Home نقدوتبصرہ شہرِ ہنروراں و ہوش منداں مرادآباد پر ایک وقیع کتاب-نایاب حسن

شہرِ ہنروراں و ہوش منداں مرادآباد پر ایک وقیع کتاب-نایاب حسن

by قندیل

مغل حکمراں شاہ جہاں کے بیٹے مرادبخش کے نام پر بسائے گئے شہر مراد آباد کی شناخت کئی حوالوں سے بڑی اہم اور ممتاز  ہے۔ پیتل کی دست کاری،اولیا و عارفین،سیاست دانوں اور سیاسی سرگرمیوں،مختلف مسلم مکاتب فکر کے مرکزی دینی اداروں کے علاوہ دورِ جدید میں یہ شہر جگر مرادآبادی کے حوالے سے بھی مشہور ہے ،ان کے علاوہ ہندوستان کی علمی، ادبی و سماجی تاریخ کے درجنوں اہم ناموں اور کرداروں کا مولد و منشا یہ شہر رہا ہے ۔ہندوستان ایک وسیع و عریض ملک ہے اور یہاں مشہور و نامدار شہروں کی تعداد اچھی خاصی ہے،ان شہروں کی تاریخ کو یاد رکھنا،ان کی شناخت کو اُجالنا اور ان کے قومی و عالمی کردار کو نمایاں کرنا ان شہروں سے تعلق رکھنے والے اہل علم و قلم کی ذمے داری ہے۔ معروف صحافی و اہل قلم معصوم مرادآبادی نے اس ذمے داری کو محسوس کیا اور ایک نہایت قابل قدر کتاب ’تاریخِ مرادآباد‘مرتب کرکے قارئین کی نذر کی ہے۔اس سے قبل بھی مرادآباد کی تاریخ پر چند کتابیں لکھی جاچکی ہیں،جن میں تاباں نقوی امروہوی کی ’مرادآباد:تاریخ اور صنعت ‘،محمد عتیق کی ’مختصر تاریخ آئینہ مرادآباد‘،سید محبوب حسین سبزواری کی ’مرادآباد:تاریخ جدوجہد آزادی‘،فرقان سنبھلی کی’اردو صحافت اور مرادآباد‘ قابل ذکر ہیں۔ مختلف ادبی و علمی تذکروں اور تاریخ کی کتابوں میں بھی مراد آباد اور وہاں کے مشاہیر کا احوال مل جاتا ہے۔

 

مگر معصوم صاحب کی کتاب کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں انھوں نے مرادآباد کی تاریخ کی بیشتر جہتوں کو یکجا کر دیا ہے اور اس حوالے سے ایسی تحریروں کو شامل کتاب کیا ہے،جن کا استناد و اعتماد مسلم ہے ۔۴۳۸صفحات کی ضخامت رکھنے والی یہ کتاب چھ ابواب پر مشتمل ہے۔پہلے باب میں تاریخ مراد آباد ہے،یعنی اس کی جغرافیائی تاریخ،اس کے بننے اور بسنے کی کہانی،اس کے محلہ لانکڑی والاں اور جامع مسجد کی کہانی اور ان دوکرداروں کی کہانی،جو اس شہر کی تعمیر و تشکیل کا حصہ ہیں،یعنی شہزادہ مراد بخش ،جس کے نام پر یہ شہر معرض وجود میں آیا اور رستم خاں ،جس نے اس شہر کو نئے سرے سے بسایا ۔اس میں پانچ مضامین ہیں،جن کے لکھنے والے تاباں نقوی امروہوی،قرۃ العین حیدر،ڈاکٹر محمد آصف حسین اور افضال الرحمن ہیں۔

 

دوسرا باب تحریکِ آزادی ہند میں مرادآباد کی حصے داری سے روشناس کرواتا ہے اور اس میں خورشید مصطفی رضوی(مرادآباد اورب ۱۸۵۷ کی تحریک،صوفی انبا پرشاد)،مولانا امداد صابری(شہیدان وطن مرادآباد)،ڈاکٹر محمد آصف حسین(نواب مجوخاں،مولوی رفیع الدین خاں فاروقی)،محمد ایوب قادری(مولانا کفایت علی کافی شہید)،حماد احمد ایڈووکیٹ(مراد آباد کے مجاہدین آزادی) اور مولانا اشفاق حسین قاسمی(تحریک آزادی میں وابستگان شاہی کا کردار)شامل ہیں۔ ان مضامین کے مطالعے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سوسال کی سرگرم تحریک آزادی کے ہر دور میں دوسرے بہت سے شہروں کی طرح مرادآباد کی حصے داری بھی بہت نمایاں رہی اور اس شہر سے تعلق رکھنے والے جیالوں نے آزادی ہند کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے میں ہر طرح کی قربانیاں دی ہیں۔

 

سرسید اور ان کی اصلاحی و تعلیمی تحریک کا بھی مراد آباد سے گہرا تعلق رہا ہے؛اس لیے مرتبِ کتاب نے ایک مستقل باب میں پانچ مضامین شامل کرکے اس تعلق کے مختلف زاویوں پر روشنی ڈالی ہے۔ پہلا مضمون مولانا حالی کا ہے، جو ان کی مشہور کتاب’حیاتِ جاوید‘ سے ماخوذ ہے۔ اس میں انھوں نے سرسید کے بجنور سے مرادآباد تبادلے اور مراد آباد میں قیام کے دوران ان کی علمی، تالیفی و سماجی سرگرمیوں کی تفصیلات بیان کی ہیں۔ ’تاریخ سرکشی بجنور‘ انھوں نے مرادآباد منتقلی کے بعد ہی شائع کی، مشہور زمانہ کتاب’اسباب بغاوت ہند‘ انھوں نے مرادآباد میں ہی لکھی تھی،ضیاءالدین برنی کی مشہور زمانہ کتاب’تاریخ فیروزشاہی‘ کی تصحیح و تدوین بھی سرسید نے قیام مرادآباد کے دوران ہی کی ۔ان کے قیام کے دنوں میں، یعنی ۱۸۶۰ میں شمالی ہند کے اضلاع میں شدید قحط پڑا تھا،اس زمانے میں متاثرین کی راحت رسانی میں انھوں نے غیر معمولی سلیقہ مندی،انسانی دردمندی اور انتظامی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا تھا۔قیام مرادآباد کے دوران ہی سرسید کی اہلیہ کا انتقال ہوا تھا۔اس باب میں دوسرا مضمون افتخار عالم خاں کا ہے’سرسید مرادآباد میں‘،اس میں قدرے تفصیل سے سرسید کے قیام مرادآباد کا احوال بیان کیا گیا ہے،یہ ان کی کتاب’سرسید درونِ خانہ‘ سے ماخوذ ہے۔تیسرا مضمون ’مرادآباد:تحریک سرسید کا نقطۂ آغاز‘ ڈاکٹر حسن احمد نظامی کا لکھا ہوا ہے۔اس میں خاص طورپر مراد آباد میں قیام کے دوران سرسید کی تعلیمی سرگرمیوں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔چوتھا مضمون پروفیسر اصغر عباس کا ہے،جس میں مراد آوباد میں سرسید کے ذریعے قائم شدہ پنچایتی اسکول کا احوال بیان کیا گیا ہے۔یہ مضمون ماہنامہ’تہذیب الاخلاق‘ کے ایک شمارے سے ماخوذ ہے۔ایک مضمون مرادآباد سے تعلق رکھنے والے سرسید کے ایک معاون و معتمد خاص راجا جے کشن داس پر ڈاکٹر محمد آصف حسین کا تحریر کردہ ہے۔

 

چوتھے باب کا عنوان مؤلف نے ’میری یادوں میں مرادآباد‘ قائم کیا ہے اور اس میں مرادآباد سے تعلق رکھنے والے چند مشاہیر کی تحریریں شامل کی ہیں۔پہلی تحریر اردو کی مشہور خودنوشت’اعمال نامہ‘ کے مصنف سررضاعلی کی ہے،جن کا تعلق مرادآباد کے قصبہ ’کندر‘ سے تھا۔یہ تحریر ان کی خودنوشت سے ہی ماخوذ ہے ،جس کا عنوان ہے’مراد آباد کے وکیل،رؤسا اور دیگر اہلِ کمال‘،اس میں انھوں نے اپنے زمانے کے مرادآبادی وکلا،رؤسا اور دوسری چند اہم شخصیات کے احوال و خصائص بیان کیے ہیں۔اسی طرح معروف مؤرخ ڈاکٹر سید معین الحق بھی مرادآباد سے تعلق رکھتے تھے،مرتب نے ان کی خودنوشت سوانح’معین بیتی‘ سے مراد آباد کے حالات و خصائص،شخصیات وغیرہ سے متعلق مضمون کو شامل کتاب کیا ہے۔’میرا وطن ‘کے عنوان سے عبدالملک جامعی کا مضمون بھی اس باب کا حصہ ہے۔اردو کے معروف دانشور،ناقد اور ڈراما نگار پروفیسر محمد حسن بھی مرادآباد سے تعلق رکھتے تھے،ان کا ایک مضمون ہے’نثار میں تری گلیوں کے اے وطن!‘،یہ ۱۹۹۹کے ستمبر کے شمارے میں ماہنامہ’تیرنیم کش‘ میں طبع ہوا تھا،دلچسپ اور خوب صورت مضمون ہے۔’کاملانِ مرادآباد‘ میں مرتب کتاب معصوم صاحب نے مرادآباد کی چند ہندومسلم شخصیات سے متعارف کروایا ہے۔

 

کتاب کے پانچویں باب میں مرادآباد کی علمی و ادبی تاریخ،وہاں کی دینی و عصری درس گاہوں،اردو صحافت کے فروغ و ارتقا اور پیتل کی صنعت میں اس شہر کی حصے داریوں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔اس باب میں ڈاکٹر آصف حسین،عبدالرحمن ساجد الاعظمی،انورحسین اسرائیلی اور ذاکر فیضی کے مضامین شامل ہیں۔
چھٹا باب مشاہیرِ مرادآباد پر ہے،جس کے پانچ مضامین میں قاضی عبدالغفار،جگر مرادآبادی،منشی عبدالقیوم خاں،مولوی ابرار حسین،عبدالملک جامعی،مولانا عمردراز بیگ،معشوق علی خاں،مولانا افتخار فریدی،عزیز حسن،پروفیسر محمد حسن، سید حامد،راحت مولائی،حافظ صدیق،ڈاکٹر شمیم احمد خاں،ہمایوں قدیر اور حاجی محمد اقبال کا تذکرہ ہے۔ لکھنے والوں میں ظ انصاری،عابدہ سمیع الدین،عبدالملک جامعی،مولانا ماجد شمیم اور معصوم مرادآبادی شامل ہیں۔

اس طرح یہ کتاب شہرِ ہنروراں و ہوش منداں مرادآباد کی پوری تاریخ سے ہمیں واقف کراتی ہے، جوبلاشبہ قابلِ قدر اور لائقِ فخر ہے۔ موجودہ دور کی یہ تلخ حقیقت ہے کہ نیا بننے اور نئے سانچوں میں ڈھلنے کی للک ہمیں اپنی جڑوں سے کاٹ رہی اور اپنے اسلاف وتاریخ سے دور کرتی جا رہی ہے،ایسے میں معصوم صاحب نے اپنی مٹی سے وابستگی کا نہایت خوب صورت اور دل آگیں ثبوت پیش کیا ہے۔ان کا یہ کام قابلِ تحسین و ستایش بھی ہے، معلومات افزا بھی ہے اور نئی نسل کے لیے اس میں ایک پیغام بھی مضمر ہے کہ فضاؤں میں اڑنے اور ستاروں تک پہنچنے کا سفر خوب ہے،مگر اپنی مٹی سے جڑاؤ ، اپنی مرزبوم اور اس کی تاریخ سے لگاؤ اور اگر استطاعت ہو،تو اس کا زبانی و قلمی اظہار بھی ضروری ہے ،کہ ہماری تمام تر فضیلتوں کا اصل حوالہ ہماری مٹی ہی تو ہے:
بزمِ انجم میں قبا خاک کی پہنی میں نے
اور مری ساری فضیلت اسی پوشاک سے ہے
(پروین شاکر)

کتاب کی اشاعت خبردار پبلی کیشنز کے ذریعے عمل میں آئی ہے، حصول کے لیے اس نمبر 9810780563 پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

You may also like