محترم ڈاکٹراکرم ندوی صاحب نے اپنے اس مضمون میں اپنی کتاب’’تاریخ ندوۃ العلماء‘‘ پر اعتراضات کا جواب دینے کی کوشش کی ہے۔اس مضمون سے پتہ چلتا ہے کہ تاریخ ڈاکٹر صاحب کاموضوع نہیں ہے تاہم وہ تاریخ اور تاریخ نویسی کے فن سے واقف ہیں بلکہ انہیں اس کا کچھ تجربہ بھی ہے۔ انہوں نے تاريخ نويسى کےتين ارتقائى مراحل پر مختصرروشنی ڈالی ہے۔ نیز آکسفورڈ میں تاریخ کے موضوع پر کسی اہم پروجیکٹ سے اپنے طویل انسلاک کا ذکر بھی کیا ہے۔ مستزاد برآں ڈاکٹر صاحب نے یہ بھی بتایا ہے کہ انہوں نے تاریخ جیسے خشک موضوع کو ادبی پیرایۂ بیان میں لکھنے کی کوشش کی ہے۔اور یہ کہ یہ کتاب بطور خاص عرب قارئین کو ذہن میں رکھ کرلکھی گئی ہے۔
ڈاکٹرصاحب نے اس اعتراض کہ اس کتاب میں کم از کم دوموضوعات ایسے ہیں جو تاریخ سے مختلف ہیں، کی بھی قدرے وضاحت کی ہے ،انہوں نے بتایا ہے کہ وہ دو موضوعات ايك ’’حديث شريف واسناد سے ندوه كا شغف‘‘، ‘‘دوسرے ندويوں كى سندوں سے چاليس حديثوں كى روايت‘‘جن کا تعلق تاریخ سے بظاہر کم نظر آتا ہے، انہوں نے ناشرکی خواہش پر سپردقلم کیے ہیں، ان کے خیال میں یہ موضوع کے ساتھ کسی قسم کی زیادتی نہیں ہے باوجود اس کے کہ وہ کتاب کے موضوع سے بہت کم مناسبت رکھتے ہیں۔
انہوں نے معترضین کے اعتراض’’گفتہ آید درحدیث دیگراں‘‘ کابھی جواب دیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ تاریخ کے موضوع سے دلچسپی پیدا کرنے کی غرض سے انہوں نے بعض تاثراتی مضامین کتاب میں شامل کرنے کاارادہ کیا تھا،اس کے لیے انہوں نے کئی ندوی حضرات سے ندوۃ العلماء کے حوالے سے ان کے تاثراتی مضامین طلب کیے تھے، مگرایک دو کے علاوہ کسی نے توجہ نہیں دی تو انہوں نے خود اپنے تاثرات قلم بند کیے اور کتاب میں شامل کیے،اور اس طرح خود مصنف اپنی تصنیف میں درآئے ، اب یہ درست ہے یا نہیں یہ تو ناقدین ہی فیصلہ کرپائیں گے۔
ڈاکٹر صاحب نے اور بھی کئی اعتراضات کے جواب دیے ہیں۔ تاہم انہوں نے اُن دو تین اعتراضات سے پہلو تہی کی ہے جو اس کتاب پر بعض تنقیدی مضامین میں کیے گیے ہیں۔ ایک یہ کہ یہ کتاب بعض اہم ندوی شخصیات کے تذکرے سے خالی کیوں ہے۔ دوسرا یہ کہ کتاب میں بعض ندوی فضلاء کا ذکر بہت تفصیلی ہے جبکہ بعض دوسری شخصیات کا بہت ہی مختصر ہے اور تیسرا یہ کہ بعض وہ علماء جو ندوۃ العلماء میں استاد نہیں رہے اور پھر بھی ان کا ذکر ندوہ کے استاد کی حیثیت سے کیا گیا ہے۔ بہتر ہوتا کہ ڈاکٹر صاحب اپنے مضمون میں ان دواعتراضات کا بھی جواب دیتے۔ مگر شاید انہوں نے اس کی ضرورت نہیں سمجھی۔
ڈاکٹرصاحب نے اپنے مضمون کا عنوان ’’تاریخ تاریخ اور تاریخ‘‘ رکھا ہے۔ یہ عنوان کتاب پر تنقیدی مضامین سے ان کی پریشانی کی غمازی کرتا ہے، یا پھر ممکن ہے کہ مضمون لکھتے وقت ان کے ذہن میں مشہور ہندی فلم کا ڈائیلاگ گردش کرنے لگا ہو۔۔۔’’تاریخ پہ تاریخ،تاریخ پہ تاریخ۔۔۔۔‘‘ اور انہوں نے اسی سے شہہ پاکر اپنے مضمون کا عنوان ’’تاریخ تاریخ اورتاریخ‘‘ رکھ دیا ہو۔ بہرحال یہ تو ثانوی بات ہے۔البتہ مضمون کے آخر میں ڈاکٹر صاحب نے اپنے قارئین سے گزارش کی ہے کہ جانے انجانے میں کتاب میں جوخامیاں راہ پاگئیں ہوں، ان کی نشاندہی کریں تاکہ اگلے ایڈیشن میں تصحیح کی جاسکے۔ اگر آپ نے ڈاکٹر صاحب کی کتاب پر تنقیدی مضامین پڑھے ہیں تو آپ کو یہ مضمون بھی پڑھنا چاہیے۔
کتاب پرتنقیدی تبصروں سے الگ ہٹ کر اس بات کا اظہار ضروری ہے کہ ڈاکٹر صاحب کا یہ کام بڑا وقیع ہے، بطورخاص اس لیے کہ یہ عربی زبان میں ہے، یہ کام تو بہت پہلے ہی ہوجانا چاہیے تھا۔حالانکہ ندوۃ العلماء کا دامن عربی زبان وادب اور تاریخ وفن تاریخ کے ماہرین سے خالی نہیں رہا،پھر بھی کام کا یہ میدان خالی ہی رہا۔ ویسے ندوۃ العلماء کی تاریخ پر ایک مبسوط کتاب کی ضرورت تو غالبا اردو میں بھی ہے۔