھر میں آجا رہے تھے ۔ ایک وردی پوش جب ایک گھر سے نکل کر جانے والا تھا، اس کی پتلون کی پچھلی جیب میںسونے کی ایک زنجیر جھانک رہی تھی۔ وہ جلدی میںشاید اسے اچھی طرح ٹھونس نہ پایا تھا ۔۔۔میری۔۔۔۔۔بچی کی ہے ۔۔۔۔۔۔ اس کی شادی کے لئے ۔
ہلال احمد کا ہمسایہ غلام حسن زور سے بولااور بھاگ کر وردی پوش کے پاس پہنچ گیا ۔لڑکی باپ کے پیچھے آہستہ آہستہ قدم اٹھاتے ہوئے گئی اور کچھ دورپر رک گئی۔‘ (افسانہ مٹی:ص ۶۷۔۷۷)۔
ٖٓ افسانہ ’ مٹی‘ کا ذکر کرتے ہوئے ترنم ریاض لکھتی ہیں کہ:
”افسانہ ’مٹی‘ نے بھی از حد رنجیدہ کیا تھا۔ مجھے اس افسانے کو تحریر کرنے سے پہلے میں کچھ دیر کے لئے اس ماحول میں رکی۔ وہاں کی گھٹن،درد ، کرب اور ہر شے پر محیط مایوسی میرے اندر جذب ہوگئی تھی ۔ تب ’مٹی‘ کا ظہور ہوا“۔
افسانہ ’مٹی ‘ میںافسانہ نگارنے جنگ سے متاثر ایک مظلوم انسان کی مظلومیت اور مسائل کو جس فن کاری سے پیش کیا ہے، وہ کمال کا ہے ۔ ان کی باتوں میں کتنی سچائی ہے اس کا اندازہ افسانہ پڑھ کر بخوبی ہوجاتا ہے ۔اگرچہ یہ افسانہ ایک مخصوص ماحول اور مسائل کی پیدا وار ہے لیکن ترنم کی تخلیقی بصیرت نے اس افسانے کو علاقائیت سے اوپر اٹھا کر ایک آفاقی عظمت عطا کی ہے ۔
’اچھی صورت بھی کیا‘ ترنم ریاض کا ایک سلگتے مسئلے کو اجاگر کرتاایک بے باک افسانہ ہے۔ اس میں انھوں نے موجودہ دور کے ایک پیچیدہ مسئلے کو توجہ کا مرکز بنایا ہے۔ شہروں میں بڑھتی بھکاریوں کی تعداد سے ہر خاص و عام پریشان ہے ۔ اس کے تحت معصوم بچوں کے استحصالی نظام نے ہمارے سماج میںایک ناسور کی شکل اختیار کر لی ہے ۔ مختلف ریاستی سرکاروں نے اس کے خاتمے کے کئی منصوبے بھی وضع کیے ہیں لیکن مسئلہ اتنا بڑا ہے کہ صرف سرکاری اقدامات سے اس کا قلع قمع نہیں ہو سکتا۔ اس میں ہر فرد کی حصہ داری ضروری ہے۔ اس چیزکو ترنم ریاض نے محسوس کیا اور ایک خوبصورت افسانہ تخلیق کیا۔ اس افسانے میں ایک معصوم بچے راہل کی کہانی پیش کی گئی ہے ۔راہل کوبھیک مانگنے کے لئے اغوا کیا جاتا ہے ۔ افسانے کو پڑھ کر حقیقت واضح ہوتی ہے کہ کس طرح حالات اور ماحول معصوم بچوں کو چوری اور دوسرے جرائم کی دنیا میں دھکیل دیتے ہیں ۔راہل کا باپ ایک شرابی ہے جسے اپنی اولاد کی کوئی فکر نہیں ۔ وہیں دوسرا بھیک مانگنے والا بچہ ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتا ہے۔ پولیس ان بچوں کو سر غنہ کے ساتھ پکڑتی ہے تو خوف کے مارے ان بچوں کے منھ سے یہ جملے نکلتے ہیں :
’رضیہ بی ہماری سچی ماں ہیں۔۔۔۔۔۔‘
دیکھا رضیہ بی ہم نے کچھ نہیں بتایا نا؟ ہم کو مت مارنا‘
ان جملوں سے یہ بات اچھی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ کس طرح یہ معصوم بچے خوف کے اندر پلتے اور جیتے ہیں ۔ان کے لیے اپنے سرغنہ کی خوشنودی دو وقت کی روٹی کے حصول کی ضمانت ہوتی ہے۔اس لیے وہ پولیس کے سامنے اپنے سرغنہ کے خلاف بیان دینے سے بھی کتراتے ہیں۔ ظاہر ہے سرکاری اسکیمیں جب تک زیرو لیول پر نہیں پہنچیں گی تو بھیک جیسی دلدل سے معصوم بچوں کو نکالنا ایک مشکل امر ہوگا۔ اسی بات کو ترنم ریاض نے اپنی فنکاری سے قاری تک بڑی خوبصورتی کے ساتھ منتقل کیا ہے۔
افسانہ ’ برآمدہ‘ موجودہ سوسائٹی کے ایک اہم مسئلے پر مبنی ہے ۔ افسانے کی ہیروئن شہلا کا شوہر سہیل دوسری عورتوں میں زیادہ دلچسپی دکھاتا ہے۔شہلا کے لیے شوہر کا یہ برتاؤ کسی اذیت سے کم نہیں ۔ وہ اسے روکنے کی بہت کوشش کرتی ہے پر کامیاب نہیں ہوپاتی ۔ شہلا کو اس ماحول سے گھٹن سی ہوتی ہے اور یہ فطری بھی ہے اس عورت کے لئے جس کا مرد کسی دوسری عورتوں میں دلچسپی لیتا ہے۔شہلا اپنے شوہر کی ان حرکتوں سے بہت تنگ آجاتی ہے۔ اس سے پہلے کہ وہ خود بھی اپنے شوہر جیسی حرکتوں پر اتر آئے وہ اپنے آپ کوشوہر جیسا بننے سے روک لیتی ہے۔ ترنم ریاض نے شہلا کی کیفیت کو جس ہنرمندی سے پیش کیا ہے، وہ قابل تعریف ہے۔شہلا کی ذہنی کیفیت کو بیان کرتے ہوئے وہ لکھتی ہیں:
” جلدی سے زینے کی طرف طے کرکے اپنی خوابگاہوں کی پناہوں میں پہنچتے ہوئے میں یہ سوچ رہی تھی کہ …… آرزو کو تو کوئی نہ کوئی جواب مل ہی جائے گا۔
اور خود مجھ کو……؟“ ( ابابیلیں لوٹ آئیں گی: افسانہ برآمدہ: ص۱۶۳)۔
اسی سوال کے ساتھ افسانہ ختم ہو جاتا ہے۔ لیکن یہی سوال قاری کے دل میں بہت سے نئے خیالات کو جنم دینے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ ترنم ریاض نے افسانے میں ہمارے معاشرے کے جس مسئلے کو اجاگر کیا ہے اس نے اب ناسور کی شکل اختیار کر لی ہے۔ اسے اب LGBTQکی طرح صرف قانونی حیثیت ملنے کی دیری ہے اور دوسری طرف ان جیسے مردوں کی بیویاں بھی اس چیز کا شکار ہوتی ہیں اور ایک اچھے گھر کو بکھرنے کے لیے چھوڑ دیتی ہیں ۔ آج یہی چیزسماج میں انتشار پھیلانےکا سبب بھی بن رہی ہے ۔
ترنم ریاض نے شہری زندگی کے مسائل پر بھی افسانے لکھے ہیں ۔ اس ذیل میں ان کا نمائندہ افسانہ ’شہر ‘ اور ”کمرشیل ایریا“ہے۔ اپنے افسانے ”شہر“ میں انھوں نے تصویر کھنیچی ہے کہ کس طرح امان کو شہر آنے کی بڑی آرزو ہوتی ہے اور ایک دن ا س کی یہ آرزو پوری بھی ہوجاتی ہے ۔شہر آکر امان اپنی بیوی ”بابرہ“ کے ساتھ ایک فلیٹ میں رہنے لگتا ہے۔لیکن جب امان دو دن کےلئے کسی کام کے سلسلے میں شہر سے باہر جاتا ہے تو امان کی اسی غیر موجودگی کے ایام میں بابرہ کی موت واقع ہوجاتی ہے ۔ موت جیسے سانحے کے باوجود شہر میں ایک پڑوسی دوسرے پڑوسیوں سے کس طرح لاتعلق رہتا ہے اور لاش کے سڑنے کی نوبت آجاتی ہے، اسے بڑے ہی درد انگیز طور سے ترنم ریاض نے بیان کیا ہے۔ امان کی بیوی کب مر گئی یہ صرف اس کے چھوٹے چھوٹے بچے جان رہے ہوتے ہیں، اس کے علاوہ اور کوئی نہیں کیونکہ دو دن سے اس فلیٹ میں کوئی جھانکا تک نہیں تھا۔
افسانے میں ترنم ریاض نے شہر کی بے حسی کے مناظر کو بڑی ہی خوبی کے ساتھ دکھایا ہے کہ ایک لاش کمرے میں دو دن تک پڑی رہتی ہے اور اس کے ہمسایوں کو پتہ تک نہیں چلتا۔ اس طرح یہ افسانہ شہری زندگی پر جس میں جذباتوں کی اب کوئی قدر نہیںرہ گئی ہے ۔ہر طرف ایک مادیت ہے ، اس پر بھر پور طریقے سے چوٹ کیا گیا ہے ۔
اسی طرح ترنم ریاض نے اپنی بیشتر کہانیوں کی بنیاد روزمرہ کی زندگی میں پیش آنے والی واقعات پر رکھا ہے ۔گھریلو مسائل اورعورت و مرد کے رشتوں پرانھوں نے کئی افسانے لکھے ۔ بعض کہانیوں میں انھوں نے نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کے نفسیاتی مسائل بھی موضوع بنایا ہے ۔افسانہ’ آدھے چاند کا عکس ‘ اور’ گلچیں‘اس کی عمدہ مثالیں ہیں ۔
افسانہ ’برف گرنے والی ہے ‘ مفلسی اور غربت سے تنگ آئے ہوئے ایک گھر کی کہانی ہے۔ کہانی کا مرکزی کردار ایک کمسن لڑکا ’جاوید‘ ایک فیکٹری میں کام کرتا ہے ۔ اس کام سے اس کے گھر کا گزارا بڑی مشکل سے ہوتا ہے ۔بالآخر اسی غریبی سے تنگ آکر جاوید غلط راستے پر چلنے کے لئے مجبور ہوجاتا ہے کیونکہ اس سے اپنے والدین اور اپنی چھوٹی بہن کا دکھ نہیں دیکھا جاتا ۔اس افسانے میں ترنم ریاض نے مکالمے کی مدد سے بڑی ہی خوبصورت موڑ عطا کیا جو قاری پر ایک خاص تاثر قائم کرنے میں کامیاب نظر آتا ہے۔جاب کی تلاش کے سلسلے میں ماں اور بیٹے کے درمیان کی گفتگو کو یہاں ملاحظہ کیجئے:
”بہت پہلے میرے پاس ایک کام دعوت ہے ۔ میں نے انکار کر دیا تھا ۔ مگر بابا اب کروں گا۔ بس ذرا سا احتیاط کا کام ہے ۔اور پیسہ ہی پیسہ“ ۔
جاوید کے والدین اسے روکنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن وہ اپنی کوشش میں ناکام رہتے ہیں ۔جاوید کی ماں بھی ہر ماں کی طرح اپنے بیٹے سے بہت پیار کرتی ہے۔ وہ اپنے آرام کی خاطر اپنے بیٹے کو کسی غلط کام میں نہیں ڈالنا چاہتی۔
”نہ میرے لعل ۔ ہمارے پیٹ کے لئے اپنی زندگی مت بیچنا ۔ بھوکی جی لوں گی۔ تمھیں کھوکر زندہ نہ رہ پاؤں گی ۔ میرے بچے“۔
اس مکالمے کی مدد سے ترنم نے جو سماں باندھا ہے اور قاری پر دیرپا اثر چھوڑنے میں پوری طرح کامیاب ہے۔
ترنم ریاض کے افسانوں کا کینوس کافی وسیع ہے۔ وہ اپنے افسانوں کی بنیاد روز مرہ کی زندگی کے چھوٹے چھوٹے واقعات پر رکھتی ہیں۔ یہ واقعات اہم ہیں اور ہمارا سامناان سے روز ہوتا رہتا ہے۔ وہ اپنے افسانوں میں زندگی کے عام مسائل کو بڑی فن کاری سے پیش کرتی ہیں ۔ ان کی اسی خوبی کی تعریف کرتے ہوئے بجا طور پر انھیں نسائی حسیت کا علمبردار فنکار کہا گیا ہے۔اس ضمن میں پروفیسر ابوالکلام قاسمی کی رائے قاری کے لیے دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔ وہ لکھتے ہیں :
’ ترنم ریاض ان افسانہ نگاروں میں سے ایک ہیں جن کا اظہار اور بیانیہ ان کی اپنی ذات کے ساتھ تہذیب و ثقافت اور اعلیٰ اقدار پر مبنی ہوتا ہے۔ مجھے ترنم ریاض کی کہانیوں میں رواج کے بھر پور شعور کے ساتھ تجربے کا رنگ بھی شامل نظر آتا ہے ۔ وہ صورت ِحال کوکہانی بنانا جانتی ہیں اور اپنے زمانے کی اسلوبیاتی رویوں سے واقفیت کے باعث کسبِ فیض بھی کرتی ہیں ۔مجھے ترنم ریاض کے پہلے افسانوی مجموعے’ یہ تنگ زمین‘ کی بیشتر کہانیان ایک سچے فن کار کی ترجمانی محسوس ہوئی تھیں ۔خوشی کی بات یہ کہ نیا مجموعہ’ ابابیلیں لوٹ آئیں گی‘ ان کے فنی سفر کا دوسرا پڑاؤ ہے جو اپنے میں قابلِ توجہ بھی ہے اور اپنے زمانے کے نمائندہ افسانوی رجحانات کا عکاس بھی مثال کے طور پر ’برف گرنے والی ہے، مٹی، شہر ، باپ ، اماں‘ وغیرہ۔ )ابابیلیں لوٹ آئیں گی: فلیپ)۔
ترنم ریاض کی افسانہ نگاری ’ابابیلیں لوٹ آئیں گی‘ کے تناظر میں- شاہدحبیب
previous post