رابطہ :۔7903621725
تاریخ نویسی غیر جانب داری اور اعتدال وتوازن کا فن ہے۔ اس میں تلاش وتحقیق اور اس کی صحت مندی بڑا جاں گسل مرحلہ ہوتا ہے۔ مصنف کی ایک ذرا سی بے توجہی، سہل انگاری اور آنکھ بند کرکے حوالوں پر اعتماد اور ان سے استفادہ، اصل ماخذ سے بے اعتنائی اس پر بے جا خود اعتمادی، لوڈو میں سانپ اور سیڑھی کا کھیل کھیلنے والے اس کھلاڑی کی مانند ہے جو اسے 99 سے ایک پر لے آتا ہے۔ مؤرخ کی کور چشمی، اپنی پسند اور ناپسندیدگی کا پندار اس راہ میں سم قاتل ہے۔ چنانچہ ایسے لوگوں کو تاریخ وتحقیق کے بجائے انشائیہ نگاری میں طبع آزمائی کرنی چاہیے۔
پیش نظر کتاب ’’تاریخ اردو ادب بہار‘‘ جلد دوم (اردو نثر) ۱۹۱۴ء تا حال از پروفیسر اعجاز علی ارشد، مطبوعہ اردو ڈائرکٹوریٹ، بہار پٹنہ، سال اشاعت ۲۰۲۳ء، صفحات ۴۳۱کا مطالعہ کچھ یہی نقشہ پیش کرتی ہے۔ (بیس، پچیس یا پچاس سال بعد، خدا کرے اس وقت بھی اردو پھلتی پھولتی رہے) تاریخ اردو ادب بہار کے حوالے سے اگر کوئی اس کتاب کو اٹھائے گا تو اسے یہ دیکھ کر بڑی مایوسی ہوگی کہ یہ کتاب اس عہد کی ترجمانی سے خالی ہے۔ اس ابہام سے بچنے کے لیے سرورق پر ۱۹۱۴ء تا حال کے بجائے ۱۹۱۴ء تا ۲۰۱۴ء کی وضاحت زیادہ مناسب تھی۔ ماضی میں اگر کسی نے ایسا کیا تو یہ کوئی ایسی صحت مند روایت نہیں جو باعث تقلید ہو، کیوں کہ تاریخ کا سفر ابہام کے گلیاروں میں نہیں قطعیت کی شاہراہوں پر طے کیے جاتے ہیں۔ اگرچہ حرف آغاز، ص: ۸ پر یہ وضاحت کردی گئی ہے کہ ’’پیش نظر دوسری جلد ۱۹۱۴ء کے بعد کی اگلی صدی ۱۹۱۴ء کے دوران بلکہ تا حال سامنے آنے والی اردو نثر نگاری کا جائزہ ہے۔ ‘‘
مصنف نے بجا طور پر اس کتاب کا دائرہ اپنی متعین کردہ سرحدوں سے آگے وسعت دے کر ایک اضافی کارنامہ انجام دیا ہے اس کے باوجود بے شمار لوگوں کے ادبی کارنامے اس ادبی تاریخ کا حصہ نہیں بن سکے جن کی خدمات ہر صنف ادب میں قابل افتخار بھی ہیں اور لائق صد آفرین بھی۔ اس کتاب کی ابتدا میں ’’بہار میں اردو زبان وادب‘‘ ’’حرف آغاز‘‘اور ’’عرض مصنف‘‘ کے علاوہ ’’مشمولات‘‘ کے ۱۲؍ ابواب ہیں۔ ’’آخری باب ‘‘ ’’حاصل مطالعہ‘‘ کے زیر عنوان ہے۔ ان ابواب کے علاوہ ’’مزید مطالعہ کے لیے سفارشات‘‘ (معاون کتب) جیسے عناوین کا بھی اضافہ ہے۔ ’’فہرست مشمولات‘‘ (ص: ۳)کے آخر میں ’’اشاریہ‘‘ بھی بطور خاص ایک عنوان کے طور پر درج ہے۔ مگر یہ اشاریہ ہمیں اس کتاب میں نہیں ملتا۔ ’تاریخ اردو ادب بہار‘‘ کا ایک سرسری مطالعہ اس نتیجے پر پہنچنے کے لیے کافی ہے کہ یہ تاریخ ادب بہار کا ایک غیر تصحیح شدہ نسخہ ہے یا کچھ اِدھر سے کچھ اُدھر سے کا افسوسناک نمونہ۔ تاریخی حقائق وشواہد کی بے شمار غلطیوں اور ناہمواریوں سے بھرپور اس غیر معتبر کتاب کے مطالعہ سے بڑی مایوسی ہوتی ہے۔ مصنف نے ایسی بے نیازی دکھائی ہے کہ اپنے ہی وضع کردہ ایک درجن باب میں باعتبار صنف یا حسب مراتب شخصیت کا کوئی ایسا وضاحتی اشاریہ نہیں ملتا جس سے متعلقہ موضوعات تک آسانی سے رسائی ہوسکے۔ مثلاً تحقیق کے باب میں ہمیں قاضی عبدالودود کس صفحہ پر ملیں گے اور انہیں کے ساتھ مظاہر الحق اور سلطان آزاد جیسے مؤرخ ومحقق کن صفحات پر موجود ہیں۔ تیسرا باب جو تحقیق وتاریخ نویسی پر مشتمل ہے، اس کے حصہ (الف) میں تحقیق وتاریخ نویسی سے متعلق پہلے عمومی جائزہ پیش کیا گیا ہے جس میں عبدالغفور شہباز بھی ہیں، شاد، امداد امام اثر، نواب نصیر حسین خیال، قاضی عبدالودود، قیوم خضر اور مختار الدین احمد وغیرہم بھی اور سید اسماعیل حسنین نقوی بھی۔ توقع تھی کہ بہ جہت سن پیدائش اور تحقیقی فتوحات، مختار الدین احمد (تاریخ پیدائش ۱۴؍ نومبر ۱۹۲۴ء) کا ذکر قیوم خضر (۸؍ دسمبر ۱۹۲۴ء) سے پہلے ہوگا۔ اسی باب کے حصہ (ب) ’’خصوصی مطالعات ‘‘کے زمرے میں سید سلیمان ندوی، سید حسن عسکری، پروفیسر امتیاز احمد اور سید شاہ شمیم منعمی (پورا نام ڈاکٹر سید شاہ شمیم الدین احمد منعمی) کے ساتھ بلکہ بعضوں سے پہلے فصیح الدین احمد بلخی جنہیں اختر اورینوی نے تحقیق اور تاریخ نویسی کا ’’شیخ دستگیر‘‘ کہا ہے اور پروفیسر مختار الدین احمد جنہیں قاضی عبدالودود نے اردو کا ’’محسن‘‘ قرار دیا ہے، جیسے معتبر اور جید اکابرین ادب کا تفصیلی مطالعہ بھی ضرور ملے گا۔ بہار کی ہی نہیں ہندوستان کی ادبی تحقیق اور تاریخ کا ایک بڑا معتبر نام پروفیسر مطیع الرحمن کا بھی ہے، مگر ’’خصوصی مطالعات ‘‘اور تاریخ وتحقیق میں صوفیائے کرام کے حوالے سے وہ بھی ندارد ہیں۔ انہوں نے جہاں ’’آئینہ ویسی‘‘ اور ’’راسخ کے دو شاگرد‘‘، (محسن اور فرحت) سے دنیائے تحقیق کو متعارف کرایا وہیں تصوف کے باب میں بھی گراں قدر اضافہ کیا۔ ۵۲؍ صفحات پر مشتمل ’’شجرہ طریقت‘‘ (مکمل )مختلف صوفیوں کے سلسلوں کا تاریخی شجرہ ہے۔ ۱۲۸ صفحات پر مبنی یہ کتاب ۱۹۷۲ء میں شائع ہوئی۔ ’’مجدد الف ثانی شیخ احمد فاروقی‘‘ ۱۹۹۱ء ، ’’آئینہ شجرئہ طیبہ‘‘ ۲۰۰۰ء وغیرہ کے ذکر سے یہ کتاب خالی ہے۔ اسی باب میں ’’بہار کی تحریک آزادی میں مسلمانوں کا حصہ‘‘ از تقی رحیم، مطبوعہ خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری، پٹنہ، ص: ۵۹۹، ’’معمارِ قوم شاہ زبیر احمد‘‘ مصنف مولانا بیتاب صدیقی مطبوعہ ۱۹۹۸ء ص:۲۱۶ ؍ایسے متفخر کارنامے ہیں جن سے چشم پوشی کسی بھی تاریخ نویس کی عدم واقفیت کی دلیل سمجھی جائے گی:
سرسری تم جہاں سے گزرے
ورنہ ہر جا جہان دیگر تھا
’’تاریخ اردو ادب بہار‘‘ میں مصنف کے اپنے ہی بنائے ہوئے ضابطے اور پیمانے میں بڑا تضاد ہے۔ کسی باب میں عمومی جائزہ اور خصوصی مطالعات کا اہتمام ہے، کسی میں نہیں۔ پھر عمومی تو جائزہ ہے مگر خصوصی مطالعات، عمومی اور خصوصی تو سمجھ میں آتا ہے مگر جائزہ اور مطالعات کی حکمت مصنف خود جانیں۔ اس طرح متعدد ممتاز اور متفخر ہستیاں جو جائزے کے زمرے میں شامل ہیں موجودہ ادبی تناظر میں ان کا ہی خصوصی مطالعات ناگزیر تھا۔
کتاب کے مطالعہ گیاھویں (گیارہویں) باب صحافت اور ادبی صحافت اور بارہویں باب دیگر اصناف نثر (مکتوبات، پیش لفظ، تبصرہ، رپوتاژ، انٹرویو، تقریظ وغیرہ) تک پہنچتے پہنچتے مصنف کتاب جیسے تھک یا اکتا گیا ہو جب کہ ایک تاریخی دستاویز کی دعویداری کا تقاضا تھا کہ اس باب میں بھی ایک منضبط تحریر ہوتی جس مذکورہ موضوعات پر سیر حاصل مطالعہ کرکے اس کے سمت، رفتار اور امکانات کا مفصل مطالعہ سامنے آتا ۔ تاریخ اردو ادب بہار کی سوسالہ تاریخ میں یہ باب بالکل ٹھٹھر کر رہ گیا ہے۔
تحقیق نویسی کے باب میں پٹنہ یونیورسٹی کے تحقیقی مقالوں (۱۹۹۳ء ۔ ۱۹۷۰ء) کی فہرست بالکل غیر متعلق اور بھرتی کے صفحات معلوم ہوتے ہیں۔ لیکن اگر یہ کار عبث ضروری ہی تھا تو تاریخ اردو ادب کے مصنف سے یہ توقع تو کی جانی چاہیے کہ وہ بہار کی دوسری یونیورسٹیوں کے شعبہ اردو میں تحقیقی مقالوں کی فہرست دے کر موضوع سے انصاف کریں گے۔ اس پر طرہ یہ کہ پٹنہ یونیورسٹی کے تحقیقی مقالات کے عنوان کی فہرست بھی تاحال کے تقاضوں کو بھی پورا نہیں کرسکی۔
اسی طرح فصیح الدین بلخی کی ’’تاریخ مگدھ‘‘ کو تذکرہ نگاری کے باب ص:۴۱ میں شامل کرنے کی معقولیت بھی سمجھ سے باہر ہے اور ’’پٹنہ کے کتبے ‘‘ کو بھی تذکرہ میں کیوں کر شامل کیا گیا یہ بھی ایک سوالیہ ہے۔ پروفیسر رئیس انور کی کتاب ’’تذکرہ نسخہ دلکشاں‘‘ (۱۹۹۷) جسے خود رئیس انور نے تذکرہ کہا ہے اسے تذکرے کے باب میں نہ رکھ کر تنقید کے باب میں ص:۱۵۱؍ پر رکھا گیا ہے۔
تنقید نگاری کے باب میں مصنف کتاب اپنے متعلق لکھتے ہیں :
’’اعجاز علی ارشدپٹنہ سٹی میں پیدا ہوئے۔ شعبہ اردو کے عہدے وغیرہ پر فائز رہے۔ اردو صحافت سے بھی ان کا رشتہ ہے۔ ۔۔۔۔ انہوں نے ۱۹۸۵ء میں لندن کا سفر کیا۔ اپنی خدمات کے اعتراف میں انہیں شیکھر سمان مل چکا ہے۔ اعجاز علی ارشد کی ادبی زندگی کا آغاز ۔۔۔۔۔۔ مورچہ اور آہنگ گیا کے علاوہ صبح نو۔۔۔ میں چھپنے لگے۔ ان کی مطبوعہ کتابوں کی نامکمل فہرست (۲۰۱۴ء تک درج ذیل ہے۔۔۔۔ ان کا خاص میدان عمل تنقید وتحقیق ہی ہے جہاں تک ان کے ادبی نقطہ نظر کا سوال ہے ۔۔۔۔ وہ ایک عرصہ تک ۔۔۔۔۔۔ ان کی واقفیت صاف دکھائی دیتی ہے‘‘۔ (ص:۱۵۲، ۱۵۳)
جب کہ دسواں باب انشائیہ ۔۔۔۔ص: ۳۷۱پر درج ہے:
’’اعجاز علی ارشد کے انشائیہ، تواتر کے ساتھ ہندو پاک کے رسائل میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ ڈاکٹرسید محمد حسنین کی مشہور کتاب ’’انشائیہ اور انشائیے‘‘ میں بھی ان کا ایک انشائیہ شریک انتخاب ہے۔ ۔۔۔ ان کے دو مجموعے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ زیور طبع سے آراستہ ہوچکے ہیں۔ ‘‘ پہلے مجموعہ کی ابتدا میں احمد جمال پاشا اور دیگر مجموعے کے آغاز میں پروفیسر وہاب اشرفی کے تحقیق کردہ تعارف کے اقتباس نقل کرتے ہوئے موصوف آگے لکھتے ہیں:
’’اِن اہم ترین آرا کے بعد کچھ لکھنا بے معنی ہوگا۔ ۔۔۔ البتہ ایہ اطلاع دینی ضروری ہے کہ موصوف عملی طور پر بہار میں طنز وظرافت کے لیے ایک سازگار فضا تیار کرنے میں ہمیشہ سرگرم عمل رہے ہیں۔‘‘
مذکورہ بالا سطور کو پڑھ کر کلیم عاجز کے یہ دو مصرعے بے ساختہ زبان پر آگئے۔ ع
عاجز یہ کسی اور کا چہرہ ہے کہ تم ہو
یہ کوئی فسوں گر پس پردہ ہے کہ تم ہو
یہاں کتاب کے ہر باب کے مفصل جائزہ کا موقع نہیں البتہ مشتے نمونہ از خروارے کے طور پر چند وضاحتیں تاریخی اور تحقیقی اعتبار سے ضروری معلوم ہوتی ہیں۔
(۱) نسیم اختر ۔۔۔۔ ’’پھر محکمہ کابینہ سکریٹریٹ اردو ڈائرکٹوریٹ میں ملازمت ملی جہاں سے بحیثیت سیکشن افسر سبکدوش ہوئے۔‘‘ ص: ۸۶۔
جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ان کا تقرر راج بھاشا بہار میں ہوا تھا اور بہار قانون ساز اسمبلی پٹنہ سے سبکدوش ہوئے تھے۔
(۲) ’’ڈاکٹر حبیب الرحمن فی الحال مولانا مظہر الحق عربی وفارسی یونیورسٹی میں رجسٹرار کے عہدے پر فائز ہیں۔‘‘ ص: ۹۱۔
جب کہ وہ مئی ۱۹۲۲ء سے نالندہ اوپن یونیورسٹی میں رجسٹرار ہیں۔
(۳) شاہد رام نگری ۔۔۔۔ ’’آخری چند برسوں میں امارت شرعیہ کے ترجمان نقیب سے وابستہ رہے اس کے باوجود بہت جلد ذہنوں سے محو ہوگئے۔‘‘ ص: ۴۰۳
جب کہ موصوف اس دنیا سے ہی محو ہوچکے ہیں۔
(۴) نقیب ۔۔۔۔۔ ’’اب تک پابندی سے شائع ہورہا ہے۔ اس کے ادارئہ تحریر میں فی الوقت اصغر امام فلسفی اور شاہد رام نگری ہیں۔‘‘ ص: ۳۸۹
اس واقفیت پر ع
حیراں ہوں دل کو روئوں کہ پیٹوں جگر کو میں
اب ذرا اور آگے بڑھیں:
(۵) : ڈاکٹر محسن رضا رضوی کی اطلاع کے مطابق ۔۔۔۔۔۔ ’’داناپور سے نکلنے والا ہفتہ وار ’’نوجوان‘‘۱۹۴۸ء میں پندرہ روزہ ہوگیا تھا۔‘‘ ص: ۳۸۹
جب کہ یہ کبھی نہ پندرہ روزہ ہوا نہ اس کا دفتر داناپور تھا۔ بلکہ انجمن اسلامیہ ہال پٹنہ کے بالائی منزل پر حلقہ احباب کے آفس میں ہی اس کا دفتر تھا۔
(۶) ’’مناظر عاشق ہرگانوی کے ذکر کے ساتھ اسی پیراگراف میں ریحان غنی سے متعلق درج ہے ’’ان دنوں وہ باضابطہ طور پر قومی تنظیم (پٹنہ، رانچی، لکھنؤ کہاں) سے وابستہ ہیں۔‘‘ ص: ۴۰۸
جب کہ ریحان غنی کبھی بھی قومی تنظیم سے وابستہ نہیں رہے۔ سنگم، قومی آواز، انقلاب جدید، پندار، عوامی نیوز اور آج کل ’’تصدیق‘‘ پٹنہ سے وابستہ ہیں۔
(۷) ص: ۱۵۷ رضوان اللہ آروی کے متعلق درج ہے: ’’ویسے تو ۱۹۸۹ء سے تا حال ان کی ایک درجن کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں مگر میری نظر میں فارسی زبان وادب سے متعلق ان کے مضامین، تحقیق وتنقید کا عمدہ نمونہ ہیں۔‘‘ مصنف تاریخ اردو ادب ان کی اردو خدمات کا جب کوئی اعتراف پیش نہیں کرسکے تو فارسی پر چلے آئے۔‘‘
جب کہ رضوان اللہ آروی کی فارسی کتاب کی پشت پر ان کی آٹھ اردو کتابوں کے نام جو ۱۹۸۹ء سے ۲۰۲۲ء کے درمیان شائع ہوئی ہیں درج ہیں: جیسے ناول امرائو جان ادا (تنقیدی مطالعہ مع مقدمہ ومتن)، ختم سفر کے بعد (سفر نامہ)، بہار کی فارسی شاعری کے فروغ میں شعرائے پھلواری کا حصہ (تذکرہ شعراء) چند کتابیں چند خیال (تاثرات اور تبصرے)، بازیافت، لفظ ومعانی، متاع قلیل وغیرہ۔ معلوم نہیں موصوف نے رضوان اللہ آروی کی کتاب دیکھی بھی ہے یا نہیں؟
(۸) ص: ۱۶۴؍ عطا عابدی کے متعلق درج ہے۔ ’’مگر ۲۰۰۰ء کے آس پاس اردو نثر کی طرف بھی متوجہ ہوئے اور بعض اہم کتابیں منظر عام پر آئیں۔ ‘‘
جب کہ عطا عابدی نے خود لکھا ہے کہ میٹرک کی تعلیم کے دوران انہوں نے مضمون نویسی کی ابتدا کردی تھی۔ ۱۹۸۹ء سے ۱۹۹۶ء تک ماہنامہ افکار ملی نئی دہلی میں سب ایڈیٹر رہے، جس میں تواتر سے ان کے تبصرے ومضامین شائع ہوتے تھے۔ آٹھ شعری مجموعوں کے علاوہ نو نثری تخلیقات اور تالیفات ۲۰۰۶ء سے ۲۰۲۳ کے درمیان شائع ہوچکی ہیں۔ جن میں مطالعے سے آگے، لمحات فکر، آزادی کے بعد اردو ادبی رسائل، بچوں کی کتابیں، تعارف وتذکرہ قابل ذکر ہیں۔سال ۲۰۰۰ سے پہلے تک ان کے ایک سو سے زائد نثری مضامین شائع ہوچکے تھے۔
غرض پوری کتاب لاعلمی، بے خبری، بے توجہی، جانب داری اور عجلت پسندی کے سینکڑوں نمونے پیش کرتی ہے۔ اس میں نہ تو تحقیق کی خو بو ہے نہ تاریخی بصیرت کا آمیزہ۔ کتاب کے مختلف ابواب سے گزرتے ہوئے یہ سوالات سر اٹھاتے ہیں کہ کیا ڈاکٹر ریحان غنی جنہوں نے اپنی تمام عمر صحافت کی نذر کردی ان کا خصوصی مطالعہ اس کتاب میں پیش کیا جانا ضروری نہیں تھا۔ مصنف نے اپنی کس کتاب میں اور کہاں ان کا ذکر کیا یہ سوال نہیں۔ اردو ادب کی اس سوسالہ تاریخ میں ان کا کیا نام اور مقام ہے تاریخی اعتبار سے یہ طے کیا جانا زیادہ اہم ہے۔ کیا طنز ومزاح کے باب میں علامہ واقف کا کوئی کارنامہ نہیں جنہوں نے آزادی سے قبل تادم مرگ اردو اخباروں کے ہزارہا صفحات سیاہ کیے اور جن کے طنزیہ، مزاحیہ وظریفانہ مضامین پر دو کتابیں ’’رازہائے درون میخانہ‘‘ اور درونِ پردہ منظر عام پر جآچکی ہیں۔ ان کی حیات وخدمات پر قمر ثاقب نے ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی۔ ادبی خدمات کے اعتراف میں محکمہ راج بھاشا نے وظیفہ مقرر کیا اور جن کے بارے میں عابد رضا بیدار نے کہا تھا ’’اگر علامہ واقف کو نظر انداز کیا گیا تو بیسویں صدی کے صاحب طرز نثر نگاروں کی فہرست مکمل نہیں ہوسکتی‘‘۔ واقف کی حیات وخدمات پر حکومت بہار کے اردو ڈائرکٹوریٹ نے فرد نامہ بھی شائع کیا۔
صحافت کے باب میں عرض کرتا چلوں کہ غلام سرور ہفتہ وار نوجوان اور ہفتہ وار سنگم اور پھر روزنامہ ’’سنگم‘‘ سے پہلے ۱۹۴۵ء میں افتخار حسین آبادی کے رسالہ ماہنامہ، سماج کے حلقہ ادارت سے وابستہ ہوچکے تھے۔ آزادی سے قبل بی این کالج سے ایک سہ ماہی رسالہ ’’صبا‘‘سعید اختر نے جاری کیا تھا۔ خانقاہ منعمیہ متن گھاٹ پٹنہ سٹی سے ایک ماہنامہ ’’المنعم‘‘ کی اشاعت بھی ہوئی تھی۔ بہار شریف سے ایک رسالہ ’’انوارِ مخدوم‘‘ کا بھی اجرا عمل میں آیا تھا۔ اس کے اوائل کے شمارے میں اعجاز علی ارشد کا ایک تبصرہ بھی شامل ہے۔ اردو کونسل ہند کے ناظم اعلیٰ نے ’’ندائے پاسدار ‘‘کا اجراء کیا اور شاہ مشتاق احمدکی حیات وخدمات پر مشتمل ایک شاندار اور وقیع رسالہ شائع کیا۔ بہار قانون ساز کونسل کے اردو ترجمان ’’کونسل دستاویز‘‘ کی طرح بہارقانون ساز اسمبلی سے ’’ترجمان اسمبلی‘‘ نامی ششماہی کا اجرا عمل میںآیا جس کے پہلے شمارے میں اعجاز علی ارشدکا ایک مضمون ’’طالب جوہری کی غزل گوئی‘‘ کے عنوان سے شائع ہوچکا ہے۔ ’’بھاشا سنگم‘‘ نے ہندوستان گیر نہیں بین الاقوامی شہرت یافتہ ممتاز شخصیتوں پر انتہائی وقیع، خوبصورت اور دستاویزی شمارے شائع کیے۔ کیا بہار کے چند اہم صحافی جن کا تذکرہ پیش نظر کتاب کے ص:۴۰۳ تا ۴۱۱ کیا گیا ہے اس میں اشرف استھانوی جیسے آزاد اور معروف صحافی جس نے اپنی تمام عمر صحافت میں کھپا دی ان کا ذکر غیر ضروری تھا؟ اردو ڈائرکٹوریٹ پٹنہ نے بہار کا اردو ادب آزادی کے بعد مرتب اسلم جاوداں ۲۰۲۰ء، مشاہیر دبستان بہار مرتبہ امتیاز احمد کریمی ۲۰۲۰ء اور ’’اکابرین ادب بہار‘‘ مرحلہ اول ۲۰۲۰ جیسی نادر الوجود خوبصورت اور تاریخی دستاویز شائع کیں۔ اسی اردو ڈائرکٹوریٹ نے دو درجن سے زائد فرد نامے (مونو گراف) شائع کرنے کا تاریخ ساز کارنامہ انجام دیا۔ ذرا اور پیچھے چلیں تو کلیم عاجز کے جس سفر نامے کا ذکر کیا گیا ہے اس سے بہت قبل غلام سرور کا سفر نامۂ حج ’’پہلا وہ گھر خدا کا ‘‘ ۱۹۷۱ء سے پہلے جس کے چار ایڈیشن شائع ہوچکے تھے۔ پھر ۲۰۰۰ میں انعام ظفر شمسی نے اپنی مرتبہ کتاب ’’مضامین‘‘ میں بھی اس سفر نامے کو شامل کیا۔ غلام سرور کی جیل میں لکھی خود نوشت ،،’’گوشے میں قفس کے‘‘کے تین ایڈیشن اور ’’عوام کی عدالت میں‘‘ بھی منظر عام پر آچکے ہیں۔ خطوط کے مجموعوں کا ذکر کیا جائے تو پیام دوست ’’از قیوم اثر مطبوعہ ۱۹۹۴ء کل صفحات: ۲۷۱ بڑی اہمیت کی حامل ہے جس میں احد فاطمی کا وہ متنازعہ خط بھی شامل ہے جس میں غلام سرور کو ڈھونگی اور فتوری جیسے الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اردو تحریک میں ان کی کوششوں سے متعلق یہاں تک لکھا گیا ہے کہ :
’’اب یہ مطالبہ ہندوستان میں صرف دو ہی جگہوں سے سمجھ میں آسکتا ہے۔ ایک کانکے اور دوسرا آگرہ‘‘۔ ص: ۴۹۔
تاریخ اردو ادب بہار میں مختار الدین احمد آرزو کے حوالوں سے جن کتابوں سے بھرپور استفادہ کیا گیا ہے ان میں ’’مکتوباتِ آرزو مع حیات وخدمات وحواشی‘‘ از نسیم اختر مطبوعہ ۲۰۲۰ء صفحات ۲۲۴بھی ہے۔ کتاب میں بے شمار ایسی داخلی شہادتیں موجود ہیں جن میں سیریل اور جملوں کو تھوڑا آگے پیچھے اور ردّ وبدل کرکے اس سے بھرپور استفادہ تو کیا گیا ہے لیکن مصنف نے اس کا کوئی حوالہ نہیں دیا۔
جہاں تک تقریظ اور تبصرے کا سوال ہے اس پر بڑی ضخیم کتابیں آنے کا سلسلہ جاری ہے۔ انٹرویو پر بھی کتابیں موجود ہیں۔ ’’باتیں‘‘مطبوعہ ۱۹۱۴ء یہ کتاب مصنف تاریخ اردو ادب بہار پروفیسر اعجاز علی ارشد کے نام منسوب ہے۔ تاریخ اردو ادب میں بہار کی دو عظیم الشان اردو تحریکات اور اس سے قبل انجمن ترقی اردو کی خدمات، بابائے اردو کی ایما پر سہیل عظیم آبادی کاچھوٹا ناگپور کے علاقوں میں اردو کے لیے آبلہ پائی کرنا، گزشتہ پچیس سال کے درمیان اردو تحریک وتاریخ کے حوالوں سے شاندار خدمات انجام دینے والے ادارہ اردو کونسل ہند اور خود امتیاز احمد کریمی کے دور میں اردو ڈائرکٹوریٹ، محکمہ کابینہ سکریٹریٹ، حکومت بہار کے شاندار کارناموں جسے پوری اردو دنیا تحسین کی نگاہوں سے دیکھتی رہی اس کا بھی مفصل ذکر کیا جانا چاہیے تھا۔ تاکہ بہار میں اردو ادب کی تاریخ کے حوالوں سے بتایا جاسکے کہ ۱۹۱۴ء تا حال کس کا کیا نام اور مقام ہے۔ اردو تحریک کے حوالے سے دامے، درمے، قدمے سخنے کام کرنے والوں میں ایسے لوگوں کا نام بھی ہے جو غیر تحریکی تھے مگر اردو تحریک کا دو نمایاں نام ڈاکٹر ریحان غنی اور اسلم جاوداں سے بالکل سرسری گزر کر ان سے اغماض کیا گیا ہے۔
مختلف کتابوں اور سالوں سے بھرپور استفادہ کرنے کے باوجود مصنف تاریخ اردو ادب بہار نے حوالوں میں اکثر جگہوں پر مصنف کا نام، کتاب ورسائل کے نام، ان کے سن اشاعت، ایڈیشن اور صفحہ نمبر درج نہیں کیے ہیں بلکہ اکثر مقامات پر فلاں کی اطلاع کے مطابق سے کام چلایا ہے، جو کسی بھی حال میں صحت مند رویہ نہیں کہا جاسکتا ہے۔ اپنی ذمہ داریوں سے دامن بچانے اور دوسروں کی تحقیق وتفتیش پر اکتفا کرنے والے اکثر میڈیا پرسن’’میڈیا رپورٹس کی مانیں تو ۔۔۔۔۔۔ سوتروں کی مانیں تو ۔۔۔۔۔۔ جیسے مبہم جملوں کا استعمال کرکے اپنا کام چلا لیتے ہیں۔ ماحصل یہ کہ تاریخ اردو ادب بہار جلد دوم بہار کی اردو تاریخ ادب کی صحیح معلومات اور تصویر پیش کرنے سے قاصر ہے۔ اس میں بعض انتہائی معمولی لوگوں کو مختلف اصناف ادب کے حوالوں سے بار بار پیش کیا گیا ہے۔ جب کہ بعض ممتاز شخصیتوں کا ذکر جس انداز میں کیا گیا ہے وہ کسی بھی حال میں قابل تسلیم نہیں۔ متعدد شخصیتوں کو تو بالکل نظر انداز ہی کردیا گیا ہے۔ اس کتاب پر اعتماد کرکے بہار میں سوسالہ اردو تاریخ ادب کا جائزہ لینا گمراہی کا موجب ہوگا۔ چنانچہ ایک ذمہ دار ادارے کی جانب سے ایک نامور مصنف کے ذریعہ ایسی تاریخ مرتب کرنے پر سوالات تو پوچھے ہی جائیں گے۔ یہ قصہ ناتمام فی الحال یہیں پر ختم کرتا ہوں:
کوئی بتلائو کہ ہم بتلائیں کیا