Home نقدوتبصرہ تماشا میرے آگے-ڈاکٹر محمد توقیر عالم

تماشا میرے آگے-ڈاکٹر محمد توقیر عالم

by قندیل

سابق صدر شعبہ اردو، بہار یونیورسٹی، مظفر پور و سابق پرووائس چانسلر مولانا مظہر الحق عربی وفارسی یونیورسٹی، پٹنہ

میرے ہاتھوں میں اس وقت امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ کے نائب ناظم وہفتہ وار نقیب کے مدیر حضرت مولانا مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی مدظلہ کے مضامین کا مجموعہ ’’تماشہ میرے آگے‘‘ ہے ،یہ یقینا مفتی صاحب کا نہایت اہم علمی کارنامہ ہے، اس سے ان کے بلند قد وقامت کا بخوبی اندازہ بھی ہوتا ہے، مفتی صاحب اور ان کے اس کا رہائے گراں مایہ کی قدر کی جانی چاہیے کہ حضرت بھی وارث انبیاء میں سے ایک ہیں۔
موجودہ وقت میں عام طور پر علماء کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ ان کا علم محدودہوتا ہے، ان کی سوچ سطحی ہوتی ہے، ان کی رائے نا قابل عمل ہوتی ہے، وہ کج فہم اور کوتاہ نظر ہوتے ہیں، ان کے اندر شعور وآگہی کا فقدان ہوتا ہے، سیاسی سوجھ بوجھ سے ان کا کوئی واسطہ نہیں ، ان کا کوئی وِژَن بھی نہیں ہوتا، اس طرح کی نہ جانے کتنی ہفوات وبکواس باتیں علماء کے بارے میں کہی جاتی ہیں، جسے میں علماء کی توہین اور ناقدری سمجھتا ہوں ۔ اس طرح کی ہفوات سے ہر ممکن اجتناب کی ضرورت ہے۔
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی صاحب سے میرے دیرینہ روابط رہے ہیں، وہ بے پناہ صلاحیتوں کے مالک ہیں، جید عالم دین کے ساتھ ساتھ عظیم اسکالر ، ادیب، صحافی اور بے باک قلم کار ہیں، ان کا قلم ہمیشہ رواں دواں رہتا ہے، وہ بہت بے باکی کے ساتھ لکھتے ہیں اور خوب لکھتے ہیں، ان کی تحریریں نہ صرف دینی، بلکہ ادبی ، ثقافتی، لسانی، سماجی اور سیاسی موضوعات کا احاطہ کرتی ہیں، ’’تماشہ میرے آگے‘‘ میں اسی طرح کے 130مضامین شامل ہیں،یہ مضامین امارت کے ترجمان ہفتہ وار ’’نقیب ‘‘ میں الگ الگ دنوں اور تاریخوں میں شائع ہو کر قارئین میں مقبول بھی ہو چکے ہیں، مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی صاحب نے اپنی تحریروں سے یہ ثابت کر دیا ہے کہ علماء کے بارے میں جو عام نظریات قائم ہیں، جن کا سرسری طور پر سطور بالا میں ذکر کیا گیا ہے، وہ سراسر بے بنیاد اور باطل ہیں، انہوں نے یہ ثابت بھی کیا ہے کہ علماء تحریری اور تقریری دونوں طرح کی صلاحیتوں سے مالا مال ہوتے ہیں، ان میں وسعت نظری ہوتی ہے، وہ پل پل کے حالات وظروف سے واقف ہوتے ہیں، ان کی دور رس نگاہیں اپنے آس پاس جو کچھ مشاہدہ کرتی ہیں ان سے وہ اور متاثر ہوتے ہیں جو کچھ ان کے دلوں پر گزرتا ہے انہیں وہ الفاظ کا جامہ پہنا کر اخبارات ، رسائل وجرائد یا کتابوں کی شکل میں ہمیشہ کے لیے محفوظ کر دیتے ہیں۔ گویا وہ فیض احمد فیض کے اس شعر پر یقین رکھتے ہیں:
ہم پرورش لوح وقلم کرتے رہیں گے جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی صاحب کی نگاہ دور رس ہے اوروہ ملکی وقومی حالت سے بخوبی واقف رہتے ہیں، وہ اس بات سے بھی اچھی طرح آشنا ہیں کہ ہم جس عہد میں اپنی حیات مستعار کی سانسیں لے رہے ہیں وہ اگر چہ سیاسی ، سماجی، معاشی ، سائنسی، اور علمی میدان میں حد کمال پر پہنچ چکا ہے، مگر یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ اس ترقی پذیر عہد میں بھی دنیا امن ومان کے مسئلے سے دو چار ہے، یہاں امن وامان بہت حد تک نا پید ہو چکا ہے اور بد امنی کا بھوت ہر چہار سو دندنارہا ہے۔ انہیں اس بات کا بھی شدت سے احساس ہے کہ آج انسانی خون بہت ارزاں ہو چکا ہے، عوتوں کی عزتیں تار تار کی جا رہی ہیں،لوگوں کے مال وجائداد محفوظ نہیں ، مسلمان کو مذہبی، فکری یہاں تک کہ جانی ومالی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ہندوستان سمیت دنیا کے اکثر ممالک میں آج بھی رنگ ونسل ، ذات پات اور مذہب کے نام پر بد امنی پھیلائی جا رہی ہے، نیشنلزم، فاشزم، سوشلزم جیسے نظریات کے حاملین پائے جاتے ہیں، لیکن کسی کے بھی پاس عامۃ الناس کے بنیادی مسائل کا حل نہیں ہے۔ لیگ آف نیشنلزم اور اقوام متحدہ کے نام سے ادارے قائم ہیں مگر ان کے پاس بھی امن وامان کا مسئلہ جوں کا توں بر قرار ہے، آج بھی ہر چہار جانب ’’جس کی لاٹھی اس کی بھینس ‘‘ کا راج قائم ہے۔ مفتی صاحب کا اس بات پر کامل یقین ہے کہ ہم جس دنیا میں اپنی حیات مستعار گزار رہے ہیں اس کی حیثیت کچھ بھی نہیں۔ وہ چونکہ عالم دین ہیں، اس لیے اچھی طرح جانتے ہیں کہ قرآن کریم میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اس فانی دنیا کو کھیل کود اور تماشے سے تعبیر کیا ہے۔ سورۃ العنکبوت کی آیت نمبر 64میں وارد ہے کہ دنیا کی یہ زندگانی محض کھیل تماشا ہے، البتہ آخرت کے گھر کی زندگی ہی حقیقی زندگی ہے۔ مسند احمد میں روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الہ علیہ وسلم نے فرمایا : کہ دنیا سے بھلا کیا ناطہ! میری اور دنیا کی مثال تو بس ایسی ہے جیسے کوئی مسافر کسی درخت کی چھاؤ میں گرمیوں کی کوئی دو پہر گزارنے بیٹھ جائے وہ کوئی پل آرام کرے گا اورپھر اٹھ کر چل دے گا۔ ترمذی میں سہل بن عبد اللہ کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ یہ دنیا اللہ کی نگاہ میں مچھر کے پر برابر بھی وزن رکھتی تو کافر کو اس دنیا سے وہ پانی کا ایک گھونٹ بھی نصیب نہ ہونے دیتا، صحیح مسلم کی روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ دنیا آخرت کے مقابلے میں بس اتنی ہے جتنا کوئی شخص بھرے سمندر میں انگلی ڈال کر دیکھے کہ اس کی انگلی نے سمندر میں کیا کمی کی۔ تب آپ نے اپنی انگشت شہادت کی جانب اشارہ کیا۔ مفتی صاحب عصری علوم سے بھی بہت حد تک واقف ہیں، وہ معروف شاعر مرزا اسد اللہ خان غالب کی مشہور غزل سے بھی آشنا ہیں، جس میں انہوں نے اس دنیا کو بچوں کے کھیل یا کھلونے سے تعبیر کیا ہے اور کہا ہے کہ ان کے سامنے اس دنیا میں شبانہ روز کسی نہ کسی شکل میں تماشا ہوتا رہتا ہے۔انہوں نے اپنی کتاب کا نام غالب کے اس شعر سے مستعار لیا ہے:
بازیچہ اطفال ہے دنیا مرے آگے ہوتا ہے شب وروز تماشا مرے آگے
مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی صاحب کی عالمی مرتبت نگاہ میں بھی مرزا اسد اللہ خان غالب کی طرح اس دنیا کی کوئی حیثیت نہیں ہے اور یہاں جو کچھ بھی ملکی ، قومی وبین الاقوامی سطح پر انجام پذیر ہورہا ہے انہیں وہ بھی غالب کی طرح محض تماشہ سمجھ رہے ہیں، جس کایہ مجموعہ بہترین مظہر ہے۔ میں اس کی اشاعت پر مفتی صاحب کو صمیم قلب سے مبارک باد دیتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ رشحات ، تخلیقات ، تالیفات اور تصنیفات کا یہ سلسلہ آگے بھی جاری رہے گا۔

You may also like