Home مقبول ترین تعمیر حیات کی خصوصی اشاعت بیاد حضرت مولانا سّید رابع حسنی ندوی – شکیل رشید

تعمیر حیات کی خصوصی اشاعت بیاد حضرت مولانا سّید رابع حسنی ندوی – شکیل رشید

by قندیل

( ایڈیٹر، ممبئی اردو نیوز)

دارالعلوم ندوۃ العلماء کے ، لکھنئو سے شائع ہونے والے پندرہ روزہ ترجمان ’ تعمیر حیات ‘ کی ’ خصوصی اشاعت بیاد حضرت مولانا سیّد محمد رابع حسنی ندویؒ ‘ مجھ تک نہ پہنچتی اگر بھائی مولانا لقمان ندوی کا کرم شاملِ حال نہ ہوتا ۔ مولانا موصوف لکھنئو گیے ہوئے تھے ، آتے آتے وہیں سے یہ وقیع تحفہ لیتے آئے ، اور مزید کرم یہ کہ بذات خود دفتر آئے اور اپنے ہاتھوں سے اسے پیش کیا ۔ بھائی لقمان ندوی اس محبت بھرے تحفے کے لیے بہت بہت شکریہ ۔ اس شمارہ کو دیکھتے ہی مرحوم مولانا رابع حسنی ندویؒ سے ممبئی کی آخری ملاقات یاد آ گئی ۔ حضرت ممبئی کے پوش علاقے آگری پاڑہ کی اس مشہور زمانہ عمارت ’ سہاگ پیلس ‘ میں ٹھہرے تھے ، جس نے نہ جانے کتنے جیّد علمائے کرام کو دیکھا ، اور جس کے مکینوں نے ان کی مہمان نوازی کی ہے ۔ حضرت کے ساتھ ان کے چھوٹے بھائی مولانا واضح رشید حسنی ندوی بھی تھے ۔ حضرت کچھ کمزور لگ رہے تھے لیکن چہرے پر ایک نورانی چمک تھی جو انہیں ہشاش بشاش بنا رہی تھی ۔ میں نے حضرت سے مسلم مسائل بالخصوص یکساں سول کوڈ پر ایک مختصر سا انٹرویو کیا ، سوالوں کے جواب حضرت انتہائی دھیمی آواز میں دے رہے تھے ، کچھ دیر بعد حضرت کے چھوٹے بھائی نے کہا کہ اب مولانا کے آرام کا اور دوائیاں لینے کا وقت ہو گیا ہے ، ہم سب سلام کر کے باہر نکل آئے ۔ اندازہ ہوا کہ مولانا واضح رشید حسنی ندوی ، جو اب ہمارے درمیان نہیں ہیں ، اپنے بڑے بھائی کی دیکھ ریکھ میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے تھے ۔ حضرت اس سفر کے بعد ممبئی نہیں آ سکے ، چھوٹے بھائی کے انتقال کے دکھ نے ان پر اپنا اثر چھوڑا تھا ۔ حضرت اپنے چھوٹے بھائی کے بغیر کہیں کا سفر نہیں کرتے تھے ، اس لیے ان کے بیرونی سفر رک سے گیے تھے ، لیکن ملّت اور قوم کی فکر میں جس قدر ممکن ہو سکتا تھا ، حضرت کام کرتے رہے ۔ ’ سہاگ پیلس ‘ میں محترم شاکر پٹنی نے حضرت کے انتقال کے بعد ایک تعزیتی نشست رکھی تھی ، میں اس میں شریک تھا ، بڑی تعداد میں شہر و اطراف شہر کے علماء اور اہم شخصیات موجود تھیں ، نوجوانوں کی بھی ایک اچھی خاصی تعداد تھی ۔ اندازہ ہوا کہ حضرت ہر طبقے میں مقبول تھے ، شاید اس لیے کہ وہ سب ملنے والوں سے انتہائی تواضع ، نرمی اور محبت سے ملتے تھے ، اب اکثر علماء کرام ان صفات سے محروم ہوتے جا رہے ہیں ۔ ’ تعمیر حیات ‘ کی یہ ’ خصوصی اشاعت ‘ بڑے سائز کے ۴۱۰ صفحات پر مشتمل ہے ۔ اس میں مضامین کی تعداد ۱۳۰ ہے ، سات منظوم خراجِ عقیدت الگ سے ہیں ۔ ایک مختصر اداریہ بعنوان ’ مشفق و مربی استاذ ‘ جو ایک طرح کی تاثراتی تحریر ہے ’ تعمیر حیات ‘ کے مدیر مسئول شمس الحق ندوی کا تحریر کردہ ہے ۔ پرچے کے نائب مدیر محمد عمیر الصدیق ندوی نے ’ واذکُر فِی الکتاب ‘ کے عنوان سے دوسرا اور قدرے طویل اداریہ لکھا ہے ، جس میں اس ’ خصوصی اشاعت ‘ کے مختلف پہلوؤں پر بات کی گئی ہے ۔ وہ لکھتے ہیں ، ’’ اس شمارہ کے مشمولات سے ہلکا سا اندازہ ہو سکتا ہے کہ محبت کی جہانگیری کیا ہوتی ہے ؟ ‘‘ ، ان کی بات مکمل طور پر سچ ہے ، اس پرچے کے مشمولات میں حضرت مولانا رابع حسنی ندوی ؒ کے تئیں لکھنے والوں کی محبت کو صاف محسوس کیا جا سکتا ہے ، یوں لگتا ہے جیسے کہ محبت کے دریا بہہ رہے ہیں ۔ لکھنے والوں میں ناظم ندوۃ العلماء لکھنئو ، حضرت مولانا بلال عبدالحی حسنی ندوی ، مولانا ڈاکٹر سعید الرحمٰن اعظمی ندوی ، مولانا ڈاکٹر تقی الدین ندوی ، ڈاکٹر سید سلمان ندوی ، مہتم دارالعلوم دیوبند ، مفتی ابوالقاسم نعمانی ، پروفیسر سعود عالم قاسمی ، صحافی سہیل انجم اور ڈاکٹر طارق ایوبی ندوی وغیرہ شامل ہیں ۔ نام سو سے زائد ہیں ، سب ناموں کا گنوانا ممکن نہیں ہے ۔ چونکہ حضرت کے انتقال کے فوراً بعد اس ’ خصوصی اشاعت ‘ کی تیاری شروع ہوئی تھی ۔ لوگ غمزدہ تھے ، اس لیے اکثر مضامین تاثراتی ہیں ، لیکن ان سے بھی بڑی حد تک مولانا مرحوم کی حیات و خدمات پر روشنی پڑتی ہے ۔ لیکن ضروری ہے کہ مولانا مرحوم کی حیات و خدمات پر کوئی ایسا شمارہ یا کتاب مرتب کی جائے جس کی تحریروں میں جذباتی بہاؤ نہ ہو بلکہ تحقیقی رچاؤ ہو تاکہ حضرت کی خدمات پوری دیانتداری اور تحقیق کے سارے تقاضوں کو برتتے ہوئے لوگوں تک پہنچ سکیں ، یا پہنچائی جا سکیں ۔ اس شمارے کی قیمت تین سو روپیے ہے ، اسے فون نمبر 0522-2740406 پر رابطہ کر کے حاصل کیا جا سکتا ہے ۔

You may also like