Home ادبیات طمانچہ ( افسانہ)ـ عبد الغفار

طمانچہ ( افسانہ)ـ عبد الغفار

by قندیل

 

شام ڈھلنے کو تھی – دکانوں میں بجلی کے بلب روشن ہونے لگے تھے – ادیبہ اون کے گولے خریدنے جا رہی تھی۔
اس کا چچیرا بھائی اطہر روس میں تھا، جہاں شدید سردی پڑ رہی تھی اور وہ چاہتا تھا کہ ادیبہ آٹھ پلائی کے اون کا سویٹر بن کر اسکے لئے بھیج دے ۔ اطہر ادیبہ کا بھائی تو تھا، لیکن بڑا شریر تھا ۔
اس نے لکھا تھا ” تمہارے ہاتھ کا بنا ہوا سویٹر بدن پر رہے گا تو سردی کم لگے گی-”
ادیبہ بی اے پاس کر چکی تھی – اسکی امی کہتی تھیں "اب آگے کی پڑھائی لکھائی سے کوئی فائدہ نہیں ہے ۔ اگر کسی لڑکی کو ملازمت میں جانا ہو، تب تو ٹھیک ہے ورنہ گریجویشن کے بعد پڑھنا بیکار ہےـ
اس لئے ادیبہ گھر پر ہی رہتی اور گھریلو کاموں کے ساتھ کڑھائی بنائی کا کام بھی کیا کرتی تھی –
اتنی جلدی ادیبہ کو گھر لوٹتے دیکھ ماں کو شک ہوا ۔ انہوں نے سوچا ادیبہ اتنی جلدی اون کے گولے خرید کر کیسے آ گئی –
لیکن جب ادیبہ نے روتے ہوئے ماں سے آپ بیتی سنائی تو ماں غصہ سے آگ بگولہ ہو اٹھیں اور مختلف اقسام کی بھدی بھدی گالیاں بکنے لگیں ۔
کچھ دیر بعد جب ماں کا غصہ ٹھنڈا پڑا تب انہوں نے کہا :
"اب تجھے کیا بتاؤں بیٹی، یہ مرد ذات سب ایسے ہی کم ظرف ہوتے ہیں ـ
میرے ساتھ بھی ایسا ہو چکا ہے، وہ بھی ایک دفعہ نہیں بلکہ کئی دفعہ – –
اتنا کہ کر وہ ماضی کے اوراق پلٹنے لگیں- انھوں نے دو حادثات بیان کیےـ
پہلا –
جب میں پانچویں کلاس میں تھی تب مدرسے کے مولوی صاحب نے مجھے گود میں بٹھا کر میرے ساتھ دست درازی کی تھی ـ تب مجھے ان سب باتوں کا علم نہی تھا. میرے سینے کے ابھار میں درد ہو نے لگاـ میں نے گھر جا کر اپنی امی سے سب کچھ بتا دیا. پھر کیا تھا ! ابو نے نہ صرف مولوی صاحب کی زبردست پٹائی کی بلکہ انہیں مدرسے سے باہر بھی نکلوا دیا تھاـ

دوسرے حادثے میں انہوں نے ماضی کے اوراق پلٹتے ہوئے کہا –

ایک دن میرے چچا زاد ماموں اپنی چار سال کی بیٹی کے ساتھ بہن سے ملنے ہمارے گھر آئے. ڈھیر ساری مٹھائیاں اور پھل لائے تھے . ان کے اہتمام میں گوشت پلاو کی چھک کر دعوت ہوئی. سب نے ساتھ مل کر دعوت کا لطف اٹھایا. رات میں، میں بھی ماموں اور ان کی بیٹی کے ساتھ سو گئی . رات کے کسی پہر میں، میری نیند تب کھلی جب ماموں میری شلوار کا ناڑہ کھول رہے تھے ـ تب میں ڈر گئی اور زور زور سے چلانے لگی،آواز سن کر امی دوڑی دوڑی آئیں ـ ماموں نے الٹے مجھے ہی کہا کہ میں خواب میں بڑبڑا رہی تھی . لیکن امی کو، یعنی تمہاری نانی کو میری بات کا یقین ہو گیا کہ میں صحیح کہ رہی ہوں ـ پھر اس حادثے کے بعد میرے چچا زاد ماموں سے ہمارا رشتہ پانچ چھ سالوں تک منقطع رہاـ
چند منٹوں بعد جب وہ ماضی کے جھروکوں سے واپس لوٹیں تو کہنے لگیں –
"چھوڑو، جو تمہارے ساتھ ہوا اسے بھی بھول جاؤ اور آئندہ کے لئے محتاط رہو. اب اس قصے کو یہیں دفن کرو، ورنہ جتنے منہ اتنی باتیں – – لڑکیاں سفید چادر کی طرح ہوتی ہیں جن پر داغ جلدی لگ جاتے ہیں ـ مرد کتے ہوتے ہیں اور کتوں کے منھ کیا لگنا! ”
در اصل گلی کے موڑ پر ادیبہ کے دور کے ایک رشتہ دار مل گئے تھے – پہلے تو انہوں نے ادیبہ کے ساتھ بڑی ہمدردانہ گفتگو کی، پھر راہ چلتے ، بات ہی بات میں، تاریک گلی کا فائدہ اٹھا کر وہ ہاتھ لپلپاتے ہوئے ادیبہ کے ساتھ دست درازی پر اتر آئے –
ادیبہ نے بھی بنا لحاظ انہیں طمانچہ کھینچ کر مارا اور جان چھڑا کر بھاگ کھڑی ہوئی اور آکر امی کو اپنی روداد سنانے لگی ـ

You may also like

Leave a Comment