Home تجزیہ تعلیم سے ہی تصویر بدلے گی؟! مسعود جاوید

تعلیم سے ہی تصویر بدلے گی؟! مسعود جاوید

by قندیل

 

یہ بہت خوبصورت دلکش اور پاورفل عنوان ہے۔ تعلیم بلاشبہ قوموں کے لئے ریڑھ کی ہڈی سے بھی زیادہ اہم ہے۔ مگر کیا تعلیم ہی ہر مرض کی دوا ہے؟ میں تعلیم کا شدید حامی ہونے کے باوجود اس رائے اور بیانیہ کی مخالفت کرتا ہوں جس کی وکالت بہت سے دانشور حضرات کرتے ہیں کہ مسلمانوں کو سیاست سے کنارہ کش ہوکر اپنی ساری توانائی صرف اور صرف تعلیم پر مرکوز کرنی چاہیے۔

جس طرح ہمارے جسم کی عمدہ نشو و نما کے لئے مختلف انواع و اقسام کی غذا کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح قوم و ملت کی صحیح نشو و نما کے لئے ہمہ جہتی ترقی composite development کی ضرورت ہوتی ہے اور تعلیم اس کا ایک حصہ ہے۔ سیاسی شراکت سے دوری نے بعض قوموں کو اس قدر بے وقعت اور بے خبر کر دیا کہ ان کے خلاف قانون ساز اداروں نے قانون بناکر پاس کر دیا اور وہ کف افسوس ملتے رہ گئے۔

قیادت کی سطح پر ہندوستانی مسلمانوں کا سب سے بڑا المیہ دینی مدارس کے فارغین پر مشتمل طبقہ اور عصری درسگاہوں کے گریجویٹس کے درمیان خلیج کا ہونا ہے۔ یہ دونوں گروہ ایک دوسرے کے وجود نہیں تو قائدانہ صلاحیتوں کے منکر ضرور ہیں۔

بلاشبہ دینی درسگاہوں کے فارغین میں سیاست کے داؤ پیچ کی خاطر خواہ پکڑ نہیں ہوتی ہے لیکن افسوس عصری دانشگاہوں کے گریجویٹس اور سیاست کے میدان کے شہسوار بھی عوام میں اعتماد قائم کرنے سے قاصر رہے اور ملت کی باگ ڈور سنبھالنے کے نام پر کسی خاص گھڑی کا انتخاب کرتے رہے۔ عام دنوں میں عام مسلمانوں کے مسائل پر کبھی سر جوڑ کر نہیں بیٹھے۔ بابری مسجد کے فیصلے کے آخری دنوں میں بعض ” مسلم دانشور” فورم آف انڈین مسلم کے نام سے اچانک ظہور پذیر ہوئے اور مقصد کی حصول یابی یا عدم حصولیابی کے بعد منظر سے ایسے غائب ہو گئے جیسے کبھی ان کا وجود ہی نہیں تھا۔ ظاہر ہے فائیو سٹار ہوٹل کے سوئٹ میں بیٹھ کر میٹنگز کرنا اور کانفرنس ہال میں انگریزی میں پریس کانفرنس کرنا ملت کے مسائل حل کرنے کے لئے کافی نہیں ہے۔ آرگنائزیشن بنائیں یا فورم کی تشکیل دیں مسلمانوں خاص طور پر نان ایلیٹ مسلم سے جڑنے کے لیے خستہ حال مسلم بستیوں کا دورہ کرنا ذاتی طور پر ان کے مسائل کو سمجھنا اور کیڈر بنانے کے ساتھ سیزنل موسمی قیادت نہیں ریگولر دائمی قیادت کی ضرورت ہوتی ہے جس کے لئے مسلمانوں کا ایلیٹ کلاس تیار نہیں ہے۔ ایمان کے ساتھ استقامت کی حکمت کو مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے۔

ایک اور المیہ یہ ہے کہ جب تک اس قبیل کے مسلم لیڈر اور دانشور حکومت وقت یا بڑی سیاسی جماعت(اپوزیشن) سے وابستہ رہتے ہیں انہیں مسلمانوں کے مسائل پر بولنے اور لکھنے کی شاید ” آزادی” نہیں ہوتی ہے اسی لئے جب وہ ریٹائرڈ ہو جاتے ہیں تو کتاب لکھتے ہیں "سرکاری مسلمان” اور "نمایاں مسلم غیر نمایاں شہری” کوئی موسٹ سینئر مسلم لیڈر شکایت کرتا ہے کہ وہ اتنا بے وقعت ہو گیا ہے کہ بینرز میں نام اور تصویر تو دور کی بات ہے اسٹیج پر بیٹھنے کی جگہ بھی نہیں ملتی۔ کوئی کہتا ہے کہ کانگریس کا دامن مسلمانوں کے خون سے رنگا ہے۔

دانشمندی کا تقاضا تو یہ ہے کہ برسوں کے سیاسی تجربات کے حامل افراد کو ریٹائرمنٹ کے بعد ملت اور ملی تنظیمیں ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا لیکن ان کا ماضی مسلمانوں کا نمائندہ کم اور پارٹی ہائی کمان کے تابعدار کے طورپر اتنا زیادہ رہا ہے کہ وہ مسلم مسائل پر بات کرکے اپنے اوپر مسلم چھاپ لگنے سے ڈرتے رہے ہیں اس لئے عام مسلمانوں میں مقبولیت حاصل کرنا ان کے لئے آسان نہیں ہوتا۔

دینی ملی تنظیموں اور دانشور طبقے کے نمائندوں کے درمیان مضبوط رشتہ اور coordination کے ساتھ مشترکہ قیادت آج کے مایوس کن حالات کی اہم ترین ضرورت ہے۔

کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ روایتی دینی ملی قیادت کے اشتراک سے یا اس سے الگ مخلص دانشوروں پر مشتمل کوئی نئی قیادت وجود میں آۓ اور اپنی افادیت ثابت کر کے مقبول عام و خاص ہو جائے ؟ تنقید تنقیص اور تحقیر کی بجائے ایسا متبادل جو گراس روٹ سے ابھر کر حقیقی معنوں میں کیڈر بیسڈ آل انڈیا تنظیم کہلانے کی مستحق ہو جائے۔

Better light a candle than curse the darkness.

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

You may also like

Leave a Comment